بھارتی تھانیداری ناقابل برداشت
بار بار عرض کیا ہے مزید کتنی بار عرض کریں کہ بھارت نے پاکستان پر حرفِ غلط والا نشان لگا دیا ہے۔ یوں تو قیام پاکستان...
بار بار عرض کیا ہے مزید کتنی بار عرض کریں کہ بھارت نے پاکستان پر حرفِ غلط والا نشان لگا دیا ہے۔ یوں تو قیام پاکستان کے بعد ہی سے بھارت نے پاکستان کے جغرافیائی وجود اور ایک الگ آزاد ملک تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ انکار حکومتوں کا رسمی انکار نہیں تھا ایک قوم کا متفقہ اعلان تھا چنانچہ شروع دن سے ہی بھارت اس مشن میں لگا رہا تا آنکہ اسے 1970ء میں آ کر ایک جزوی کامیابی ملی اور وہ پاکستان توڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی وزیر اعظم نے بے تابانہ والہانہ اور انتہائی خوشی میں ڈوب کر اعلان کیا کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔ بھارت کے دور رس سوچ والے لوگ مسلمانوں کی ہزار سالہ کسی پہلی حکومت سے ہی اسے پاکستان کی حکومت سمجھتے تھے۔ لفظ پاکستان 'مسلمان سامراج' کے ایک نئے دور کا نام تھا۔
جیسے اس سے پہلے مغلوں وغیرہ کے دور گزر چکے تھے۔ بھارت نے اس پاکستانی دور کو مسلمانوں کی حکمرانی کا آخری دور بنانے کے لیے پاکستان کو فوجی اقدام سے توڑنے میں کامیابی حاصل کی اور یوں بلاشبہ ایک ہزار سالہ غلامی کا بدلہ چکا لیا اور جب تک باقی ماندہ پاکستان باقی ہے بھارتی سیاسی' ثقافتی اور فوجی یلغار جاری رہے گی۔ خود پاکستان کے اندر بھارتی ایک ایسا گروہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو باقی ماندہ پاکستان کے لیے بھارتی عزائم کی تکمیل میں مصروف ہے۔ اس میں کچھ ہمارے حکمرانوں کی طرح کم علم کم فہم اور کم نظر لوگ بھی ہیں جو بھارت کو سمجھ نہیں پائے اور بھارت کی خواہشوں کی نادانستہ آبیاری کر رہے ہیں یا پھر وہ لوگ ہیں جن کا پاکستان کے ساتھ صرف کوئی دنیاوی رشتہ ہے نظریاتی نہیں ہے لیکن پاکستانی وہی ہے جو نظریاتی ملک کا نظریاتی شہری ہے نہ کہ کاروبار اور تجارت کا خواہاں۔
پاکستانیوں کی اس ہمہ گیر کمزوری کو دیکھ کر جب مجھے بھارت جانے کا اتفاق ہوا تو ہندوؤں کی نخوت اور تکبر کا یہ عالم تھا کہ ہمارے سامنے ہی وہ پاکستان کا نام آنے پر اس کے بارے میں حقارت کا اظہار کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے۔ ''چھوڑیں بھی پاکستان کو'' یہ ان کا ایک تکیہ کلام تھا۔ کسی اذیت ناک تفصیل میں جانے سے پہلے ایک تو یہ عرض ہے کہ بھارتی روّیہ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے مگر اس گئے گزرے حال میں بھی ہم نے ایٹم بم بنا لیا اور اس طرح بھارتیوں کے اندر کے حوصلے پست ہو گئے جن پر وہ قابو پانے اور اس اذیت سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ''چھوڑیں جی پاکستان کو'' اسی اندرونی خوف پر قابو پانے کی ایک کوشش بھی ہے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ ہم بھارت کی نفسیاتی مدد بھی کرتے رہتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں کوئی اس قدر کشش ہے کہ ہمارے جیسے لوگوں کی بات کی کیا وقعت ہے اور جب سے امریکا نے بھارت پر اپنی محبت کا سایہ ڈالا ہے تب سے بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں ایک نئی زندگی ملی ہے۔ اور امریکا کی اس مہربانی میں اگر کوئی خلل ڈال سکتا تھا تو وہ ایٹمی پاکستان تھا لیکن پاکستانی عوام یہ دیکھ و سن کر دم بخود رہ گئے کہ ان کے صدر جناب آصف علی زرداری کے بقول ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارتی آباد ہے اور ہر بھارتی کے دل میں ایک پاکستانی اور ہمارے نئے لیڈر جناب میاں نواز شریف نے اس سے آگے قدم بڑھا کر کہا کہ مجھے تو اتنے زیادہ ووٹ جو ملے ہیں یہ بھارت کے دوستی کے ووٹ ہیں (لاحول ولا قوۃ)۔ میرے دل کی دنیا میں جو ماتم برپا تھا اس میں اب ذرا سی کمی ہوئی ہے۔ عید کے روز موصول ہونے والے ایک اخبار میں اعلیٰ سیاسی اور فوجی قیادت کی ایک ملاقات کے بعد اعلان کیا گیا ہے کہ اس خطے پر بھارت کی تھانیداری قابل قبول نہیں ناقابل برداشت ہے۔ وزیر اعظم کے امریکا کے دورے کی تیاری کے سلسلے میں یہ بات سامنے آئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ کسی قوت نے پاکستان پر بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
میں یہاں عرض کرتا ہوں کہ پاکستان بلاشبہ منہ توڑ جواب دے سکتا ہے وہ تو ہمارے بعض فوجی اور سیاسی غداروں نے بھارتی فوج کی مدد سے ہمارا ملک توڑ دیا لیکن اس کے باوجود ہم ابھی زندہ ہیں۔ اگر کوئی زندہ نہیں تو وہ ہمارے بعض لیڈر ہیں اور بعض قابل نفرت دانشور جو نہایت بے شرمی کے ساتھ بھارتی لابی بن کر پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔ یہ سب عناصر محب وطن پاکستانی سپاہ کے نشانے پر ہیں، نظریات سے وابستہ پاکستانی ان اندرونی دشمنوں کو خوب پہچانتے ہیں اور اب تو ان کی شناخت کوئی مسئلہ بھی نہیں رہی کیونکہ وہ پوری دیدہ دلیری کے ساتھ پاکستان دشمن اور بھارت پسند سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن جب بھی کوئی عقلمند حکومت آئے گی وہ ان کو پہچان لے گی۔ ان کی سرکوبی آسان ہے وہ اپنے جرم کا دن رات اعتراف کرتے ہیں اور اس قدر دیدہ دلیر ہو چکے ہیں کہ کچھ چھپاتے بھی نہیں ہیں بلکہ جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنے خبث باطن کے اظہار سے باز نہیں آتے۔
اس وقت میں خوشی منا رہا ہوں اس حکومتی اعلان کی کہ وہ بھارت کی بالادستی قبول کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ معلوم نہیں کس چالاک شخص نے ہمارے سیاسی حکمرانوں کو بھارت سے ڈرا دیا۔ یہ ان لوگوں کا کام ہو گا جو امریکا کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں ایک مدت سے صحیح پاکستانی احتساب نہ ہونے کی وجہ سے امریکا ہمارے اوسان پر سوار ہو چکا ہے۔ حیرت ہے کہ ہمارے اہم پاکستانی لیڈر اپنی آل اولاد کو کسی غیر ملک میں رکھتے ہیں جو اس کے شہری ہیں مگر حکومت کے لیے پاکستان پسند ہے۔ یہ ایک سرسبز چراگاہ ہے۔ ان پاکستانیوں کی ملی بھگت سے آئی ایم ایف نے ہمارا بجٹ بنایا ہے جو ایک امریکی زیر اثر ادارہ ہے اگر اس پر عمل ہو گیا جو شروع ہے تو پھر بھارت کی تھانیداری قبول نہ کرنے کا اعلان خدا جانے کدھر جائے گا مگر پہلی بار یہ ایسی جرأت مندانہ بات ہوئی ہے تو اس کا خیر مقدم اور اس کے لفظاً معناً پورا ہونے کی شدید خواہش۔ اصل سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ پاکستانی عوام کو ایسی سازشوں سے آگاہ کرتے رہیں اور وہ بے خبری میں مارے نہ جائیں۔
جیسے اس سے پہلے مغلوں وغیرہ کے دور گزر چکے تھے۔ بھارت نے اس پاکستانی دور کو مسلمانوں کی حکمرانی کا آخری دور بنانے کے لیے پاکستان کو فوجی اقدام سے توڑنے میں کامیابی حاصل کی اور یوں بلاشبہ ایک ہزار سالہ غلامی کا بدلہ چکا لیا اور جب تک باقی ماندہ پاکستان باقی ہے بھارتی سیاسی' ثقافتی اور فوجی یلغار جاری رہے گی۔ خود پاکستان کے اندر بھارتی ایک ایسا گروہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو باقی ماندہ پاکستان کے لیے بھارتی عزائم کی تکمیل میں مصروف ہے۔ اس میں کچھ ہمارے حکمرانوں کی طرح کم علم کم فہم اور کم نظر لوگ بھی ہیں جو بھارت کو سمجھ نہیں پائے اور بھارت کی خواہشوں کی نادانستہ آبیاری کر رہے ہیں یا پھر وہ لوگ ہیں جن کا پاکستان کے ساتھ صرف کوئی دنیاوی رشتہ ہے نظریاتی نہیں ہے لیکن پاکستانی وہی ہے جو نظریاتی ملک کا نظریاتی شہری ہے نہ کہ کاروبار اور تجارت کا خواہاں۔
پاکستانیوں کی اس ہمہ گیر کمزوری کو دیکھ کر جب مجھے بھارت جانے کا اتفاق ہوا تو ہندوؤں کی نخوت اور تکبر کا یہ عالم تھا کہ ہمارے سامنے ہی وہ پاکستان کا نام آنے پر اس کے بارے میں حقارت کا اظہار کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے۔ ''چھوڑیں بھی پاکستان کو'' یہ ان کا ایک تکیہ کلام تھا۔ کسی اذیت ناک تفصیل میں جانے سے پہلے ایک تو یہ عرض ہے کہ بھارتی روّیہ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے مگر اس گئے گزرے حال میں بھی ہم نے ایٹم بم بنا لیا اور اس طرح بھارتیوں کے اندر کے حوصلے پست ہو گئے جن پر وہ قابو پانے اور اس اذیت سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ''چھوڑیں جی پاکستان کو'' اسی اندرونی خوف پر قابو پانے کی ایک کوشش بھی ہے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ ہم بھارت کی نفسیاتی مدد بھی کرتے رہتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں کوئی اس قدر کشش ہے کہ ہمارے جیسے لوگوں کی بات کی کیا وقعت ہے اور جب سے امریکا نے بھارت پر اپنی محبت کا سایہ ڈالا ہے تب سے بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں ایک نئی زندگی ملی ہے۔ اور امریکا کی اس مہربانی میں اگر کوئی خلل ڈال سکتا تھا تو وہ ایٹمی پاکستان تھا لیکن پاکستانی عوام یہ دیکھ و سن کر دم بخود رہ گئے کہ ان کے صدر جناب آصف علی زرداری کے بقول ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارتی آباد ہے اور ہر بھارتی کے دل میں ایک پاکستانی اور ہمارے نئے لیڈر جناب میاں نواز شریف نے اس سے آگے قدم بڑھا کر کہا کہ مجھے تو اتنے زیادہ ووٹ جو ملے ہیں یہ بھارت کے دوستی کے ووٹ ہیں (لاحول ولا قوۃ)۔ میرے دل کی دنیا میں جو ماتم برپا تھا اس میں اب ذرا سی کمی ہوئی ہے۔ عید کے روز موصول ہونے والے ایک اخبار میں اعلیٰ سیاسی اور فوجی قیادت کی ایک ملاقات کے بعد اعلان کیا گیا ہے کہ اس خطے پر بھارت کی تھانیداری قابل قبول نہیں ناقابل برداشت ہے۔ وزیر اعظم کے امریکا کے دورے کی تیاری کے سلسلے میں یہ بات سامنے آئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ کسی قوت نے پاکستان پر بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
میں یہاں عرض کرتا ہوں کہ پاکستان بلاشبہ منہ توڑ جواب دے سکتا ہے وہ تو ہمارے بعض فوجی اور سیاسی غداروں نے بھارتی فوج کی مدد سے ہمارا ملک توڑ دیا لیکن اس کے باوجود ہم ابھی زندہ ہیں۔ اگر کوئی زندہ نہیں تو وہ ہمارے بعض لیڈر ہیں اور بعض قابل نفرت دانشور جو نہایت بے شرمی کے ساتھ بھارتی لابی بن کر پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔ یہ سب عناصر محب وطن پاکستانی سپاہ کے نشانے پر ہیں، نظریات سے وابستہ پاکستانی ان اندرونی دشمنوں کو خوب پہچانتے ہیں اور اب تو ان کی شناخت کوئی مسئلہ بھی نہیں رہی کیونکہ وہ پوری دیدہ دلیری کے ساتھ پاکستان دشمن اور بھارت پسند سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن جب بھی کوئی عقلمند حکومت آئے گی وہ ان کو پہچان لے گی۔ ان کی سرکوبی آسان ہے وہ اپنے جرم کا دن رات اعتراف کرتے ہیں اور اس قدر دیدہ دلیر ہو چکے ہیں کہ کچھ چھپاتے بھی نہیں ہیں بلکہ جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنے خبث باطن کے اظہار سے باز نہیں آتے۔
اس وقت میں خوشی منا رہا ہوں اس حکومتی اعلان کی کہ وہ بھارت کی بالادستی قبول کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ معلوم نہیں کس چالاک شخص نے ہمارے سیاسی حکمرانوں کو بھارت سے ڈرا دیا۔ یہ ان لوگوں کا کام ہو گا جو امریکا کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں ایک مدت سے صحیح پاکستانی احتساب نہ ہونے کی وجہ سے امریکا ہمارے اوسان پر سوار ہو چکا ہے۔ حیرت ہے کہ ہمارے اہم پاکستانی لیڈر اپنی آل اولاد کو کسی غیر ملک میں رکھتے ہیں جو اس کے شہری ہیں مگر حکومت کے لیے پاکستان پسند ہے۔ یہ ایک سرسبز چراگاہ ہے۔ ان پاکستانیوں کی ملی بھگت سے آئی ایم ایف نے ہمارا بجٹ بنایا ہے جو ایک امریکی زیر اثر ادارہ ہے اگر اس پر عمل ہو گیا جو شروع ہے تو پھر بھارت کی تھانیداری قبول نہ کرنے کا اعلان خدا جانے کدھر جائے گا مگر پہلی بار یہ ایسی جرأت مندانہ بات ہوئی ہے تو اس کا خیر مقدم اور اس کے لفظاً معناً پورا ہونے کی شدید خواہش۔ اصل سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ پاکستانی عوام کو ایسی سازشوں سے آگاہ کرتے رہیں اور وہ بے خبری میں مارے نہ جائیں۔