جشن ربیع الاول
ماہ ربیع الاول کا ورود مسعود ہمارے لیے جشن و مسرت کا پیغام عام ہوتا ہے۔
ربیع الاول کے مہینے کو اسلامی کیلنڈر میں خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس ماہ مبارکہ کے ابتدائی ایام مبارکہ میں رحمت للعالمینؐ کی ولادت کی صورت میں رب کریم کی بے پایاں رحمت عامہ کا دنیا میں ظہور ہوا۔ دین اسلام کے اس داعی برحق کی پیدائش اور تشریف آوری سے جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے مٹ گئے اور دنیا کی دائمی غمگینیاں اور سرگشتگیاں ختم ہوگئیں۔
ماہ ربیع الاول کا ورود مسعود ہمارے لیے جشن و مسرت کا پیغام عام ہوتا ہے۔ ہم خوشیوں اور شادمانی کے جوش اور جذبے سے سرشار ہوجاتے ہیں اور ہمارے اذہان و قلوب حب محبوب خدا احمد مجتبیٰ و سرور انبیا محمد مصطفیٰ ؐ سے مسحور و معمور ہوجاتے ہیں۔ رسولؐ خداسے والہانہ محبت اور لامحدود عقیدت ہمارے اندر ناقابل بیان محویت اور بے خودی کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔
بے شک عشق محمدی کے پاکیزہ جذبات ہماری زندگی کا حاصل اور سب سے قیمتی متاع ہے۔ محمدؐ سے عشق رب کائنات کی خوشنودی کا ضامن ہے جسے علامہ اقبال نے اپنے درج ذیل شعر میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے:
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اللہ تعالیٰ کی الوہیت و ربوبیت جس طرح وحدہ لاشریک ہے کہ کوئی ہستی اس کی شریک نہیں، اسی طرح انسان کامل کی انسانیت اعلیٰ اور عبدیت کبریٰ بھی وحدہ لاشریک ہے کیونکہ ان کی انسانیت اور عبدیت میں کوئی اس جیسا نہیں۔ اس ذات بے پایاں باصفات کی مدح سرائی کن الفاظ میں کی جائے کہ جس کی مدح و ثنا خود خدائے بزرگ و برتر کی زبان، اس کے ملائکہ اور قدوسیوں کی زبان اور کائنات کی تمام پاک ارواح اور سعید ہستیوں کی زبانیں ان کی شریک اور ہم نوا ہیں۔ لب لباب یہ کہ ''بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔'' یہ قصہ رب کائنات کے اس محبوب کا ہے جو وجہ تخلیق کائنات قرار پایا اور جسے باری تعالیٰ نے ہر طرح کی محبوبیتوں اور ہر قسم کی محمودیتوں کے لیے منتخب کیا۔
کرہ ارض کی سطح پر انسان کی تعریف میں جو بڑی سے بڑی بات کہی اور لکھی جاسکتی ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ مدح و ثنا جو زبان پر آسکتی ہے وہ تمام صرف اور صرف اسی ایک انسان کامل و اکمل اور حبیب خدا کے لیے ہے۔ ناممکن کی جستجو کے طور پر اس کم ترین کے چند منتخب نعتیہ اشعار اور اس کے بعد اس عاصی کی قلم برداشتہ تازہ بہ تازہ نعت بطور نذرانہ عقیدت و احترام بحضور سرور کائنات جس کا نزول واردات قلبی کا مظہر ہے ملاحظہ فرمائیں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف:
عالم' اگر ہو جائے ثنا خوان محمدؐ
ہوگی نہ بیاں تابہ ابد شانِ محمدؐ
شاہانِ زمانہ کے ہیں وہ لوگ شہنشاہ
جو بن گئے دربانِ غلامانِ محمدؐ
ایمان کی ایقان کی دولت سے نوازا
کچھ کم نہیں امت پہ یہ احسانِ محمدؐ
انھیؐ کی عنایت' انھیؐ کا کرم
کہاں وہؐ ' کہاں میں کہاں یہ قلم
جھلس جائیں اخلاق کی کھیتیاں
نہ برسے اگر انؐ کا ابرِ کرم
٭٭٭
ہدیہ نعت بحضور سر ور کائناتؐ
دل میں جو موجزن ہیں وہ جذبات لکھ سکوں
کوئی نہ لکھ سکے جو میں وہ نعتؐ لکھ سکوں
شان نبیؐ میں اپنے خیالات لکھ سکوں
سوچی نہ ہو کسی نے جو وہ بات لکھ سکوں
اپنی زباں سے سیرتِ نبویؐ کروں بیاں
اپنے قلم سے انؐ کی ہدایات لکھ سکوں
اللہ کا کرم ہے شہؐ دو جہاں کا فیض
ورنہ مری مجال کہاں' نعتؐ لکھ سکوں
سردارؐ انبیا کی فضیلت کروں بیاں
سرکارؐ دو جہاں کے مقامات لکھ سکوں
یا رب مرے قلم کو وہ تاثیر کر عطا
تیرے حبیبؐ پاک کے درجات لکھ سکوں
انسانیت پہ کتنا ہے احسان مصطفیٰؐ
امت پہ کس قدر ہیں عنایات لکھ سکوں
تقلید جن کی ذریعہ راہ نجات ہے
پیارے نبیؐ کی پیاری وہ عادات لکھ سکوں
اک معجزۂ شق قمر ہی کا ذکر کیا
پیارے نبیؐ کے سارے کمالات لکھ سکوں
آ نہ سکیں شکیل کسی کے گمان میں
مدح نبیؐ میں کاش وہ کلمات لکھ سکوں
جس محبوب کی محبت اور محبوبیت کا اعلان خود رب السموات والارض نے کیا ہو اس کی مدح کا حق ادا کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
ماہ ربیع الاول کا ورود مسعود ہمارے لیے جشن و مسرت کا پیغام عام ہوتا ہے۔ ہم خوشیوں اور شادمانی کے جوش اور جذبے سے سرشار ہوجاتے ہیں اور ہمارے اذہان و قلوب حب محبوب خدا احمد مجتبیٰ و سرور انبیا محمد مصطفیٰ ؐ سے مسحور و معمور ہوجاتے ہیں۔ رسولؐ خداسے والہانہ محبت اور لامحدود عقیدت ہمارے اندر ناقابل بیان محویت اور بے خودی کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔
بے شک عشق محمدی کے پاکیزہ جذبات ہماری زندگی کا حاصل اور سب سے قیمتی متاع ہے۔ محمدؐ سے عشق رب کائنات کی خوشنودی کا ضامن ہے جسے علامہ اقبال نے اپنے درج ذیل شعر میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے:
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اللہ تعالیٰ کی الوہیت و ربوبیت جس طرح وحدہ لاشریک ہے کہ کوئی ہستی اس کی شریک نہیں، اسی طرح انسان کامل کی انسانیت اعلیٰ اور عبدیت کبریٰ بھی وحدہ لاشریک ہے کیونکہ ان کی انسانیت اور عبدیت میں کوئی اس جیسا نہیں۔ اس ذات بے پایاں باصفات کی مدح سرائی کن الفاظ میں کی جائے کہ جس کی مدح و ثنا خود خدائے بزرگ و برتر کی زبان، اس کے ملائکہ اور قدوسیوں کی زبان اور کائنات کی تمام پاک ارواح اور سعید ہستیوں کی زبانیں ان کی شریک اور ہم نوا ہیں۔ لب لباب یہ کہ ''بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔'' یہ قصہ رب کائنات کے اس محبوب کا ہے جو وجہ تخلیق کائنات قرار پایا اور جسے باری تعالیٰ نے ہر طرح کی محبوبیتوں اور ہر قسم کی محمودیتوں کے لیے منتخب کیا۔
کرہ ارض کی سطح پر انسان کی تعریف میں جو بڑی سے بڑی بات کہی اور لکھی جاسکتی ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ مدح و ثنا جو زبان پر آسکتی ہے وہ تمام صرف اور صرف اسی ایک انسان کامل و اکمل اور حبیب خدا کے لیے ہے۔ ناممکن کی جستجو کے طور پر اس کم ترین کے چند منتخب نعتیہ اشعار اور اس کے بعد اس عاصی کی قلم برداشتہ تازہ بہ تازہ نعت بطور نذرانہ عقیدت و احترام بحضور سرور کائنات جس کا نزول واردات قلبی کا مظہر ہے ملاحظہ فرمائیں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف:
عالم' اگر ہو جائے ثنا خوان محمدؐ
ہوگی نہ بیاں تابہ ابد شانِ محمدؐ
شاہانِ زمانہ کے ہیں وہ لوگ شہنشاہ
جو بن گئے دربانِ غلامانِ محمدؐ
ایمان کی ایقان کی دولت سے نوازا
کچھ کم نہیں امت پہ یہ احسانِ محمدؐ
انھیؐ کی عنایت' انھیؐ کا کرم
کہاں وہؐ ' کہاں میں کہاں یہ قلم
جھلس جائیں اخلاق کی کھیتیاں
نہ برسے اگر انؐ کا ابرِ کرم
٭٭٭
ہدیہ نعت بحضور سر ور کائناتؐ
دل میں جو موجزن ہیں وہ جذبات لکھ سکوں
کوئی نہ لکھ سکے جو میں وہ نعتؐ لکھ سکوں
شان نبیؐ میں اپنے خیالات لکھ سکوں
سوچی نہ ہو کسی نے جو وہ بات لکھ سکوں
اپنی زباں سے سیرتِ نبویؐ کروں بیاں
اپنے قلم سے انؐ کی ہدایات لکھ سکوں
اللہ کا کرم ہے شہؐ دو جہاں کا فیض
ورنہ مری مجال کہاں' نعتؐ لکھ سکوں
سردارؐ انبیا کی فضیلت کروں بیاں
سرکارؐ دو جہاں کے مقامات لکھ سکوں
یا رب مرے قلم کو وہ تاثیر کر عطا
تیرے حبیبؐ پاک کے درجات لکھ سکوں
انسانیت پہ کتنا ہے احسان مصطفیٰؐ
امت پہ کس قدر ہیں عنایات لکھ سکوں
تقلید جن کی ذریعہ راہ نجات ہے
پیارے نبیؐ کی پیاری وہ عادات لکھ سکوں
اک معجزۂ شق قمر ہی کا ذکر کیا
پیارے نبیؐ کے سارے کمالات لکھ سکوں
آ نہ سکیں شکیل کسی کے گمان میں
مدح نبیؐ میں کاش وہ کلمات لکھ سکوں
جس محبوب کی محبت اور محبوبیت کا اعلان خود رب السموات والارض نے کیا ہو اس کی مدح کا حق ادا کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔