بقرعید اور ریفریجریٹر
جنت میں بہت سے بکرے اور مویشی کھیل رہے تھے اور خوشیاں منارہے تھے۔ لیکن ایک بکرے کا مالک یہ دیکھ کر اداس ہوگیا...
جنت میں بہت سے بکرے اور مویشی کھیل رہے تھے اور خوشیاں منارہے تھے۔ لیکن ایک بکرے کا مالک یہ دیکھ کر اداس ہوگیا کہ اس کا بکرا ایک طرف خاموش بیٹھا ہے۔ اسے بڑی تشویش ہوئی، وہ بکرے کے پا س گیا اور اسے مخاطب کرکے کہنے لگا کہ تم بھی جائو، کھیلو کودو، خوشیاں منائو۔ بکرے نے کہا، مالک یہ سب مال مویشی، بکرے بکریاں، مینڈھے اپنے پورے جسم اور چاروں پیروں پر کھڑے ہیں اور کھیلتے ہیں۔ میں کس طرح کھیلوں، میری ایک ٹانگ تو قربانی کے 6 ماہ بعد بھی آپ کے ڈیپ فریزر میں بند ہے۔ مجھے پتا نہیں کہ اس خواب سے بیدار ہونے کے بعد مالک نے بکرے کی بقایا ٹانگ کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ کیونکہ اچھا نہیں معلوم دیتا کہ لطیفہ سننے کے بعد یہ دریافت کیا جائے کہ ''پھر کیا ہوا؟'' لیکن اخبارات کی ان خبروں سے صرف نظر بھی ممکن نہیں جو ہر برس یہ مژدہ سناتی ہیں کہ بقرعید کے دنوں میں ریفریجریٹر اور ڈیپ فریزر کی فروخت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق اس مہنگائی کے دور میں بھی ریفریجریٹرز اور ڈیپ فریزر گزشتہ برس کے مقابلے میں 5 سے 10 فیصد زیادہ فروخت ہوئے۔ اخبار کے مطابق بقرعید سے 20 روز قبل سے ان اشیاء کی فروخت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ سال بھر کی مجموعی فروخت کے مقابلے میں یہ فروخت 60 فیصد تک زیادہ ہوتی ہے۔ یہ رجحان صرف بڑے شہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ پورے ملک میں ہی نظر آتا ہے۔ چھوٹے علاقوں اور چھوٹے شہروں کے افراد بھی سال کے دیگر دنوں کے مقابلے میں ان دنوں ریفریجریٹر اور ڈیپ فریزر زیادہ خریدتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے، ہر نئے برس نئی قیمتیں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہی ہوتی ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ الیکٹرانکس مارکیٹ میں دیگر مارکیٹوں کی طرح فروخت کا گراف بلند ہی ہوتا جاتا ہے۔ لوگ ہر برس گزشتہ کے مقابلے میں زیادہ ہی خریداری کرتے نظر آتے ہیں۔ قیمتوں کے بڑھنے کا فروخت پر کوئی خاص اثر معلوم نہیں ہوتا۔ بعض مارکیٹیں اور دکانیں فروخت کے دبائو کی وجہ سے بقرعید کے نزدیکی دنوں میں نصف شب تک کھلی رہتی ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں ان دنوں مائیکروویو اوون، الیکٹرانک گرل اور چوپرز وغیرہ بھی نسبتاً زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔ یہ کاروبار صرف یہیں تک محدود نہیں، ریفریجریٹر اور ڈیپ فریزر مرمت کرنے والے گلی گلی موجود ہیں۔ بقرعید کے نزدیکی دنوں میں ان کی بھی چاندی ہوتی ہے۔ کام میں عام دنوں کے مقابلے میں بسا اوقات دگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ لوگ طویل عرصے تک گوشت کیوں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں؟ ابراہیمی و دیگر مذاہب میں قربانی کا تصور نیا نہیں۔ لیکن قربانی کے بعد قربانی محفوظ کرلینے کا تصور بالکل نیا ہے۔ سرد خانے اور برف خانے ایک عرصہ قبل بھی ہوا کرتے تھے، لیکن کبھی مسلمانوں نے اس طرح گوشت محفوظ رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ تبدیلی کیا ہے اور کیوں ہے؟ دیگر مذاہب میں بھی قربانی کے تصورات کا جائزہ لیتے جائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ قربانی کو خود اپنے ہی پاس محفوظ کرلینے کا خیال بالکل ہی انوکھا ہے۔ عمومی طور پر قربانی کے تصور سے لگا کھاتا نظر بھی نہیں آتا۔ قربانی کو عموماً بارگاہ رب العزت میں کسی چیز کے پیش کردینے کو سمجھا جاتا ہے نہ کہ پیش کرکے ڈیپ فریزر میں بھر لینے کو۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ رسم اذاں رہ گئی، روح بلالی نہ رہی... سو قربانی کی رسم تو رہ گئی ہے، قربانی کا جذبہ کم اور ختم ہوتا جارہا ہے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ ہم سے پہلے کے افراد ہماری نسبت زیادہ قربانیاں دینے والے تھے۔ ہمارے مزاج میں اپنے پرکھوں کی نسبت قربانی دینے کا جذبہ کم نظر آتا ہے اور ہمارے بعد والوں میں اور بھی کم۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم سے پہلے کے لوگ ایک ساتھ رہتے اور ایک ساتھ جیتے تھے، آج ہر فرد اکیلا ہے۔ آج ہمارا زیادہ وقت مشینوں کے ساتھ گزرنے لگا ہے۔ یہاں تک کہ فارغ وقت میں بھی انسان ایک دوسرے کے ساتھ ملنے اور دکھ سکھ بانٹنے کے بجائے اپنے لیپ ٹاپ، گیم یا ٹی وی کے چینل تبدیل کرتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم سے پہلے کے انسانوں کی تمام تر دل چسپیاں انسانوں سے اور انسانوں کے لیے ہوا کرتی تھیں۔ آج ہماری دلچسپی کا تمام تر سامان کمپیوٹرز، گیمز، اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ، ایچ ڈی ٹی وی وغیرہ میں ہوتا ہے۔ ہمارے بچے اپنے ہم جولیوں، دوستوں اور اعزہ اقارب کے بجائے مختلف اسکرینز کے سامنے زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔
یہاں تک کہ ان کی دوستی اور روابط کی اساس بھی ان مشینوں پر استوار ہے۔ گیمز، موبائل، گیجٹس تعلقات کی بنیاد ہیں۔ آج کے بچوں کا وقت نانی دادی، پھپھو، چچا، خالہ یہاں تک کہ والدین کے زیر سایہ گزرنے کے بجائے ڈے کئیر، اسکول، ٹیوشن، ٹی وی، ویڈیوگیمز اور سفر میں گزرتا ہے۔ شخصی آزادی اور حقوقِ انسانی کے تحت دنیا کی سب سے اہم شخصیت انسان خود قرار پاتا ہے۔ لہٰذا اسے اپنی ذات اور اپنے ذاتی مفاد کے علاوہ کسی چیز سے دلچسپی بھی نہیں رہ جاتی۔ انسانوں سے متعلق زیادہ تر خدمات چونکہ ریاست کی ذمے داری قرار پاتی ہیں لہٰذا کسی کے لیے بھی متردد ہونے یا اپنا جان، مال، وقت کھپانے کا سوچنا ہی فضول ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریائوں میں ہر ہر فرد کا کام اور مقصد زندگی صرف یہ ہی رہ جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سرمائے کی خدمت کرے۔ اپنی تمام تر صلاحیتیں اور تمام تر وقت اپنی کارپوریشن کے منافع میں اضافے اور سرمائے کی بڑھوتری کے عمل میں لگا دے اور اس عمل سے اپنی ذاتی دلچسپیاں اور مسرتیں کشید کرنے کی کوشش کرے۔
ان حالات میں جینے والا انسان لامحالہ اسی طرح کی فکر کا خوگر ہوگا کہ اگر اس نے قربانی کی ہے تو اس کا سب سے زیادہ حق دار وہ خود ہے۔ اگر معاشرے میں کچھ بھوکے ہیں تو ان کی کفالت اسلامی فلاحی ریاست کی ذمے داری ہے نہ کہ یہ اس کا کوئی ذاتی مسئلہ ہے۔ ایسے میں مذہبی نمایندے بھی سامنے آتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں قربانی کا تمام تر گوشت خود استعمال کرنے سے بھی قربانی ہوجاتی ہے۔ شرعاً اس کی اجازت ہے۔ اب بھی اگر ریفریجریٹرز اور ڈیپ فریزرز نہ بِکیں تو کیا ہو۔ وہ تو قرون اُولیٰ کے افراد تھے جو بکرے کی سری کئی گھروں سے گھوم کر پہلے گھر میں واپس آجاتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لبِ دم بھی ان کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے بجائے ان کے ساتھی کو پانی مل جائے۔ اس دور کے افراد چیزیں بانٹ کر خوش ہوا کرتے تھے۔ آج ہمیں یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ میسر نعمتوں کے شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انھیں خود ہی کھا پی کر ختم کرلیا جائے۔ غلط طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شکران نعمت یہ ہے کہ چیز کو خود برت لو۔ مذہب کی یہ تعبیر حرص و ہوس کی موجودہ معاشیات کے عین مطابق بھی ہے۔ گویا دین و دنیا ساتھ ساتھ۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
قربانی کی روح کو نظر انداز کرتے ہوئے جینے والا انسان صرف اپنے لیے سوچتا ہے اور اپنے لیے جیتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر دیکھنے اور جینے کی صلاحیت سے خود کو محروم کرلیتا ہے۔
کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ سال بھر کی مجموعی فروخت کے مقابلے میں یہ فروخت 60 فیصد تک زیادہ ہوتی ہے۔ یہ رجحان صرف بڑے شہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ پورے ملک میں ہی نظر آتا ہے۔ چھوٹے علاقوں اور چھوٹے شہروں کے افراد بھی سال کے دیگر دنوں کے مقابلے میں ان دنوں ریفریجریٹر اور ڈیپ فریزر زیادہ خریدتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے، ہر نئے برس نئی قیمتیں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہی ہوتی ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ الیکٹرانکس مارکیٹ میں دیگر مارکیٹوں کی طرح فروخت کا گراف بلند ہی ہوتا جاتا ہے۔ لوگ ہر برس گزشتہ کے مقابلے میں زیادہ ہی خریداری کرتے نظر آتے ہیں۔ قیمتوں کے بڑھنے کا فروخت پر کوئی خاص اثر معلوم نہیں ہوتا۔ بعض مارکیٹیں اور دکانیں فروخت کے دبائو کی وجہ سے بقرعید کے نزدیکی دنوں میں نصف شب تک کھلی رہتی ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں ان دنوں مائیکروویو اوون، الیکٹرانک گرل اور چوپرز وغیرہ بھی نسبتاً زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔ یہ کاروبار صرف یہیں تک محدود نہیں، ریفریجریٹر اور ڈیپ فریزر مرمت کرنے والے گلی گلی موجود ہیں۔ بقرعید کے نزدیکی دنوں میں ان کی بھی چاندی ہوتی ہے۔ کام میں عام دنوں کے مقابلے میں بسا اوقات دگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ لوگ طویل عرصے تک گوشت کیوں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں؟ ابراہیمی و دیگر مذاہب میں قربانی کا تصور نیا نہیں۔ لیکن قربانی کے بعد قربانی محفوظ کرلینے کا تصور بالکل نیا ہے۔ سرد خانے اور برف خانے ایک عرصہ قبل بھی ہوا کرتے تھے، لیکن کبھی مسلمانوں نے اس طرح گوشت محفوظ رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ تبدیلی کیا ہے اور کیوں ہے؟ دیگر مذاہب میں بھی قربانی کے تصورات کا جائزہ لیتے جائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ قربانی کو خود اپنے ہی پاس محفوظ کرلینے کا خیال بالکل ہی انوکھا ہے۔ عمومی طور پر قربانی کے تصور سے لگا کھاتا نظر بھی نہیں آتا۔ قربانی کو عموماً بارگاہ رب العزت میں کسی چیز کے پیش کردینے کو سمجھا جاتا ہے نہ کہ پیش کرکے ڈیپ فریزر میں بھر لینے کو۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ رسم اذاں رہ گئی، روح بلالی نہ رہی... سو قربانی کی رسم تو رہ گئی ہے، قربانی کا جذبہ کم اور ختم ہوتا جارہا ہے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ ہم سے پہلے کے افراد ہماری نسبت زیادہ قربانیاں دینے والے تھے۔ ہمارے مزاج میں اپنے پرکھوں کی نسبت قربانی دینے کا جذبہ کم نظر آتا ہے اور ہمارے بعد والوں میں اور بھی کم۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم سے پہلے کے لوگ ایک ساتھ رہتے اور ایک ساتھ جیتے تھے، آج ہر فرد اکیلا ہے۔ آج ہمارا زیادہ وقت مشینوں کے ساتھ گزرنے لگا ہے۔ یہاں تک کہ فارغ وقت میں بھی انسان ایک دوسرے کے ساتھ ملنے اور دکھ سکھ بانٹنے کے بجائے اپنے لیپ ٹاپ، گیم یا ٹی وی کے چینل تبدیل کرتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم سے پہلے کے انسانوں کی تمام تر دل چسپیاں انسانوں سے اور انسانوں کے لیے ہوا کرتی تھیں۔ آج ہماری دلچسپی کا تمام تر سامان کمپیوٹرز، گیمز، اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ، ایچ ڈی ٹی وی وغیرہ میں ہوتا ہے۔ ہمارے بچے اپنے ہم جولیوں، دوستوں اور اعزہ اقارب کے بجائے مختلف اسکرینز کے سامنے زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔
یہاں تک کہ ان کی دوستی اور روابط کی اساس بھی ان مشینوں پر استوار ہے۔ گیمز، موبائل، گیجٹس تعلقات کی بنیاد ہیں۔ آج کے بچوں کا وقت نانی دادی، پھپھو، چچا، خالہ یہاں تک کہ والدین کے زیر سایہ گزرنے کے بجائے ڈے کئیر، اسکول، ٹیوشن، ٹی وی، ویڈیوگیمز اور سفر میں گزرتا ہے۔ شخصی آزادی اور حقوقِ انسانی کے تحت دنیا کی سب سے اہم شخصیت انسان خود قرار پاتا ہے۔ لہٰذا اسے اپنی ذات اور اپنے ذاتی مفاد کے علاوہ کسی چیز سے دلچسپی بھی نہیں رہ جاتی۔ انسانوں سے متعلق زیادہ تر خدمات چونکہ ریاست کی ذمے داری قرار پاتی ہیں لہٰذا کسی کے لیے بھی متردد ہونے یا اپنا جان، مال، وقت کھپانے کا سوچنا ہی فضول ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریائوں میں ہر ہر فرد کا کام اور مقصد زندگی صرف یہ ہی رہ جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ سرمائے کی خدمت کرے۔ اپنی تمام تر صلاحیتیں اور تمام تر وقت اپنی کارپوریشن کے منافع میں اضافے اور سرمائے کی بڑھوتری کے عمل میں لگا دے اور اس عمل سے اپنی ذاتی دلچسپیاں اور مسرتیں کشید کرنے کی کوشش کرے۔
ان حالات میں جینے والا انسان لامحالہ اسی طرح کی فکر کا خوگر ہوگا کہ اگر اس نے قربانی کی ہے تو اس کا سب سے زیادہ حق دار وہ خود ہے۔ اگر معاشرے میں کچھ بھوکے ہیں تو ان کی کفالت اسلامی فلاحی ریاست کی ذمے داری ہے نہ کہ یہ اس کا کوئی ذاتی مسئلہ ہے۔ ایسے میں مذہبی نمایندے بھی سامنے آتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں قربانی کا تمام تر گوشت خود استعمال کرنے سے بھی قربانی ہوجاتی ہے۔ شرعاً اس کی اجازت ہے۔ اب بھی اگر ریفریجریٹرز اور ڈیپ فریزرز نہ بِکیں تو کیا ہو۔ وہ تو قرون اُولیٰ کے افراد تھے جو بکرے کی سری کئی گھروں سے گھوم کر پہلے گھر میں واپس آجاتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لبِ دم بھی ان کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے بجائے ان کے ساتھی کو پانی مل جائے۔ اس دور کے افراد چیزیں بانٹ کر خوش ہوا کرتے تھے۔ آج ہمیں یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ میسر نعمتوں کے شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انھیں خود ہی کھا پی کر ختم کرلیا جائے۔ غلط طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شکران نعمت یہ ہے کہ چیز کو خود برت لو۔ مذہب کی یہ تعبیر حرص و ہوس کی موجودہ معاشیات کے عین مطابق بھی ہے۔ گویا دین و دنیا ساتھ ساتھ۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
قربانی کی روح کو نظر انداز کرتے ہوئے جینے والا انسان صرف اپنے لیے سوچتا ہے اور اپنے لیے جیتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر دیکھنے اور جینے کی صلاحیت سے خود کو محروم کرلیتا ہے۔