سیاستدان حکمران اور فوج
ہمیں اپنی فوج کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے ملعون کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔
جمہوریت رہے گی تو ہمارے سیاستدان بھی حکمرانی کے مزے لوٹ سکیں گے اور سب کی باری آتی رہے گی لیکن ہمارے سیاستدانوں نے اگر جمہوریت کو احتیاط کے ساتھ اور حقیقت پسندی کے ساتھ نہ چلایا تو پھر اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور ہماری تو تاریخ اس سے بھری پڑی ہے کہ سیاستدانوں نے حکومت چلانے میں بے احتیاطی کی جس کا انجام فوجی حکومت کی صورت میں سامنے آیا۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی فوج کی طاقت بیرکوں میں بند نہیں ہوتی ۔یہ کوئی غلام ملک کی فوج نہیں ہوتی جو ملکی حالات سے لاتعلق ہو کر گوشہ تنہائی میں پڑی رہے اور صرف بیرونی دشمن کے لیے ہتھیار چمکاتی رہے۔ امریکا جیسے جمہوری ملک میں بھی فوج کی بات چلتی ہے اور آنجہانی سوویت یونین میں تو فوج کے جرنیل حکومت میں شامل ہوا کرتے تھے ۔
پاکستان جیسے مسلمان ملک میں مارشل لاء اگر ایک مقامی مستقل روایت ہے تو ایک تاریخی روایت بھی ہے اور مسلمانوں کے ہاں فوج محض ایک پیشہ ور جنگجوئوں کا گروہ نہیں ہوتی ۔ ہماری تاریخ میں حکمران اور جرنیل کا الگ الگ تصور موجود نہیں ہے ۔ ہمارے جو آئیڈیل حکمران گزرے ہیں وہ سپاہی بھی تھے اور خود پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ و السلام ایک جرنیل تھے اور کئی جنگوں میں قائد تھے۔ خود شرکت فرمائی یا اپنی نگرانی اور ہدایات کے ساتھ فوج کسی مہم پر روانہ کی ۔
تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض ہے کہ یہ قوم آج بھی صلاح الدین ایوبی کو یاد کرتی ہے اور کسی خالد بن ولید کے انتظار میں رہتی ہے یا پھر آج کے حکمران ٹیپو سلطان کو بھی یاد کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارے سیاستدانوں کو بے حد احتیاط کے ساتھ گفتگو کرنی چاہیے اور فوجی بیرکوں میں مداخلت کیے بغیر ان سے باہر کے علاقے میں اپنا سیاسی اقتدار کا علم بلند رکھنا چاہیے ۔
حکومت کا نشہ اس قدر تیز اور تند ہوتا ہے کہ بعض اوقات اپنی حیثیت سے بڑھ کر کوئی حرکت کر بیٹھتی ہے مگر حیثیت یاد دلانے والے اس سے بڑھ کر ایسے نشے میں ہوتے ہیں جسے کوئی ترشی اتار نہیں سکتی ۔ صدر ضیاء الحق شہید نے بھی کمزور ترین یعنی شریف ترین مرحوم محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا تھا ۔ جونیجو صاحب اپنے آپ کو سچ مچ وزیر اعظم سمجھنے لگے اور اپنی وزارت عظمیٰ کے خالق صدر سے پہلی ہی ملاقات میں یہ سوال کر بیٹھے کہ آپ مارشل لاء کب اٹھا رہے ہیں ۔ ان کی بات سن کرصدر ضیاء کا ماتھا ٹھنکا کہ مجھ سے تو وہی غلطی ہوگئی جو بھٹو صاحب سے مجھے چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کر کے ہوگئی تھی لیکن ضیاء الحق کو خدا نے بڑا حوصلہ اور صبر دیا تھا۔
جب مارشل لاء اٹھا لیا گیا تو جونیجو صاحب اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ ہم نے مارشل لاء کی لعنت ختم کر دی ۔ اس پر صدر ضیاء بے چین ہو گئے اور انھوں نے اپنے وزیر اعظم کو پیغام بھیجا کہا آیندہ ''لعنت'' کا لفظ تمہارے منہ سے نہ نکلے اور ایسا ہی ہوا ۔ جونیجو صاحب پھر بھی اندر خانے اپنی وزارت عظمیٰ سے باز نہ آئے چنانچہ ان کو رخصت کر دیا گیا۔ آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بھلی چنگی جیسی بھی ہو جمہوریت ہی بہتر ہوتی ہے اور جمہوری عمل کے تسلسل کو برقرار رکھناملکی سیاستدانوں کے مرہون منت ہوتا ہے اس لیے سیاستدانوں کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ جمہوریت سے محرومی کی کسی بھی سازش کا حصہ نہ بنیں اور پاکستان کے اعلیٰ ایوان کے درو دیوار پر بات جلی حروف میں لکھ دینی چاہیے کہ پاکستان میں جمہوریت سے کہیں زیادہ مارشل لاء کی روایت مضبوط ہے جو ہمارے نوجوان سیاستدانوں کو اس بات کی یاد دلاتی رہے کہ ان کے ملک کی نصف عمر مارشل لائوں میں گزر گئی ۔ گو کہ ہمارے صف اول کے لیڈر انھی مارشل لائوںکی پیداوار ہیں اور ان کی سیاست کا آغاز مارشل لاء کی برکت سے ہوا تھا ۔
وزیر اعظم ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور جب سے صدر نے اپنا اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ختم کیا ہے وزیر اعظم واقعی چیف ایگزیکٹو ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس کا کریڈٹ جناب آصف زرداری کا ہے جنھوں نے اپنے دور صدارت میں یہ اختیار ختم کیا اگر یہ اختیار برقرار رہتا تو کوئی بعید نہیں کہ اس وقت ملک میں کون سا طرز حکومت ہوتا۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں مارشل لاء بظاہر نہ بھی ہو پھر بھی ہوا کرتا ہے ۔
شیخ سعدی نے کہا تھا کہ کسی جنگل کو خالی نہ سمجھو کیا پتہ اس میں کوئی چیتا سو رہا ہو۔ کتابی حد تک دیکھا جائے تو بلاشبہ وزیر اعظم کے اختیارات میں کوئی شریک نہیں ہے لیکن عملی اور کتابی سیاست میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ ہماری بھلی بری جمہوری حکومت کو سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہیے کہیں بے خبری اور بے احتیاطی میں اٹھا ہوا قدم کسی سوئے ہوئے چیتے کی دم پر نہ آجائے ۔ فوج کے اس نادان گھوڑے کی طرح جس نے کئی سپاہیوں اور دوچار لفٹیننٹوں اور دو ایک کپتانوں کو لات مار دی اور کچھ نہ ہوا تو اسے لات مارنے کی عادت پڑ گئی اور آخری بار وہ ایک بم کو لات مار بیٹھا۔
عرض یہ ہے کہ ہمیں اپنی فوج کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے ملعون کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے اور جلسوں میں فوج کے بارے میں اپنے جوش اور جذبات کو کنٹرول رکھنا ہی دانشمندی کا تقاضا ہے۔ ملک کے مستقبل کے لیے جمہوریت ضروری ہو یا نہ، سیاستدانوں کے لیے جمہوریت میں ہی زندگی ہے ۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو وہ وقت یاد رہنا چاہیے جب مارشل لاء سے چند دن پہلے تینوں افواج کے سربراہوں نے ایک مشترکہ بیان میں بھٹو صاحب کی سیاسی حکومت کی حمایت کا سرکاری اعلان کیا تھا۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی فوج کی طاقت بیرکوں میں بند نہیں ہوتی ۔یہ کوئی غلام ملک کی فوج نہیں ہوتی جو ملکی حالات سے لاتعلق ہو کر گوشہ تنہائی میں پڑی رہے اور صرف بیرونی دشمن کے لیے ہتھیار چمکاتی رہے۔ امریکا جیسے جمہوری ملک میں بھی فوج کی بات چلتی ہے اور آنجہانی سوویت یونین میں تو فوج کے جرنیل حکومت میں شامل ہوا کرتے تھے ۔
پاکستان جیسے مسلمان ملک میں مارشل لاء اگر ایک مقامی مستقل روایت ہے تو ایک تاریخی روایت بھی ہے اور مسلمانوں کے ہاں فوج محض ایک پیشہ ور جنگجوئوں کا گروہ نہیں ہوتی ۔ ہماری تاریخ میں حکمران اور جرنیل کا الگ الگ تصور موجود نہیں ہے ۔ ہمارے جو آئیڈیل حکمران گزرے ہیں وہ سپاہی بھی تھے اور خود پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ و السلام ایک جرنیل تھے اور کئی جنگوں میں قائد تھے۔ خود شرکت فرمائی یا اپنی نگرانی اور ہدایات کے ساتھ فوج کسی مہم پر روانہ کی ۔
تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض ہے کہ یہ قوم آج بھی صلاح الدین ایوبی کو یاد کرتی ہے اور کسی خالد بن ولید کے انتظار میں رہتی ہے یا پھر آج کے حکمران ٹیپو سلطان کو بھی یاد کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارے سیاستدانوں کو بے حد احتیاط کے ساتھ گفتگو کرنی چاہیے اور فوجی بیرکوں میں مداخلت کیے بغیر ان سے باہر کے علاقے میں اپنا سیاسی اقتدار کا علم بلند رکھنا چاہیے ۔
حکومت کا نشہ اس قدر تیز اور تند ہوتا ہے کہ بعض اوقات اپنی حیثیت سے بڑھ کر کوئی حرکت کر بیٹھتی ہے مگر حیثیت یاد دلانے والے اس سے بڑھ کر ایسے نشے میں ہوتے ہیں جسے کوئی ترشی اتار نہیں سکتی ۔ صدر ضیاء الحق شہید نے بھی کمزور ترین یعنی شریف ترین مرحوم محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا تھا ۔ جونیجو صاحب اپنے آپ کو سچ مچ وزیر اعظم سمجھنے لگے اور اپنی وزارت عظمیٰ کے خالق صدر سے پہلی ہی ملاقات میں یہ سوال کر بیٹھے کہ آپ مارشل لاء کب اٹھا رہے ہیں ۔ ان کی بات سن کرصدر ضیاء کا ماتھا ٹھنکا کہ مجھ سے تو وہی غلطی ہوگئی جو بھٹو صاحب سے مجھے چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کر کے ہوگئی تھی لیکن ضیاء الحق کو خدا نے بڑا حوصلہ اور صبر دیا تھا۔
جب مارشل لاء اٹھا لیا گیا تو جونیجو صاحب اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ ہم نے مارشل لاء کی لعنت ختم کر دی ۔ اس پر صدر ضیاء بے چین ہو گئے اور انھوں نے اپنے وزیر اعظم کو پیغام بھیجا کہا آیندہ ''لعنت'' کا لفظ تمہارے منہ سے نہ نکلے اور ایسا ہی ہوا ۔ جونیجو صاحب پھر بھی اندر خانے اپنی وزارت عظمیٰ سے باز نہ آئے چنانچہ ان کو رخصت کر دیا گیا۔ آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بھلی چنگی جیسی بھی ہو جمہوریت ہی بہتر ہوتی ہے اور جمہوری عمل کے تسلسل کو برقرار رکھناملکی سیاستدانوں کے مرہون منت ہوتا ہے اس لیے سیاستدانوں کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ جمہوریت سے محرومی کی کسی بھی سازش کا حصہ نہ بنیں اور پاکستان کے اعلیٰ ایوان کے درو دیوار پر بات جلی حروف میں لکھ دینی چاہیے کہ پاکستان میں جمہوریت سے کہیں زیادہ مارشل لاء کی روایت مضبوط ہے جو ہمارے نوجوان سیاستدانوں کو اس بات کی یاد دلاتی رہے کہ ان کے ملک کی نصف عمر مارشل لائوں میں گزر گئی ۔ گو کہ ہمارے صف اول کے لیڈر انھی مارشل لائوںکی پیداوار ہیں اور ان کی سیاست کا آغاز مارشل لاء کی برکت سے ہوا تھا ۔
وزیر اعظم ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور جب سے صدر نے اپنا اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ختم کیا ہے وزیر اعظم واقعی چیف ایگزیکٹو ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس کا کریڈٹ جناب آصف زرداری کا ہے جنھوں نے اپنے دور صدارت میں یہ اختیار ختم کیا اگر یہ اختیار برقرار رہتا تو کوئی بعید نہیں کہ اس وقت ملک میں کون سا طرز حکومت ہوتا۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں مارشل لاء بظاہر نہ بھی ہو پھر بھی ہوا کرتا ہے ۔
شیخ سعدی نے کہا تھا کہ کسی جنگل کو خالی نہ سمجھو کیا پتہ اس میں کوئی چیتا سو رہا ہو۔ کتابی حد تک دیکھا جائے تو بلاشبہ وزیر اعظم کے اختیارات میں کوئی شریک نہیں ہے لیکن عملی اور کتابی سیاست میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ ہماری بھلی بری جمہوری حکومت کو سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہیے کہیں بے خبری اور بے احتیاطی میں اٹھا ہوا قدم کسی سوئے ہوئے چیتے کی دم پر نہ آجائے ۔ فوج کے اس نادان گھوڑے کی طرح جس نے کئی سپاہیوں اور دوچار لفٹیننٹوں اور دو ایک کپتانوں کو لات مار دی اور کچھ نہ ہوا تو اسے لات مارنے کی عادت پڑ گئی اور آخری بار وہ ایک بم کو لات مار بیٹھا۔
عرض یہ ہے کہ ہمیں اپنی فوج کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے ملعون کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے اور جلسوں میں فوج کے بارے میں اپنے جوش اور جذبات کو کنٹرول رکھنا ہی دانشمندی کا تقاضا ہے۔ ملک کے مستقبل کے لیے جمہوریت ضروری ہو یا نہ، سیاستدانوں کے لیے جمہوریت میں ہی زندگی ہے ۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو وہ وقت یاد رہنا چاہیے جب مارشل لاء سے چند دن پہلے تینوں افواج کے سربراہوں نے ایک مشترکہ بیان میں بھٹو صاحب کی سیاسی حکومت کی حمایت کا سرکاری اعلان کیا تھا۔