ؔ’’ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر اُن کی تدفین ہونے کے بعد نشر کی گئی‘‘
1947ء کے فسادات میں ہم دو دن تھانے میں رہے، محمد علی بوگرہ کی تقریر ترجمہ کرنے ’وزیراعظم ہاؤس‘ جاتا
ماہ نامہ 'ہمدرد نونہال' کے رنگ برنگے صفحوں کے درمیان کہیں ایک سادہ سا مضمون ''سچی بات'' کے مستقل عنوان سے شایع ہوتا تھا۔۔۔ بنا کسی تصویر کا یہ ایک صفحہ ہم ہر بار ڈھونڈ کر پڑھتے، کیوں کہ اس سے ہمیں نئی کتابوں کی سُن گن ملتی،کون کون سی نئی کتابیں آنے والی ہیں، کون سی کتابیں دوبارہ شایع ہوں گی اور کون سی کتابوں کا ذخیرہ اب ختم ہونے کو ہے وغیرہ۔۔۔ نئی کتابوں کے خیال سے ہی ہمارے مَن میں لڈو پھوٹنے لگتے۔۔۔ ہم گن گن کر یہ دن گزارتے اور روپے جوڑتے کہ جیسے ہی شایع ہوں ویسے ہی خرید لائیں۔۔۔ 'سچی بات' کے قاری یقیناً اس کے 'لکھیک' کا نام کبھی نہیں بھول سکتے۔۔۔
پس منظر میں رہ کر بڑے کام کرنے والی یہ شخصیت 'رفیع الزماں زبیری'کی ہے۔۔۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اُن کا جو قد کاٹھ، بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں آنکھ کھولنے والے جانتے ہیں، ویسا شاید ہی کوئی اور جانے۔۔۔ 'ہمدرد' پاکستان کے بانی حکیم محمد سعید نے نونہالوں کی تربیت کے لیے ایک گوہر یکتا اگر مسعود احمد برکاتی کی صورت میں چُنا تھا، تو اس باب میں دوسرا اَن مول ہیرہ بلا مبالغہ رفیع الزماں زبیری ہیں۔۔۔ پچھلے ہفتے 'شخصیت' کی بیٹھک کے لیے ماضی کے اِس ''نونہال'' کو اپنے محسن کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا۔۔۔
وہ گلشن اقبال میں واقع 'کراچی اسکول آف آرٹ' کے نائب صدر ہیں، دیکھیے تو کراچی کا یہ ہزار میٹر کا ٹکڑا کتنا اہم ہے، اس میں 'شہری حکومت' کا مرکز 'سوک سینٹر'، 'ریڈیو پاکستان' اور اس کے مقابل 'ایکسپو سینٹر' ہے۔۔۔ پھر 'سوئی سدرن گیس' کی پرشکوہ عمارت ایستادہ ہے، جس سے کچھ قدم پر امراض خون کا اسپتال 'این آئی بی ڈی' 'فاران کلب'، 'محمد علی جوہر لائبریری' اور پھر ایک نجی جامعہ بھی جلوہ افروز ہے۔۔۔ اور 'کراچی اسکول آف آرٹ' بھی۔
بس وہیں یہ ہمیشہ یاد رہنے والی ملاقات ہوئی، جس میں بات سے بات نکلنے کا مرحلہ بہت کم آسکا۔۔۔ یوں کہیے کہ ہمیں اپنے سوالات پوچھنے کی ذمہ داری اچھی طرح ادا کرنے کا موقع ملا، کیوں کہ ہم نے انہیں خاصا کم گو پایا۔۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ اصل تاریخ پیدائش 13 ستمبر 1928ء ہے، اسکول میں 1931ء لکھی گئی۔۔۔ آبائی علاقہ مارہرہ (اتر پردیش) ہے، چار بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑے ہیں، ایک بھائی اقبال زبیری روزنامہ 'مشرق' کے مدیر رہے۔ والد علی گڑھ سے پڑھے اور بھوپال پولیس اور جاورہ اسٹیٹ میں ملازم رہے، 1937ء میں محض 32 سال کی عمر میں اُن کا انتقال ہوگیا۔ والدہ ممتاز رفیع ادیبہ، شاعرہ اور ماہ نامہ 'سہیلی' (لاہور) کی اعزازی مدیرہ تھیں۔
ان کا کلام بہ عنوان 'دیوان ممتاز' 1935-36ء میں چَھپا، لیکن ان کے پاس محفوظ نہیں، البتہ اُن کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کچھ چیزیں 'ہمدرد' کتب خانے میں ہیں۔ والد کی وفات کے بعد والدہ گوشہ نشیں ہوگئیں، 'سہیلی' میں باقاعدہ اس کنارہ کشی کا اعلان بھی کیا، والدہ کا سایہ سر سے اٹھا تو وہ نویں میں تھے۔۔۔ علی گڑھ سے میٹرک کے بعد وہ دہلی میں اپنی خالہ کے ہاں آگئے، جہاں چھے ماہ ایک سرکاری ملازمت کی، 'آل انڈیا ریڈیو' میں خبروں کا ترجمہ بھی کرنے لگے، دلی میں مسلم لیگ کے اخبار 'منشور' میں 'سب ایڈیٹر' بھی رہے، جہاں ہر 'سب ایڈیٹر' ایک ایک ماہ کے لیے 'نیوز ایڈیٹر' بنتا تھا، بٹوارے کے ہنگام میں یہ کمان اُن کے سپرد تھی، خالو سرکاری افسر تھے، پھر ان کی مدد سے براستہ ہوائی جہاز کراچی آگئے۔
وہ 'مرحلۂ ہجرت' سے سرسری سے گزر گئے، ہم نے مزید کریدا تو بتایا کہ 'چھے ستمبر 1947ء کو جب دلی کے حالات بہت خراب ہوگئے، تو انہیں ایک مسلمان انسپکٹر حفاظت کی غرض سے تھانے لے گیا، دو راتیں وہاں گزریں، اس کے بعد 'پرانے قلعے' منتقل کر دیا گیا، پھر ایک رات دلی ائیر پورٹ پر بھی بسر ہوئی اور یوں 13 ستبمر 1947ء کو اپنی سال گرہ کے روزکراچی اترے۔
رفیع الزماں زبیری کے بقول وہ اسکول کے زمانے سے 'مسلم لیگ' سے وابستہ تھے، اپنی یادداشتوں (یادوں کے دریچے) میں سارے واقعات درج کیے ہیں۔ کانگریسی راہ نما جواہر لعل نہرو کو ہندوستان کے علاوہ کراچی میں بھی دیکھا، البتہ موہن داس گاندھی کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ قائداعظم کے ساتھ تو 'بچہ مسلم لیگ' کے رکن کے طور پرتصویر بھی ہے۔۔۔ ہم نے اُس وقت دلی کے پاکستان میں شامل ہونے نہ ہونے کا تاثر ٹٹولا، وہ بولے کہ مجھے معلوم تھا کہ دلی پاکستان میں شامل نہیں ہوگا۔
وہ بتاتے ہیں کہ کراچی میں روزنامہ 'انجام' سے جُڑے اور پھر روزنامہ 'ڈان' (اردو) سے منسلک ہوگئے، جہاں قائد اعظم کے انتقال کی خبر اور وہ پہلا پورا صفحہ انہوں نے ہی تیار کیا۔ چھے ماہ 'ائیر انڈیا' میں بھی کام کیا، جو بمبئی اور کراچی کے درمیان پروازیں چلا رہی تھی، اس وقت یہ نجی ملکیت میں تھی۔ ڈیڑھ برس برطانوی خبر ایجینسی 'اسٹار' کے لیے بھی خدمات انجام دیں اور اس کے بعد پھر 1951ء میں 'ریڈیو پاکستان' کے شعبۂ خبر سے بطور مترجم وابستہ ہو گئے۔
1951ء لیاقت علی خان کی شہادت کا برس بھی تھا، ہم نے ذکر کیا، تو وہ بولے کہ 'ریڈیو پر فرائض کی ادائی کے دوران ہی یہ سانحہ ہوا۔۔۔گولی لگنے کے بعد ان کے آخری الفاظ بھی سنے، انہوں نے اپنے سیکریٹری نواب صدیق علی خان سے کہا 'نواب صاحب گولی لگ گئی ہے۔۔۔ اللہ پاکستان کی حفاطت کرے!' آپ سوچ سکتے ہیں کہ مجھ پر کیا گزری ہوگی، میں نے تو انہیں بہت قریب سے دیکھا ہوا ہے۔
'ریڈیو پاکستان' پر دوران ملازمت رفیع الزماں زبیری نے 'اسلامیہ کالج' سے انٹر اور جامعہ کراچی سے 'بی اے' کیا۔۔۔ 1959ء میں ان کا تبادلہ پنڈی میں ہوگیا، جہاں 1964ء تک رہے، اس دوران ترقی ہوتی رہی، اسلام آباد میں 'براڈ کاسٹنگ ہاؤس' قائم ہوا، تو وہاں بھی کنٹرولر رہے۔ ذوالفقار بھٹو اور جنرل ضیا کے ساتھ بیرون ملک سفر بھی کیے، جنرل ضیا کے ساتھ مسجد نبوی میں سنہری جالیوں کے پار 'مرقد رسولﷺ' تک رسائی کا شرف بھی ملا!
ہم نے 1958ء میں ملک کے پہلے مارشل لا کے ریڈیو کے حوالے سے تجربات کھنگالنا چاہے، تو انہوں نے بس اتنا بتایا کہ آخری 'خبرنامہ' آٹھ بجے ہوتا تھا، جس کے بعد وہ چلے جاتے تھے، کہتے ہیں کہ مارشل لا لگا، تو بازاروں میں بغیر ڈیوٹی کے آیا ہوا مال نہایت سستے داموں فروخت ہوا، یہ بات بھی پھیل گئی تھی کہ اب کوئی غلط کام نہیں ہو سکتا۔
رفیع الزماں زبیری سے ریڈیو پر سامعین سے مخاطب ہونے کا پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ غالباً ایوب خان کے زمانے میں ایک مرتبہ 'نیوز ریڈر' نہ آسکے، تو انہیں براہ راست خبریں پڑھنا پڑی تھیں، ورنہ شکیل احمد اور انور بہزاد وغیرہ یہ کام کرتے، میرا کا م تو ترجمہ تھا، تاہم حالات حاضرہ کے پروگراموں میں 'میزبان' کے طور پر شریک ہوتا رہا، جس میں سیاست دانوں کے بہ جائے ماہرین اور دانش وَر مدعو ہوتے۔۔۔ 1965ء کی جنگ پر میں کوئٹہ اسٹیشن میں متعین تھا، جہاں جنرل ایوب خان کے قوم سے خطاب کا اعلان بھی میں نے ہی کیا۔
1950ء کی دہائی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے رفیع الزماں بتاتے ہیں کہ 'محمد علی بوگرہ امریکا میں پاکستانی سفیر تھے، جب وہ وزیراعظم بنے، تو انہوں نے امریکی صدر کے ماہانہ خطاب سے متاثر ہو کر یہاں ہر ماہ تقریر شروع کی، جس کا ترجمہ کرنے میں وزیراعظم ہاؤس (جو اب وزیراعلیٰ ہاؤس ہے) جاتا، حتیٰ کہ ایک مرتبہ وہ علیل تھے، تو میں نے ان کی خواب گاہ میں بیٹھ کر ان کی تقریر کا ترجمہ کیا، وہ تقریر انگریزی میں املا کراتے، جو ٹائپ ہو کر آتا جاتا اور میں اسے اردو کے قالب میں ڈھالتا۔ پھر وہ تقریر نشر کرنے کے لیے 'ریڈیو پاکستان' آتے، تو اُن کے انگریزی خطاب کے فوراً بعد سامنے بیٹھے ہوئے بخاری صاحب اس کا ترجمہ پڑھتے۔
رفیع الزماں کہتے ہیں کہ 'ریڈیو پرکبھی کوئی بڑی غلطی سرزد نہیں ہوئی۔ 'ریڈیو پاکستان' پر پابندیوں کے استفسار پر وہ بولے کہ ہم بس کوئی ایسی بات نہیں کرتے تھے، جس سے حکومت مشکل میں آجائے، وہاں پورا ایک نظام ہوتا تھا، پھر بھی کچھ پوچھنا پڑتا، تو ہم سیکریٹری اطلاعات یا وزیر اطلاعات کو بھی فون کر لیتے تھے۔
ہم نے روکی جانے والی خبروں کا پوچھا، تو وہ بہت سوچ کے بولے کہ 'کیا بتاؤں میں آپ کو۔۔۔ بہت سی خبریں ایسی آتی تھیں، جو ہم نہیں دے سکتے تھے۔۔۔'
سینئر وزیر جے اے رحیم کی سبکدوشی کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 'ہوا یوں کہ ایک عشائیے میں انہوں نے کہہ دیا کہ یہ کیا طریقہ ہے کہ ہم سب بیٹھے ہوئے ہیں اور وزیراعظم اب تک نہیں آئے! یہ بات کسی نے بھٹو تک پہنچا دی، نتیجتاً انہیں اسی رات برخاست کر دیا۔۔۔! ہمیں خبر دی گئی کہ ''جے اے رحیم کو برطرف کر دیا گیا ہے!'' میں یہ چاہتا تھا کہ ایسا لفظ استعمال کریں، جس سے ہتک نہ ہو۔ یہ کہہ دیا جائے کہ انہیں ریلیف کر دیا گیا ہے، لیکن کہا گیا کہ اس خبر کا ایک لفظ بھی نہیں بدلنا۔۔۔!
''کبھی کوئی غلط خبر دینے کی ہدایت ملی؟'' ہمارے اس سوال پر وہ بولے کہ 'ریڈیو پاکستان' پر خبر سے گریز ضرور کیا گیا، لیکن کبھی جھوٹ یا غلط خبر نہیں دی۔ یہ حکومتی ادارہ ہے، اس لیے بہت سی چیزوں کا اعلان کرتے ہوئے دھیان رکھا جاتا ہے، جیسے ذوالفقار بھٹو کو پھانسی ہوئی، تو مجھے فجر کے وقت فون کر کے بلایا گیا، پہنچا تو یہ خبر آچکی تھی، چوں کہ گڑبڑ کا اندیشہ تھا، اس لیے تدفین کے بعد یہ خبر نشر کی گئی کہ 'اِس اِس طرح انہیں پھانسی دے کر تدفین کر دی گئی ہے!'
اُس زمانے کے اور آج کے 'ریڈیو پاکستان' کے فرق کے سوال پر وہ بے ساختہ بولے اب تو مجھے یہی انداز نہیں پڑتا کہ ہے بھی یا نہیں! اب تو بہت ساری چیزیں ہیں، تب خبروں کا یہی ایک بڑا ذریعہ تھا، اخبار بھی تھے، مگر ریڈیو کی رسائی زیادہ دور تک تھی۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ 1983ء میں ریڈیو سے ریٹائرمنٹ کے لیے درخواست دی، لیکن مجھے چھے ماہ بعد مجھے دوبارہ بلالیا گیا، یوں 1987ء تک ریڈیو پاکستان کے 'کنٹرولر نیوز' اور 'چیف رپورٹر' کے عہدے پر تعینات رہا۔
'سیرت طیبہ' کے ڈھائی لاکھ نسخے شایع ہوئے۔۔۔!
رفیع الزماں زبیری کہتے ہیں کہ میں نے حکیم محمد سعید کے نام سے پانچ جلدوں میں بچوں کے لیے 'سیرت طیبہ' مرتب کی، میں چاہتا تھا کہ ان کا نام دیکھ کر لوگ لیں اور جب تک میں وہاں تھا، تب تک اس کے ڈھائی لاکھ نسخے شایع ہو چکے تھے، پتا چلا کہ بہت سے مدارس کے طلبہ کو انعام میں وہ مجموعہ دیا جا رہا ہے۔۔۔ پھر اس کا انگریزی ترجمہ کیا، تو اسے اپنا نام دیا۔
ہم نے ''نونہال ادب'' کے ساتھ ایک اور سلسلے ''نوجوان ادب'' کا ذکر کیا، جس کے تحت شایع ہونے والی حکیم سعید کی کتابوں کی زبان اور بھی بے باک تھی، وہ بولے کہ یہ بھی ان کا تصور تھا کہ تھوڑے سے بڑے بچوں کے لیے بھی کتابیں ہونا چاہئیں۔
رفیع زبیری صاحب کا خیال ہے کہ حکیم محمد سعید کے قاتل بہت ماہر اور پیشہ وَر تھے، وہ کہتے ہیں کہ 'ہمدرد' میں ہفتے کو چھٹی ہوتی تھی، ہفتہ 17 اکتوبر 1998ء صبح دس، گیارہ بجے انہیں گھر میں حکیم سعید کے قتل کی خبر ملی۔۔۔ حکیم سعید کے آخری سفرنامہ بہ عنوان ''استنبول کا آخری سفر'' شایع ہوا، جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ایک دن یہ آئے گا کہ امریکا اسامہ بن لادن کو پاکستان سے نکلوائے گا اور پھر وہی ہوا۔ ہم نے انہی کے خواب کے مطابق 'نونہال بک کلب' قائم کیا، جس کیے ذریعے بچوں کو گھر بیٹھے 25 فی صد رعایت پر کتابیں پہنچائی جاتی تھیں، وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔۔۔ میں بتا نہیں سکتا کہ وہ کتنے اچھے اور نفیس آدمی تھے۔۔۔'
یہاں پہنچ کر ہمیں اپنی ساری زندگی لفظ سنوارنے اور نکھارنے میں تج دینے والے رفیع الزماں زبیری جذبات کے اظہار سے معذور سے دکھائی دیے۔۔۔
''نونہال ادب'' کے تحت تقریباً 400 کتابیں شایع کرائیں!
'ادارۂ ہمدرد' سے وابستگی رفیع الزماں زبیری کی زندگی کا ایک اہم باب ہے، وہ بتاتے ہیں کہ جب 'ریڈیو پاکستان' اسلام آباد سے ریٹائرمنٹ لے کر کراچی آیا، تو پہلے سردار اطہر کے ایک ہفتہ وار پرچے میں گیا، چار، چھے ماہ بعد 'کاٹن ایکسچینج' میں 'سیکریٹری' کی مسند قبول کی، جب 'ریڈیو' نے دوبارہ بلالیا، تو 'کاٹن ایکسچینج' میں معذرت کی، لیکن وہ نہ مانے تو چھے ماہ بہ یک وقت دونوں جگہ کام کیا۔
1987ء میں جب ریڈیو چھوڑا، تو ہفت روزہ 'تکبیر' کے مدیر صلاح الدین کے توسط سے 'موسمِ حج' میں دو ماہ کے لیے جدہ سے نکلنے والے اردو اخبار 'عکاظ' کا مدیر ہوگیا، پھرکراچی لوٹا تو ایک تقریب میں حکیم محمد سعید ملے، کہنے لگے کہ آپ ہمارے ساتھ آجائیے، میں ''نونہال ادب'' کے نام سے بچوں کا ایک شعبہ قائم کرنا چاہتا ہوں، میں نے کہا اس کا تو مجھے کچھ پتا نہیں، تو وہ بولے کہ نہیں، نہیں مجھے پتاہے آپ کر سکتے ہیں۔ میں آپ کو لکھ کر بھیج دوں گا کہ میں کیا چاہتا ہوں، دوسرے دن پوری تفصیل پروٹوکول افسر میرے پاس لے آئے۔ مجھے یہ کام دل چسپ لگا۔۔۔'
''کیا لکھا تھا اس میں۔۔۔؟'' اس لمحے ہمارے اندر ''نونہال ادب'' کا قاری جاگ اٹھا۔
وہ بولے کہ 'لکھا تھا کہ 'میں پریشان ہوں کہ یہاں بچوں کے لیے کتابیں نہیں ہیں۔۔۔ میں ایسی کتابیں شایع کرنا چاہتا ہوں جو ان کی تعلیم وتربیت، ادبی ذوق اور تفریح کا اہتمام کریں۔' یوں 1988ء میں، میں 'ہمدرد' سے وابستہ ہوگیا، میں نے کہا کہ مجھے آپ سے کچھ مشورہ کرنا ہے کہ یہ کتابیں کس سے لکھوائیں گے، ان کا سائز، طباعت واشاعت اور قیمت وغیرہ کیا ہوگی۔
جب وقت لینے کے لیے انہیں فون کیا تو وہ کہنے لگے کہ آپ نہیں آئیں، میں آئوں گا آپ کے کمرے میں، پھر وہ آئے، مدیر ہمدرد 'نونہال' مسعود احمد برکاتی کو بھی بلا لیا، اور دس، پندرہ منٹ میں میرے کہنے کے مطابق ساری چیزیں طے کر دیں۔ میں نے کہا کہ مجھے ایک کاتب بھی چاہیے، میں نے سنا ہے کہ آپ کاتب کی اجازت نہیں دیتے، وہ بولے کہ میں نے آپ کو کب منع کیا ہے! پھر میں نے ایک کاتب بھی رکھا اور یوں ہمدرد کے ''نونہال ادب'' کا سلسلہ شروع ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ اُس وقت بچوں کے لیے مسعود احمد برکاتی کا ایک سفرنامہ ''دو مسافر دو ملک'' شایع ہو چکا تھا، میں نے حکیم سعید کے ایک سفر میں سے ترکی کا احوال چُنا اور اُسے بچوں کے لیے از سرنو لکھا اور بہ عنوان ''یہ ترکی ہے'' شایع کر دیا۔۔۔ پھر ان کے سفرناموں کو ''سعید سیّاح'' کا عنوان دیا، جو انہیں بہت بھایا، جیسے 'سعید سیاح امریکا میں'، 'سعید سیاح جاپان میں' وغیرہ۔ ہم نے 'ہمدرد' سے بچوں کے لیے 400 کتابیں شایع کرائیں۔۔۔ جس میں کہانیاں، ترجمے اور حکیم سعید کے سفرنامے وغیرہ شامل ہیں۔ حکیم سعید کا تعریفی نوٹ میرے پاس محفوظ ہے، جس میں انہوں نے مجھے لکھا کہ 'جیسی کتابیں آپ نے میری چھاپی ہیں، کوئی اورنہیں چھاپ سکتا!' حکیم سعید کے قتل کے چار سال بعد جب 'ہمدرد' سے مستعفی ہوا تو ''نونہال ادب'' کا وجود بھی سمٹتا چلا گیا۔
'ہمدرد' چھوڑا تو سعدیہ راشد ایک سال خفا رہیں!
رفیع الزماں زبیری کے بقول 1949ء میں ان کی شادی اپنے رشتے داروں میں طے پائی، وہ دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد ہیں، صاحب زادے نہال اختر کورنگی 'ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری' کے سیکریٹری ہیں۔ ان دنوں رفیع الزماں اپنی خواہر نسبتی کی بیٹی رابعہ زبیری کے 'کراچی اسکول آف آرٹ' کے نائب صدر ہیں، کہتے ہیں کہ 'اسکول' سے وابستگی اوائل سے ہے، لیکن عملی تعلق 2001ء کے بعد قائم ہوا۔ میں آرٹسٹ نہیں ہوں، بس فنون کی خدمت کرتا ہوں۔ 'ہمدرد' چھوڑنے کا سبب وہ اہلیہ کی علالت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے باوجود حکیم محمد سعید کی صاحب زادی سعدیہ راشد مُصر تھیں کہ میں 'ہمدرد یونیورسٹی' کی 'کوآپریٹو سوسائٹی' کے سیکریٹری کا عہدہ برقرار رکھوں، لیکن میں بالکل وقت نہیں دے سکتا تھا، جس پر وہ مجھ سے ایک سال تک خفا رہیں۔ وہ یہ چاہتی تھیں کہ میں ہمدرد اسکول بھی سنبھالوں۔ حکیم سعید کی یہ عادت تھی، کہ جب وہ کسی کو سمجھ لیتے، تو پھر اسے چھوڑتے نہیں تھے، اگر مطمئن نہ ہوتے تو کہتے کہ ان کا حساب چُکتا کر دیں۔
یہ طے کیا ہوا ہے کہ سیاسی 'کالم' نہیں لکھوں گا
رفیع الزماں زبیری بتاتے ہیں کہ 'ریڈیو پاکستان' سے وابستگی کے دوران وہ باقاعدہ کسی اخبار سے تو وابستہ نہ رہے، لیکن 1960ء کی دہائی میں 'مشرق' میں اپنے گھر کے نام 'فیروز اختر' سے کالم لکھتے رہے، یہ چین کے بانی مائوزے تنگ کے مشہور 'لانگ مارچ' کے حوالے سے ایک کتاب کا ترجمہ تھا، جو بلاناغہ شایع ہوتا۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ اپنے کالم بھی لکھے، 'مشرق' میں کالموں کا معاوضہ ماہانہ چار، پانچ سو روپے تھا، پھر 1998ء میں کراچی سے روزنامہ 'ایکسپریس' کا اجرا ہوا، تو اس کے پہلے مدیر نیر علوی کے کہنے پر اس میں کالم نگاری شروع کی۔
ہفتے میں ایک سے دو کالم شایع ہوتے، جس کی ادائی کالم کے حساب سے کی جاتی، یہ سلسلہ 2001ء میں نیر علوی کے انتقال تک جاری رہا۔ 'ایکسپریس' کے پہلے مدیر نیر علوی ان کے داماد تھے، کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ عمرے پر گئے، جہاں سے واپس آنے کے ایک ہفتے بعد وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔۔۔ ان دنوں 'کتابوں کی باتیں' کے عنوان سے کالم 'ایکسپریس' میں جاری ہے، جس کے پانچ مجموعے شایع ہو چکے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ 'میں نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ میں سیاسی کالم نہیں لکھوں گا، کیوں کہ وہ تو سب لکھ رہے ہیں اور ایک آدھ کو چھوڑ کر باتیں بھی سب ایک جیسی ہی کر رہے ہیں، اس لیے میں قارئین کو اچھی کتابیں پڑھوانے کے لیے لکھتا ہوں۔'
پس منظر میں رہ کر بڑے کام کرنے والی یہ شخصیت 'رفیع الزماں زبیری'کی ہے۔۔۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اُن کا جو قد کاٹھ، بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں آنکھ کھولنے والے جانتے ہیں، ویسا شاید ہی کوئی اور جانے۔۔۔ 'ہمدرد' پاکستان کے بانی حکیم محمد سعید نے نونہالوں کی تربیت کے لیے ایک گوہر یکتا اگر مسعود احمد برکاتی کی صورت میں چُنا تھا، تو اس باب میں دوسرا اَن مول ہیرہ بلا مبالغہ رفیع الزماں زبیری ہیں۔۔۔ پچھلے ہفتے 'شخصیت' کی بیٹھک کے لیے ماضی کے اِس ''نونہال'' کو اپنے محسن کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا۔۔۔
وہ گلشن اقبال میں واقع 'کراچی اسکول آف آرٹ' کے نائب صدر ہیں، دیکھیے تو کراچی کا یہ ہزار میٹر کا ٹکڑا کتنا اہم ہے، اس میں 'شہری حکومت' کا مرکز 'سوک سینٹر'، 'ریڈیو پاکستان' اور اس کے مقابل 'ایکسپو سینٹر' ہے۔۔۔ پھر 'سوئی سدرن گیس' کی پرشکوہ عمارت ایستادہ ہے، جس سے کچھ قدم پر امراض خون کا اسپتال 'این آئی بی ڈی' 'فاران کلب'، 'محمد علی جوہر لائبریری' اور پھر ایک نجی جامعہ بھی جلوہ افروز ہے۔۔۔ اور 'کراچی اسکول آف آرٹ' بھی۔
بس وہیں یہ ہمیشہ یاد رہنے والی ملاقات ہوئی، جس میں بات سے بات نکلنے کا مرحلہ بہت کم آسکا۔۔۔ یوں کہیے کہ ہمیں اپنے سوالات پوچھنے کی ذمہ داری اچھی طرح ادا کرنے کا موقع ملا، کیوں کہ ہم نے انہیں خاصا کم گو پایا۔۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ اصل تاریخ پیدائش 13 ستمبر 1928ء ہے، اسکول میں 1931ء لکھی گئی۔۔۔ آبائی علاقہ مارہرہ (اتر پردیش) ہے، چار بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑے ہیں، ایک بھائی اقبال زبیری روزنامہ 'مشرق' کے مدیر رہے۔ والد علی گڑھ سے پڑھے اور بھوپال پولیس اور جاورہ اسٹیٹ میں ملازم رہے، 1937ء میں محض 32 سال کی عمر میں اُن کا انتقال ہوگیا۔ والدہ ممتاز رفیع ادیبہ، شاعرہ اور ماہ نامہ 'سہیلی' (لاہور) کی اعزازی مدیرہ تھیں۔
ان کا کلام بہ عنوان 'دیوان ممتاز' 1935-36ء میں چَھپا، لیکن ان کے پاس محفوظ نہیں، البتہ اُن کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کچھ چیزیں 'ہمدرد' کتب خانے میں ہیں۔ والد کی وفات کے بعد والدہ گوشہ نشیں ہوگئیں، 'سہیلی' میں باقاعدہ اس کنارہ کشی کا اعلان بھی کیا، والدہ کا سایہ سر سے اٹھا تو وہ نویں میں تھے۔۔۔ علی گڑھ سے میٹرک کے بعد وہ دہلی میں اپنی خالہ کے ہاں آگئے، جہاں چھے ماہ ایک سرکاری ملازمت کی، 'آل انڈیا ریڈیو' میں خبروں کا ترجمہ بھی کرنے لگے، دلی میں مسلم لیگ کے اخبار 'منشور' میں 'سب ایڈیٹر' بھی رہے، جہاں ہر 'سب ایڈیٹر' ایک ایک ماہ کے لیے 'نیوز ایڈیٹر' بنتا تھا، بٹوارے کے ہنگام میں یہ کمان اُن کے سپرد تھی، خالو سرکاری افسر تھے، پھر ان کی مدد سے براستہ ہوائی جہاز کراچی آگئے۔
وہ 'مرحلۂ ہجرت' سے سرسری سے گزر گئے، ہم نے مزید کریدا تو بتایا کہ 'چھے ستمبر 1947ء کو جب دلی کے حالات بہت خراب ہوگئے، تو انہیں ایک مسلمان انسپکٹر حفاظت کی غرض سے تھانے لے گیا، دو راتیں وہاں گزریں، اس کے بعد 'پرانے قلعے' منتقل کر دیا گیا، پھر ایک رات دلی ائیر پورٹ پر بھی بسر ہوئی اور یوں 13 ستبمر 1947ء کو اپنی سال گرہ کے روزکراچی اترے۔
رفیع الزماں زبیری کے بقول وہ اسکول کے زمانے سے 'مسلم لیگ' سے وابستہ تھے، اپنی یادداشتوں (یادوں کے دریچے) میں سارے واقعات درج کیے ہیں۔ کانگریسی راہ نما جواہر لعل نہرو کو ہندوستان کے علاوہ کراچی میں بھی دیکھا، البتہ موہن داس گاندھی کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ قائداعظم کے ساتھ تو 'بچہ مسلم لیگ' کے رکن کے طور پرتصویر بھی ہے۔۔۔ ہم نے اُس وقت دلی کے پاکستان میں شامل ہونے نہ ہونے کا تاثر ٹٹولا، وہ بولے کہ مجھے معلوم تھا کہ دلی پاکستان میں شامل نہیں ہوگا۔
وہ بتاتے ہیں کہ کراچی میں روزنامہ 'انجام' سے جُڑے اور پھر روزنامہ 'ڈان' (اردو) سے منسلک ہوگئے، جہاں قائد اعظم کے انتقال کی خبر اور وہ پہلا پورا صفحہ انہوں نے ہی تیار کیا۔ چھے ماہ 'ائیر انڈیا' میں بھی کام کیا، جو بمبئی اور کراچی کے درمیان پروازیں چلا رہی تھی، اس وقت یہ نجی ملکیت میں تھی۔ ڈیڑھ برس برطانوی خبر ایجینسی 'اسٹار' کے لیے بھی خدمات انجام دیں اور اس کے بعد پھر 1951ء میں 'ریڈیو پاکستان' کے شعبۂ خبر سے بطور مترجم وابستہ ہو گئے۔
1951ء لیاقت علی خان کی شہادت کا برس بھی تھا، ہم نے ذکر کیا، تو وہ بولے کہ 'ریڈیو پر فرائض کی ادائی کے دوران ہی یہ سانحہ ہوا۔۔۔گولی لگنے کے بعد ان کے آخری الفاظ بھی سنے، انہوں نے اپنے سیکریٹری نواب صدیق علی خان سے کہا 'نواب صاحب گولی لگ گئی ہے۔۔۔ اللہ پاکستان کی حفاطت کرے!' آپ سوچ سکتے ہیں کہ مجھ پر کیا گزری ہوگی، میں نے تو انہیں بہت قریب سے دیکھا ہوا ہے۔
'ریڈیو پاکستان' پر دوران ملازمت رفیع الزماں زبیری نے 'اسلامیہ کالج' سے انٹر اور جامعہ کراچی سے 'بی اے' کیا۔۔۔ 1959ء میں ان کا تبادلہ پنڈی میں ہوگیا، جہاں 1964ء تک رہے، اس دوران ترقی ہوتی رہی، اسلام آباد میں 'براڈ کاسٹنگ ہاؤس' قائم ہوا، تو وہاں بھی کنٹرولر رہے۔ ذوالفقار بھٹو اور جنرل ضیا کے ساتھ بیرون ملک سفر بھی کیے، جنرل ضیا کے ساتھ مسجد نبوی میں سنہری جالیوں کے پار 'مرقد رسولﷺ' تک رسائی کا شرف بھی ملا!
ہم نے 1958ء میں ملک کے پہلے مارشل لا کے ریڈیو کے حوالے سے تجربات کھنگالنا چاہے، تو انہوں نے بس اتنا بتایا کہ آخری 'خبرنامہ' آٹھ بجے ہوتا تھا، جس کے بعد وہ چلے جاتے تھے، کہتے ہیں کہ مارشل لا لگا، تو بازاروں میں بغیر ڈیوٹی کے آیا ہوا مال نہایت سستے داموں فروخت ہوا، یہ بات بھی پھیل گئی تھی کہ اب کوئی غلط کام نہیں ہو سکتا۔
رفیع الزماں زبیری سے ریڈیو پر سامعین سے مخاطب ہونے کا پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ غالباً ایوب خان کے زمانے میں ایک مرتبہ 'نیوز ریڈر' نہ آسکے، تو انہیں براہ راست خبریں پڑھنا پڑی تھیں، ورنہ شکیل احمد اور انور بہزاد وغیرہ یہ کام کرتے، میرا کا م تو ترجمہ تھا، تاہم حالات حاضرہ کے پروگراموں میں 'میزبان' کے طور پر شریک ہوتا رہا، جس میں سیاست دانوں کے بہ جائے ماہرین اور دانش وَر مدعو ہوتے۔۔۔ 1965ء کی جنگ پر میں کوئٹہ اسٹیشن میں متعین تھا، جہاں جنرل ایوب خان کے قوم سے خطاب کا اعلان بھی میں نے ہی کیا۔
1950ء کی دہائی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے رفیع الزماں بتاتے ہیں کہ 'محمد علی بوگرہ امریکا میں پاکستانی سفیر تھے، جب وہ وزیراعظم بنے، تو انہوں نے امریکی صدر کے ماہانہ خطاب سے متاثر ہو کر یہاں ہر ماہ تقریر شروع کی، جس کا ترجمہ کرنے میں وزیراعظم ہاؤس (جو اب وزیراعلیٰ ہاؤس ہے) جاتا، حتیٰ کہ ایک مرتبہ وہ علیل تھے، تو میں نے ان کی خواب گاہ میں بیٹھ کر ان کی تقریر کا ترجمہ کیا، وہ تقریر انگریزی میں املا کراتے، جو ٹائپ ہو کر آتا جاتا اور میں اسے اردو کے قالب میں ڈھالتا۔ پھر وہ تقریر نشر کرنے کے لیے 'ریڈیو پاکستان' آتے، تو اُن کے انگریزی خطاب کے فوراً بعد سامنے بیٹھے ہوئے بخاری صاحب اس کا ترجمہ پڑھتے۔
رفیع الزماں کہتے ہیں کہ 'ریڈیو پرکبھی کوئی بڑی غلطی سرزد نہیں ہوئی۔ 'ریڈیو پاکستان' پر پابندیوں کے استفسار پر وہ بولے کہ ہم بس کوئی ایسی بات نہیں کرتے تھے، جس سے حکومت مشکل میں آجائے، وہاں پورا ایک نظام ہوتا تھا، پھر بھی کچھ پوچھنا پڑتا، تو ہم سیکریٹری اطلاعات یا وزیر اطلاعات کو بھی فون کر لیتے تھے۔
ہم نے روکی جانے والی خبروں کا پوچھا، تو وہ بہت سوچ کے بولے کہ 'کیا بتاؤں میں آپ کو۔۔۔ بہت سی خبریں ایسی آتی تھیں، جو ہم نہیں دے سکتے تھے۔۔۔'
سینئر وزیر جے اے رحیم کی سبکدوشی کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 'ہوا یوں کہ ایک عشائیے میں انہوں نے کہہ دیا کہ یہ کیا طریقہ ہے کہ ہم سب بیٹھے ہوئے ہیں اور وزیراعظم اب تک نہیں آئے! یہ بات کسی نے بھٹو تک پہنچا دی، نتیجتاً انہیں اسی رات برخاست کر دیا۔۔۔! ہمیں خبر دی گئی کہ ''جے اے رحیم کو برطرف کر دیا گیا ہے!'' میں یہ چاہتا تھا کہ ایسا لفظ استعمال کریں، جس سے ہتک نہ ہو۔ یہ کہہ دیا جائے کہ انہیں ریلیف کر دیا گیا ہے، لیکن کہا گیا کہ اس خبر کا ایک لفظ بھی نہیں بدلنا۔۔۔!
''کبھی کوئی غلط خبر دینے کی ہدایت ملی؟'' ہمارے اس سوال پر وہ بولے کہ 'ریڈیو پاکستان' پر خبر سے گریز ضرور کیا گیا، لیکن کبھی جھوٹ یا غلط خبر نہیں دی۔ یہ حکومتی ادارہ ہے، اس لیے بہت سی چیزوں کا اعلان کرتے ہوئے دھیان رکھا جاتا ہے، جیسے ذوالفقار بھٹو کو پھانسی ہوئی، تو مجھے فجر کے وقت فون کر کے بلایا گیا، پہنچا تو یہ خبر آچکی تھی، چوں کہ گڑبڑ کا اندیشہ تھا، اس لیے تدفین کے بعد یہ خبر نشر کی گئی کہ 'اِس اِس طرح انہیں پھانسی دے کر تدفین کر دی گئی ہے!'
اُس زمانے کے اور آج کے 'ریڈیو پاکستان' کے فرق کے سوال پر وہ بے ساختہ بولے اب تو مجھے یہی انداز نہیں پڑتا کہ ہے بھی یا نہیں! اب تو بہت ساری چیزیں ہیں، تب خبروں کا یہی ایک بڑا ذریعہ تھا، اخبار بھی تھے، مگر ریڈیو کی رسائی زیادہ دور تک تھی۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ 1983ء میں ریڈیو سے ریٹائرمنٹ کے لیے درخواست دی، لیکن مجھے چھے ماہ بعد مجھے دوبارہ بلالیا گیا، یوں 1987ء تک ریڈیو پاکستان کے 'کنٹرولر نیوز' اور 'چیف رپورٹر' کے عہدے پر تعینات رہا۔
'سیرت طیبہ' کے ڈھائی لاکھ نسخے شایع ہوئے۔۔۔!
رفیع الزماں زبیری کہتے ہیں کہ میں نے حکیم محمد سعید کے نام سے پانچ جلدوں میں بچوں کے لیے 'سیرت طیبہ' مرتب کی، میں چاہتا تھا کہ ان کا نام دیکھ کر لوگ لیں اور جب تک میں وہاں تھا، تب تک اس کے ڈھائی لاکھ نسخے شایع ہو چکے تھے، پتا چلا کہ بہت سے مدارس کے طلبہ کو انعام میں وہ مجموعہ دیا جا رہا ہے۔۔۔ پھر اس کا انگریزی ترجمہ کیا، تو اسے اپنا نام دیا۔
ہم نے ''نونہال ادب'' کے ساتھ ایک اور سلسلے ''نوجوان ادب'' کا ذکر کیا، جس کے تحت شایع ہونے والی حکیم سعید کی کتابوں کی زبان اور بھی بے باک تھی، وہ بولے کہ یہ بھی ان کا تصور تھا کہ تھوڑے سے بڑے بچوں کے لیے بھی کتابیں ہونا چاہئیں۔
رفیع زبیری صاحب کا خیال ہے کہ حکیم محمد سعید کے قاتل بہت ماہر اور پیشہ وَر تھے، وہ کہتے ہیں کہ 'ہمدرد' میں ہفتے کو چھٹی ہوتی تھی، ہفتہ 17 اکتوبر 1998ء صبح دس، گیارہ بجے انہیں گھر میں حکیم سعید کے قتل کی خبر ملی۔۔۔ حکیم سعید کے آخری سفرنامہ بہ عنوان ''استنبول کا آخری سفر'' شایع ہوا، جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ایک دن یہ آئے گا کہ امریکا اسامہ بن لادن کو پاکستان سے نکلوائے گا اور پھر وہی ہوا۔ ہم نے انہی کے خواب کے مطابق 'نونہال بک کلب' قائم کیا، جس کیے ذریعے بچوں کو گھر بیٹھے 25 فی صد رعایت پر کتابیں پہنچائی جاتی تھیں، وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔۔۔ میں بتا نہیں سکتا کہ وہ کتنے اچھے اور نفیس آدمی تھے۔۔۔'
یہاں پہنچ کر ہمیں اپنی ساری زندگی لفظ سنوارنے اور نکھارنے میں تج دینے والے رفیع الزماں زبیری جذبات کے اظہار سے معذور سے دکھائی دیے۔۔۔
''نونہال ادب'' کے تحت تقریباً 400 کتابیں شایع کرائیں!
'ادارۂ ہمدرد' سے وابستگی رفیع الزماں زبیری کی زندگی کا ایک اہم باب ہے، وہ بتاتے ہیں کہ جب 'ریڈیو پاکستان' اسلام آباد سے ریٹائرمنٹ لے کر کراچی آیا، تو پہلے سردار اطہر کے ایک ہفتہ وار پرچے میں گیا، چار، چھے ماہ بعد 'کاٹن ایکسچینج' میں 'سیکریٹری' کی مسند قبول کی، جب 'ریڈیو' نے دوبارہ بلالیا، تو 'کاٹن ایکسچینج' میں معذرت کی، لیکن وہ نہ مانے تو چھے ماہ بہ یک وقت دونوں جگہ کام کیا۔
1987ء میں جب ریڈیو چھوڑا، تو ہفت روزہ 'تکبیر' کے مدیر صلاح الدین کے توسط سے 'موسمِ حج' میں دو ماہ کے لیے جدہ سے نکلنے والے اردو اخبار 'عکاظ' کا مدیر ہوگیا، پھرکراچی لوٹا تو ایک تقریب میں حکیم محمد سعید ملے، کہنے لگے کہ آپ ہمارے ساتھ آجائیے، میں ''نونہال ادب'' کے نام سے بچوں کا ایک شعبہ قائم کرنا چاہتا ہوں، میں نے کہا اس کا تو مجھے کچھ پتا نہیں، تو وہ بولے کہ نہیں، نہیں مجھے پتاہے آپ کر سکتے ہیں۔ میں آپ کو لکھ کر بھیج دوں گا کہ میں کیا چاہتا ہوں، دوسرے دن پوری تفصیل پروٹوکول افسر میرے پاس لے آئے۔ مجھے یہ کام دل چسپ لگا۔۔۔'
''کیا لکھا تھا اس میں۔۔۔؟'' اس لمحے ہمارے اندر ''نونہال ادب'' کا قاری جاگ اٹھا۔
وہ بولے کہ 'لکھا تھا کہ 'میں پریشان ہوں کہ یہاں بچوں کے لیے کتابیں نہیں ہیں۔۔۔ میں ایسی کتابیں شایع کرنا چاہتا ہوں جو ان کی تعلیم وتربیت، ادبی ذوق اور تفریح کا اہتمام کریں۔' یوں 1988ء میں، میں 'ہمدرد' سے وابستہ ہوگیا، میں نے کہا کہ مجھے آپ سے کچھ مشورہ کرنا ہے کہ یہ کتابیں کس سے لکھوائیں گے، ان کا سائز، طباعت واشاعت اور قیمت وغیرہ کیا ہوگی۔
جب وقت لینے کے لیے انہیں فون کیا تو وہ کہنے لگے کہ آپ نہیں آئیں، میں آئوں گا آپ کے کمرے میں، پھر وہ آئے، مدیر ہمدرد 'نونہال' مسعود احمد برکاتی کو بھی بلا لیا، اور دس، پندرہ منٹ میں میرے کہنے کے مطابق ساری چیزیں طے کر دیں۔ میں نے کہا کہ مجھے ایک کاتب بھی چاہیے، میں نے سنا ہے کہ آپ کاتب کی اجازت نہیں دیتے، وہ بولے کہ میں نے آپ کو کب منع کیا ہے! پھر میں نے ایک کاتب بھی رکھا اور یوں ہمدرد کے ''نونہال ادب'' کا سلسلہ شروع ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ اُس وقت بچوں کے لیے مسعود احمد برکاتی کا ایک سفرنامہ ''دو مسافر دو ملک'' شایع ہو چکا تھا، میں نے حکیم سعید کے ایک سفر میں سے ترکی کا احوال چُنا اور اُسے بچوں کے لیے از سرنو لکھا اور بہ عنوان ''یہ ترکی ہے'' شایع کر دیا۔۔۔ پھر ان کے سفرناموں کو ''سعید سیّاح'' کا عنوان دیا، جو انہیں بہت بھایا، جیسے 'سعید سیاح امریکا میں'، 'سعید سیاح جاپان میں' وغیرہ۔ ہم نے 'ہمدرد' سے بچوں کے لیے 400 کتابیں شایع کرائیں۔۔۔ جس میں کہانیاں، ترجمے اور حکیم سعید کے سفرنامے وغیرہ شامل ہیں۔ حکیم سعید کا تعریفی نوٹ میرے پاس محفوظ ہے، جس میں انہوں نے مجھے لکھا کہ 'جیسی کتابیں آپ نے میری چھاپی ہیں، کوئی اورنہیں چھاپ سکتا!' حکیم سعید کے قتل کے چار سال بعد جب 'ہمدرد' سے مستعفی ہوا تو ''نونہال ادب'' کا وجود بھی سمٹتا چلا گیا۔
'ہمدرد' چھوڑا تو سعدیہ راشد ایک سال خفا رہیں!
رفیع الزماں زبیری کے بقول 1949ء میں ان کی شادی اپنے رشتے داروں میں طے پائی، وہ دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد ہیں، صاحب زادے نہال اختر کورنگی 'ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری' کے سیکریٹری ہیں۔ ان دنوں رفیع الزماں اپنی خواہر نسبتی کی بیٹی رابعہ زبیری کے 'کراچی اسکول آف آرٹ' کے نائب صدر ہیں، کہتے ہیں کہ 'اسکول' سے وابستگی اوائل سے ہے، لیکن عملی تعلق 2001ء کے بعد قائم ہوا۔ میں آرٹسٹ نہیں ہوں، بس فنون کی خدمت کرتا ہوں۔ 'ہمدرد' چھوڑنے کا سبب وہ اہلیہ کی علالت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے باوجود حکیم محمد سعید کی صاحب زادی سعدیہ راشد مُصر تھیں کہ میں 'ہمدرد یونیورسٹی' کی 'کوآپریٹو سوسائٹی' کے سیکریٹری کا عہدہ برقرار رکھوں، لیکن میں بالکل وقت نہیں دے سکتا تھا، جس پر وہ مجھ سے ایک سال تک خفا رہیں۔ وہ یہ چاہتی تھیں کہ میں ہمدرد اسکول بھی سنبھالوں۔ حکیم سعید کی یہ عادت تھی، کہ جب وہ کسی کو سمجھ لیتے، تو پھر اسے چھوڑتے نہیں تھے، اگر مطمئن نہ ہوتے تو کہتے کہ ان کا حساب چُکتا کر دیں۔
یہ طے کیا ہوا ہے کہ سیاسی 'کالم' نہیں لکھوں گا
رفیع الزماں زبیری بتاتے ہیں کہ 'ریڈیو پاکستان' سے وابستگی کے دوران وہ باقاعدہ کسی اخبار سے تو وابستہ نہ رہے، لیکن 1960ء کی دہائی میں 'مشرق' میں اپنے گھر کے نام 'فیروز اختر' سے کالم لکھتے رہے، یہ چین کے بانی مائوزے تنگ کے مشہور 'لانگ مارچ' کے حوالے سے ایک کتاب کا ترجمہ تھا، جو بلاناغہ شایع ہوتا۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ اپنے کالم بھی لکھے، 'مشرق' میں کالموں کا معاوضہ ماہانہ چار، پانچ سو روپے تھا، پھر 1998ء میں کراچی سے روزنامہ 'ایکسپریس' کا اجرا ہوا، تو اس کے پہلے مدیر نیر علوی کے کہنے پر اس میں کالم نگاری شروع کی۔
ہفتے میں ایک سے دو کالم شایع ہوتے، جس کی ادائی کالم کے حساب سے کی جاتی، یہ سلسلہ 2001ء میں نیر علوی کے انتقال تک جاری رہا۔ 'ایکسپریس' کے پہلے مدیر نیر علوی ان کے داماد تھے، کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ عمرے پر گئے، جہاں سے واپس آنے کے ایک ہفتے بعد وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔۔۔ ان دنوں 'کتابوں کی باتیں' کے عنوان سے کالم 'ایکسپریس' میں جاری ہے، جس کے پانچ مجموعے شایع ہو چکے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ 'میں نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ میں سیاسی کالم نہیں لکھوں گا، کیوں کہ وہ تو سب لکھ رہے ہیں اور ایک آدھ کو چھوڑ کر باتیں بھی سب ایک جیسی ہی کر رہے ہیں، اس لیے میں قارئین کو اچھی کتابیں پڑھوانے کے لیے لکھتا ہوں۔'