لاشعور جادو کی چھڑی کی طرح ہے
ذہن ایک ایسی دنیا ہے جسے آپ جتنا دریافت کریں گے یہ اتنی ہی وسیع ہوتی چلی جائے گی۔ بقول ایک مفکر...
ISLAMABAD:
ذہن ایک ایسی دنیا ہے جسے آپ جتنا دریافت کریں گے یہ اتنی ہی وسیع ہوتی چلی جائے گی۔ بقول ایک مفکر ''علم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ عقل یا شعور کا علم اور وجدان یا لاشعور کا علم۔ پہلی صنف سائنس اور فلسفے پر مشتمل ہے اور دوسرے میں تصوف اور آرٹ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں''۔
اگر ہم وجدان یا لاشعور کے حوالے سے بات کریں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ لاشعور ہی روحانیت کی دنیا کو دریافت کرتا ہے۔ شعوری سطح خارجی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ جو زندگی کے حقائق کے قریب تر ہوتی ہے جب کہ لاشعور داخلی دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ من کی دنیا کی مسافت اس زندگی اور کائنات کو مسخر کرنے لگتی ہے۔ جتنا ہم اپنی ذات میں سمٹتے جاتے ہیں ہماری محسوسات وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پھیلاؤ ہمارے ذہن کو منتشر کردیتا ہے اور انتشار ہمیں جھکنے سے روکتا ہے۔ بقول مفکر ''جب ہم فطرت کے سامنے جھک جاتے ہیں، تو اسے مسخر کرلیتے ہیں''۔کچھ عرصہ پہلے جب خواب کے بارے میں لکھا تھا تو بہت سے لوگوں نے اپنے خواب شیئر کیے تھے۔ ایک لڑکی رابعہ نے رابطہ کیا جس کا نفسیاتی علاج چل رہا تھا۔ میں نے اس کے لاشعور کی دنیا کو بہت متحرک پایا۔ وہ ذہنی طور پر اپنے خوابوں سے خوفزدہ تھی، جو حقیقت میں بدل جاتے ہیں۔ وہ وقت سے پہلے حادثات کو دیکھ لیتی ہے۔ کسی عزیز کی موت سے پہلے وہ لمحے اسے نیند میں دکھائی دیتے ہیں۔ گھر والے اس کی کیفیات کو نہیں سمجھ سکتے۔ گزشتہ کالم میں لیوسڈ ڈریمنگ (تاباں خواب) کے بارے میں لکھا تھا۔ خواب کے اس عمل سے ہم آگاہ ہوتے ہیں۔ یہ خواب روز مرہ کے واقعات پر مبنی ہوتے ہیں۔
یہ خواب خارجی مشاہدات کا نچوڑ ہیں اور تصور کی طاقت سے بہرہ ور ہیں۔ یہ تصور جو حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے لیکن رابعہ کے خواب Psychic Dreaming روحانی مشاہدات کے زمرے میں آتے ہیں۔ شعوری سطح کے مشاہدات و تجربات ماضی یا حال سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ روحانی خواب مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ میں نے رابعہ سے اس بات کی تصدیق کی جس کا ذکر پچھلے کالم میں کیا تھا کہ جب خواب آور دوائیں استعمال کی جاتی ہیں تو خواب دکھائی نہیں دیتے۔ تو اس کا کہنا تھا کہ وہ جب تک ٹرینکیو لائیزر لیتی رہی اسے خواب نہیں دکھائی دیے۔ لیکن جیسے ہی اس نے دوا بند کی دوبارہ خوابوں کا نزول ہونے لگا۔ اس مرتبہ اس نے خواب دیکھا کہ اس کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ اس خواب کے بعد اس کی کیفیت بدل گئی ہے۔ جیسے ہی اس کا شوہر آفس جاتا ہے وہ رونے اور چیخنے لگتی ہے۔ گوکہ اس خواب کو کافی مہینے گزر چکے ہیں لیکن وہ ابھی تک خوفزدہ ہے۔ ضروری نہیں کہ اس کے تمام خواب حقیقت میں بدل جاتے ہوں گے۔ لیکن مجھے یہاں یہ خدشہ ہے کہ خواب کا یہ پختہ تصور حقیقت میں نہ بدل جائے۔
اس طرح کی کیفیت کو Precognition (واقعات کا پہلے سے علم ہونا) کہا جاتا ہے۔خوابوں کے حوالے سے ایک اور لڑکی سعدیہ نے کہا ''میری شادی کو تین سال ہوچکے ہیں۔ میں اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ جیسے ہی میری شادی ہوئی میں عجیب خواب دیکھنے لگی۔ میرے خواب میں ایک بچہ آتا۔ جس کا مجھے خواب میں انتظار رہتا ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ بچہ نظر آتا ہے میں اسے پکڑنے کو لپکتی ہوں مگر وہ دور ہوجاتا ہے۔ میں آج بھی ایسے خواب دیکھتی ہوں، جس میں ایک بچہ میرے احساس سے آنکھ مچولی کھیلتا ہے۔ جیسے ہی اس کے قریب جانے کی کوشش کرتی ہوں وہ نگاہ سے اوجھل ہوجاتا ہے''۔ مزید بات چیت کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ جب بتیس سال کی تھی تو اس کی شادی ہوئی۔ والدین اس کی شادی کے سلسلے میں بہت پریشان تھے۔ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ خاندان کی کچھ لڑکیوں کی دیر سے شادیاں ہوئی تھیں۔ وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ یہ خوف لے کر وہ نئے گھر میں داخل ہوئی تھی۔ طبی طور پر انھیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ لیکن رابعہ کا خوف اس کی خوشیوں کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری زندگی سوچوں کے رخ پر چلنے لگتی ہے۔ وہ الفاظ جو ہم بولتے ہیں یا ذہن میں لفظوں کی تصویریں بنتی ہیں، وہ ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ اکثر لوگ ناکامی کا بوجھ قسمت پر ڈال دیتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ ان کے واہمے و خوف ہی ہیں جو حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ اگر وہ منفی سوچیں ترک کرکے مثبت انداز فکر اپنالیں تو بند راستے خودبخود کھلتے چلے جائیں گے۔
البرٹ آئن اسٹائن اسکول میں ریاضی کے مضمون میں فیل ہوگیا۔ والدین نے اسے مشورہ دیا کہ وہ پلمبر کا کام سیکھ لے۔ یہ آئن اسٹائن کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ ایک رات اس نے خواب دیکھا کہ رات میں وہ اپنے دوست کے ساتھ برف سے ڈھکی پہاڑی کی ڈھلوان سے پھسل رہا ہے۔ پھر وہ اوپر چڑھنے لگتے۔ جب وہ تیزی سے نیچے آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ بہت تیز رفتاری سے نیچے جارہا ہے۔ اسے لگا کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے جاملی ہے۔ اس نے اوپر ستاروں کی طرف دیکھا۔ ستارے رنگوں کی دھنک سے مزین دکھائی دیے۔ اسے لگا کہ وہ اپنی زندگی کے بامعنی موڑ پر کھڑا ہے۔ آئن اسٹائن خواب کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ''میرا پورا سائنسی کیریئر اس خواب کے اردگرد گھومتا ہے''۔ یہ خواب کی طاقت تھی کہ اس نے پلمبر بننے سے انکار کرتے ہوئے دوبارہ سائنس کی دنیا سے رابطہ بحال کرلیا۔
مجھے خواب سننے سے دلچسپی رہی ہے۔ جب بھی کسی نے اپنا خواب سنایا، میں نے اسے غور سے سنا اور آنے والے دنوں میں ان کی زندگیوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو خواب کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ خوابوں کے کئی مخفی زاویے سامنے آئے اور اندازہ ہوا کہ لاشعور جادو کی چھڑی کی طرح ہے جو زندگی کے منظرنامے کو بدلنے پر قادر ہے۔ جس میں تخیل کی گہرائی ہے۔ بقول ایک فلسفی ''انسان مستقلاً حالت شعور میں نہیں رہ سکتا، اسے لازماً خود کو لاشعور کے حوالے کرنا ہوگا کیونکہ وہیں اس کی جڑ ہے''۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ موت انسانی زندگی کا بہت بڑا حادثہ ہے جب وہ تمام رشتوں اور مناظر سے کٹ جاتا ہے، جو اس کے تحت الشعور میں محفوظ ہوتے ہیں۔ اسی دوران بہت سے لوگ پریکگنیشن (Precognition) کے تحت وقت سے پہلے اپنی موت کے بارے میں جان لیتے ہیں، ان میں بہت سے لوگ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہوتے۔یہ وہ لوگ ہیں جو حادثاتی موت سے دوچار ہوتے ہیں یا اچانک مرجاتے ہیں۔
یہ لوگ اکثر خواب کے ذریعے بھی اپنی موت کے بارے میں جان لیتے ہیں۔ میری دوست ساحرہ نے موت سے پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ آسمان تک ایک سیڑھی جارہی ہے اور وہ بغیر کسی سہارے کے کھڑی ہے اور ڈرتے ڈرتے اوپر جارہی ہے۔ آسمان پر پرنور روشنی پھیلی ہے مگر نیچے اندھیرا ہے۔ جب اس نے شوہر کو یہ خواب بتایا تھا تو وہ ہنس کر بولے تھے کہ ''بیگم تمہارا دنیا میں رہنے کا وقت ختم ہوچکا ہے لہٰذا رخت سفر باندھ لو'' یوں یہ بات ہنسی مذاق میں ختم ہوگئی۔ اسی مہینے ساحرہ کو دل کی بیماری کا علم ہوا اور وہ چند ہفتوں میں خالق حقیقی سے جاملی۔ اس طرح کے خوابوں اور الہامی کیفیات کو Pre Death Experiences موت سے پہلے رونما ہونے والے تجربات کا نام دیا جاتا ہے۔ اکثر لوگ خواب میں مسلسل اپنے عزیزوں کو دیکھتے ہیں جو دنیا چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موت سے پہلے انسان کی حسیں تیزی سے کام کرنے لگتی ہیں اور اس کا لاشعور متحرک ہوجاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ لوگ بیمار ہوں۔ کیونکہ بیمار انسان ذہنی طور پر اپنے انجام کے لیے تیار ہوتا ہے۔ بیمار لوگ بھی اس مرحلے سے دوچار ہوتے ہیں۔
ذہن ایک ایسی دنیا ہے جسے آپ جتنا دریافت کریں گے یہ اتنی ہی وسیع ہوتی چلی جائے گی۔ بقول ایک مفکر ''علم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ عقل یا شعور کا علم اور وجدان یا لاشعور کا علم۔ پہلی صنف سائنس اور فلسفے پر مشتمل ہے اور دوسرے میں تصوف اور آرٹ نمایاں حیثیت رکھتے ہیں''۔
اگر ہم وجدان یا لاشعور کے حوالے سے بات کریں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ لاشعور ہی روحانیت کی دنیا کو دریافت کرتا ہے۔ شعوری سطح خارجی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ جو زندگی کے حقائق کے قریب تر ہوتی ہے جب کہ لاشعور داخلی دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ من کی دنیا کی مسافت اس زندگی اور کائنات کو مسخر کرنے لگتی ہے۔ جتنا ہم اپنی ذات میں سمٹتے جاتے ہیں ہماری محسوسات وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پھیلاؤ ہمارے ذہن کو منتشر کردیتا ہے اور انتشار ہمیں جھکنے سے روکتا ہے۔ بقول مفکر ''جب ہم فطرت کے سامنے جھک جاتے ہیں، تو اسے مسخر کرلیتے ہیں''۔کچھ عرصہ پہلے جب خواب کے بارے میں لکھا تھا تو بہت سے لوگوں نے اپنے خواب شیئر کیے تھے۔ ایک لڑکی رابعہ نے رابطہ کیا جس کا نفسیاتی علاج چل رہا تھا۔ میں نے اس کے لاشعور کی دنیا کو بہت متحرک پایا۔ وہ ذہنی طور پر اپنے خوابوں سے خوفزدہ تھی، جو حقیقت میں بدل جاتے ہیں۔ وہ وقت سے پہلے حادثات کو دیکھ لیتی ہے۔ کسی عزیز کی موت سے پہلے وہ لمحے اسے نیند میں دکھائی دیتے ہیں۔ گھر والے اس کی کیفیات کو نہیں سمجھ سکتے۔ گزشتہ کالم میں لیوسڈ ڈریمنگ (تاباں خواب) کے بارے میں لکھا تھا۔ خواب کے اس عمل سے ہم آگاہ ہوتے ہیں۔ یہ خواب روز مرہ کے واقعات پر مبنی ہوتے ہیں۔
یہ خواب خارجی مشاہدات کا نچوڑ ہیں اور تصور کی طاقت سے بہرہ ور ہیں۔ یہ تصور جو حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے لیکن رابعہ کے خواب Psychic Dreaming روحانی مشاہدات کے زمرے میں آتے ہیں۔ شعوری سطح کے مشاہدات و تجربات ماضی یا حال سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ روحانی خواب مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ میں نے رابعہ سے اس بات کی تصدیق کی جس کا ذکر پچھلے کالم میں کیا تھا کہ جب خواب آور دوائیں استعمال کی جاتی ہیں تو خواب دکھائی نہیں دیتے۔ تو اس کا کہنا تھا کہ وہ جب تک ٹرینکیو لائیزر لیتی رہی اسے خواب نہیں دکھائی دیے۔ لیکن جیسے ہی اس نے دوا بند کی دوبارہ خوابوں کا نزول ہونے لگا۔ اس مرتبہ اس نے خواب دیکھا کہ اس کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ اس خواب کے بعد اس کی کیفیت بدل گئی ہے۔ جیسے ہی اس کا شوہر آفس جاتا ہے وہ رونے اور چیخنے لگتی ہے۔ گوکہ اس خواب کو کافی مہینے گزر چکے ہیں لیکن وہ ابھی تک خوفزدہ ہے۔ ضروری نہیں کہ اس کے تمام خواب حقیقت میں بدل جاتے ہوں گے۔ لیکن مجھے یہاں یہ خدشہ ہے کہ خواب کا یہ پختہ تصور حقیقت میں نہ بدل جائے۔
اس طرح کی کیفیت کو Precognition (واقعات کا پہلے سے علم ہونا) کہا جاتا ہے۔خوابوں کے حوالے سے ایک اور لڑکی سعدیہ نے کہا ''میری شادی کو تین سال ہوچکے ہیں۔ میں اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ جیسے ہی میری شادی ہوئی میں عجیب خواب دیکھنے لگی۔ میرے خواب میں ایک بچہ آتا۔ جس کا مجھے خواب میں انتظار رہتا ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ بچہ نظر آتا ہے میں اسے پکڑنے کو لپکتی ہوں مگر وہ دور ہوجاتا ہے۔ میں آج بھی ایسے خواب دیکھتی ہوں، جس میں ایک بچہ میرے احساس سے آنکھ مچولی کھیلتا ہے۔ جیسے ہی اس کے قریب جانے کی کوشش کرتی ہوں وہ نگاہ سے اوجھل ہوجاتا ہے''۔ مزید بات چیت کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ جب بتیس سال کی تھی تو اس کی شادی ہوئی۔ والدین اس کی شادی کے سلسلے میں بہت پریشان تھے۔ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ خاندان کی کچھ لڑکیوں کی دیر سے شادیاں ہوئی تھیں۔ وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ یہ خوف لے کر وہ نئے گھر میں داخل ہوئی تھی۔ طبی طور پر انھیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ لیکن رابعہ کا خوف اس کی خوشیوں کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری زندگی سوچوں کے رخ پر چلنے لگتی ہے۔ وہ الفاظ جو ہم بولتے ہیں یا ذہن میں لفظوں کی تصویریں بنتی ہیں، وہ ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ اکثر لوگ ناکامی کا بوجھ قسمت پر ڈال دیتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ ان کے واہمے و خوف ہی ہیں جو حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ اگر وہ منفی سوچیں ترک کرکے مثبت انداز فکر اپنالیں تو بند راستے خودبخود کھلتے چلے جائیں گے۔
البرٹ آئن اسٹائن اسکول میں ریاضی کے مضمون میں فیل ہوگیا۔ والدین نے اسے مشورہ دیا کہ وہ پلمبر کا کام سیکھ لے۔ یہ آئن اسٹائن کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ ایک رات اس نے خواب دیکھا کہ رات میں وہ اپنے دوست کے ساتھ برف سے ڈھکی پہاڑی کی ڈھلوان سے پھسل رہا ہے۔ پھر وہ اوپر چڑھنے لگتے۔ جب وہ تیزی سے نیچے آیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ بہت تیز رفتاری سے نیچے جارہا ہے۔ اسے لگا کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے جاملی ہے۔ اس نے اوپر ستاروں کی طرف دیکھا۔ ستارے رنگوں کی دھنک سے مزین دکھائی دیے۔ اسے لگا کہ وہ اپنی زندگی کے بامعنی موڑ پر کھڑا ہے۔ آئن اسٹائن خواب کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ''میرا پورا سائنسی کیریئر اس خواب کے اردگرد گھومتا ہے''۔ یہ خواب کی طاقت تھی کہ اس نے پلمبر بننے سے انکار کرتے ہوئے دوبارہ سائنس کی دنیا سے رابطہ بحال کرلیا۔
مجھے خواب سننے سے دلچسپی رہی ہے۔ جب بھی کسی نے اپنا خواب سنایا، میں نے اسے غور سے سنا اور آنے والے دنوں میں ان کی زندگیوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو خواب کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ خوابوں کے کئی مخفی زاویے سامنے آئے اور اندازہ ہوا کہ لاشعور جادو کی چھڑی کی طرح ہے جو زندگی کے منظرنامے کو بدلنے پر قادر ہے۔ جس میں تخیل کی گہرائی ہے۔ بقول ایک فلسفی ''انسان مستقلاً حالت شعور میں نہیں رہ سکتا، اسے لازماً خود کو لاشعور کے حوالے کرنا ہوگا کیونکہ وہیں اس کی جڑ ہے''۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ موت انسانی زندگی کا بہت بڑا حادثہ ہے جب وہ تمام رشتوں اور مناظر سے کٹ جاتا ہے، جو اس کے تحت الشعور میں محفوظ ہوتے ہیں۔ اسی دوران بہت سے لوگ پریکگنیشن (Precognition) کے تحت وقت سے پہلے اپنی موت کے بارے میں جان لیتے ہیں، ان میں بہت سے لوگ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہوتے۔یہ وہ لوگ ہیں جو حادثاتی موت سے دوچار ہوتے ہیں یا اچانک مرجاتے ہیں۔
یہ لوگ اکثر خواب کے ذریعے بھی اپنی موت کے بارے میں جان لیتے ہیں۔ میری دوست ساحرہ نے موت سے پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ آسمان تک ایک سیڑھی جارہی ہے اور وہ بغیر کسی سہارے کے کھڑی ہے اور ڈرتے ڈرتے اوپر جارہی ہے۔ آسمان پر پرنور روشنی پھیلی ہے مگر نیچے اندھیرا ہے۔ جب اس نے شوہر کو یہ خواب بتایا تھا تو وہ ہنس کر بولے تھے کہ ''بیگم تمہارا دنیا میں رہنے کا وقت ختم ہوچکا ہے لہٰذا رخت سفر باندھ لو'' یوں یہ بات ہنسی مذاق میں ختم ہوگئی۔ اسی مہینے ساحرہ کو دل کی بیماری کا علم ہوا اور وہ چند ہفتوں میں خالق حقیقی سے جاملی۔ اس طرح کے خوابوں اور الہامی کیفیات کو Pre Death Experiences موت سے پہلے رونما ہونے والے تجربات کا نام دیا جاتا ہے۔ اکثر لوگ خواب میں مسلسل اپنے عزیزوں کو دیکھتے ہیں جو دنیا چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موت سے پہلے انسان کی حسیں تیزی سے کام کرنے لگتی ہیں اور اس کا لاشعور متحرک ہوجاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ لوگ بیمار ہوں۔ کیونکہ بیمار انسان ذہنی طور پر اپنے انجام کے لیے تیار ہوتا ہے۔ بیمار لوگ بھی اس مرحلے سے دوچار ہوتے ہیں۔