دو دن پٹیالہ میں

ابھی ہم پٹیالہ کے مہندر سنگھ کالج کی حدود میں داخل ہوئے ہی تھے کہ لائوڈ اسپیکر پر اذان مغرب کی آواز نے ہمیں چونکا...

muqtidakhan@hotmail.com

ابھی ہم پٹیالہ کے مہندر سنگھ کالج کی حدود میں داخل ہوئے ہی تھے کہ لائوڈ اسپیکر پر اذان مغرب کی آواز نے ہمیں چونکا دیا۔ کیونکہ ہمارے ذہنوں میں بچپن سے یہ تصور بٹھا دیا گیا تھا کہ بھارتی پنجاب کے تقریباً ہر شہر، قصبہ اور گائوں سے مسلمان ہجرت کر چکے ہیں اور ان کی مساجد یا تو شہید کر دی گئیں یا ان میں تالے ڈال دیے گئے۔ اس لیے لائوڈ اسپیکر پر اذان کی آواز پر چونک جانا بہرحال فطری بات تھی۔ اگلے روز جب ہم مہاراجہ کا قلعہ دیکھنے گئے، جہاں اتفاقا ًہماری ملاقات پیپلز پارٹی کی رہنماء اور وزیر اعلیٰ سندھ کی معاون خصوصی شرمیلا فاروقی سے ہو گئی، وہاں بھی ایک قریبی مسجد سے لائوڈ اسپیکر پر عصر کی اذان سنی تو حیرت میں مزید اضافہ ہوا۔

اس ورطۂ حیرت سے ہمارے کئی احباب نے نکالا، جن میں ہندو مسلم سبھی شامل تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ تصور غلط ہے کہ 1947ء میں مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کا مکمل انخلاء ہو گیا تھا۔ بلکہ بعض قصبوں اور دیہات میں مسلمان اب بھی اکثریت میں ہیں۔ جس کی مثال لدھیانہ کے قریب ایک قصبہ مالیر کوٹلہ کی ہے، جہاں اس وقت مسلمانوں کی آبادی65 فیصد کے قریب ہے۔ تقسیم کے وقت سے اب تک وہاں سے مسلمان ہیMP اور MLA منتخب ہو کر آ رہا ہے۔ اسی طرح امرتسر جو اگست1947ء میں سب سے زیادہ فسادات سے متاثر ہوا تھا، وہاں بھی کئی مساجد میں نماز پنجگانہ ادا کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب اور ہریانہ کے بیشتر شہروں میں نہ صرف مساجد موجود ہیں، بلکہ ان میں عبادت بھی ہو رہی ہے۔ خود پٹیالہ میں مسلمانوں کی آبادی17 فیصد ہے اور 20 کے قریب مساجد میں نماز پنجگانہ باقاعدگی کے ساتھ ادا کی جا رہی ہے۔

گزشتہ بدھ کو ایک 15 رکنی وفد واہگہ بارڈر کے راستے امرتسر سے ہوتا ہوا پٹیالہ پہنچا، جس میں ہم بھی شامل تھے۔ وفد 17 اکتوبر کو خطے میں امن کے لیے بے لوث اور جرأت مندانہ خدمات سرانجام دینے والی آنجہانی دیدی نرملا دیش پانڈے کی 84 ویں سالگرہ کے موقعے پر ہونے والے سیمینار میں شرکت کے لیے وہاں گیا تھا۔ جس میں پائلر کے ڈائریکٹر اور معروف سماجی کارکن کرامت علی کو جنوبی ایشیاء میں امن کے لیے کوششیں کرنے پر امن ایوارڈ دیا گیا۔ جس روز ہم نے باردڑ کراس کیا بقر عید کا دن تھا۔ پٹیالہ جانے والے وفد میں معروف سماجی شخصیت انجینئر ڈاکٹر ریاض شیخ، پشاور یونیورسٹی میں علاقائی مطالعے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سرفراز، محمد تحسین، ابھرتے ہوئے ترقی پسند دانشور ذوالفقار ہالیپوٹو، سینئر صحافی جان محمد خاصخیلی، معروف ٹریڈ یونین لیڈر نور محمد، مجید شیخ، پیپلز لیبر بیورو کے لطیف مغل، منظور بدایونی اور کلاسیکل رقص کی مقبول فنکارہ شیما کرمانی سمیت دیگر لوگ شامل تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو فکری کثریت پر یقین رکھتے ہیں، علاقائی ترقی و خوشحال کو امن و شانتی کے بغیر ناممکن سمجھتے ہیں اور جمہوریت کو عوام کے حق حکمرانی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آنجہانی نرملا دیش پانڈے، جنھیں چھوٹے بڑے سب احترام میں دیدی کہا کرتے تھے، پورے جنوبی ایشیاء بالخصوص پاک و ہند کے عوام کے لیے شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ان کی سوچ کا کینوس بہت وسیع تھا۔ وہ ہمیشہ جلسوں میں جے جگت (پورے عالم کی جے) کا نعرہ لگاتی تھیں۔ کیونکہ جگت شانتی (عالمی امن) ان کی زندگی کا اصل مقصد تھا۔ مگر جب انھوں نے یہ محسوس کیا کہ عالمی امن سے پہلے جنوبی ایشیاء میں امن بہت ضروری ہے۔


بہر حال بات ہو رہی تھی پٹیالہ دورے کی۔ یہ بھارتی پنجاب کا ہمارا دوسرا دورہ تھا، کیونکہ بھارتی ہائی کمیشن ویسے تو بھارت کی کسی بھی ریاست کا ویزا دینے میں آنا کانی کرتا ہے، لیکن پنجاب کا ویزا دینے سے ہمیشہ گریز کیا۔ دراصل پاکستان اور بھات دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹ ہر ممکن طریقے سے عوام کے عوام سے رابطے کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا ایک سبب وہ منفی پروپیگنڈا ہے، جو دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے مسلسل پھیلا رہی ہیں۔ جس کی مثال یہ ہے کہ بھارت میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہر پاکستانی سینے پر بم باندھے خود کش حملے پر آمادہ آتنگ وادی (دہشت گرد) ہے۔ جب کہ پاکستان میں سبھی ہندوئوں کو عیار، مکار اور اسلام دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ عوامی روابط کی بحالی کی صورت میں یہ دونوں تصورات اور پروپیگنڈوں کا بے اثر ہونا یقینی ہے۔ اس لیے کوشش کی جاتی ہے عوام کو عوام سے ملنے ہی نہ دیا جائے۔

جہاں تک عوام یا عام آدمی کا تعلق ہے تو ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ان میں کسی قسم کے منفی رجحانات دیکھنے میں نہیں آئے۔ حالیہ دورے میں بھی کئی ایسے واقعات سامنے آئے، جو عوام کے ایک دوسرے کے لیے بے پناہ چاہت کا اظہار ہیں۔ جس رات ہم پہنچے ایک پولیس افسر ملنے آئے۔ ان کا تعلق چنیوٹ سے تھا، وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ ہمارے وفد میں کوئی شخص چنیوٹ سے تعلق رکھنے والا بھی ہے یا نہیں؟ ان کے والد نے نقل مکانی کی تھی وہ خود جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ ہمارے وفد میں چنیوٹ سے تعلق رکھنے والا کوئی رکن نہیں ہے، تو ان کا چہرہ گویا بجھ سا گیا۔ ایک روز پولیس کی معیت میں ہمارا وفد شہر میں گھومنے نکلا۔ وفد کے اراکین سے زیادہ پولیس کی نفری تھی۔ ایک ریستوران پر ہمیں چائے پلانے کے لیے لے جایا گیا۔ وہاں بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موجود تھے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ہم لوگوں کا تعلق پاکستان سے ہے، تو وہ مٹھائی کے دو ڈبے لے آئے اور ہمیں انتہائی احترام کے ساتھ پیش کیے۔ یہ ایک فوری ردعمل تھا، جس کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کسی مصلحت کوشی کا شاخسانہ تھا۔ وہ نوجوان انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور معاملات اور مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح پنجابی یونیورسٹی جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے، ڈاکٹر ہربشن سنگھ صبح کے وقت اپنے بیٹوں کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے ہمارے قریب سے گزرے اور دعا سلام کے بعد جب انھیں معلوم ہوا کہ ہمارا تعلق پاکستان سے ہے تو انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ دیکھو یہ لوگ بھی ہماری ہی طرح کے انسان ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹوں کو ہمارے پائوں چھونے کا حکم بھی دیا۔

یہ واقعات عام آدمی کی اپنی یا اپنے والدین کی جنم بھومی سے محبت کا بے ساختہ اظہار ہے۔ لیکن جس انداز میں صاحبان علم اور سیاسی رہنماء یہ کہتے ہیں کہ ''وہ لکیر جو 1947ء میں خون سے کھینچی گئی تھی، اب ختم ہو جانا چاہیے'' تو اس سے کوئی اچھا پیغام نہیں جاتا ہے۔ بلکہ یہ تاثر ابھرتا ہے کہ گویا انھوں نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ سوچ کے اس انداز سے جنگ بازی کے کلچر کو فروغ دینے کے خواہشمند عناصر کی سوچ کو منطقی جواز فراہم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگست1947ء میں جو کچھ ہوا، وہ اچھا تھا یا برا، اسے تاریخ کا ایک بھیانک موڑ سمجھتے ہوئے قبول کر لینا چاہیے اور مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی پر توجہ دینی چاہیے۔ ویسے بھی اس واقعے کو 66 برس گزر چکے ہیں اور تین نسلیں جنم لے کر جوان ہو چکی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں کی کوئی نئی شکست و ریخت یا دوبارہ Unification محض دیوانے کا خواب ہے۔ مختلف ممالک اپنا قومی تشخص برقرار رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے یورپی ممالک یورپی یونین میں اپنے قومی تشخص کے ساتھ سما گئے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم معروضی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں اور اپنی سوچ کا محور ایک پرامن، خوشحال اور ترقی کرتا ہوا جنوبی ایشیاء کو بنائیں۔
Load Next Story