آزادی مارچ کا دھمال
طاقتور حلقے عوام کو سمجھانے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں
اسلام آباد میں ''آزادی مارچ''کے پڑاؤ کے بعد مارچ کے پہلے متحدہ جلسے سے خطاب میں مولانا فضل الرحمن نے '' وزیراعظم عمران خان کو دو دن میں استعفی دینے کی مہلت دی اور عوامی اقتدار کی صفوں میں مسلسل دخل اندازی اور ہدایات دینے والے اداروں سے کہا ہے کہ وہ خود کو سلیکٹیڈ حکومت بچانے کے حوالے سے دور رکھیں اور اداروں کا غیر جانبدارانہ کردار ادا کریں جو ملک کے سیاسی استحکام کے لیے ازحد ضروری ہے '' مولانا فضل الرحمن کے اس اعلان نے ملکی سیاست میں جہاں حکومت اور اداروں میں بھونچال بپا کیا ہے وہیں سیاسی پنڈتوں کے تجزیئے اور امکانات کو بھی یکسر ہلا کر رکھ دیا ہے۔
مولانا کے اس فیصلہ کن اعلان کے بعد عمرانی حکومت نے اپنی صفوں کو جہاں درست کرنے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا عندیہ دیا ہے وہیں مولانا نے حکومتی مذاکراتی ٹیم سے براہ راست بات چیت سے انکار کر دیا ہے ،وزیراعظم عمران خان نے کور کمیٹی میں استعفی کو بلیک میلنگ کہتے ہوئے حالات کو سازگار کرنے کے بجائے تکرار کی جانب لے جانے کا عندیہ دیا ہے جب کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ اپوزیشن معاہدے کی پابندی کرے ورنہ معاہدہ توڑنے کے نتائج بھگتنے کے لیئے تیار ہوجائے۔
دوسری جانب اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اصولی طور پر ''آزادی مارچ'' کے دھرنے سے خود کو علیحدہ کرنے کا اشارہ دیا ہے جس سے سیاسی صورتحال میں یکسر ڈرامائی تبدیلی واقع ہو چکی ہے،اب رہبر کمیٹی کے رہنما فیصلوں پر مزید ہدایات لینے کے لیے اپنی قیادت سے مشورہ کریں گے جب کہ رہبر کمیٹی میں شریک اپوزیشن جماعتوں نے سیاسی رابطے اور فیصلے لینے کے لیئے رہبر کمیٹی کو جوں کا توں رکھنے کا مشترکہ فیصلہ کیا ہے،اسی کے ساتھ جے یو آئی کے سربراہ کا عمران خان سے دو دن میں مستعفی ہونے کا مطالبہ اب تک برقرار ہے ،سب سے اہم بات جس پر تمام اپوزیشن جماعتیں متفق ہیں وہ عمران خان کا استعفی اور نئے انتخابات کا انعقاد فوج کی نگرانی کے بغیر کرانے پر مکمل متفق ہیں،رہبر کمیٹی میں شٹر ڈاؤن کرنے اور ملک کے ہائی ویز بلاک کرنے پر بھی اتفاق کیاجب کہ دو روز بعد آیندہ کی حکمت عملی جے یو آئی کی قیادت کرے گی۔
گذشتہ روز مولانا کا حکومت سے مستعفی ہونے اور اداروں کو غیر جانب دار ہونے کے مطالبے کے بعد سیاسی بھونچال پر فوجی ترجمان اور آئی ایس پی آر کے سربراہ نے وضاحتی بیان میں کہا کہ ''فوج ایک غیر جانبدار ادارہ ہے جو آئین اور قانون کے دائرے میں حکومت کے احکامات کا پابند ہے،فوجی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کسی طور درست نہیں ِ،فوجی ترجمان نے اپوزیشن کے رہنماٗوں سمیت مولانا فضل الرحمن کو مشورہ دیتے ہوئے کہا 'اگر انھیں اداروں سے شکایت ہے تو وہ متعلقہ اداروں سے رجوع کریں اور ''فوج''کو اس میں ملوث کرنے سے گریز کریں''۔
آزادی مارچ کے جلسے کی دھماکہ خیز صورتحال کے پہلے مرحلے میں اپوزیشن اور مولانا نے کم از کم حکومت اور ان کے اتحادی اداروں کو ایک ایسی صورتحال میں ضرور ڈال دیا ہے کہ نہ حکومت اور نہ اس کو چلانے والے ادارے کو فوری طور سے کوئی بھی راہ نہیں سجھائی دے رہی ،جس کا اندازہ واضح طور سے کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان کی حکومت کے بارے میں عوام میں عام رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اظہار کی آزادی پر بندش سے لے کر مہنگائی اور بیروزگاری کے علاوہ عالمی مالیاتی ادارے کی ان شرائط کا منظور کیا جانا ہے جس سے ملک معاشی اور سماجی بد حالی کی جانب چل پڑا ہے ،دوم کہ عالمی مالیاتی اداروں کا قرض اتارنے میں وہ غیر ترقیاتی اخراجات ہیں، ان اخراجات کے قرضے اتارنے واسطے ٹیکس کا بوجھ عام فرد پر لادنا ایک مذاق ہے ،اس صورتحال میں عمران خان کی حکومت ایک ایسا عضو معطل بنا دی گئی ہے جو اشرافیہ کے غیر سیاسی اور غیر جمہوری بیانیئے کو من و عن ماننے اور اس پر عمل کرنے پر مجبور ہے ،ملک کی اس معاشی اور بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال میں اپوزیشن کا یہ خیال کہ عمران خان وزیراعظم ہر گز نہیں، اسقدر بھی کمزور نہیں جیسا کہ طاقتور حلقے عوام کو سمجھانے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ تمام اپوزیشن عمران خان کے استعفی پر یکسو ہو کر جن قوتوں کو پیغام پہنچانا چاہتی تھی وہ پیغام بہت واضح طور پر جلسے کے ذریعے ان طاقتور افراد کو پہنچا دیا گیا ہے،مگر عوام کے ذہنوں میں ملکی سیاسی تاریخ میں بار بار کی غیر جمہوری مداخلت سے یہ تاثر یا سوال بہت عام ہے کہ اپوزیشن کے پیچھے وہ طاقتور عوامل کون سے ہیں جو اپوزیشن کے ''آزادی مارچ''کی پشت پر ہیں،آیا اپوزیشن کی جماعتیں واقعتاً عوام کے ووٹ کی طاقت کو سیاسی عمل میں اہم سمجھتی ہیں یا پھر کسی بیرونی و اندرونی طاقت اس پوری سیاسی تحریک کی پشت پر ہے۔
اس میں ایک عام خیال یہ ہے کہ 'آزادی مارچ'' بنیادی طور پرجس بیانیے پر، عوام کے ذہنوں میں اس بیانیئے کو مضبوط کرنے میں موجودہ سلیکٹیڈ وزیراعظم اور ان کی پشت پر طاقت ور قوتیں جتی ہوئی ہیں مگر مہنگائی،بیروزگاری اور بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال میںحکومت یا طاقتور قوتوں کا یہ بیانیہ عوام میں پذیرائی لے نہیں پا رہا،جس کا فائدہ اپوزیشن کو کسی نہ کسی طرح ہو رہا ہے۔
اس گومگو سیاسی اور جمہوری ماحول میں حالات غیر جمہوری قوتوں کے چہرے بھی سامنے لا رہا ہے،''آزادی مارچ'' کو دھرنے میں تبدیل کرنے کا تاثر گو ابھی واضح نہیں ہے مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مولانا کو دیگر مختلف الخیال سیاسی جماعتوں نے تیزی سے فیصلے لینے سے روک کر مشاورت کی ایک ایسی میز پر بٹھا دیا ہے جہاں سے مولانا تن و تنہا کوئی بھی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتے،جے یو آئی کے ''آزادی مارچ'' میں تمام اپوزیشن کی شرکت دراصل مولانا کو تنہافیصلہ کرنے کی کوشش سے روکنے کی ایک کامیاب حکمت عملی کہا جا سکتا ہے،آج کی تبدیل ہوتی دنیا میں پاکستانی اشرافیہ کو ایک دائرے میں ہی رہنا ہوگا وگرنہ ''آزادی مارچ'' لبنان،چلی و دیگر جگہوں پر رخ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال ایسا ہو سکتا ہے ۔
آزادی مارچ کے تناظر میں غالب امکان ہے کہ ''آزادی مارچ'' والے سول سپرمیسی کے مطالبے پر اپنی تحریک کو مزیدمنظم کرکے موجودہ جمہوری کہلائے جانے والی قیادت کو سول سپرمیسی پر قائل کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کریں تاکہ اس ''آزادی مارچ'' کے بہتر اختتامی نتیجے میں عوام کے جمہوری سیاسی ادارے طاقتور اداروں کی مداخلت سے بچ جائیں اور پاکستان ایک جمہوری مستقبل کی جانب گامزن ہو۔
مولانا کے اس فیصلہ کن اعلان کے بعد عمرانی حکومت نے اپنی صفوں کو جہاں درست کرنے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا عندیہ دیا ہے وہیں مولانا نے حکومتی مذاکراتی ٹیم سے براہ راست بات چیت سے انکار کر دیا ہے ،وزیراعظم عمران خان نے کور کمیٹی میں استعفی کو بلیک میلنگ کہتے ہوئے حالات کو سازگار کرنے کے بجائے تکرار کی جانب لے جانے کا عندیہ دیا ہے جب کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ اپوزیشن معاہدے کی پابندی کرے ورنہ معاہدہ توڑنے کے نتائج بھگتنے کے لیئے تیار ہوجائے۔
دوسری جانب اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اصولی طور پر ''آزادی مارچ'' کے دھرنے سے خود کو علیحدہ کرنے کا اشارہ دیا ہے جس سے سیاسی صورتحال میں یکسر ڈرامائی تبدیلی واقع ہو چکی ہے،اب رہبر کمیٹی کے رہنما فیصلوں پر مزید ہدایات لینے کے لیے اپنی قیادت سے مشورہ کریں گے جب کہ رہبر کمیٹی میں شریک اپوزیشن جماعتوں نے سیاسی رابطے اور فیصلے لینے کے لیئے رہبر کمیٹی کو جوں کا توں رکھنے کا مشترکہ فیصلہ کیا ہے،اسی کے ساتھ جے یو آئی کے سربراہ کا عمران خان سے دو دن میں مستعفی ہونے کا مطالبہ اب تک برقرار ہے ،سب سے اہم بات جس پر تمام اپوزیشن جماعتیں متفق ہیں وہ عمران خان کا استعفی اور نئے انتخابات کا انعقاد فوج کی نگرانی کے بغیر کرانے پر مکمل متفق ہیں،رہبر کمیٹی میں شٹر ڈاؤن کرنے اور ملک کے ہائی ویز بلاک کرنے پر بھی اتفاق کیاجب کہ دو روز بعد آیندہ کی حکمت عملی جے یو آئی کی قیادت کرے گی۔
گذشتہ روز مولانا کا حکومت سے مستعفی ہونے اور اداروں کو غیر جانب دار ہونے کے مطالبے کے بعد سیاسی بھونچال پر فوجی ترجمان اور آئی ایس پی آر کے سربراہ نے وضاحتی بیان میں کہا کہ ''فوج ایک غیر جانبدار ادارہ ہے جو آئین اور قانون کے دائرے میں حکومت کے احکامات کا پابند ہے،فوجی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کسی طور درست نہیں ِ،فوجی ترجمان نے اپوزیشن کے رہنماٗوں سمیت مولانا فضل الرحمن کو مشورہ دیتے ہوئے کہا 'اگر انھیں اداروں سے شکایت ہے تو وہ متعلقہ اداروں سے رجوع کریں اور ''فوج''کو اس میں ملوث کرنے سے گریز کریں''۔
آزادی مارچ کے جلسے کی دھماکہ خیز صورتحال کے پہلے مرحلے میں اپوزیشن اور مولانا نے کم از کم حکومت اور ان کے اتحادی اداروں کو ایک ایسی صورتحال میں ضرور ڈال دیا ہے کہ نہ حکومت اور نہ اس کو چلانے والے ادارے کو فوری طور سے کوئی بھی راہ نہیں سجھائی دے رہی ،جس کا اندازہ واضح طور سے کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان کی حکومت کے بارے میں عوام میں عام رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اظہار کی آزادی پر بندش سے لے کر مہنگائی اور بیروزگاری کے علاوہ عالمی مالیاتی ادارے کی ان شرائط کا منظور کیا جانا ہے جس سے ملک معاشی اور سماجی بد حالی کی جانب چل پڑا ہے ،دوم کہ عالمی مالیاتی اداروں کا قرض اتارنے میں وہ غیر ترقیاتی اخراجات ہیں، ان اخراجات کے قرضے اتارنے واسطے ٹیکس کا بوجھ عام فرد پر لادنا ایک مذاق ہے ،اس صورتحال میں عمران خان کی حکومت ایک ایسا عضو معطل بنا دی گئی ہے جو اشرافیہ کے غیر سیاسی اور غیر جمہوری بیانیئے کو من و عن ماننے اور اس پر عمل کرنے پر مجبور ہے ،ملک کی اس معاشی اور بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال میں اپوزیشن کا یہ خیال کہ عمران خان وزیراعظم ہر گز نہیں، اسقدر بھی کمزور نہیں جیسا کہ طاقتور حلقے عوام کو سمجھانے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ تمام اپوزیشن عمران خان کے استعفی پر یکسو ہو کر جن قوتوں کو پیغام پہنچانا چاہتی تھی وہ پیغام بہت واضح طور پر جلسے کے ذریعے ان طاقتور افراد کو پہنچا دیا گیا ہے،مگر عوام کے ذہنوں میں ملکی سیاسی تاریخ میں بار بار کی غیر جمہوری مداخلت سے یہ تاثر یا سوال بہت عام ہے کہ اپوزیشن کے پیچھے وہ طاقتور عوامل کون سے ہیں جو اپوزیشن کے ''آزادی مارچ''کی پشت پر ہیں،آیا اپوزیشن کی جماعتیں واقعتاً عوام کے ووٹ کی طاقت کو سیاسی عمل میں اہم سمجھتی ہیں یا پھر کسی بیرونی و اندرونی طاقت اس پوری سیاسی تحریک کی پشت پر ہے۔
اس میں ایک عام خیال یہ ہے کہ 'آزادی مارچ'' بنیادی طور پرجس بیانیے پر، عوام کے ذہنوں میں اس بیانیئے کو مضبوط کرنے میں موجودہ سلیکٹیڈ وزیراعظم اور ان کی پشت پر طاقت ور قوتیں جتی ہوئی ہیں مگر مہنگائی،بیروزگاری اور بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال میںحکومت یا طاقتور قوتوں کا یہ بیانیہ عوام میں پذیرائی لے نہیں پا رہا،جس کا فائدہ اپوزیشن کو کسی نہ کسی طرح ہو رہا ہے۔
اس گومگو سیاسی اور جمہوری ماحول میں حالات غیر جمہوری قوتوں کے چہرے بھی سامنے لا رہا ہے،''آزادی مارچ'' کو دھرنے میں تبدیل کرنے کا تاثر گو ابھی واضح نہیں ہے مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مولانا کو دیگر مختلف الخیال سیاسی جماعتوں نے تیزی سے فیصلے لینے سے روک کر مشاورت کی ایک ایسی میز پر بٹھا دیا ہے جہاں سے مولانا تن و تنہا کوئی بھی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتے،جے یو آئی کے ''آزادی مارچ'' میں تمام اپوزیشن کی شرکت دراصل مولانا کو تنہافیصلہ کرنے کی کوشش سے روکنے کی ایک کامیاب حکمت عملی کہا جا سکتا ہے،آج کی تبدیل ہوتی دنیا میں پاکستانی اشرافیہ کو ایک دائرے میں ہی رہنا ہوگا وگرنہ ''آزادی مارچ'' لبنان،چلی و دیگر جگہوں پر رخ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال ایسا ہو سکتا ہے ۔
آزادی مارچ کے تناظر میں غالب امکان ہے کہ ''آزادی مارچ'' والے سول سپرمیسی کے مطالبے پر اپنی تحریک کو مزیدمنظم کرکے موجودہ جمہوری کہلائے جانے والی قیادت کو سول سپرمیسی پر قائل کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کریں تاکہ اس ''آزادی مارچ'' کے بہتر اختتامی نتیجے میں عوام کے جمہوری سیاسی ادارے طاقتور اداروں کی مداخلت سے بچ جائیں اور پاکستان ایک جمہوری مستقبل کی جانب گامزن ہو۔