اخلاقی انحطاط کے اسباب
گزشتہ دنوں انسانی درندگی کے جو شرم ناک، اذیت ناک واقعات متواتر بذریعہ میڈیا سامنے آئے ان پر لفظ ’’مذمت‘‘ ناکافی ہے...
گزشتہ دنوں انسانی درندگی کے جو شرم ناک، اذیت ناک واقعات متواتر بذریعہ میڈیا سامنے آئے ان پر لفظ ''مذمت'' ناکافی ہے۔ ایسے ہی فعل کے مرتکب افراد کی وجہ سے زمین لرزتی ہے۔ قوم کی جن معصوم کلیوں کو کھلنے سے پہلے مرجھا دیا گیا ہے اس پر ہر سر جھکا ہوا ہے کہ یہ درندہ صفت انسان، انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہوس کے پجاری پاک مردوں کو قبروں سے نکال لیتے تھے۔ ایسے گھناؤنے واقعات سے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ہمارا معاشرہ نیست و نابود ہونے کے دہانے پر ہے۔ توبہ استغفار! اللہ معافی دے۔ اللہ تعالیٰ ہماری بہو، بیٹیوں اور معصوم بچیوں کو اپنی پناہ میں رکھے۔( آمین!)
اس میں کلام نہیں کہ عریانی و فحاشی کی ہی وجہ سے ہمارے معاشرے میں آبروریزی کے واقعات ہورہے ہیں جن میں گینگ ریپ کے واقعات بھی شامل ہیں۔ کسی زمانے میں ''بازار حسن'' ہوا کرتے تھے جہاں جسم فروشی عام سی بات تھی جس وجہ سے بھی معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار رہا۔ معاشرے میں بہتری لانے کے لیے ان بازاروں کو بند کردیا گیا لیکن یہ گھناؤنا کاروبار بازاروں سے نکل کر کوٹھیوں کی زینت بنا۔ لیکن ختم نہ ہوسکا۔ اسی زمانے میں سینما گھروں میں مخصوص انگریزی فلموں کے'' ٹوٹے'' چلائے جاتے تھے، ہوٹلوں اور کلبز میں بھی یہ گھناؤنا دھندہ کیا جاتا تھا۔ عوامی دباؤ کے تحت ان سینما گھروں، ہوٹلوں اور کلبز پر چھاپے پڑتے تھے لیکن پولیس کی سرپرستی انھیں حاصل ہوتی تھی۔ جب ٹیلی ویژن ہمارے ملک میں داخل ہوا تو اس وقت ٹی وی شرم و حیا کا پیکر تھا، مثبت تفریح اور تبلیغ کا ذریعہ تھا کہ اچانک VCR اس کی دنیا میں داخل ہوا یہ کہہ کر کہ وہ تعلیمی معاون ثابت ہوگا۔
وہ تعلیم کیا تھی کہ بے ہودگی کی درسگاہ ثابت ہوئی۔ اگرچہ شروع دنوں پر اس پر پابندی عائد تھی لیکن بعد میں اس پر فیس مقرر کی گئی اور ساتھ ہی انڈین فلموں پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی لیکن یہاں بھی ہماری پولیس نے مک مکا کرکے وہ راستہ ہموار کرنے میں معاونت کا کردار ادا کیا جسے ہمارا معاشرہ برے القاب سے نوازتا ہے ۔ پھر کیا کچھ نہیں ہوا۔ بلیو پرنٹ کے چرچے شہر میں زبان زد عام ہوئے۔ یہ وبا نوجوان نسل میں تیزی سے پھیل گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ''گینگ ریپ'' کے واقعات عام سی بات ہوگئے۔ کئی شرفاء بے عزت ہوگئے۔ کئی خاندان تباہ ہوگئے۔ بوسٹر اور ڈش انٹینا نے VCR کو مات دے دی۔ اب براہ راست اخلاق سوز فلمیں نوجوان نسل کی دسترس میں آگئیں جنہوں نے نوجوان طبقے کی اخلاقیات کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اسی اثنا میں کمپیوٹر کے انٹرنیٹ نے وہ تمام اخلاق سوز مواد نوجوانوں کو فراہم کیا جس نے تباہی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ جس کے اثرات یہ ہیں کہ نوجوان نسل اپنے آپے سے باہر دکھائی دے رہی ہے ان کی آنکھوں میں ''سور'' اتر آیا ہے۔ انھیں معصوم کلیوں کی تمیز بھی نہ رہی۔ علاوہ ازیں بذریعہ Tv کیبل کے پروگراموں، ڈراموں، انڈین اور انگریزی فلموں کے ذریعے عریانی وفحاشی کا جو سیلاب امڈ آیا ہے انھیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا ممکن نہیں رہا ۔
اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں والدین، اساتذہ اور میڈیا نے اپنا کام ''اصلاح احوال'' چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں جنسی تشدد اور زیادتیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ خواتین کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کا کہنا ہے کہ خواتین کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دینی چاہیے، بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی، یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ جنسی تشدد کہاں ہورہا ہے؟ کہاں نہیں ہورہا؟ یہ ایک مسئلہ ہے جس سے چھٹکارہ ہونا چاہیے، جو جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہے اس کے لیے کوئی عمر کوئی رنگ کوئی نسل کوئی معنی نہیں رکھتا اس کے لیے وہ ایک شکار ہے، ریپسٹ تو قبروں سے بھی مردے نکال لیتے ہیں، ہمارے معاشرے میں فیملی کے لوگ ہی کسی متاثرہ کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے ہماری بدنامی ہوئی یا ہمیں پولیس میں جانا پڑ رہا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں نفسیاتی مسئلے کو اہم قرار نہیں دیا جاتا اکثر ذہنی اور نفسیاتی مسائل کو مکس کر دیا جاتا ہے۔ مذہبی اسکالر مولانا ابتسام الٰہی ظہیر کا کہنا ہے کہ جس کسی پر کوئی جنسی تشدد ہوتا ہے اس کو اپنانا بہت بڑی نیکی ہے جرم سے نفرت کرنی چاہیے مظلوم سے نہیں، جنسی تشدد کو قرآن میں بہت تفصیل سے ڈسکس کیا گیا ہے اگر میں قانون بنانے کا اختیار رکھتا تو حجاب اور پردے کو لازم قرار دیتا۔
گزشتہ دنوں کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے صدر جمیل اطہر قاضی کی زیرصدارت سی پی این ای کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں رکن مطبوعات کے مدیران پر زور دیا گیا ہے کہ معاشرتی بے راہ روی اور جنسی زیادتی سے متعلق خبروں کو اس انداز میں شایع نہ کیا جائے جس کی بنا پر متاثرہ فرد یا اس کے خاندان کی عزت مٹی میں مل جائے حالانکہ وہ زیادہ ہمدردی کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس لیے زیادتی کا نشانہ بننے والوں اور ان کے اہل خانہ کے نام تصاویر اور ان کا پتہ شایع کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کی جانے والی ایک قرارداد میں اس امر پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک 5 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعے کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جس طرح پیش کیا گیا تھا اس سے معاشرے پر بے حد منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور میڈیا کی رپورٹنگ پر عوام میں کافی اشتعال پایا جاتا ہے۔ اس قسم کی خبروں کو زیادہ اہمیت دیے جانے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ہماری پوری سوسائٹی بدچلنی کا شکار ہوچکی ہے اور ہر فرد اپنے بچوں کے تحفظ کے ضمن میں تشویش میں مبتلا ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ اس قسم کے واقعات کے سلسلے میں متاثرہ فریق کو مزید تضحیک سے بچانے کے لیے ان کا نام، تصویر، خاندان کا ذکر اور ایڈریس شایع نہ کرنے کے احکام جاری کرچکی ہے جس کی پابندی کرنا بہت ضروری ہے۔
اس میں کلام نہیں کہ عریانی و فحاشی کی ہی وجہ سے ہمارے معاشرے میں آبروریزی کے واقعات ہورہے ہیں جن میں گینگ ریپ کے واقعات بھی شامل ہیں۔ کسی زمانے میں ''بازار حسن'' ہوا کرتے تھے جہاں جسم فروشی عام سی بات تھی جس وجہ سے بھی معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار رہا۔ معاشرے میں بہتری لانے کے لیے ان بازاروں کو بند کردیا گیا لیکن یہ گھناؤنا کاروبار بازاروں سے نکل کر کوٹھیوں کی زینت بنا۔ لیکن ختم نہ ہوسکا۔ اسی زمانے میں سینما گھروں میں مخصوص انگریزی فلموں کے'' ٹوٹے'' چلائے جاتے تھے، ہوٹلوں اور کلبز میں بھی یہ گھناؤنا دھندہ کیا جاتا تھا۔ عوامی دباؤ کے تحت ان سینما گھروں، ہوٹلوں اور کلبز پر چھاپے پڑتے تھے لیکن پولیس کی سرپرستی انھیں حاصل ہوتی تھی۔ جب ٹیلی ویژن ہمارے ملک میں داخل ہوا تو اس وقت ٹی وی شرم و حیا کا پیکر تھا، مثبت تفریح اور تبلیغ کا ذریعہ تھا کہ اچانک VCR اس کی دنیا میں داخل ہوا یہ کہہ کر کہ وہ تعلیمی معاون ثابت ہوگا۔
وہ تعلیم کیا تھی کہ بے ہودگی کی درسگاہ ثابت ہوئی۔ اگرچہ شروع دنوں پر اس پر پابندی عائد تھی لیکن بعد میں اس پر فیس مقرر کی گئی اور ساتھ ہی انڈین فلموں پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی لیکن یہاں بھی ہماری پولیس نے مک مکا کرکے وہ راستہ ہموار کرنے میں معاونت کا کردار ادا کیا جسے ہمارا معاشرہ برے القاب سے نوازتا ہے ۔ پھر کیا کچھ نہیں ہوا۔ بلیو پرنٹ کے چرچے شہر میں زبان زد عام ہوئے۔ یہ وبا نوجوان نسل میں تیزی سے پھیل گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ''گینگ ریپ'' کے واقعات عام سی بات ہوگئے۔ کئی شرفاء بے عزت ہوگئے۔ کئی خاندان تباہ ہوگئے۔ بوسٹر اور ڈش انٹینا نے VCR کو مات دے دی۔ اب براہ راست اخلاق سوز فلمیں نوجوان نسل کی دسترس میں آگئیں جنہوں نے نوجوان طبقے کی اخلاقیات کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اسی اثنا میں کمپیوٹر کے انٹرنیٹ نے وہ تمام اخلاق سوز مواد نوجوانوں کو فراہم کیا جس نے تباہی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ جس کے اثرات یہ ہیں کہ نوجوان نسل اپنے آپے سے باہر دکھائی دے رہی ہے ان کی آنکھوں میں ''سور'' اتر آیا ہے۔ انھیں معصوم کلیوں کی تمیز بھی نہ رہی۔ علاوہ ازیں بذریعہ Tv کیبل کے پروگراموں، ڈراموں، انڈین اور انگریزی فلموں کے ذریعے عریانی وفحاشی کا جو سیلاب امڈ آیا ہے انھیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا ممکن نہیں رہا ۔
اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں والدین، اساتذہ اور میڈیا نے اپنا کام ''اصلاح احوال'' چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں جنسی تشدد اور زیادتیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ خواتین کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کا کہنا ہے کہ خواتین کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دینی چاہیے، بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی، یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ جنسی تشدد کہاں ہورہا ہے؟ کہاں نہیں ہورہا؟ یہ ایک مسئلہ ہے جس سے چھٹکارہ ہونا چاہیے، جو جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہے اس کے لیے کوئی عمر کوئی رنگ کوئی نسل کوئی معنی نہیں رکھتا اس کے لیے وہ ایک شکار ہے، ریپسٹ تو قبروں سے بھی مردے نکال لیتے ہیں، ہمارے معاشرے میں فیملی کے لوگ ہی کسی متاثرہ کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے ہماری بدنامی ہوئی یا ہمیں پولیس میں جانا پڑ رہا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں نفسیاتی مسئلے کو اہم قرار نہیں دیا جاتا اکثر ذہنی اور نفسیاتی مسائل کو مکس کر دیا جاتا ہے۔ مذہبی اسکالر مولانا ابتسام الٰہی ظہیر کا کہنا ہے کہ جس کسی پر کوئی جنسی تشدد ہوتا ہے اس کو اپنانا بہت بڑی نیکی ہے جرم سے نفرت کرنی چاہیے مظلوم سے نہیں، جنسی تشدد کو قرآن میں بہت تفصیل سے ڈسکس کیا گیا ہے اگر میں قانون بنانے کا اختیار رکھتا تو حجاب اور پردے کو لازم قرار دیتا۔
گزشتہ دنوں کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے صدر جمیل اطہر قاضی کی زیرصدارت سی پی این ای کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں رکن مطبوعات کے مدیران پر زور دیا گیا ہے کہ معاشرتی بے راہ روی اور جنسی زیادتی سے متعلق خبروں کو اس انداز میں شایع نہ کیا جائے جس کی بنا پر متاثرہ فرد یا اس کے خاندان کی عزت مٹی میں مل جائے حالانکہ وہ زیادہ ہمدردی کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس لیے زیادتی کا نشانہ بننے والوں اور ان کے اہل خانہ کے نام تصاویر اور ان کا پتہ شایع کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کی جانے والی ایک قرارداد میں اس امر پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا کہ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک 5 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعے کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جس طرح پیش کیا گیا تھا اس سے معاشرے پر بے حد منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور میڈیا کی رپورٹنگ پر عوام میں کافی اشتعال پایا جاتا ہے۔ اس قسم کی خبروں کو زیادہ اہمیت دیے جانے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ہماری پوری سوسائٹی بدچلنی کا شکار ہوچکی ہے اور ہر فرد اپنے بچوں کے تحفظ کے ضمن میں تشویش میں مبتلا ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ اس قسم کے واقعات کے سلسلے میں متاثرہ فریق کو مزید تضحیک سے بچانے کے لیے ان کا نام، تصویر، خاندان کا ذکر اور ایڈریس شایع نہ کرنے کے احکام جاری کرچکی ہے جس کی پابندی کرنا بہت ضروری ہے۔