اقبال اور عشقِ رسول ﷺ
اقبال اپنی شاعری میں نبیِ آخرالزمان ﷺ کو متعدد اسما سے پکارتے ہیں اور اُن سے اپنی قلبی محبت وموانست کا اظہارکرتے ہیں۔
عشقِ رسول ﷺ کا اظہار کلام اقبال کا مرکزی موضوع ہے۔ آپ ﷺ خاتم النّبیین ہیں اور دینِ حق کی تکمیل آپﷺ کی نبوت پر ہوئی۔
اقبال اپنی شاعری میں نبیِ آخرالزمان ﷺ کو متعدد اسما سے پکارتے ہیں اور اُن سے اپنی قلبی محبت و موانست کا اظہار کرتے ہیں۔ ان اسمائے مبارک میں دانائے سبل، ختم الرسل ، مولائے کل، یٰس، طہٰ، رسالت مآبؐ، رسالتؐ پناہ، رسولِ مختارؐ، رسولِؐ پاک، رسولِؐ عربی، رسولؐ ہاشمی، سرورِؐ عالم، شہنشاہِؐ معظم، میرؐ عرب اور کملیؐ والے جیسے تعظیمی القابات شامل ہیں جن کی وساطت اقبال بارگاہ رسول ﷺ میں اُس اُمت کے مسائل پیش کرتے ہیں جسے ''اُمتِ احمد مرسل'' اور ''ملتِ ختمِ رُسل'' کا درجہ حاصل ہے۔ اقبال اپنے ملی تصور کو بھی جذبۂ عشقِ رسول ﷺ سے تقویت دیتے ہیں۔
وہ اس امرکی وضاحت کرتے ہیں کہ ملتِ اسلامیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایک ایسے نبیؐ اور رسولؐ کی اُمت ہے جو اپنی ترکیب میں خاص ہے، جس کی بنیاد جغرافیائی حدود و ثغور پر نہیں بل کہ کلمۂ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پر رکھی گئی ہے۔ یہ ایسی اُمت ہے جس میں برتری کا حق رنگ، نسل، خون یا خطہ کو نہیں بل کہ صرف اور صرف تقویٰ کو حاصل ہے اور اس ملت کے لیے تاقیامت کامل ترین ہستی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔
اقبال اپنے اردو اور فارسی کلام میں اس حقیقت کا شدت سے اظہار کرتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ کے افراد کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عشقِ محمدؐ کا جذبہ ہی ہے جو دلِ مسلم کو قوی تر کر تا ہے اور اسے حرارت اور سوز سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ چناں چہ ملّت کی حالتِ زار دیکھ کر اُن کی نظر بارگاہِ رسالت کی طرف اُٹھ جاتی ہے، فرماتے ہیں:
شیرازہ ہُوا ملّتِ مرحوم کا ابتر
اب تُو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!
وہ لذّتِ آشوب نہیں بحرِ عرب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے
ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد
اس کوہ و بیاباں سے حُدی خوان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے رُوحِ محمدؐ
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے
اقبال اپنے کلام میں جا بجا دردمندی کے ساتھ ملتِ اسلامیہ کو اس نقطۂ ارجمند کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ عالم اسلام کی بقا اتباعِ رسولؐ ہی میں مضمر ہے:
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمدؐ عربی سے ہے عالمِ عربی
اُن کے نزدیک افرادِ ملت کا اپنی ملت کو اقوامِ مغرب پر قیاس کرنا کارِ عبث ہے۔ جب تک روحِ محمدؐ مسلمان کے بدن میں ہے، وہ خدائے مطلق کے سوا کسی کا خوف دل میں محسوس نہیں کرتا، کسی تہذیب سے اثرات قبول نہیں کرتا اور ایسی ہی ملت کے افراد سے باطل کو ہر آن خطرات لاحق رہتے ہیں۔ اقبال نے اپنی ایک ڈرامائی رنگ میں مرقوم نظم: ''ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام'' میں لکھا ہے کہ یورپ کے ابلیسی نظام کو نڈر اور متوکل مسلمانوں ہی سے ڈر رہتا ہے لہٰذا طاغوتی طاقتیں ہر آن اس کوشش میں منہمک رہتی ہیں کہ فکرِ عرب فرنگی خیالات کی اسیر ہو جائے۔ اقبال اس نظم میں عالمِ تخیّل میں دکھاتے ہیں کہ ابلیس اپنے سیاسی فرزندوں کو ایسے غیور مسلمانوں کو راہِ حق سے ہٹانے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہتا ہے:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے اُن کی روایات چھین لو
آہُو کو مرغزارِ خُتن سے نکال دو
اقبال اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ جب بھی مسلمانوں نے پیغامِ محمدؐ سے دُوری اختیار کی، زوال ہی اُن کا مقدر ٹھہرا۔ ''جوابِ شکوہ'' میں استفساریہ رنگ میں زوال زدہ مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے فرماتے ہیں:
کون ہے تارکِ آئینِ رسولِؐ مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہو گئی کس کی نِگہ طرزِ سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمہیں پاس نہیں
دوسری طرف ایسے ابیات بھی کثرت سے ہیں جہاں اقبال بارگاہِ الٰہی میں ملتجی ہیں کہ ملت کے بھٹکے ہوئے آہُوکو پھر سے سُوئے حرم چلنے کی توفیق مل جائے۔ اقبال جابجا قوتِ عشقِ رسول ﷺ کے تمنائی نظر آتے ہیں اور افرادِ ملت کے قلوب میں یہ بات راسخ کر دینا چاہتے ہیں کہ محمدؐ مصطفی سے وفا نبھانے والوں کو دنیا تو ایک طرف لوح و قلم بھی عطا کر دیئے جاتے ہیں:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے
_____
چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رفعنالک ذکرک دیکھے
_____
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یوں کلامِ اقبال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرۂ جلیلہ و جمیلہ کثرت سے ملتا ہے اور علامہ کے نزدیک مردِ مومن کی حتمی اور کامل صورت آپؐ کی ذاتِ مبارکہ ہی ہے۔ اقبال نے حیاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی وقایع تحسینی پیرایے میں موزوں کیے ہیں اور خالصتاً قرآنی تلمیحات کی وساطت سے بھی مسلمانوں کو نبی آخرالزماںؐ کے مرتبے سے آگاہ کرایا ہے۔ اس سلسلے میں واقعۂ معراج کی پیش کش کو وہ خاص اہمیت دیتے ہیں اور اس واقعے کو انسانی قوتوں کی بیداری، جرأت و ہمت اور استقامت کے استعاروں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ۲۷ رجب کی مبارک رات میں خدائے سمیع و بصیر نے نبی پاکؐ کو اپنی نشانیاں دکھانے کے لیے رات ہی رات میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی سیر کرائی۔
اس موقعے پر آپ ؐ نے آیات و تجلیات الٰہی کا مشاہدہ فرمایا اور اپنے باطن کی آنکھ سے ان حالات و واقعات کو یوں ملاحظہ فرمایا کہ نہ آپ ؐ کی نگاہ پیچھے ہٹی اور نہ حد سے بڑھی۔
علامہ واقعۂ معراج کے ان پہلوؤں کو تمام تر جزئیات کے ساتھ اپنے کلام میں برتتے ہیں اور ''لیلۃ الاسری'' سے متعلق تلمیحوں کو عشقِ رسولؐ کے جذبے کی بیداری کے ساتھ ساتھ عظمتِ بشر سے آگاہ کرنے کے لیے بطورعلامت بھی استعمال کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ عصرِ حاضر سے ان تلمیحوں اور علامتوں کو منسلک کرتے ہوئے اصلاحِ احوال کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ علامہ اس سلسلے میں تنبیہی اور دعائیہ دونوں طرح کے لہجے اختیار کرتے ہیں۔ واقعہ معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف جہتیں ان کے ہاں یوں نمود کرتی ہیں:
اخترِ شام کی آتی ہے فلک سے آواز
سجدہ کرتی ہے سحر جس کو وہ ہے آج کی رات
رہِ یک گام ہے ہمت کے لیے عرشِ بریں
کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات
_____
جہانِ آب و گل سے عالمِ جاوید کی خاطر
نبوّت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے
_____
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
_____
ناوک ہے مسلماں ہدف اس کا ہے ثریا
ہے سرِّ سرا پردئہ جاں نکتۂ معراج
تو معنیِ ''والنجم'' نہ سمجھا تو عجب کیا
ہے تیرا مدوجزر ابھی چاند کا محتاج
_____
فروغِ مغربیاں کر رہا ہے خیرہ تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحبِ 'مازاغ'!
کلام اقبال میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کا ایک اور خوب صورت قرینہ وہ ہے جہاں وہ مصطفیؐ اور 'ابولہب' کی رعایت سے ''مصطفوی'' اور ''بولہبی'' کی علامتیں وضع کرکے ان کو خیر اور شر کے مکاتبِ فکر کی وضاحت کے طور پر لائے ہیں جس کی رُو سے ایک مومن کا راستہ ہے، تو دوسراکافر کا___مصطفویؐ کفر و شرک کے بتوں کو خاک میں ملا دیتا ہے، خود کو طریق احمدِ ؐ مرسل پر چلاتا ہے اور یہی اس کا منصب ہونا چاہیے:
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ است
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
_____
یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس اُمّت کو؟
وصالِ مصطفویؐ، افتراقِ بولہبی!
_____
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی!
_____
تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفیؐ، عقل تمام بولہب
یہاں اس امر کی طرف توجہ دلانی بھی ضروری ہے کہ اقبال نہ صرف خود عشقِ رسولؐ کے جذبے سے سرشار تھے بل کہ دلی طور پر یہ خواہش بھی رکھتے تھے کہ مسلمان نوجوان بھی جذبۂ عشقِ رسولؐ کے حامل ہوں کیوں کہ یہی جذبہ حیات مسلم کو تابناکی عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے نسلِ نو کے لیے ''شاہین'' کی علامت اختیار کی اور جہاں اس کے دیگر اوصاف بتائے، وہیں اس کا نمایاں ترین وصف یہ قرار دیا کہ مسلم نوجوان ''شاہینِ شہِ لولاک'' ہوتاہے اور یہ وہ خوبی ہے جو نہ صرف اس کی خودی کی تعیین میں معاون ٹھہرتی ہے بل کہ اسی نسبت خاص سے اُسے احساس ہوتا ہے کہ وہ ''فروغِ دیدۂ افلاک'' ہے:
ترا جوہر ہے نوری پاک ہے تو
فروغِ دیدۂ افلاک ہے تو
ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حُور
کہ شاہینِ شہِ لولاک ہے تُو
اقبال اپنی شاعری میں نبیِ آخرالزمان ﷺ کو متعدد اسما سے پکارتے ہیں اور اُن سے اپنی قلبی محبت و موانست کا اظہار کرتے ہیں۔ ان اسمائے مبارک میں دانائے سبل، ختم الرسل ، مولائے کل، یٰس، طہٰ، رسالت مآبؐ، رسالتؐ پناہ، رسولِ مختارؐ، رسولِؐ پاک، رسولِؐ عربی، رسولؐ ہاشمی، سرورِؐ عالم، شہنشاہِؐ معظم، میرؐ عرب اور کملیؐ والے جیسے تعظیمی القابات شامل ہیں جن کی وساطت اقبال بارگاہ رسول ﷺ میں اُس اُمت کے مسائل پیش کرتے ہیں جسے ''اُمتِ احمد مرسل'' اور ''ملتِ ختمِ رُسل'' کا درجہ حاصل ہے۔ اقبال اپنے ملی تصور کو بھی جذبۂ عشقِ رسول ﷺ سے تقویت دیتے ہیں۔
وہ اس امرکی وضاحت کرتے ہیں کہ ملتِ اسلامیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایک ایسے نبیؐ اور رسولؐ کی اُمت ہے جو اپنی ترکیب میں خاص ہے، جس کی بنیاد جغرافیائی حدود و ثغور پر نہیں بل کہ کلمۂ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ پر رکھی گئی ہے۔ یہ ایسی اُمت ہے جس میں برتری کا حق رنگ، نسل، خون یا خطہ کو نہیں بل کہ صرف اور صرف تقویٰ کو حاصل ہے اور اس ملت کے لیے تاقیامت کامل ترین ہستی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔
اقبال اپنے اردو اور فارسی کلام میں اس حقیقت کا شدت سے اظہار کرتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ کے افراد کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عشقِ محمدؐ کا جذبہ ہی ہے جو دلِ مسلم کو قوی تر کر تا ہے اور اسے حرارت اور سوز سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ چناں چہ ملّت کی حالتِ زار دیکھ کر اُن کی نظر بارگاہِ رسالت کی طرف اُٹھ جاتی ہے، فرماتے ہیں:
شیرازہ ہُوا ملّتِ مرحوم کا ابتر
اب تُو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!
وہ لذّتِ آشوب نہیں بحرِ عرب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے
ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد
اس کوہ و بیاباں سے حُدی خوان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے رُوحِ محمدؐ
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے
اقبال اپنے کلام میں جا بجا دردمندی کے ساتھ ملتِ اسلامیہ کو اس نقطۂ ارجمند کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ عالم اسلام کی بقا اتباعِ رسولؐ ہی میں مضمر ہے:
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمدؐ عربی سے ہے عالمِ عربی
اُن کے نزدیک افرادِ ملت کا اپنی ملت کو اقوامِ مغرب پر قیاس کرنا کارِ عبث ہے۔ جب تک روحِ محمدؐ مسلمان کے بدن میں ہے، وہ خدائے مطلق کے سوا کسی کا خوف دل میں محسوس نہیں کرتا، کسی تہذیب سے اثرات قبول نہیں کرتا اور ایسی ہی ملت کے افراد سے باطل کو ہر آن خطرات لاحق رہتے ہیں۔ اقبال نے اپنی ایک ڈرامائی رنگ میں مرقوم نظم: ''ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام'' میں لکھا ہے کہ یورپ کے ابلیسی نظام کو نڈر اور متوکل مسلمانوں ہی سے ڈر رہتا ہے لہٰذا طاغوتی طاقتیں ہر آن اس کوشش میں منہمک رہتی ہیں کہ فکرِ عرب فرنگی خیالات کی اسیر ہو جائے۔ اقبال اس نظم میں عالمِ تخیّل میں دکھاتے ہیں کہ ابلیس اپنے سیاسی فرزندوں کو ایسے غیور مسلمانوں کو راہِ حق سے ہٹانے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہتا ہے:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے اُن کی روایات چھین لو
آہُو کو مرغزارِ خُتن سے نکال دو
اقبال اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ جب بھی مسلمانوں نے پیغامِ محمدؐ سے دُوری اختیار کی، زوال ہی اُن کا مقدر ٹھہرا۔ ''جوابِ شکوہ'' میں استفساریہ رنگ میں زوال زدہ مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے فرماتے ہیں:
کون ہے تارکِ آئینِ رسولِؐ مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہو گئی کس کی نِگہ طرزِ سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمدؐ کا تمہیں پاس نہیں
دوسری طرف ایسے ابیات بھی کثرت سے ہیں جہاں اقبال بارگاہِ الٰہی میں ملتجی ہیں کہ ملت کے بھٹکے ہوئے آہُوکو پھر سے سُوئے حرم چلنے کی توفیق مل جائے۔ اقبال جابجا قوتِ عشقِ رسول ﷺ کے تمنائی نظر آتے ہیں اور افرادِ ملت کے قلوب میں یہ بات راسخ کر دینا چاہتے ہیں کہ محمدؐ مصطفی سے وفا نبھانے والوں کو دنیا تو ایک طرف لوح و قلم بھی عطا کر دیئے جاتے ہیں:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے
_____
چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رفعنالک ذکرک دیکھے
_____
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یوں کلامِ اقبال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرۂ جلیلہ و جمیلہ کثرت سے ملتا ہے اور علامہ کے نزدیک مردِ مومن کی حتمی اور کامل صورت آپؐ کی ذاتِ مبارکہ ہی ہے۔ اقبال نے حیاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی وقایع تحسینی پیرایے میں موزوں کیے ہیں اور خالصتاً قرآنی تلمیحات کی وساطت سے بھی مسلمانوں کو نبی آخرالزماںؐ کے مرتبے سے آگاہ کرایا ہے۔ اس سلسلے میں واقعۂ معراج کی پیش کش کو وہ خاص اہمیت دیتے ہیں اور اس واقعے کو انسانی قوتوں کی بیداری، جرأت و ہمت اور استقامت کے استعاروں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ۲۷ رجب کی مبارک رات میں خدائے سمیع و بصیر نے نبی پاکؐ کو اپنی نشانیاں دکھانے کے لیے رات ہی رات میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی سیر کرائی۔
اس موقعے پر آپ ؐ نے آیات و تجلیات الٰہی کا مشاہدہ فرمایا اور اپنے باطن کی آنکھ سے ان حالات و واقعات کو یوں ملاحظہ فرمایا کہ نہ آپ ؐ کی نگاہ پیچھے ہٹی اور نہ حد سے بڑھی۔
علامہ واقعۂ معراج کے ان پہلوؤں کو تمام تر جزئیات کے ساتھ اپنے کلام میں برتتے ہیں اور ''لیلۃ الاسری'' سے متعلق تلمیحوں کو عشقِ رسولؐ کے جذبے کی بیداری کے ساتھ ساتھ عظمتِ بشر سے آگاہ کرنے کے لیے بطورعلامت بھی استعمال کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ عصرِ حاضر سے ان تلمیحوں اور علامتوں کو منسلک کرتے ہوئے اصلاحِ احوال کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ علامہ اس سلسلے میں تنبیہی اور دعائیہ دونوں طرح کے لہجے اختیار کرتے ہیں۔ واقعہ معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف جہتیں ان کے ہاں یوں نمود کرتی ہیں:
اخترِ شام کی آتی ہے فلک سے آواز
سجدہ کرتی ہے سحر جس کو وہ ہے آج کی رات
رہِ یک گام ہے ہمت کے لیے عرشِ بریں
کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات
_____
جہانِ آب و گل سے عالمِ جاوید کی خاطر
نبوّت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے
_____
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
_____
ناوک ہے مسلماں ہدف اس کا ہے ثریا
ہے سرِّ سرا پردئہ جاں نکتۂ معراج
تو معنیِ ''والنجم'' نہ سمجھا تو عجب کیا
ہے تیرا مدوجزر ابھی چاند کا محتاج
_____
فروغِ مغربیاں کر رہا ہے خیرہ تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحبِ 'مازاغ'!
کلام اقبال میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کا ایک اور خوب صورت قرینہ وہ ہے جہاں وہ مصطفیؐ اور 'ابولہب' کی رعایت سے ''مصطفوی'' اور ''بولہبی'' کی علامتیں وضع کرکے ان کو خیر اور شر کے مکاتبِ فکر کی وضاحت کے طور پر لائے ہیں جس کی رُو سے ایک مومن کا راستہ ہے، تو دوسراکافر کا___مصطفویؐ کفر و شرک کے بتوں کو خاک میں ملا دیتا ہے، خود کو طریق احمدِ ؐ مرسل پر چلاتا ہے اور یہی اس کا منصب ہونا چاہیے:
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ است
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
_____
یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس اُمّت کو؟
وصالِ مصطفویؐ، افتراقِ بولہبی!
_____
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی!
_____
تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفیؐ، عقل تمام بولہب
یہاں اس امر کی طرف توجہ دلانی بھی ضروری ہے کہ اقبال نہ صرف خود عشقِ رسولؐ کے جذبے سے سرشار تھے بل کہ دلی طور پر یہ خواہش بھی رکھتے تھے کہ مسلمان نوجوان بھی جذبۂ عشقِ رسولؐ کے حامل ہوں کیوں کہ یہی جذبہ حیات مسلم کو تابناکی عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے نسلِ نو کے لیے ''شاہین'' کی علامت اختیار کی اور جہاں اس کے دیگر اوصاف بتائے، وہیں اس کا نمایاں ترین وصف یہ قرار دیا کہ مسلم نوجوان ''شاہینِ شہِ لولاک'' ہوتاہے اور یہ وہ خوبی ہے جو نہ صرف اس کی خودی کی تعیین میں معاون ٹھہرتی ہے بل کہ اسی نسبت خاص سے اُسے احساس ہوتا ہے کہ وہ ''فروغِ دیدۂ افلاک'' ہے:
ترا جوہر ہے نوری پاک ہے تو
فروغِ دیدۂ افلاک ہے تو
ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حُور
کہ شاہینِ شہِ لولاک ہے تُو