پولیس اصلاحات وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی توجہ کی منتظر
پولیس کے حوالے سے وفاقی و صوبائی حکومت مسلسل شدید تنقید کا شکار ہے۔
پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے برسر اقتدار آنے والی ہر جمہوری اور آمرانہ حکومت عوام کو ''تھانہ کلچر'' کی تبدیلی کی لال بتی ضرور دکھاتی رہی ہے، بڑے بلندوبانگ دعوے کیئے جاتے لیکن پھر اپنے اقتدار کو طول دینے اور سیاسی مخالفین کو قابو میں کرنے کیلئے پولیس کو استعمال کرنا روایت بن چکی۔
سابق صدر پرویز مشرف نے بحیثیت چیف ایگزیکٹو پولیس اصلاحات میں کچھ دیر کیلئے سنجیدگی دکھائی اور پولیس آرڈر2002 ء بنایا لیکن اپنے اقتدار کو ''جائز'' قرار دلوانے کیلئے جب انہوں نے روایتی سیاستدانوں کا سہارا لیا تو پولیس آرڈر2002 مکمل حالت میں نافذ نہ ہو سکا اور نہ ہی اس کے رولز بنائے جا سکے۔ یہ آج بھی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کی صورت میں موجود ہے۔ پولیس کو سیاست سے پاک کرنے اور اسے ایک منظم پیشہ ور قانون نافذ کرنے والے عوام دوست ادارے میں تبدیل کرنے کیلئے جس قدر سنجیدگی عمران خان نے حکومت بنانے سے قبل دکھائی تھی وہ دوسرے سیاستدان نہیں کر سکے۔
یہی وجہ ہے کہ آج عمران خان پر اور بالخصوص پنجاب حکومت پر پولیس کلچر کے حوالے سے سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے انتخابی منشور کے مطابق پولیس کو سیاست سے پاک ادارہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ پنجاب اس حوالے سے زیادہ تنقید کا شکار ہے کہ یہاں پولیس کی جانب سے اختیارات سے تجاوز، غیر قانونی حراست میں تشدد سے اموات اور بے گناہ شہریوں کے قتل کے متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے حکومت کی ساکھ کو شدید متاثر کیا ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ آج بھی اقتدار کے ایوانوں میں یہ بحث جاری ہے کہ پولیس کو سول بیوروکریسی کے ماتحت کیا جائے یا پھر خودمختار رہنے دیا جائے۔
حیران کن اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب پولیس کے حوالے سے وفاقی و صوبائی حکومت مسلسل شدید تنقید کا شکار ہے اس کے پاس اپنے دفاع کیلئے ایک موثر پولیس اصلاحات کا منصوبہ موجود ہے لیکن نجانے کیوں حکومت اسے گزشتہ کئی ماہ سے زیر غور نہیں لا رہی ہے جبکہ یہ منصوبہ اتنا جامع اور موجودہ پولیس تقاضوں سے ہم آہنگ ہے کہ اسے نافذ کر کے پولیس کلچر میں ایک واضح تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
لاہور پولیس کے سربراہ بی اے ناصر نے اپنے ساتھی افسروں کے ساتھ طویل تحقیق اور مشاورت اور ٹوکیو، نیو دہلی، نیویارک اور لندن میٹرو پولیس سسٹم کا جائزہ لینے کے بعد لاہور پولیس میں بنیادی اصلاحات کیلئے ''STRATEGIC DEVELOPMENT PLAN FOR CAPITAL PLICE 2019-2023 ''تیار کر کے حتمی منظوری کیلئے ایوان وزیر اعلی کو فروری 2019 سے ارسال کررکھا ہے۔
میڈیا اور عوام پولیس پر جو تنقید کرتے ہیں وہ بہت حد تک درست ہوتی ہے لیکن من حیث القوم ہم لوگ اس بات کو دانستہ طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ پولیس اپنے کچھ لوگوں کی وجہ سے اگر ''ظالم'' قرار دی جاتی ہے تو دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس بطور ادارہ''مظلوم'' بھی ہے۔ سیاسی مداخلت کا تعفن اس میں رچ بس چکا ہے، پولیس کے مجموعی بجٹ کا 87 فیصد تنخواہوں میں چلاجاتا ہے اور صرف 13 فیصد پولیسنگ کے آپریشنل امور پر خرچ ہوتا ہے ، مثال کے طور پر اگر لاہور پولیس کیمجموعی بجٹ کو لاہور کی کل آبادی پر تقسیم کیا جائے تو فی شہری 7.42 ڈالر خرچ ہوتے ہیں جبکہ بھارتی پنجاب میں فی کس 16 ڈالر، ترکی میں 135، ہانگ کانگ میں 630 اور لند ن میں 754 ڈالر فی کس سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔
مقدمات کے تفتیشی اخراجات کی رقم موجودہ دور میں اخراجات اور مہنگائی کے تناسب سے کسی طور مطابقت نہیں رکھتی ۔2002 ء میں مقدمات کی تفتیش کیلئے طے کردہ لاگت میں ابتک 137 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، تجویز کردہ پولیس پلان میں سفارش کی گئی ہے کہ کاسٹ آف انویسٹی گیشن کو بڑھایا جائے، قتل اور اغواء برائے تاوان کیس کی تفتیش کیلئے مقررہ 20 ہزار روپے کو بڑھا کر 47400 روپے جبکہ اقدام قتل کیس کی رقم 7 ہزار سے بڑھا کر 16590 روپے کی جائے۔
ڈکیتی، راہزنی کیس کے تفتیشی اخراجات 11 ہزار سے بڑھا کر 26070 روپے کیئے جائیں، پولیس کے پاس موجود مجموعی ٹرانسپورٹ میں سے 60 فیصد سے زائد موٹر وہیکلز ناقابل استعمال ہو چکی ہیں یا پھر اپنی تکنیکی مدت مکمل کر چکی ہیں، سینکڑوں تھانے خستہ حالت میں ہیں یا پھر ان کی اپنی ملکیتی عمارت ہی موجود نہیں ہے، پولیس رولز 1934 میں ہر 450 افراد کیلئے ایک پولیس اہلکار لازم قرار دیا گیا ہے جبکہ عالمی معیار یہ ہے کہ ہر 300 افراد کیلئے ایک پولیس اہلکار ہونا چاہئے لیکن لاہور میں ہر 571 شہریوں کیلئے ایک پولیس اہلکار موجود ہے۔ پولیس لائنز کی قلت اور وہاں سہولیات کے فقدان کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کی بیرکس''پناہ گزیں کیمپ'' کا منظر پیش کرتی ہیں،16 گھنٹے بلکہ اس سے بھی طویل یومیہ ڈیوٹی دینے والا پولیس اہلکار کرپٹ، چرچڑا، بدمزاج اور کام چور نہ ہو تو پھر کیا ہو لیکن پولیس کے نقاد اپنے ترکش سے جب بھی تیر چلاتے ہیں تو ان کا ہدف مجموعی بجٹ ہوتا ہے۔
بی اے ناصر کا شمار پولیس سروس کے ان گنے چنے افسروں میں ہوتا ہے جو جدید دور کی پولسینگ کے حوالے سے تحقیقی اور تخلیقی کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بی اے ناصر نے جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں کام کرنے کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں جدید ترین پولیسنگ کے کورس کیئے ہیں اور اپنے انہی تمام تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے بطور پائلٹ پرا جیکٹ ''لاہور پولیس کا پانچ سالہ منصوبہ'' تیار کیا ہے جس میں انہوں نے نہایت تفصیل کے ساتھ جرائم میں اضافہ کی وجوہات، قوانین اور سزاؤں میں سقم، عوام کے ساتھ پولیس کے غیر اخلاقی برتاو اور پولیس میں اختیارات سے تجاوز کو روکنے کیلئے اقدامات، پولیس فورس کے پیشہ ورانہ ڈسپلن کو قائم کرنے، ان کے مسائل کے خاتمہ، فورس کی فلاح و بہبود، پولیس فورس کے انفرا سٹرکچر کی موجودہ کمزوریوں اور ان کے حل کیلئے مستقبل کی منصوبہ بندی سمیت تمام ملک کے دوسرے بڑے شہر اور پنجاب حکومت کے دارالحکومت لاہور میں جرائم کی روک تھام، پولیس انفراسٹراکچر کی تنظیم نو، شہریوں اور پولیس کے باہمی روابط میں بہتری، پولیس کے اندرونی و بیرونی احتساب اور عوامی شکایات کے ازالہ اورقانونی ترامیم سمیت مختلف جرائم کی سزاوں میں اضافہ کیلئے قابل عمل اور مفید تجاویز دی ہیں۔
پولیس پلان کے تحت پولیس سے متعلقہ شہریوں کی شکایات کے ازالہ کیلئے پولیس آرڈر کے تحت وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر پبلک سیفٹی کمیشن کے ساتھ پولیس کمپلینٹ اتھارٹیز اور سٹیزن پولیس لائزان کمیٹیوں کو بلا تاخیر فعال کیا جائے، پولیس کی جانب سے اختیارات سے تجاوز اور کسی قسم کی زیادتی کے خلاف کارروائی کے نظام کو مزید موثر بنانے کیلئے 2012 سے تیار شدہ پولیس ای اینڈ ڈی رولز کو فوری منظور کیا جائے۔
پولیس ملازمین کی تعیناتی اور ترقی کو سالانہ جسمانی و ذہنی ہیلتھ ٹیسٹ سے منسلک کیا جائے گا جبکہ پولیس فورس کے رویے کو درست رکھنے کیلئے ماہرین نفسیات بھرتی کیئے جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ سی سی پی او لاہور کے تیار کردہ پولیس پلان کا ایک مرتبہ مطالعہ ضرور کریں اور اس حوالے سے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ وزیر اعلی سیکرٹریٹ میں وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے کئی ماہ سے اس پولیس اصلاحاتی منصوبہ پر وزیر اعلی کو بریف کیا اور نہ ہی کوئی میٹنگ کروائی ہے، اداروں کی ترقی، مضبوطی اور تنظیم نو ذاتی پسند ناپسند اور شخصیات سے بلند ہوتی ہے اور دانستہ طور پر کسی ادارے کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ بننے والے یا بلا جواز تاخیر کرنے والے حکمران اور بیوروکریٹس ملک و قوم کے مجرم بن جاتے ہیں ۔
سابق صدر پرویز مشرف نے بحیثیت چیف ایگزیکٹو پولیس اصلاحات میں کچھ دیر کیلئے سنجیدگی دکھائی اور پولیس آرڈر2002 ء بنایا لیکن اپنے اقتدار کو ''جائز'' قرار دلوانے کیلئے جب انہوں نے روایتی سیاستدانوں کا سہارا لیا تو پولیس آرڈر2002 مکمل حالت میں نافذ نہ ہو سکا اور نہ ہی اس کے رولز بنائے جا سکے۔ یہ آج بھی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کی صورت میں موجود ہے۔ پولیس کو سیاست سے پاک کرنے اور اسے ایک منظم پیشہ ور قانون نافذ کرنے والے عوام دوست ادارے میں تبدیل کرنے کیلئے جس قدر سنجیدگی عمران خان نے حکومت بنانے سے قبل دکھائی تھی وہ دوسرے سیاستدان نہیں کر سکے۔
یہی وجہ ہے کہ آج عمران خان پر اور بالخصوص پنجاب حکومت پر پولیس کلچر کے حوالے سے سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے انتخابی منشور کے مطابق پولیس کو سیاست سے پاک ادارہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ پنجاب اس حوالے سے زیادہ تنقید کا شکار ہے کہ یہاں پولیس کی جانب سے اختیارات سے تجاوز، غیر قانونی حراست میں تشدد سے اموات اور بے گناہ شہریوں کے قتل کے متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے حکومت کی ساکھ کو شدید متاثر کیا ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ آج بھی اقتدار کے ایوانوں میں یہ بحث جاری ہے کہ پولیس کو سول بیوروکریسی کے ماتحت کیا جائے یا پھر خودمختار رہنے دیا جائے۔
حیران کن اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب پولیس کے حوالے سے وفاقی و صوبائی حکومت مسلسل شدید تنقید کا شکار ہے اس کے پاس اپنے دفاع کیلئے ایک موثر پولیس اصلاحات کا منصوبہ موجود ہے لیکن نجانے کیوں حکومت اسے گزشتہ کئی ماہ سے زیر غور نہیں لا رہی ہے جبکہ یہ منصوبہ اتنا جامع اور موجودہ پولیس تقاضوں سے ہم آہنگ ہے کہ اسے نافذ کر کے پولیس کلچر میں ایک واضح تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
لاہور پولیس کے سربراہ بی اے ناصر نے اپنے ساتھی افسروں کے ساتھ طویل تحقیق اور مشاورت اور ٹوکیو، نیو دہلی، نیویارک اور لندن میٹرو پولیس سسٹم کا جائزہ لینے کے بعد لاہور پولیس میں بنیادی اصلاحات کیلئے ''STRATEGIC DEVELOPMENT PLAN FOR CAPITAL PLICE 2019-2023 ''تیار کر کے حتمی منظوری کیلئے ایوان وزیر اعلی کو فروری 2019 سے ارسال کررکھا ہے۔
میڈیا اور عوام پولیس پر جو تنقید کرتے ہیں وہ بہت حد تک درست ہوتی ہے لیکن من حیث القوم ہم لوگ اس بات کو دانستہ طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ پولیس اپنے کچھ لوگوں کی وجہ سے اگر ''ظالم'' قرار دی جاتی ہے تو دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس بطور ادارہ''مظلوم'' بھی ہے۔ سیاسی مداخلت کا تعفن اس میں رچ بس چکا ہے، پولیس کے مجموعی بجٹ کا 87 فیصد تنخواہوں میں چلاجاتا ہے اور صرف 13 فیصد پولیسنگ کے آپریشنل امور پر خرچ ہوتا ہے ، مثال کے طور پر اگر لاہور پولیس کیمجموعی بجٹ کو لاہور کی کل آبادی پر تقسیم کیا جائے تو فی شہری 7.42 ڈالر خرچ ہوتے ہیں جبکہ بھارتی پنجاب میں فی کس 16 ڈالر، ترکی میں 135، ہانگ کانگ میں 630 اور لند ن میں 754 ڈالر فی کس سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔
مقدمات کے تفتیشی اخراجات کی رقم موجودہ دور میں اخراجات اور مہنگائی کے تناسب سے کسی طور مطابقت نہیں رکھتی ۔2002 ء میں مقدمات کی تفتیش کیلئے طے کردہ لاگت میں ابتک 137 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، تجویز کردہ پولیس پلان میں سفارش کی گئی ہے کہ کاسٹ آف انویسٹی گیشن کو بڑھایا جائے، قتل اور اغواء برائے تاوان کیس کی تفتیش کیلئے مقررہ 20 ہزار روپے کو بڑھا کر 47400 روپے جبکہ اقدام قتل کیس کی رقم 7 ہزار سے بڑھا کر 16590 روپے کی جائے۔
ڈکیتی، راہزنی کیس کے تفتیشی اخراجات 11 ہزار سے بڑھا کر 26070 روپے کیئے جائیں، پولیس کے پاس موجود مجموعی ٹرانسپورٹ میں سے 60 فیصد سے زائد موٹر وہیکلز ناقابل استعمال ہو چکی ہیں یا پھر اپنی تکنیکی مدت مکمل کر چکی ہیں، سینکڑوں تھانے خستہ حالت میں ہیں یا پھر ان کی اپنی ملکیتی عمارت ہی موجود نہیں ہے، پولیس رولز 1934 میں ہر 450 افراد کیلئے ایک پولیس اہلکار لازم قرار دیا گیا ہے جبکہ عالمی معیار یہ ہے کہ ہر 300 افراد کیلئے ایک پولیس اہلکار ہونا چاہئے لیکن لاہور میں ہر 571 شہریوں کیلئے ایک پولیس اہلکار موجود ہے۔ پولیس لائنز کی قلت اور وہاں سہولیات کے فقدان کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کی بیرکس''پناہ گزیں کیمپ'' کا منظر پیش کرتی ہیں،16 گھنٹے بلکہ اس سے بھی طویل یومیہ ڈیوٹی دینے والا پولیس اہلکار کرپٹ، چرچڑا، بدمزاج اور کام چور نہ ہو تو پھر کیا ہو لیکن پولیس کے نقاد اپنے ترکش سے جب بھی تیر چلاتے ہیں تو ان کا ہدف مجموعی بجٹ ہوتا ہے۔
بی اے ناصر کا شمار پولیس سروس کے ان گنے چنے افسروں میں ہوتا ہے جو جدید دور کی پولسینگ کے حوالے سے تحقیقی اور تخلیقی کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بی اے ناصر نے جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں کام کرنے کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں جدید ترین پولیسنگ کے کورس کیئے ہیں اور اپنے انہی تمام تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے بطور پائلٹ پرا جیکٹ ''لاہور پولیس کا پانچ سالہ منصوبہ'' تیار کیا ہے جس میں انہوں نے نہایت تفصیل کے ساتھ جرائم میں اضافہ کی وجوہات، قوانین اور سزاؤں میں سقم، عوام کے ساتھ پولیس کے غیر اخلاقی برتاو اور پولیس میں اختیارات سے تجاوز کو روکنے کیلئے اقدامات، پولیس فورس کے پیشہ ورانہ ڈسپلن کو قائم کرنے، ان کے مسائل کے خاتمہ، فورس کی فلاح و بہبود، پولیس فورس کے انفرا سٹرکچر کی موجودہ کمزوریوں اور ان کے حل کیلئے مستقبل کی منصوبہ بندی سمیت تمام ملک کے دوسرے بڑے شہر اور پنجاب حکومت کے دارالحکومت لاہور میں جرائم کی روک تھام، پولیس انفراسٹراکچر کی تنظیم نو، شہریوں اور پولیس کے باہمی روابط میں بہتری، پولیس کے اندرونی و بیرونی احتساب اور عوامی شکایات کے ازالہ اورقانونی ترامیم سمیت مختلف جرائم کی سزاوں میں اضافہ کیلئے قابل عمل اور مفید تجاویز دی ہیں۔
پولیس پلان کے تحت پولیس سے متعلقہ شہریوں کی شکایات کے ازالہ کیلئے پولیس آرڈر کے تحت وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر پبلک سیفٹی کمیشن کے ساتھ پولیس کمپلینٹ اتھارٹیز اور سٹیزن پولیس لائزان کمیٹیوں کو بلا تاخیر فعال کیا جائے، پولیس کی جانب سے اختیارات سے تجاوز اور کسی قسم کی زیادتی کے خلاف کارروائی کے نظام کو مزید موثر بنانے کیلئے 2012 سے تیار شدہ پولیس ای اینڈ ڈی رولز کو فوری منظور کیا جائے۔
پولیس ملازمین کی تعیناتی اور ترقی کو سالانہ جسمانی و ذہنی ہیلتھ ٹیسٹ سے منسلک کیا جائے گا جبکہ پولیس فورس کے رویے کو درست رکھنے کیلئے ماہرین نفسیات بھرتی کیئے جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ سی سی پی او لاہور کے تیار کردہ پولیس پلان کا ایک مرتبہ مطالعہ ضرور کریں اور اس حوالے سے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ وزیر اعلی سیکرٹریٹ میں وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے کئی ماہ سے اس پولیس اصلاحاتی منصوبہ پر وزیر اعلی کو بریف کیا اور نہ ہی کوئی میٹنگ کروائی ہے، اداروں کی ترقی، مضبوطی اور تنظیم نو ذاتی پسند ناپسند اور شخصیات سے بلند ہوتی ہے اور دانستہ طور پر کسی ادارے کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ بننے والے یا بلا جواز تاخیر کرنے والے حکمران اور بیوروکریٹس ملک و قوم کے مجرم بن جاتے ہیں ۔