ڈرون حملوں پر اقوام متحدہ کی تحقیق
انسدادِ دہشتگردی اور انسانی حقوق کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمایندے نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ...
انسدادِ دہشتگردی اور انسانی حقوق کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمایندے نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونیوالے عام شہریوں کے اعداد و شمار منظر عام پر لائے۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق ڈرون حملہ کرنے والے اور جہاں حملہ ہو رہا ہو ان ملک کے درمیان باقاعدہ معاہدہ ہونا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے بین ایمرسن کے بقول پاکستانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ قبائلی علاقوں میں2004ء سے ابتک 330 ڈرون حملے کیے گئے جن میں کم از کم 22 سو افراد ہلاک اور چھ سو سے زاید شدید زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں چار سو عام شہری شامل ہیں۔ بین ایمرسن کی اقوامِ متحدہ کے لیے یہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جمعہ کو جاری ہوئی ہے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں جائزہ لیا گیا کہ ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی اموات غیر متناسب تو نہیں اور کیا ان حملوں کو کسی قسم کا قانونی تحفظ حاصل ہے۔
اقوام متحدہ نے پاکستان اور دیگر ملکوں میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکت اور ٹارگٹ کلنگ پر تحقیقات جنوری سے شروع کی تھیں۔ اس تحقیق کے دوران بین ایمرسن نے ڈرون حملوں کے لیے ذمے دار امریکی افسروں سمیت اْن ملکوں کے اہلکاروں سے بھی بات چیت کی ہے جن کی سرزمین پر امریکا ڈرون طیاروں کے ذریعے مبینہ دہشتگردوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ بین ایمرسن کی رپورٹ ابھی مکمل نہیں ہوئی تاہم اس نے ابتدائی معلومات جاری کر دی ہیں جن کے مطابق پاکستان، افغانستان اور یمن میں امریکی ڈرون طیارے کم سے کم ساڑھے چار سو شہریوں کی اموات کا سبب بنے۔ بین ایمرسن کا کہنا ہے کہ اِس سلسلے میں مزید کام کی ضرورت ہے۔ بین ایمرسن کے مطابق انھیں پاکستانی حکام نے بتایا کہ ڈرون حملوں میں کم سے کم چار سو شہری مارے گئے۔ بین ایمرسن کے بقول اْن کی تفتیش میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکی سی آئی اے کی رازداری ہے جس کی وجہ سے ڈرون حملوں کے نقصانات کا شفاف تخمینہ لگانا مشکل ہے۔
ایمرسن کا خیال ہے کہ ڈرون حملوں سے ہونے والے جانی نقصان کے اعداد و شمار کو منظرِعام پر لانے سے امریکی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ امریکا کے علاوہ اسرائیل اور برطانیہ بھی ڈرون طیارے استعمال کر رہے ہیں جن سے اقوام متحدہ کے نمایندے نے مطالبہ کیا کہ عام شہریوں کے جانی نقصان کی معلومات دینا ان کا قانونی اور اخلاقی فرض ہے۔ رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اگر ڈرون طیارے انتہائی محتاط حکمتِ عملی کے تحت استعمال کیے جائیں تو دوسری ہر قسم کی فوجی کارروائی کی نسبت کم جانی نقصان کرتے ہیں۔ تاہم ڈرون حملے دونوں ممالک کے مابین باقاعدہ معاہدے کے بغیر نہیں کیے جا سکتے۔ادھر معروف برطانوی جریدے اکانومسٹ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ قومی سرویز میں پاکستانیوں کی اکثریت ڈرون حملوں کی مخالف نظر آتی ہے اور وہ ڈرون حملوں کو ملکی خودمختاری کے خلاف اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سمجھتی ہے۔
لیکن قبائلی علاقوں کے 20 رہائشیوں سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ ڈرون حملوں میں شہریوں کی زیادہ ہلاکتیں نہیں ہوتیں بلکہ عسکریت پسند مارے جا رہے ہیں۔ جریدہ لکھتا ہے کہ فاٹا میں سروے کرنا انتہائی مشکل امر ہے تاہم 2009ء میں ایک سروے میں 52 فیصد افراد نے ڈرون حملوں کو درست قرار دیا اور 60 فیصد کا خیال تھا کہ ان حملوں سے عسکریت پسند گروپ کمزور ہوئے۔ اس سروے کی صداقت پر یقین کرنا خاصا مشکل کام ہے کیونکہ کسی غیر ملکی ادارے یا فرد کے لیے فاٹا میں سروے کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ بہر حال معاملہ خواہ کچھ بھی ہو' پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملے عالمی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے بین ایمرسن کی رپورٹ کے بعد امریکی انتظامیہ پردبائو بہت بڑھ گیا ہے' وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اسی فضا میں امریکا کا دورہ کر رہے ہیں' وہ جب صدر اوبامہ سے ڈرون حملوں کے بارے میں بات کریں گے تو اس کے یقینی طور پر مثبت اثرات برآمد ہوں گے' یوں امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں پاکستان میں ڈرون حملے رک سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے پاکستان اور دیگر ملکوں میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکت اور ٹارگٹ کلنگ پر تحقیقات جنوری سے شروع کی تھیں۔ اس تحقیق کے دوران بین ایمرسن نے ڈرون حملوں کے لیے ذمے دار امریکی افسروں سمیت اْن ملکوں کے اہلکاروں سے بھی بات چیت کی ہے جن کی سرزمین پر امریکا ڈرون طیاروں کے ذریعے مبینہ دہشتگردوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ بین ایمرسن کی رپورٹ ابھی مکمل نہیں ہوئی تاہم اس نے ابتدائی معلومات جاری کر دی ہیں جن کے مطابق پاکستان، افغانستان اور یمن میں امریکی ڈرون طیارے کم سے کم ساڑھے چار سو شہریوں کی اموات کا سبب بنے۔ بین ایمرسن کا کہنا ہے کہ اِس سلسلے میں مزید کام کی ضرورت ہے۔ بین ایمرسن کے مطابق انھیں پاکستانی حکام نے بتایا کہ ڈرون حملوں میں کم سے کم چار سو شہری مارے گئے۔ بین ایمرسن کے بقول اْن کی تفتیش میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکی سی آئی اے کی رازداری ہے جس کی وجہ سے ڈرون حملوں کے نقصانات کا شفاف تخمینہ لگانا مشکل ہے۔
ایمرسن کا خیال ہے کہ ڈرون حملوں سے ہونے والے جانی نقصان کے اعداد و شمار کو منظرِعام پر لانے سے امریکی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ امریکا کے علاوہ اسرائیل اور برطانیہ بھی ڈرون طیارے استعمال کر رہے ہیں جن سے اقوام متحدہ کے نمایندے نے مطالبہ کیا کہ عام شہریوں کے جانی نقصان کی معلومات دینا ان کا قانونی اور اخلاقی فرض ہے۔ رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ اگر ڈرون طیارے انتہائی محتاط حکمتِ عملی کے تحت استعمال کیے جائیں تو دوسری ہر قسم کی فوجی کارروائی کی نسبت کم جانی نقصان کرتے ہیں۔ تاہم ڈرون حملے دونوں ممالک کے مابین باقاعدہ معاہدے کے بغیر نہیں کیے جا سکتے۔ادھر معروف برطانوی جریدے اکانومسٹ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ قومی سرویز میں پاکستانیوں کی اکثریت ڈرون حملوں کی مخالف نظر آتی ہے اور وہ ڈرون حملوں کو ملکی خودمختاری کے خلاف اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سمجھتی ہے۔
لیکن قبائلی علاقوں کے 20 رہائشیوں سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ ڈرون حملوں میں شہریوں کی زیادہ ہلاکتیں نہیں ہوتیں بلکہ عسکریت پسند مارے جا رہے ہیں۔ جریدہ لکھتا ہے کہ فاٹا میں سروے کرنا انتہائی مشکل امر ہے تاہم 2009ء میں ایک سروے میں 52 فیصد افراد نے ڈرون حملوں کو درست قرار دیا اور 60 فیصد کا خیال تھا کہ ان حملوں سے عسکریت پسند گروپ کمزور ہوئے۔ اس سروے کی صداقت پر یقین کرنا خاصا مشکل کام ہے کیونکہ کسی غیر ملکی ادارے یا فرد کے لیے فاٹا میں سروے کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ بہر حال معاملہ خواہ کچھ بھی ہو' پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملے عالمی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے بین ایمرسن کی رپورٹ کے بعد امریکی انتظامیہ پردبائو بہت بڑھ گیا ہے' وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اسی فضا میں امریکا کا دورہ کر رہے ہیں' وہ جب صدر اوبامہ سے ڈرون حملوں کے بارے میں بات کریں گے تو اس کے یقینی طور پر مثبت اثرات برآمد ہوں گے' یوں امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں پاکستان میں ڈرون حملے رک سکتے ہیں۔