علاج مرض بالمرض
یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ اس طرز علاج کا موجد کون تھا یا ہے
دنیا میں بہت سارے طریقہ ہائے علاج اس وقت موجود اور زیر استعمال بلکہ ذریعہ استحصال ہیں،جیسے یونانی جس کا یونان سے کوئی تعلق نہیں، آئیورویدک جس کا ویدوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں، ہومیوپیتھک جس کا پوری دنیا میں کوئی''ہوم''نہیں ہے، ایلو پیتھک جسے علاج کے بجائے ''ڈیزیزفارمنگ'' یا امراض پیدا کرنے، پالنے پوسنے اور پھر ان کے پھل کھانے کی انڈسٹری کہنا چاہیے اور بھی بہت سارے علاج ہیں جو شعبدہ بازی کے زمرے میں آتے ہیں اور یہ سارے علاج قطعی ناکام ہیں۔لیکن ہم نے جو طریقہ ''علاج''دریافت کیاہے، جی ہاں صرف''دریافت''ہم نے کیاہے، ایجاد تو اسے بہت سارے حکمرانوں، محافظوں اور پاسبانوں نے کیا ہواہے لیکن سینہ بسینہ خفیہ طریقے پرچل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔
ہم نے صرف اسے دریافت کیاہے، وہ بھی محض اتفاقاً اور حادثاتاً کیونکہ تحقیق ہماری عادت بن چکی ہے۔ اگر کسی سائیکل پر سوار ہوتے ہیں تو اس کے ٹائروں کی ''تلیاں''تک گن لیتے ہیں۔ہوا یوں کہ ہمیں ''کمردرد''کی بیماری ہوگئی تھی، بہت سارے علاج کیے، ٹونے ٹوٹکے آزمائے، دم درود کرائے لیکن مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی۔ اور پھر مکمل طورپر بسترنشین ہوگئے بلکہ تختہ نشین اور فرش نشین ہوگئے۔ ایک دن اچانک ایک لڑائی اور فائرنگ میں ایک بھائی کو اتفاقیہ گولی لگ گئی حالانکہ لڑائی کسی اور کی تھی،گولی سیدھی پیٹ میں لگی تھی۔ غلغلہ ہوا، شور ہوا، اسپتال لے جایا گیا، رات گئے تک ایک خطرناک آپریشن چلتارہا، خون کی ضرورت ہوئی تو ایک بوتل خود دیا اور دوسری کے لیے تگ و دو بھی کی، دوڑ دوڑ کر دوائیں بھی لاتے رہے۔
بارے پوچھنے پر پتہ لگ گیا کہ خیریت ہوئی آپریشن کامیاب رہا اور جان بچ گئی، تب ہمارے اوسان بحال ہوئے تو خیال آیا کہ نہ کمردرد تھا نہ اس کا نام و نشان اور اس کے بعد وہ درد کبھی لوٹ کرنہ آیا۔یہیں سے ہمیں اس زبردست طریقہ علاج کا پتہ چلا اور ہم نے اسے نام بھی دیا، علاج درد بذریعہ درد یا علاج مرض بالمرض۔علاج زکام بذریعہ نمونیا، علاج بخار بذریعہ دردگردہ۔علاج گردہ بذریعہ ہارٹ اٹیک۔ یعنی ''بڑے''کے آنے پر چھوٹے کا چلے جانا۔ بلب جلنے پر موم بتی کا بے نور ہونا، موت کے آنے پر ساری بیماریوں کا خاتمہ۔پھر ہم نے دیکھا بلکہ پھر دیکھا کیونکہ دیکھتے تو ایک زمانے سے تھے لیکن اب جو اس تحقیق کی روشنی میں دیکھا تو پتہ چلا کہ ہمارے پاکستان میں تو یہ طریقہ علاج پورے سترسال سے چل رہاہے۔ حافظ شیرازی نے بالکل غلط کہاہے کہ
دوائے دردخود اکنوں از آں مفرح جو
کہ در صراحئی چینی وساغر حلبی ست
بلکہ ایک پشتو کہاوت میں حقیقت بیان کی گئی ہے۔ کہ اچھا ہوا موت نے دادی کا بخار اتار دیاہے، اسی سلسلے کی دوسری کہاوت ہے کہ جب موت آتی ہے تو بخار بھی قبول کرلیاجاتاہے۔بڑا ہی تیربہدف نسخہ ہے۔اس پر ایک کہانی بھی ہے کہ ایک ہندو ساہوکار کو ڈاکووں نے گھیر لیا۔تو ان میں بحث ہوئی کہ اسے لوٹ کر قتل کردینا چاہیے۔ پھر قتل کے طریقے زیربحث آئے کہ کس طرح قتل کیاجائے۔ ایک ڈاکو نے کہا، قتل وتل مت کرو، صرف لوٹ لو۔لیکن کسی نے اس کی بات سنی اور نہ مانی اور بدستور قتل کے طریقے ڈسکس کرتے رہے۔ اس پر ہندو سیٹھ نے کہا، تم لوگ ذرا اس نوجوان کی بات بھی سنو نا۔جب ہم نے تحقیق کا ٹٹو دوڑایا تو پوری انسانی تاریخ اس علاج''بالمرض''سے بھری پڑی تھی۔ کسی بھی مسئلے کا علاج کرنے کے لیے اس سے بھی بڑا مسئلہ پیدا کرنا، مہنگائی غربت اور قحط سالی کا شافی علاج بہت سے ''بادشاہوں''نے کسی دوسرے ملک سے لڑائی چھیڑکرکیا ہے۔
بلکہ اس سلسلے میں کسی نامعلوم ملک کا ایک لطیفہ بھی ہے کہ اس ملک کی فوج کے افسران کی ایک اعلیٰ درجے کی میٹینگ میں یہ موضوع زیربحث آیا کہ عوام میں فوج کا مورال مسلسل گر رہاہے۔ لوگ اسے سفید ہاتھی اور مفت خورے کہہ رہے ہیں۔کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ فوج پر عوام کا اعتماد بحال ہو اور مورال اونچاہو۔آخر کب تک صرف بیانات اور اعلانات پر گزارہ کرتے رہیں، ان باتوں نے تو عوام کو پکا کر رکھ دیا کہ ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے، کسی نے ہمیں میلی آنکھ سے دیکھا تو اس کی دونوں آنکھیں نکال کر ہتھیلی پر رکھ دیں گے۔ دشمن کا ہم ''یہ یہ'' اور وہ وہ کردیں گے۔ کچھ کہنے بولنے کے بجائے اب کچھ کرنا چاہیے۔کسی ملک پر حملہ کرنا چاہیے.
پھر یہ سوال اٹھا کہ کس ملک پر؟اس موضوع پر تجاویز پیش ہونے لگیں لیکن کسی ملک کانام لیاجاتا اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی خطرہ لگاہوا ہوتا۔ آخر سارے پڑوسی ممالک پر حملہ کرنا خطرناک سمجھا گیا۔تو پھر یہ سوال تھا کہ پس چہ باید کرد۔حملہ تو ضروری ہے کہ مورال کاسوال ہے۔ آخر ایک ممبر کا دماغ چل گیا یعنی کام کرگیا۔بولا ،کیوں نہ اپنے ہی ملک پر حملہ کردیاجائے۔ سب نے اس پر صاد کیا کہ اس میں کوئی مزاحمت، کوئی خطرہ نہیں۔آگے کتاب کے اوراق پٹھے ہوئے ہیں، اس لیے پتہ نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ وہ حملہ کیاگیا یا نہیں اور مورال بحال ہوا یا نہیں اورنہ ہی ملک کے نام کا پتہ چلا اور نہ تاریخ کے اس دور کا۔کہ کس زمانے میں یہ ہواتھا۔ تیر وتلوار کے زمانے میں یا توپ وتفنگ کے زمانے میں۔یا راکٹ اور بم کے زمانے میں۔اور اس سے ہمیں کوئی واسطہ بھی نہیں کہ ہم تاریخ کی تحقیق کررہے ہیں نہ جغرافیے کی بلکہ ''امراض والعلاج''پرتحقیق کررہے ہیں یا علاج مرض بالمرض کی۔جو ایک طرز علاج ہے اور بہت ہی موثر ہے لیکن خفیہ اور خاص الخاص ہے اور اتنا مہنگا ہے کہ کوئی مہنگائی سے مالا مال ملک ہی اس کا متحمل ہوسکتاہے۔
نہ پوچھ نسخہ مرہم جراحت دل کا
کہ اس میں ''ریزہ الماس''جزو اعظم ہے
یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ اس طرز علاج کا موجد کون تھا یا ہے لیکن زیادہ تر انگلیاں ابلیس کی طرف اٹھتی ہیں جو ہر زمانے اور دور یا ملک وحکومت کا موجداعظم ہوتاہے۔اب عام آدمی تو یہ سوچ کر دھک سے رہ جائے گا کہ بیمار کو مزید بیمار بلکہ زیادہ بیمار کرنا کہاں کی شرافت ہے، اگر فقیر کو بھیک نہیں دیتے تو نہ دو کم ازکم اسے کتوں سے تو نہ کٹواو۔لیکن ابلیسی کتاب حکمت میں یہی لکھاہے کہ چھوٹے مرض کا علاج بڑے مرض سے کرو اور علاج مرض بالمرض کا طریقہ اپناو۔اور فی زمانہ یہی طریقہ علاج سب سے زیادہ پاپولرہے۔اور مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ایک زمانے میں ''تبدیلی''کی دھوم مچالے دھوم تھی لیکن آج کوئی اس کا نام لیتاہے؟
نئے پاکستان کا تاج محل بھی ایک زمانے میں بیسٹ سیلر تھا لیکن کباڑیوں کی دکانوں میں بھی کہیں موجود نہیں ہے۔ لوڈ شیڈنگ بھی ایک زبان زدعام نام تھا لیکن آج کوئی لیتاہے۔ڈیم بھی سب سے بڑا ڈیم فول تھا لیکن اب عدم پتہ ہے یادش بخیر باباجی بھی ایک زمانے میں ہرمرض کا امرت دھارا ہواکرتے تھے لیکن آج۔۔۔کہاں ہے، کس طرف ہے اور کدھر ہے، اگر کچھ اور پیچھے جایئے تو دبستان کھل جائے گا۔مضبوط پاکستان، مضبوط مرکز، ون یونٹ ، بنیادی جمہوریت، روٹی کپڑا اور مکان۔اسلام زندہ باد اور نہ جانے کیا کیا۔ریاست مدینہ تو ابھی کل پرسوں کی بات ہے۔ہاں تو علاج مرض بالمرض۔ ابھی کچھ دن پہلے آپ چیخیں سنتے رہے ہیں بلکہ شاید آپ خود بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختے رہوں گے، مہنگائی ہائے مہنگائی۔ روپیہ ہائے روپیہ۔مرا مرا مرا۔کب رام رام رام میں تبدیل ہوا کسی کو پتہ بھی نہیں چلا ۔بیچاری مہنگائی بھی سوچ رہی ہوگی کہ
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ
کتنا بڑا مرض تھا، لگتا ہے اس بار تو مہنگائی ہماری جان لے کر ٹلے گی لیکن اب خواب تھا جو کچھ دیکھا تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا ۔کوئی جھوٹے منہ بھی اس کا نام نہیں لیتا، اس لیے کہ علاج مرض بالمرض کا نسخہ دنیا کا سب سے بڑا تیربہدف اور رام بان نسخہ ہے۔
جراحت تخفہ الماس ارمعان داغ جگر ہدیہ
مبار باد اسد ''غمخوار''جان درد مند آیا
سوچاتھا اس طرز علاج کو ہم اپنے نام رجسٹرڈ کرلیں گے لیکن پتہ چلا کہ اس کی رجسٹریشن کوئی معمولی چیز نہیں ہے، صرف حکومتیں اور شاہ بادشاہ ہی اسے رجسٹرڈ اور اپنے نام کرسکتے۔آپ نے کبھی ''ہچکی''کا علاج کیاہے یا ہوتے دیکھا ہے، یہی علاج مرض بالمرض کی بنیاد ہے، فلسفہ ہے اور طریقہ ہے۔
وہ آئے بزم میں اتنا تو ہم نے دیکھا میر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
ہم نے صرف اسے دریافت کیاہے، وہ بھی محض اتفاقاً اور حادثاتاً کیونکہ تحقیق ہماری عادت بن چکی ہے۔ اگر کسی سائیکل پر سوار ہوتے ہیں تو اس کے ٹائروں کی ''تلیاں''تک گن لیتے ہیں۔ہوا یوں کہ ہمیں ''کمردرد''کی بیماری ہوگئی تھی، بہت سارے علاج کیے، ٹونے ٹوٹکے آزمائے، دم درود کرائے لیکن مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی۔ اور پھر مکمل طورپر بسترنشین ہوگئے بلکہ تختہ نشین اور فرش نشین ہوگئے۔ ایک دن اچانک ایک لڑائی اور فائرنگ میں ایک بھائی کو اتفاقیہ گولی لگ گئی حالانکہ لڑائی کسی اور کی تھی،گولی سیدھی پیٹ میں لگی تھی۔ غلغلہ ہوا، شور ہوا، اسپتال لے جایا گیا، رات گئے تک ایک خطرناک آپریشن چلتارہا، خون کی ضرورت ہوئی تو ایک بوتل خود دیا اور دوسری کے لیے تگ و دو بھی کی، دوڑ دوڑ کر دوائیں بھی لاتے رہے۔
بارے پوچھنے پر پتہ لگ گیا کہ خیریت ہوئی آپریشن کامیاب رہا اور جان بچ گئی، تب ہمارے اوسان بحال ہوئے تو خیال آیا کہ نہ کمردرد تھا نہ اس کا نام و نشان اور اس کے بعد وہ درد کبھی لوٹ کرنہ آیا۔یہیں سے ہمیں اس زبردست طریقہ علاج کا پتہ چلا اور ہم نے اسے نام بھی دیا، علاج درد بذریعہ درد یا علاج مرض بالمرض۔علاج زکام بذریعہ نمونیا، علاج بخار بذریعہ دردگردہ۔علاج گردہ بذریعہ ہارٹ اٹیک۔ یعنی ''بڑے''کے آنے پر چھوٹے کا چلے جانا۔ بلب جلنے پر موم بتی کا بے نور ہونا، موت کے آنے پر ساری بیماریوں کا خاتمہ۔پھر ہم نے دیکھا بلکہ پھر دیکھا کیونکہ دیکھتے تو ایک زمانے سے تھے لیکن اب جو اس تحقیق کی روشنی میں دیکھا تو پتہ چلا کہ ہمارے پاکستان میں تو یہ طریقہ علاج پورے سترسال سے چل رہاہے۔ حافظ شیرازی نے بالکل غلط کہاہے کہ
دوائے دردخود اکنوں از آں مفرح جو
کہ در صراحئی چینی وساغر حلبی ست
بلکہ ایک پشتو کہاوت میں حقیقت بیان کی گئی ہے۔ کہ اچھا ہوا موت نے دادی کا بخار اتار دیاہے، اسی سلسلے کی دوسری کہاوت ہے کہ جب موت آتی ہے تو بخار بھی قبول کرلیاجاتاہے۔بڑا ہی تیربہدف نسخہ ہے۔اس پر ایک کہانی بھی ہے کہ ایک ہندو ساہوکار کو ڈاکووں نے گھیر لیا۔تو ان میں بحث ہوئی کہ اسے لوٹ کر قتل کردینا چاہیے۔ پھر قتل کے طریقے زیربحث آئے کہ کس طرح قتل کیاجائے۔ ایک ڈاکو نے کہا، قتل وتل مت کرو، صرف لوٹ لو۔لیکن کسی نے اس کی بات سنی اور نہ مانی اور بدستور قتل کے طریقے ڈسکس کرتے رہے۔ اس پر ہندو سیٹھ نے کہا، تم لوگ ذرا اس نوجوان کی بات بھی سنو نا۔جب ہم نے تحقیق کا ٹٹو دوڑایا تو پوری انسانی تاریخ اس علاج''بالمرض''سے بھری پڑی تھی۔ کسی بھی مسئلے کا علاج کرنے کے لیے اس سے بھی بڑا مسئلہ پیدا کرنا، مہنگائی غربت اور قحط سالی کا شافی علاج بہت سے ''بادشاہوں''نے کسی دوسرے ملک سے لڑائی چھیڑکرکیا ہے۔
بلکہ اس سلسلے میں کسی نامعلوم ملک کا ایک لطیفہ بھی ہے کہ اس ملک کی فوج کے افسران کی ایک اعلیٰ درجے کی میٹینگ میں یہ موضوع زیربحث آیا کہ عوام میں فوج کا مورال مسلسل گر رہاہے۔ لوگ اسے سفید ہاتھی اور مفت خورے کہہ رہے ہیں۔کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ فوج پر عوام کا اعتماد بحال ہو اور مورال اونچاہو۔آخر کب تک صرف بیانات اور اعلانات پر گزارہ کرتے رہیں، ان باتوں نے تو عوام کو پکا کر رکھ دیا کہ ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے، کسی نے ہمیں میلی آنکھ سے دیکھا تو اس کی دونوں آنکھیں نکال کر ہتھیلی پر رکھ دیں گے۔ دشمن کا ہم ''یہ یہ'' اور وہ وہ کردیں گے۔ کچھ کہنے بولنے کے بجائے اب کچھ کرنا چاہیے۔کسی ملک پر حملہ کرنا چاہیے.
پھر یہ سوال اٹھا کہ کس ملک پر؟اس موضوع پر تجاویز پیش ہونے لگیں لیکن کسی ملک کانام لیاجاتا اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی خطرہ لگاہوا ہوتا۔ آخر سارے پڑوسی ممالک پر حملہ کرنا خطرناک سمجھا گیا۔تو پھر یہ سوال تھا کہ پس چہ باید کرد۔حملہ تو ضروری ہے کہ مورال کاسوال ہے۔ آخر ایک ممبر کا دماغ چل گیا یعنی کام کرگیا۔بولا ،کیوں نہ اپنے ہی ملک پر حملہ کردیاجائے۔ سب نے اس پر صاد کیا کہ اس میں کوئی مزاحمت، کوئی خطرہ نہیں۔آگے کتاب کے اوراق پٹھے ہوئے ہیں، اس لیے پتہ نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ وہ حملہ کیاگیا یا نہیں اور مورال بحال ہوا یا نہیں اورنہ ہی ملک کے نام کا پتہ چلا اور نہ تاریخ کے اس دور کا۔کہ کس زمانے میں یہ ہواتھا۔ تیر وتلوار کے زمانے میں یا توپ وتفنگ کے زمانے میں۔یا راکٹ اور بم کے زمانے میں۔اور اس سے ہمیں کوئی واسطہ بھی نہیں کہ ہم تاریخ کی تحقیق کررہے ہیں نہ جغرافیے کی بلکہ ''امراض والعلاج''پرتحقیق کررہے ہیں یا علاج مرض بالمرض کی۔جو ایک طرز علاج ہے اور بہت ہی موثر ہے لیکن خفیہ اور خاص الخاص ہے اور اتنا مہنگا ہے کہ کوئی مہنگائی سے مالا مال ملک ہی اس کا متحمل ہوسکتاہے۔
نہ پوچھ نسخہ مرہم جراحت دل کا
کہ اس میں ''ریزہ الماس''جزو اعظم ہے
یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ اس طرز علاج کا موجد کون تھا یا ہے لیکن زیادہ تر انگلیاں ابلیس کی طرف اٹھتی ہیں جو ہر زمانے اور دور یا ملک وحکومت کا موجداعظم ہوتاہے۔اب عام آدمی تو یہ سوچ کر دھک سے رہ جائے گا کہ بیمار کو مزید بیمار بلکہ زیادہ بیمار کرنا کہاں کی شرافت ہے، اگر فقیر کو بھیک نہیں دیتے تو نہ دو کم ازکم اسے کتوں سے تو نہ کٹواو۔لیکن ابلیسی کتاب حکمت میں یہی لکھاہے کہ چھوٹے مرض کا علاج بڑے مرض سے کرو اور علاج مرض بالمرض کا طریقہ اپناو۔اور فی زمانہ یہی طریقہ علاج سب سے زیادہ پاپولرہے۔اور مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ایک زمانے میں ''تبدیلی''کی دھوم مچالے دھوم تھی لیکن آج کوئی اس کا نام لیتاہے؟
نئے پاکستان کا تاج محل بھی ایک زمانے میں بیسٹ سیلر تھا لیکن کباڑیوں کی دکانوں میں بھی کہیں موجود نہیں ہے۔ لوڈ شیڈنگ بھی ایک زبان زدعام نام تھا لیکن آج کوئی لیتاہے۔ڈیم بھی سب سے بڑا ڈیم فول تھا لیکن اب عدم پتہ ہے یادش بخیر باباجی بھی ایک زمانے میں ہرمرض کا امرت دھارا ہواکرتے تھے لیکن آج۔۔۔کہاں ہے، کس طرف ہے اور کدھر ہے، اگر کچھ اور پیچھے جایئے تو دبستان کھل جائے گا۔مضبوط پاکستان، مضبوط مرکز، ون یونٹ ، بنیادی جمہوریت، روٹی کپڑا اور مکان۔اسلام زندہ باد اور نہ جانے کیا کیا۔ریاست مدینہ تو ابھی کل پرسوں کی بات ہے۔ہاں تو علاج مرض بالمرض۔ ابھی کچھ دن پہلے آپ چیخیں سنتے رہے ہیں بلکہ شاید آپ خود بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختے رہوں گے، مہنگائی ہائے مہنگائی۔ روپیہ ہائے روپیہ۔مرا مرا مرا۔کب رام رام رام میں تبدیل ہوا کسی کو پتہ بھی نہیں چلا ۔بیچاری مہنگائی بھی سوچ رہی ہوگی کہ
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ
کتنا بڑا مرض تھا، لگتا ہے اس بار تو مہنگائی ہماری جان لے کر ٹلے گی لیکن اب خواب تھا جو کچھ دیکھا تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا ۔کوئی جھوٹے منہ بھی اس کا نام نہیں لیتا، اس لیے کہ علاج مرض بالمرض کا نسخہ دنیا کا سب سے بڑا تیربہدف اور رام بان نسخہ ہے۔
جراحت تخفہ الماس ارمعان داغ جگر ہدیہ
مبار باد اسد ''غمخوار''جان درد مند آیا
سوچاتھا اس طرز علاج کو ہم اپنے نام رجسٹرڈ کرلیں گے لیکن پتہ چلا کہ اس کی رجسٹریشن کوئی معمولی چیز نہیں ہے، صرف حکومتیں اور شاہ بادشاہ ہی اسے رجسٹرڈ اور اپنے نام کرسکتے۔آپ نے کبھی ''ہچکی''کا علاج کیاہے یا ہوتے دیکھا ہے، یہی علاج مرض بالمرض کی بنیاد ہے، فلسفہ ہے اور طریقہ ہے۔
وہ آئے بزم میں اتنا تو ہم نے دیکھا میر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی