پیپلزپارٹی نے خودسانحہ کارسازکاتحقیقاتی ٹریبونل ختم کردیا
اہم معلومات مل رہی تھیں،کام کرنے دیاجاتاتوحقائق پتہ چل سکتے تھے،جسٹس غوث
6سال مکمل ہونے کے باوجودسانحہ کارسازکی تحقیقات نہیں ہوسکیں کیونکہ اس حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماوں میں اختلاف پایاجاتاہے۔
اسی وجہ سے حکومت میں ہونے کے باوجودپیپلزپارٹی اپنی چیئرپرسن پرہونیوالے حملے کے ذمے داران کا سراغ نہیں لگا سکی بلکہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے2008میں پہلا حکم ہی کارساز سانحہ کی تحقیقات کرنیوالے عدالتی ٹریبونل کو بندکرنے کے لیے جاری کیاحالانکہ ٹریبونل کے سربراہ کا کہناہے کہ بے نظیر بھٹوکے سیکیورٹی ایڈوائزرمیجر جنرل(ر)احسان احمدکابیان انتہائی اہمیت کا حامل تھا،اگر ٹریبونل ختم نہیں کیاجاتاتوحملہ آوربے نقاب ہوسکتے تھے۔سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے جسٹس(ر)ڈاکٹرغوث محمد کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی ٹریبونل قائم کردیاتھاجس نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو بھی گواہی کیلیے طلب کیا مگر ذوالفقار مرزا، سراج درانی،ناہید خان سمیت سیاسی رہنماؤں نے ٹریبونل کی کارروائی میں شریک ہونے سے گریزکیا۔
جبکہ بینظیرکے سیکیورٹی ایڈوائزر میجر جنرل ریٹائرڈ احسان احمدشریک ہوئے اوراپنا بیان قلمبند کرایا۔اس وقت پیپلزپارٹی سندھ کے صدرقائم علیشاہ نے ٹریبونل کی کارروائی کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی،ذوالفقارمرزانے 2001 میں کہاتھا کہ :سانحہ کارساز کی تحقیقات میں رحمٰن ملک رکاوٹ ہیں جنھوں نے صدرزرداری کو گمراہ کیا،ٹریبونل کے پراسیکیوٹر ارشدلودھی نے ایکسپریس کو بتایا کہ ٹریبونل نے42گواہوں کے بیانات قلمبند کیے تھے جن میں کئی پولیس افسران،ڈاکٹرز،ایم ایل اوزاور دیگرافراد شامل تھے، ٹریبونل کے سربراہ جسٹس (ر)غوث محمدنے کہا کہ بینظیر بھٹوکے سیکیورٹی ایڈوائزراوران کے قافلے کے سیکیورٹی انچارمیجرجنرل(ر)احسان احمد کابیان انتہائی اہمیت کاحامل تھا۔
جس میں انھوں نے نشاندہی کی تھی کہ ''ان کی گاڑی بے نظیر بھٹوکے فلوٹ کے ساتھ چل رہی تھی،دھماکے سے کچھ دیر قبل انھیں ایک فون کال موصول ہوئی اوربتایاگیا کہ فلوٹ کے اطراف نصب جیمرزکام نہیںکررہے،استفسارپرآئی جی نے کہاکہ جیمرززنگ آلودہیں اس لیے شاید کام نہیں کررہے'' ۔جسٹس(ر)غوث محمد نے بتایا کہ اگرٹریبونل کوکام کرنے دیاجاتا تو بلاشبہ حملہ آوروں کی نشاندہی ہوجاتی کیونکہ اہم معلومات سامنے آرہی تھیں،مارچ2008میں پیپلزپارٹی کی حکومت آتے ہی ٹریبونل کوختم کردیاگیا۔
جسٹس(ر)غوث محمد کا کہنا تھا کہ ٹریبونل نے زخمیوں اورجاں بحق ہونے والوں کی طبی رپورٹس بھی حاصل کیں جس سے خاصی مددملی،بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم نے بھی ان کابیان ریکارڈ کیاجس میں انھوں حقائق بیان کر دیے تھے،اقوام متحدہ کی ٹیم تحقیقاتی ریکارڈبھی دیکھناچاہتی تھی مگریہ ریکارڈ ٹریبونل ختم ہوتے ہی محکمہ داخلہ کو بھجوا دیاگیا تھا،اقوام متحدہ کی ٹیم نے پیپلزپارٹی کی حکومت سے بھی اس ریکارڈ کے معائنہ کیلیے رابطہ کیاتھا،اس قافلے پرحملہ ایک بڑی سازش تھی جس کے بعددسمبرمیں بینظیربھٹوکوقتل کردیاگیا،دونوں واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑی لگتے ہیں،حیرت کی بات یہ تھی کہ پولیس افسران کا کہناتھا کہ وہ بے بس تھے کیوں کہ سیکیورٹی پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی سرکردگی میں جانثاران بینظیرکے پاس تھی،اگرایساہے تویہ سوال بھی اہم تھاکہ جانثاروں کے لباس میں کوئی بھی داخل ہوسکتاتھا۔
اسی وجہ سے حکومت میں ہونے کے باوجودپیپلزپارٹی اپنی چیئرپرسن پرہونیوالے حملے کے ذمے داران کا سراغ نہیں لگا سکی بلکہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے2008میں پہلا حکم ہی کارساز سانحہ کی تحقیقات کرنیوالے عدالتی ٹریبونل کو بندکرنے کے لیے جاری کیاحالانکہ ٹریبونل کے سربراہ کا کہناہے کہ بے نظیر بھٹوکے سیکیورٹی ایڈوائزرمیجر جنرل(ر)احسان احمدکابیان انتہائی اہمیت کا حامل تھا،اگر ٹریبونل ختم نہیں کیاجاتاتوحملہ آوربے نقاب ہوسکتے تھے۔سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے جسٹس(ر)ڈاکٹرغوث محمد کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی ٹریبونل قائم کردیاتھاجس نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو بھی گواہی کیلیے طلب کیا مگر ذوالفقار مرزا، سراج درانی،ناہید خان سمیت سیاسی رہنماؤں نے ٹریبونل کی کارروائی میں شریک ہونے سے گریزکیا۔
جبکہ بینظیرکے سیکیورٹی ایڈوائزر میجر جنرل ریٹائرڈ احسان احمدشریک ہوئے اوراپنا بیان قلمبند کرایا۔اس وقت پیپلزپارٹی سندھ کے صدرقائم علیشاہ نے ٹریبونل کی کارروائی کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی،ذوالفقارمرزانے 2001 میں کہاتھا کہ :سانحہ کارساز کی تحقیقات میں رحمٰن ملک رکاوٹ ہیں جنھوں نے صدرزرداری کو گمراہ کیا،ٹریبونل کے پراسیکیوٹر ارشدلودھی نے ایکسپریس کو بتایا کہ ٹریبونل نے42گواہوں کے بیانات قلمبند کیے تھے جن میں کئی پولیس افسران،ڈاکٹرز،ایم ایل اوزاور دیگرافراد شامل تھے، ٹریبونل کے سربراہ جسٹس (ر)غوث محمدنے کہا کہ بینظیر بھٹوکے سیکیورٹی ایڈوائزراوران کے قافلے کے سیکیورٹی انچارمیجرجنرل(ر)احسان احمد کابیان انتہائی اہمیت کاحامل تھا۔
جس میں انھوں نے نشاندہی کی تھی کہ ''ان کی گاڑی بے نظیر بھٹوکے فلوٹ کے ساتھ چل رہی تھی،دھماکے سے کچھ دیر قبل انھیں ایک فون کال موصول ہوئی اوربتایاگیا کہ فلوٹ کے اطراف نصب جیمرزکام نہیںکررہے،استفسارپرآئی جی نے کہاکہ جیمرززنگ آلودہیں اس لیے شاید کام نہیں کررہے'' ۔جسٹس(ر)غوث محمد نے بتایا کہ اگرٹریبونل کوکام کرنے دیاجاتا تو بلاشبہ حملہ آوروں کی نشاندہی ہوجاتی کیونکہ اہم معلومات سامنے آرہی تھیں،مارچ2008میں پیپلزپارٹی کی حکومت آتے ہی ٹریبونل کوختم کردیاگیا۔
جسٹس(ر)غوث محمد کا کہنا تھا کہ ٹریبونل نے زخمیوں اورجاں بحق ہونے والوں کی طبی رپورٹس بھی حاصل کیں جس سے خاصی مددملی،بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم نے بھی ان کابیان ریکارڈ کیاجس میں انھوں حقائق بیان کر دیے تھے،اقوام متحدہ کی ٹیم تحقیقاتی ریکارڈبھی دیکھناچاہتی تھی مگریہ ریکارڈ ٹریبونل ختم ہوتے ہی محکمہ داخلہ کو بھجوا دیاگیا تھا،اقوام متحدہ کی ٹیم نے پیپلزپارٹی کی حکومت سے بھی اس ریکارڈ کے معائنہ کیلیے رابطہ کیاتھا،اس قافلے پرحملہ ایک بڑی سازش تھی جس کے بعددسمبرمیں بینظیربھٹوکوقتل کردیاگیا،دونوں واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑی لگتے ہیں،حیرت کی بات یہ تھی کہ پولیس افسران کا کہناتھا کہ وہ بے بس تھے کیوں کہ سیکیورٹی پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی سرکردگی میں جانثاران بینظیرکے پاس تھی،اگرایساہے تویہ سوال بھی اہم تھاکہ جانثاروں کے لباس میں کوئی بھی داخل ہوسکتاتھا۔