عوام کو ماتحت عدالتوں سے حصولِ انصاف میں مشکلات
اس میں شق نہیں کہ موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدالت عظمیٰ اور جسٹس صاحبان کے وقار کو بلند کیا۔
اس میں شک نہیں کہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک آمرکے سامنے ڈٹ کر جہاں عدالت عظمیٰ اور جسٹس صاحبان کے وقار کو بلند کیا، ان کے تاریخی فیصلوں کو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرنکس میڈیا نے جس انداز میں عوام کے سامنے پیش کر کے عوام کو آئین پاکستان اور انصاف کے بارے میں آگاہی فراہم کی ہے، وہ الگ سے قابلِ تحسین ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹس کے فیصلے اپنی جگہ لیکن جب تک بنیادی سطح پر انصاف کی فراہمی ممکن نہ ہو گی اس وقت تک نظامِ عدل پر عوام کا اعتماد بحال نہیں ہوگا۔
جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حال ہی میں اپنے ارشادت میں کہا ہے کہ غریبوں کو عدالتوں میں گھسیٹنا انصاف نہیں، پھٹے پرانے کپڑوں والے کیسے اعلیٰ عدالتوں میں آئیں، انصاف کی جلد فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، ماتحت عدالتوں کی کارکردگی پر توجہ دینا ہو گی۔ اسلام میں عدل وانصاف لفظی معاملہ نہیں بل کہ مذہبی فریضہ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکس کے مدنظر رکھتے ہوئے ان سے استدعا ہے کہ وہ اپنی تعیناتی کے دوران ہی ایسا کچھ کر جائیں کہ ماتحت عدالتوں کا نظام سدھر جائے۔ مہذب معاشرے میں دستور ایک مقدس دستاویز قرار پاتی ہے، اسی سے قومیں ممتاز مقام حاصل کرتی ہیں۔ وطن عزیز میں 1973 میں ملک کے مقتدر سیاست دانوں نے گہرے غور و خوض سے متفقہ دستور کا تحفہ دیا تھا جس میں واضع طور پر درج ہے کہ دستور کی پابندی وطن عزیز کے ہر شہری پر لازم ہو گی۔ آج یہ سوال غور طلب ہے کہ کیا حقیقی معنوں میں دستور کی اس شق پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہو رہا ہے؟ ذرا متعلقہ شق پر نظر ڈالتے ہیں :۔
ART.5 (2) LOYALTY TO STATE AND OBEDIENCE TO CONSTITUTION AND LAW (2) OBEDIENCE TO THE CONSTITUTION AND LAW IS THE ENVIOLABLE OBLIGATION OF EVERY CITIZEN WHEREVER HE MAY BE AND OF EVERY OTHER PERSON FOR THE TIME BEING IN PAKSTAN"
لیکن کیا ایسا ہو رہا ہے؟ ہر ''لیڈر'' قانوں و دستور کا زبانی کلامی پابند نظر آتا ہے، خلوص دل کہیں دکھائی نہیں دیتا، عام شہری گمبھیر مسائل میں بری طرح گھرا ہوا ہے اور مایوس ہے۔ پاکستان ایک عظیم عطیۂ خداوندی ہے لیکن افسوس صد افسوس! کہ ہم نے اس نعمت عظمیٰ کی قدر میں حسب عادت تساہل برتا جس پر آج ہم زبوں حالی کا شکار ہیں، ارباب اختیار جس میں، بصد احترام۔ ہماری ماتحت عدلیہ کے افسران، جن کے کاندھوں پر عوام کو انصاف فراہم کرنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، حقیقی معنوں میں دستور کی مذکورہ شق پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء نہیں ہو رہے ہیں۔ اس بارے میں ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ دستور کی شق نمبر 189.190.201 ، جو کہ حسب ذیل ہے، اس پر من وعن عمل ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے ،
ART-189 DECISIONS OF SUPREME COURT BINDING ON OTHER COURTS . ANY DECISION OF THE SUPREME COURT SHALL TO THE EXTENT THAT IT DECIDES A QUESTION OF LAW OR IS BASED UPON OR ENUNICIATES A PRINCIPLE OF LAW ,BE BINDING ON ALL OTHER COURTS IN PAKISTAN "
ART .190.ACTION IN AID OF SUPREME COURT, ALL EXECUTIVE AND JUDICIAL AUTHORITIES THROUGH OUT PAKISTAN SHALL ACT IN AID OF THE SUPREME COURT.
ART .201.DECSION OF HIGH COURT BINDING ON SUBORDINATE COURTS....SUBJECT TO ARTICLE 189, ANY DECISION OF A HIGH COURT SHALL , TO THE EXTENT THAT IT DECIDES OF QUESTION OF LAW OR IS BASED UPON OR ENUNCIATES A PRINCIPLE OF LAW BE BINDING ON ALL COURTS SUBORDINATE TO IT.
دستور کی بیان کردہ شقوں میں ماتحت عدالیہ کے افسروں کے لیے ایک واضح پیغام ہے لیکن نامعلوم، انجانے میں یا پھر اس کی وجوہات وہ خود بہتر جانتے ہیں، ان شقوں پر من وعن عمل درآمد کرنے میں کون سا عمل مانع ہے۔ عدلیہ جس کومعاشرہ انتہائی احترام کی نگاہوں سے دیکھتا ہے بد قسمتی سے وہ دستور کی ان شقوں پر عمل دارآمد کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے، ان کے اس صرف نظر سے لوگ مقدمات میں بری طرح جکڑے جا چکے ہیں اور مقدمہ بازی ہے کہ اس کی طوالت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی جب کہ بعض معصوم افراد، جن کو ناجائز مقدمات میں ملوث کر دیا گیا، ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے اور وہ ظلم کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے، جس میں عمررسیدہ بزرگ شہری، خواتین، اور خصوصی طور پر بیوہ خواتین انصاف کی خاطر دربہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ یوں تو اس قسم کے غم زدہ اور متاثرہ لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے لیکں حوالے کے طور پر تین واقعات کا ذکر کرنا ناگزیر ہے۔
چکوال کی ایک بیوہ خاتون انیس بیگم بیوہ ظہو رالحق کو اسی معاشرہ کے ایک فرد، عظیم گل نے ناجائز مقدمات میں ملوث کر کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے۔ مذکورہ شخص مقامی عدالتِ ایڈیشنل سیشن جج سے فریب دہی اور گم راہ کرکے یک طرفہ طور پر اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا جس کا علم ہونے پر چار و ناچار انتہائی کس مہ پرسی کی حالت میں بیوہ کو لاہور ہائی کورٹ راول پنڈی بنچ میں اصالتاََ رجوع کرنا پڑا اور اس مقدمہ کی پیروی کے لیے اسے سفر کی متعدد بار صعوبیتں بھی برداشت کرنا پڑیں معزز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج چکوال، جنہوں نے عظیم گل کی غلط درخواست کو پذیرائی بخشتے ہوئے اپنے اختیارات سے صاف طور پر تجاوز کیا تھا، معزز عدالت عالیہ نے اس کا بروقت نوٹس لیتے ہوئے بیوہ انیس بیگم کی آئینی درخواست کو منظور کرتے ہوئے قرار دیا کہ مذکورہ حکم اختیارت سے متجاوز تھا۔
مذکورہ عظیم گل نے اس پر بھی اکتفا نہ کیا معزز عدالت کے فیصلہ کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں لے گیا، جہاں پر عالی مرتبت چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری پر مشتمل تین رکنی معزز بینچ نے پہلی سماعت پر ہی اس کی درخواست کو خارج کر دیا جب کہ سپریم کورٹ میں بھی بیوہ نے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر تحریری معروضات کے ذریعے اصل حقائق سے معزز عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا تھا، جس پر عدالت عظمیٰ نے فیصلہ صادر کیا۔
اب اس شخص کا اگلا نشانہ ایک 70 سالہ بزرگ حاجی سلطان خان، اس کی بہو اور بیٹا بنا۔ چکوال شہر میں انتہائی قیمتی جائداد، جو مذکورہ شخص نے بطور پراپرٹی ڈیلر، باقاعدہ کمیشن وصول کر کے اس کے نام ہونے والی رجسٹریوں کو تصدیق بھی اس نے بہ طور نمبردار کی تھیں اور ان رجسٹریوں پر بہ طور گواہ بھی اس نے اپنے دست خط کیے تھے، اس جائداد کو ہتھیانے کی خاطر اس نے اپنی بیوی کے نام پر ایک جعلی اقرار نامے کی بنیاد بنا کر اس کی ملکیت کا دعو دار بن گیا اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی خاطر مقامی عدالت میں ایک غیر قانونی مقدمہ، بابت استقرار حق، دائر کر دیا جس پر معزز عدالت سول جج درجہ اول چکوال کی توجہ مبذول کرائی گئی کہ قانوں اور اعلیٰ عدلیہ کے صادر شدہ فیصلوں کی روشنی میں مذکورہ مقدمہ قطعی طور پر غیر قانونی مقدمہ ہے جو کہ کسی صورت میں بھی قابل پذیرائی نہیں ہے لیکن اس کی درخواست کو سرسر ی سماعت کے بعد خارج کر دیا گیا۔
جس پر معزز عدالت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج چکوال سے بھی رجوع کیا گیا تو انہوں نے بھی قانون اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو نظر انداز کر تے ہوئے سائلان کی درخواست کو خارج کر دیا جب کہ عظیم گل، جو ایک عادی مقدمے باز ہے اور ایک مقدمے میں اس وقت کے معزز سینیئر سول جج چکوال اور معزز ایڈیشنل ڈسٹرکت جج چکوال کے اقرار نامے کے بارے میں قانون اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں اس کے مقدمے کو خارج کر چکے تھے ۔
جس کا حوالہ بھی موجودہ افسران کی عدالت میں پیش کیے گئے لیکن سول جج درجۂ اول چکوال اور ایڈیشنل جج چکوال نے انہیں خاطر میں نہ لا کر، یہ غلط تاثر پیدا کیا کہ کاش موجودہ افسران ما تحت عدلیہ چکوال بھی اپنے سابق پیش رو آفیسران کی طرح قانون اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں فیصلہ صادر فرماتے تو دستور کی بیان کردہ شقوں پر حقیقی معنوں میں عمل ہوتا لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ فاضل ماتحت عدالتوں کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں سے پہلو تہی کرنے سے DISRESPECT, اور DISREGARD کا تاثر بھی پیدا ہوتا ہے اس تاثر کو زائل کرنے کا واحد طریقہ ہے کہ دستور کی ان اہم شقوں پر عمل درآمد کرنے میں ہی مضمر ہے۔
مذکورہ شخص کا ایک اور نشانہ اسی کے گاؤں کا ایک 60 سالہ شخص محمد بشیر ولد فیروز خان ہے، جو عارضۂ قلب میں مبتلا ہے، اس کے اور اس کے چار بیٹوں کے خلاف فوج داری اور دیوانی مقدمات میں بہ طور گواہ پیش ہو کر انہیں تختۂ مشق ستم بنا رکھا ہے تحریر کردہ دستور کی اہم شقوں کے بارے میں عدالت عظمیٰ پاکستان اور عدالت عالیہ نے مختلف اوقات میں اپنے فیصلوں میں ان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، جو کہ ماتحت عدالتوں کے لیے نظیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان نظائر کو بھی اس یقین کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ ان فیصلوں کی روشنی میں ہی سائلین کی داد رسی کو یقینی بنایا جا سکے ۔
PLD 1982 LAHORE 214 میں شائع شدہ فیصلے کے مطابق آرٹیکل نمبر 201 آئین کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے طے شدہ اصول اور نظائر میں ماتحت عدالتوں کو فیصلہ صادر کرنے میں گائیڈ لائن موجود ہے جب کہ CLC1989 کے صفحہ نمبر 776 میں شائع شدہ فیصلے میں بھی ماتحت عدالتوں کو آرٹیکل 189-201 کے تحت عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے فیصلوںح پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسی طرح CLC 2004 میں صفحہ نمبر 1992 میں شائع شدہ مجموعے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ریاست کے ہر ادارے کے لیے قابل تقلید قرار دیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ PLJ -2004 پشاور کے صفحہ نمبر 299 میں شائع شدہ فیصلے میں ماتحت عدالتوں کو اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو انتہائی تکریم کے ساتھ فائق قرار دیا گیا ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں افسر جلیس کو خطرناک صورت حال سے دو چار ہونے کی تنبیہ بھی کی گئی ہے جب کہ SCMR -2010 کے صفحہ نمبر 1399 میں شائع شدہ فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سر براہی میں تینرکنی بینچ نے آرٹیکل نمبر 189-190 کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ریاست کے ہر فرد اور ہر ادارہ پر اس کی بجا آوری کا پابند قرار دیا ہے۔
خاس طور پر ناجائز مقدمات میں ملوث مظلوم عوام کی مشکلات کو کم کرنے میں معزز ماتحت عدلیہ اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس کا صرف اور صرف واحد حل ہے کہ دستور کی تحریر کردہ اہم شقوں پر سو فیصد عمل کر کے قانون اور اس سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے طے کردہ اصولوں کے مطابق عوام کو انصاف مہیاکیا جائے، اس طرح انہیں مقامی سطح پر ہی انصاف میسر ہوگا اور ناجائز مقدمے بازی سے چھٹکارا بھی مل سکے گا بہ صورت دیگر ایک عام عام شہری ملک کے موجودہ ناہم وار معاشی اور معروضی حالات میں کسی قسم کی لاشاہی مقدمہ بازی کا سوچ بھی نہیں سکتا، یہ ہی وجہ ہے کہ عوام طویل تکلیف دہ اور منہگی مقدمہ بازی کے ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس سلسلہ میں چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری جنہوں نے بہ طور جج بلوچستان ہائی کورٹ ایک فیصلہ صادر فرمایا ہے جو 108 PLD-1993 QUETTA میں شایع شدہ ہے، اسے نقل کیا جا رہا ہے
DUTY OF COURT ............COURTS WHILE DISCHARGING JUDICIAL FUNCTIONS ARE SUPPOSED TO DECIDE MATTERS STRICTLY IN ACCORDANCE TO PLEADINGS OF PARTIES AND LAW AVAILABLE ON THE SUBJECT (ADMINISTRATION OF JUSTICE)
اس فیصلے کے ذریعے عدالتوں کے فرائض کی واضح نشان دہی کی گئی ہے جب کہ اس فیصلہ کی تمام فاضل ماتحت عدالتیں آئینی اور قانونی طور پر پابند ہیں اگر اس ایک فیصلہ کو ہی بنیاد بنا کر سائلین کی داد رسی کی جائے تو اس سے ایک عام شہری اور ناجائز مقدمات میں ملوث شہریوں کو مقدمہ بازی کی لعنت سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ دستور کی ان اہم شقوں کے ثمرات عام شہریوں تک اسی صورت میں پہنچ سکتے ہیں جب فاضل عدالت ہائے ماتحت کے ا فسر ان شقوں پر کما حقہ خلوص دل اور نیک نیتی کے جذبہ سے عمل درآمد کریں۔
اس سلسلہ میں چیف جسٹس آف پاکستان عالی مرتبت جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اہم رول ادا کرنا ہو گا، جس سے عام سائل اور خاص طور پر ناجائز مقدمات میں ملوث افراد بزرک شہری اور بیوہ خواتین کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہو گا۔ انصاف کے تقاضے صرف اسی صورت میں پورے ہوں گے جب دستور کی مکمل پابندی اور پاس داری ہو گی۔ اس ضمن میں چیف جسٹس آف پاکستان کا کردار انہتائی اہمیت کا حامل ہو گا۔
جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حال ہی میں اپنے ارشادت میں کہا ہے کہ غریبوں کو عدالتوں میں گھسیٹنا انصاف نہیں، پھٹے پرانے کپڑوں والے کیسے اعلیٰ عدالتوں میں آئیں، انصاف کی جلد فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، ماتحت عدالتوں کی کارکردگی پر توجہ دینا ہو گی۔ اسلام میں عدل وانصاف لفظی معاملہ نہیں بل کہ مذہبی فریضہ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکس کے مدنظر رکھتے ہوئے ان سے استدعا ہے کہ وہ اپنی تعیناتی کے دوران ہی ایسا کچھ کر جائیں کہ ماتحت عدالتوں کا نظام سدھر جائے۔ مہذب معاشرے میں دستور ایک مقدس دستاویز قرار پاتی ہے، اسی سے قومیں ممتاز مقام حاصل کرتی ہیں۔ وطن عزیز میں 1973 میں ملک کے مقتدر سیاست دانوں نے گہرے غور و خوض سے متفقہ دستور کا تحفہ دیا تھا جس میں واضع طور پر درج ہے کہ دستور کی پابندی وطن عزیز کے ہر شہری پر لازم ہو گی۔ آج یہ سوال غور طلب ہے کہ کیا حقیقی معنوں میں دستور کی اس شق پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل ہو رہا ہے؟ ذرا متعلقہ شق پر نظر ڈالتے ہیں :۔
ART.5 (2) LOYALTY TO STATE AND OBEDIENCE TO CONSTITUTION AND LAW (2) OBEDIENCE TO THE CONSTITUTION AND LAW IS THE ENVIOLABLE OBLIGATION OF EVERY CITIZEN WHEREVER HE MAY BE AND OF EVERY OTHER PERSON FOR THE TIME BEING IN PAKSTAN"
لیکن کیا ایسا ہو رہا ہے؟ ہر ''لیڈر'' قانوں و دستور کا زبانی کلامی پابند نظر آتا ہے، خلوص دل کہیں دکھائی نہیں دیتا، عام شہری گمبھیر مسائل میں بری طرح گھرا ہوا ہے اور مایوس ہے۔ پاکستان ایک عظیم عطیۂ خداوندی ہے لیکن افسوس صد افسوس! کہ ہم نے اس نعمت عظمیٰ کی قدر میں حسب عادت تساہل برتا جس پر آج ہم زبوں حالی کا شکار ہیں، ارباب اختیار جس میں، بصد احترام۔ ہماری ماتحت عدلیہ کے افسران، جن کے کاندھوں پر عوام کو انصاف فراہم کرنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، حقیقی معنوں میں دستور کی مذکورہ شق پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء نہیں ہو رہے ہیں۔ اس بارے میں ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ دستور کی شق نمبر 189.190.201 ، جو کہ حسب ذیل ہے، اس پر من وعن عمل ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے ،
ART-189 DECISIONS OF SUPREME COURT BINDING ON OTHER COURTS . ANY DECISION OF THE SUPREME COURT SHALL TO THE EXTENT THAT IT DECIDES A QUESTION OF LAW OR IS BASED UPON OR ENUNICIATES A PRINCIPLE OF LAW ,BE BINDING ON ALL OTHER COURTS IN PAKISTAN "
ART .190.ACTION IN AID OF SUPREME COURT, ALL EXECUTIVE AND JUDICIAL AUTHORITIES THROUGH OUT PAKISTAN SHALL ACT IN AID OF THE SUPREME COURT.
ART .201.DECSION OF HIGH COURT BINDING ON SUBORDINATE COURTS....SUBJECT TO ARTICLE 189, ANY DECISION OF A HIGH COURT SHALL , TO THE EXTENT THAT IT DECIDES OF QUESTION OF LAW OR IS BASED UPON OR ENUNCIATES A PRINCIPLE OF LAW BE BINDING ON ALL COURTS SUBORDINATE TO IT.
دستور کی بیان کردہ شقوں میں ماتحت عدالیہ کے افسروں کے لیے ایک واضح پیغام ہے لیکن نامعلوم، انجانے میں یا پھر اس کی وجوہات وہ خود بہتر جانتے ہیں، ان شقوں پر من وعن عمل درآمد کرنے میں کون سا عمل مانع ہے۔ عدلیہ جس کومعاشرہ انتہائی احترام کی نگاہوں سے دیکھتا ہے بد قسمتی سے وہ دستور کی ان شقوں پر عمل دارآمد کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے، ان کے اس صرف نظر سے لوگ مقدمات میں بری طرح جکڑے جا چکے ہیں اور مقدمہ بازی ہے کہ اس کی طوالت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی جب کہ بعض معصوم افراد، جن کو ناجائز مقدمات میں ملوث کر دیا گیا، ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے اور وہ ظلم کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے، جس میں عمررسیدہ بزرگ شہری، خواتین، اور خصوصی طور پر بیوہ خواتین انصاف کی خاطر دربہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ یوں تو اس قسم کے غم زدہ اور متاثرہ لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے لیکں حوالے کے طور پر تین واقعات کا ذکر کرنا ناگزیر ہے۔
چکوال کی ایک بیوہ خاتون انیس بیگم بیوہ ظہو رالحق کو اسی معاشرہ کے ایک فرد، عظیم گل نے ناجائز مقدمات میں ملوث کر کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے۔ مذکورہ شخص مقامی عدالتِ ایڈیشنل سیشن جج سے فریب دہی اور گم راہ کرکے یک طرفہ طور پر اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا جس کا علم ہونے پر چار و ناچار انتہائی کس مہ پرسی کی حالت میں بیوہ کو لاہور ہائی کورٹ راول پنڈی بنچ میں اصالتاََ رجوع کرنا پڑا اور اس مقدمہ کی پیروی کے لیے اسے سفر کی متعدد بار صعوبیتں بھی برداشت کرنا پڑیں معزز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج چکوال، جنہوں نے عظیم گل کی غلط درخواست کو پذیرائی بخشتے ہوئے اپنے اختیارات سے صاف طور پر تجاوز کیا تھا، معزز عدالت عالیہ نے اس کا بروقت نوٹس لیتے ہوئے بیوہ انیس بیگم کی آئینی درخواست کو منظور کرتے ہوئے قرار دیا کہ مذکورہ حکم اختیارت سے متجاوز تھا۔
مذکورہ عظیم گل نے اس پر بھی اکتفا نہ کیا معزز عدالت کے فیصلہ کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں لے گیا، جہاں پر عالی مرتبت چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری پر مشتمل تین رکنی معزز بینچ نے پہلی سماعت پر ہی اس کی درخواست کو خارج کر دیا جب کہ سپریم کورٹ میں بھی بیوہ نے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر تحریری معروضات کے ذریعے اصل حقائق سے معزز عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا تھا، جس پر عدالت عظمیٰ نے فیصلہ صادر کیا۔
اب اس شخص کا اگلا نشانہ ایک 70 سالہ بزرگ حاجی سلطان خان، اس کی بہو اور بیٹا بنا۔ چکوال شہر میں انتہائی قیمتی جائداد، جو مذکورہ شخص نے بطور پراپرٹی ڈیلر، باقاعدہ کمیشن وصول کر کے اس کے نام ہونے والی رجسٹریوں کو تصدیق بھی اس نے بہ طور نمبردار کی تھیں اور ان رجسٹریوں پر بہ طور گواہ بھی اس نے اپنے دست خط کیے تھے، اس جائداد کو ہتھیانے کی خاطر اس نے اپنی بیوی کے نام پر ایک جعلی اقرار نامے کی بنیاد بنا کر اس کی ملکیت کا دعو دار بن گیا اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی خاطر مقامی عدالت میں ایک غیر قانونی مقدمہ، بابت استقرار حق، دائر کر دیا جس پر معزز عدالت سول جج درجہ اول چکوال کی توجہ مبذول کرائی گئی کہ قانوں اور اعلیٰ عدلیہ کے صادر شدہ فیصلوں کی روشنی میں مذکورہ مقدمہ قطعی طور پر غیر قانونی مقدمہ ہے جو کہ کسی صورت میں بھی قابل پذیرائی نہیں ہے لیکن اس کی درخواست کو سرسر ی سماعت کے بعد خارج کر دیا گیا۔
جس پر معزز عدالت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج چکوال سے بھی رجوع کیا گیا تو انہوں نے بھی قانون اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو نظر انداز کر تے ہوئے سائلان کی درخواست کو خارج کر دیا جب کہ عظیم گل، جو ایک عادی مقدمے باز ہے اور ایک مقدمے میں اس وقت کے معزز سینیئر سول جج چکوال اور معزز ایڈیشنل ڈسٹرکت جج چکوال کے اقرار نامے کے بارے میں قانون اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں اس کے مقدمے کو خارج کر چکے تھے ۔
جس کا حوالہ بھی موجودہ افسران کی عدالت میں پیش کیے گئے لیکن سول جج درجۂ اول چکوال اور ایڈیشنل جج چکوال نے انہیں خاطر میں نہ لا کر، یہ غلط تاثر پیدا کیا کہ کاش موجودہ افسران ما تحت عدلیہ چکوال بھی اپنے سابق پیش رو آفیسران کی طرح قانون اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں فیصلہ صادر فرماتے تو دستور کی بیان کردہ شقوں پر حقیقی معنوں میں عمل ہوتا لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ فاضل ماتحت عدالتوں کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں سے پہلو تہی کرنے سے DISRESPECT, اور DISREGARD کا تاثر بھی پیدا ہوتا ہے اس تاثر کو زائل کرنے کا واحد طریقہ ہے کہ دستور کی ان اہم شقوں پر عمل درآمد کرنے میں ہی مضمر ہے۔
مذکورہ شخص کا ایک اور نشانہ اسی کے گاؤں کا ایک 60 سالہ شخص محمد بشیر ولد فیروز خان ہے، جو عارضۂ قلب میں مبتلا ہے، اس کے اور اس کے چار بیٹوں کے خلاف فوج داری اور دیوانی مقدمات میں بہ طور گواہ پیش ہو کر انہیں تختۂ مشق ستم بنا رکھا ہے تحریر کردہ دستور کی اہم شقوں کے بارے میں عدالت عظمیٰ پاکستان اور عدالت عالیہ نے مختلف اوقات میں اپنے فیصلوں میں ان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، جو کہ ماتحت عدالتوں کے لیے نظیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان نظائر کو بھی اس یقین کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ ان فیصلوں کی روشنی میں ہی سائلین کی داد رسی کو یقینی بنایا جا سکے ۔
PLD 1982 LAHORE 214 میں شائع شدہ فیصلے کے مطابق آرٹیکل نمبر 201 آئین کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے طے شدہ اصول اور نظائر میں ماتحت عدالتوں کو فیصلہ صادر کرنے میں گائیڈ لائن موجود ہے جب کہ CLC1989 کے صفحہ نمبر 776 میں شائع شدہ فیصلے میں بھی ماتحت عدالتوں کو آرٹیکل 189-201 کے تحت عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے فیصلوںح پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسی طرح CLC 2004 میں صفحہ نمبر 1992 میں شائع شدہ مجموعے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ریاست کے ہر ادارے کے لیے قابل تقلید قرار دیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ PLJ -2004 پشاور کے صفحہ نمبر 299 میں شائع شدہ فیصلے میں ماتحت عدالتوں کو اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو انتہائی تکریم کے ساتھ فائق قرار دیا گیا ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں افسر جلیس کو خطرناک صورت حال سے دو چار ہونے کی تنبیہ بھی کی گئی ہے جب کہ SCMR -2010 کے صفحہ نمبر 1399 میں شائع شدہ فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سر براہی میں تینرکنی بینچ نے آرٹیکل نمبر 189-190 کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ریاست کے ہر فرد اور ہر ادارہ پر اس کی بجا آوری کا پابند قرار دیا ہے۔
خاس طور پر ناجائز مقدمات میں ملوث مظلوم عوام کی مشکلات کو کم کرنے میں معزز ماتحت عدلیہ اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس کا صرف اور صرف واحد حل ہے کہ دستور کی تحریر کردہ اہم شقوں پر سو فیصد عمل کر کے قانون اور اس سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے طے کردہ اصولوں کے مطابق عوام کو انصاف مہیاکیا جائے، اس طرح انہیں مقامی سطح پر ہی انصاف میسر ہوگا اور ناجائز مقدمے بازی سے چھٹکارا بھی مل سکے گا بہ صورت دیگر ایک عام عام شہری ملک کے موجودہ ناہم وار معاشی اور معروضی حالات میں کسی قسم کی لاشاہی مقدمہ بازی کا سوچ بھی نہیں سکتا، یہ ہی وجہ ہے کہ عوام طویل تکلیف دہ اور منہگی مقدمہ بازی کے ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس سلسلہ میں چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری جنہوں نے بہ طور جج بلوچستان ہائی کورٹ ایک فیصلہ صادر فرمایا ہے جو 108 PLD-1993 QUETTA میں شایع شدہ ہے، اسے نقل کیا جا رہا ہے
DUTY OF COURT ............COURTS WHILE DISCHARGING JUDICIAL FUNCTIONS ARE SUPPOSED TO DECIDE MATTERS STRICTLY IN ACCORDANCE TO PLEADINGS OF PARTIES AND LAW AVAILABLE ON THE SUBJECT (ADMINISTRATION OF JUSTICE)
اس فیصلے کے ذریعے عدالتوں کے فرائض کی واضح نشان دہی کی گئی ہے جب کہ اس فیصلہ کی تمام فاضل ماتحت عدالتیں آئینی اور قانونی طور پر پابند ہیں اگر اس ایک فیصلہ کو ہی بنیاد بنا کر سائلین کی داد رسی کی جائے تو اس سے ایک عام شہری اور ناجائز مقدمات میں ملوث شہریوں کو مقدمہ بازی کی لعنت سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ دستور کی ان اہم شقوں کے ثمرات عام شہریوں تک اسی صورت میں پہنچ سکتے ہیں جب فاضل عدالت ہائے ماتحت کے ا فسر ان شقوں پر کما حقہ خلوص دل اور نیک نیتی کے جذبہ سے عمل درآمد کریں۔
اس سلسلہ میں چیف جسٹس آف پاکستان عالی مرتبت جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اہم رول ادا کرنا ہو گا، جس سے عام سائل اور خاص طور پر ناجائز مقدمات میں ملوث افراد بزرک شہری اور بیوہ خواتین کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہو گا۔ انصاف کے تقاضے صرف اسی صورت میں پورے ہوں گے جب دستور کی مکمل پابندی اور پاس داری ہو گی۔ اس ضمن میں چیف جسٹس آف پاکستان کا کردار انہتائی اہمیت کا حامل ہو گا۔