محسن ِ انسانیتؐ
آپؐ کی تشریف آوری سے دنیا بھر کے بُت کدوں میں جلال انگیز انقلاب آ گیا۔
ISLAMABAD:
یہ وہ ماہ مقدس ہے جس میں انسانیت کے مُحسنِ اعظم حضور سرورِ کونینؐ جلوہ گر ہوئے۔ آپؐ کی آمد سے انسانیت کی کِشتِ ویراں میں بہار آ گئی۔
مُحسنِ کونینؐ نے انسانوں کو غلامی سے آزاد کرایا۔ آپؐ نے صنم پرستوں کو خدا پرستی کے عظیم شرف سے بہرہ یاب کیا۔ آپؐ نے قعرِ مذلت میں غوطہ زن آدمیت کو ساحلِ عروج و رفعت سے آشنا کیا۔ آپؐ نے مقصدِ تخلیق سے بے بہرہ وحشیوں کو تمدّن آفریں اور خّلاقِ آئین جہاں داری بنا دیا۔ آپؐ نے حُرمتِ انسانی پامال کرنے والوں کو تہذیب و اخلاق کی نئی جہتیں عطا کیں۔ آپؐ نے زندگی کو بندگی اور بندگی کو درخشندگی کا جمال آگیں تصور عطا کیا۔
آپؐ نے دبیز اندھیروں کو صبحِ نو کی کرنیں عطا کیں۔ آپؐ نے خود پسندی و خود ستائی، خود نمائی و خود سری کے دریا میں غوطہ زن فراعنۂ وقت کو مجسم عجز و انکسار بنا دیا۔ آپؐ نے سطوتِ قیصر و کسریٰ سے تخت و تاج و حکومت چھین کر صحرائے عرب کے ریگ زاروں پر شب باشیاں کرنے والے بدّؤں کو نواز دیا۔ آپؐ نے اہلِ دنیا کو حُسنِ معاشرت، باہمی رواداری و اتحاد و شرفِ انسانی کی پہچان، اعتدال پسندی اور عبادات کا ایسا خوب صورت اور دل پذیر تصور پیش کیا جو سراسَر فوز و فلاح ِ انسانیت کا ضامن ہے تو پھر جناب رسول کریم مُحسنِ کائناتؐ کے لامحدود اور بے کراں احسانات کا بدل کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہوسکتی۔
ماہِ ربیع الاول اُس مُحسنِ انس و جاںؐ کی آمد کا مہینہ ہے جس پر خود خالقِ کائنات تمام ملائکہ سے مل کر ہمہ وقت درود کی برسات کر رہا ہے۔ کائنات بھر کے نجبا، اتقیا، زہاد، صلحاء، فصاحت و بلاغت کے تاج دار جس کے سامنے ہاتھوں میں قرطاس و قلم لیے اپنے بے تاب جذبات کا نذرانۂ معراج لیے ایستادہ، کائنات کی رنگ و بُو کی نکہت افشانیاں جس کی زُلفِ عنبریں پر نثار ہونے کو تیار کھڑی ہیں، شمس و قمر کی ضوفشانیاں جس کے رُخِ انور کی تابش کی خیرات لے کر کوہ و دمن کو روشن کر رہی ہیں، ہلالِ آسمان جس کے ناخنِ مبارک کا عکس نظر آرہا ہے، جس کے دُرِ دنداں کے سامنے لعلِ یمن و بدخشاں خجل نظر آ رہے ہیں، جس کی سانسوں کی مہکار سے چمنستانِ کائنات کے گُل ہائے پریشاں ذوقِ خنداں حاصل کر رہے ہیں، جس کے لعابِ دہن کے استعمال سے تڑپتے ہوئے مریضِ نیم جان میں حیات کے آثار پیدا ہوتے ہوں، جس کے اندازِ تبسّم سے ظالموں پر کپکپی طار ی ہو جاتی ہو، جس کے طرزِ تکلّم سے دنیائے ماہ انجم و کہکشاں مسکرا اٹھتی ہو، گردشِ تکوینِ روزگار جس کے قیام کا ٹھہر کر نظارہ کرتی ہو، جس کے طرزِ خرام کے سامنے سیّارگانِ فلک کروٹیں بدلتے نظر آتے ہوں، جس کے دستِ عطا کے سامنے فیاضی حاتم لرزاں و شرمندہ نظر آتی ہو، جس کی نوکِ پا کی ٹھوکر سے سرِ سروراں کو تاجِ عظمت مرحمت ہوتا ہو، جس کی سیرتِ اطہر کا مطالعہ ذوقِ عبادت سے سرشار کرتا ہو، برق و باراں کے ہنگامے جس سے دولت ِ سوز و جاوداں حاصل کرتے ہوں اور جس کے وجود ِ اطہر سے تزئینِ کائنات کا بھرم قائم ہو، وہی لامثال ہستی جہانِ آدمیت کو درسِ اخلاق و بقا دینے اسی ماہ مقدس میں تشریف فرما ہوئی۔
آپؐ کی تشریف آوری سے دنیا بھر کے بُت کدوں میں جلال انگیز انقلاب آ گیا۔ قیصر و کسریٰ کے محلات لرزہ بر اندام نظر آنے لگے، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک نکہتِ نُور سے قلبِ کائنات معطر و جگمگانے لگا۔ بیت اﷲ شریف کی دیواروں سے دعائے خلیل اور نوید مسیحا کی آمد کی بشارت کا غلغلہ بلند ہوا۔
حضور ﷺ تماشا گاہِ زیست کو مقصدِ تخلیق کا حسنِ تخّیل دینے، جبینِ انسانیت کو ناز و نیاز کی روحانی کیفیات سے ذوقِ آشنائی دینے، زمین کی پستیوں کو اوجِ سما، مروّت و مودت کُش دلوں کو دولتِ مہر و وفا، برہنہ سر بیواؤں کو ردا اور تشنہ لبوں کو آبِ بقاء عطا کرنے، ماہ انجم کو اپنی تجّلیوں سے فیض یابی بخشنے، شبِ تارِ الست کو نکہت و نُور کے دھاروں سے آشنائی عطا کرنے، اشک باروں اور سوگواروں کو امواجِ بحرِ رجائیت میں غُسل دینے اور محرومانِ ازل کو ابد تک مالا مال کر دینے کی جاں بخش نوید دینے کے لیے تشریف لائے۔
اس اعتبار سے حضور سرورِ کائناتؐ عالم ِ انسانیت ہی نہیں بل کہ کائناتِ رنگ و بُو کی ہر تخلیق کے مُحسنِ اعظم ہیں اور اﷲ رب العزت کا یہ فرمانِ ذی شان فی الواقع باعثِ مسرت اور حقائق سے لبریز ہے کہ اُس نے مومنین پر یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ خود اُنہی میں سے ایک نبی اُمّی عطا فرمایا جو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور اُن کا تزکیۂ نفس کرتا ہے۔
یہ وہ ماہ مقدس ہے جس میں انسانیت کے مُحسنِ اعظم حضور سرورِ کونینؐ جلوہ گر ہوئے۔ آپؐ کی آمد سے انسانیت کی کِشتِ ویراں میں بہار آ گئی۔
مُحسنِ کونینؐ نے انسانوں کو غلامی سے آزاد کرایا۔ آپؐ نے صنم پرستوں کو خدا پرستی کے عظیم شرف سے بہرہ یاب کیا۔ آپؐ نے قعرِ مذلت میں غوطہ زن آدمیت کو ساحلِ عروج و رفعت سے آشنا کیا۔ آپؐ نے مقصدِ تخلیق سے بے بہرہ وحشیوں کو تمدّن آفریں اور خّلاقِ آئین جہاں داری بنا دیا۔ آپؐ نے حُرمتِ انسانی پامال کرنے والوں کو تہذیب و اخلاق کی نئی جہتیں عطا کیں۔ آپؐ نے زندگی کو بندگی اور بندگی کو درخشندگی کا جمال آگیں تصور عطا کیا۔
آپؐ نے دبیز اندھیروں کو صبحِ نو کی کرنیں عطا کیں۔ آپؐ نے خود پسندی و خود ستائی، خود نمائی و خود سری کے دریا میں غوطہ زن فراعنۂ وقت کو مجسم عجز و انکسار بنا دیا۔ آپؐ نے سطوتِ قیصر و کسریٰ سے تخت و تاج و حکومت چھین کر صحرائے عرب کے ریگ زاروں پر شب باشیاں کرنے والے بدّؤں کو نواز دیا۔ آپؐ نے اہلِ دنیا کو حُسنِ معاشرت، باہمی رواداری و اتحاد و شرفِ انسانی کی پہچان، اعتدال پسندی اور عبادات کا ایسا خوب صورت اور دل پذیر تصور پیش کیا جو سراسَر فوز و فلاح ِ انسانیت کا ضامن ہے تو پھر جناب رسول کریم مُحسنِ کائناتؐ کے لامحدود اور بے کراں احسانات کا بدل کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہوسکتی۔
ماہِ ربیع الاول اُس مُحسنِ انس و جاںؐ کی آمد کا مہینہ ہے جس پر خود خالقِ کائنات تمام ملائکہ سے مل کر ہمہ وقت درود کی برسات کر رہا ہے۔ کائنات بھر کے نجبا، اتقیا، زہاد، صلحاء، فصاحت و بلاغت کے تاج دار جس کے سامنے ہاتھوں میں قرطاس و قلم لیے اپنے بے تاب جذبات کا نذرانۂ معراج لیے ایستادہ، کائنات کی رنگ و بُو کی نکہت افشانیاں جس کی زُلفِ عنبریں پر نثار ہونے کو تیار کھڑی ہیں، شمس و قمر کی ضوفشانیاں جس کے رُخِ انور کی تابش کی خیرات لے کر کوہ و دمن کو روشن کر رہی ہیں، ہلالِ آسمان جس کے ناخنِ مبارک کا عکس نظر آرہا ہے، جس کے دُرِ دنداں کے سامنے لعلِ یمن و بدخشاں خجل نظر آ رہے ہیں، جس کی سانسوں کی مہکار سے چمنستانِ کائنات کے گُل ہائے پریشاں ذوقِ خنداں حاصل کر رہے ہیں، جس کے لعابِ دہن کے استعمال سے تڑپتے ہوئے مریضِ نیم جان میں حیات کے آثار پیدا ہوتے ہوں، جس کے اندازِ تبسّم سے ظالموں پر کپکپی طار ی ہو جاتی ہو، جس کے طرزِ تکلّم سے دنیائے ماہ انجم و کہکشاں مسکرا اٹھتی ہو، گردشِ تکوینِ روزگار جس کے قیام کا ٹھہر کر نظارہ کرتی ہو، جس کے طرزِ خرام کے سامنے سیّارگانِ فلک کروٹیں بدلتے نظر آتے ہوں، جس کے دستِ عطا کے سامنے فیاضی حاتم لرزاں و شرمندہ نظر آتی ہو، جس کی نوکِ پا کی ٹھوکر سے سرِ سروراں کو تاجِ عظمت مرحمت ہوتا ہو، جس کی سیرتِ اطہر کا مطالعہ ذوقِ عبادت سے سرشار کرتا ہو، برق و باراں کے ہنگامے جس سے دولت ِ سوز و جاوداں حاصل کرتے ہوں اور جس کے وجود ِ اطہر سے تزئینِ کائنات کا بھرم قائم ہو، وہی لامثال ہستی جہانِ آدمیت کو درسِ اخلاق و بقا دینے اسی ماہ مقدس میں تشریف فرما ہوئی۔
آپؐ کی تشریف آوری سے دنیا بھر کے بُت کدوں میں جلال انگیز انقلاب آ گیا۔ قیصر و کسریٰ کے محلات لرزہ بر اندام نظر آنے لگے، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک نکہتِ نُور سے قلبِ کائنات معطر و جگمگانے لگا۔ بیت اﷲ شریف کی دیواروں سے دعائے خلیل اور نوید مسیحا کی آمد کی بشارت کا غلغلہ بلند ہوا۔
حضور ﷺ تماشا گاہِ زیست کو مقصدِ تخلیق کا حسنِ تخّیل دینے، جبینِ انسانیت کو ناز و نیاز کی روحانی کیفیات سے ذوقِ آشنائی دینے، زمین کی پستیوں کو اوجِ سما، مروّت و مودت کُش دلوں کو دولتِ مہر و وفا، برہنہ سر بیواؤں کو ردا اور تشنہ لبوں کو آبِ بقاء عطا کرنے، ماہ انجم کو اپنی تجّلیوں سے فیض یابی بخشنے، شبِ تارِ الست کو نکہت و نُور کے دھاروں سے آشنائی عطا کرنے، اشک باروں اور سوگواروں کو امواجِ بحرِ رجائیت میں غُسل دینے اور محرومانِ ازل کو ابد تک مالا مال کر دینے کی جاں بخش نوید دینے کے لیے تشریف لائے۔
اس اعتبار سے حضور سرورِ کائناتؐ عالم ِ انسانیت ہی نہیں بل کہ کائناتِ رنگ و بُو کی ہر تخلیق کے مُحسنِ اعظم ہیں اور اﷲ رب العزت کا یہ فرمانِ ذی شان فی الواقع باعثِ مسرت اور حقائق سے لبریز ہے کہ اُس نے مومنین پر یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ خود اُنہی میں سے ایک نبی اُمّی عطا فرمایا جو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور اُن کا تزکیۂ نفس کرتا ہے۔