پٹرولیم کی قیمتیں پھر100 کی حدعبورکرگئیں
یہ سلسلہ شاید عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے تک چلتا رہے گا۔
عوام کے تمام تر احتجاج اور مالی مسائل کے حوالے سے واویلے کے باوجود حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 7روپے 77پیسے سے 8روپے 18پیسے فی لٹر جبکہ سی این جی کی قیمتوں میں 7روپے 11پیسے فی کلو تک اضافہ کر دیا ہے جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حکمرانوں کو لوگوں کی مشکلات سے کچھ تعلق واسطہ نہیں ہے اور ان کے مدنظر صرف اور صرف ایک ہی بات ہے کہ زیادہ سے زیادہ ریونیو اکٹھا کیا جائے تاکہ وہ اپنی عیاشیوں اور سہولیات کو بڑھا سکیں۔
نئی قیمتوں کے مطابق پٹرول 96.78 روپے سے بڑھ کر 104 روپے 55 پیسے، ایچ او بی سی 125 روپے ایک پیسے سے بڑھ کر 133 روپے 19 پیسے، مٹی کا تیل 96 روپے 35 پیسے سے بڑھ کر 102 روپے 19پیسے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 106 روپے 19 پیسے سے بڑھ کر 112 روپے 13 پیسے فی لٹر ہو گیا ہے اس طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں' جو چند ماہ قبل حکومت کی کمال نوازش سے بیس روپے فی لٹر کے قریب کم ہو گئی تھیں ایک بار پھر سو کا ہندسہ عبور کر چکی ہیں جس کے عوام کے مالی معاملات پر منفی اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
عوامی، سماجی، محنت کش اور سیاسی حلقوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پے در پے اضافے پر بجا طور پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ مختلف لیبر تنظیموں کے رہنماؤں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان کھڑا ہو گا، ٹرانسپورٹ کرایوں اور اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ ان کی تشویش بے جا نہیں ہے بلکہ ایک خبر میں تو بتایا گیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹرز نے بھی انٹرسٹی بسوں کے کرائے دس فیصد بڑھا دیئے ہیں۔
یہ سلسلہ شاید عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے تک چلتا رہے گا۔ یہ بات یقیناً حیرت کا باعث ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے نوٹیفکیشن کے اجراء کے اختیارات کے تعین کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا لیکن ان مصنوعات کی قیمتوں میں اضافوں پر اضافے کا کوئی موقع ضایع نہیں جانے دیا جا رہا۔ پتہ چلا ہے کہ یہ معاملہ طے نہ ہونے کے باعث اوگرا نے وزارت پٹرولیم کی ایڈوائس پر صرف سی این جی اور مٹی کے تیل و ای ٹین فیول کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جبکہ پٹرول، ڈیزل سمیت دیگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان پی ایس او نے کیا۔
چنانچہ ضروری ہے کہ نہ صرف اس حالیہ اضافے کو واپس لیا جائے بلکہ یہ فیصلہ بھی کیا جائے کہ قیمتوں کا تعین دراصل کس کی ذمے داری ہے' علاوہ ازیں قیمتوں کا تعین کم از کم تین ماہ بعد کرنے کا سسٹم بنایا جائے تاکہ عوام کو بار بار مالی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایک اور قابل توجہ مسئلہ یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافے کی اطلاعات کے بعد مختلف شہروں میں پٹرول پمپ بند ہو گئے جس سے صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا' اب جبکہ ان مصنوعات کی قیمتیں ہفتہ وار بنیادوں پر بڑھائی جا رہی ہیں تو ہر ہفتے صارفین پٹرول کو ایسی ہی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ جب تک پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں ردوبدل کا سہ ماہی نظام نہیں لایا جاتا اس وقت تک پٹرول پمپ مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ اضافے کی اطلاع پر پٹرول کی فروخت بند نہ کریں۔
نئی قیمتوں کے مطابق پٹرول 96.78 روپے سے بڑھ کر 104 روپے 55 پیسے، ایچ او بی سی 125 روپے ایک پیسے سے بڑھ کر 133 روپے 19 پیسے، مٹی کا تیل 96 روپے 35 پیسے سے بڑھ کر 102 روپے 19پیسے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 106 روپے 19 پیسے سے بڑھ کر 112 روپے 13 پیسے فی لٹر ہو گیا ہے اس طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں' جو چند ماہ قبل حکومت کی کمال نوازش سے بیس روپے فی لٹر کے قریب کم ہو گئی تھیں ایک بار پھر سو کا ہندسہ عبور کر چکی ہیں جس کے عوام کے مالی معاملات پر منفی اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
عوامی، سماجی، محنت کش اور سیاسی حلقوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پے در پے اضافے پر بجا طور پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ مختلف لیبر تنظیموں کے رہنماؤں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان کھڑا ہو گا، ٹرانسپورٹ کرایوں اور اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ ان کی تشویش بے جا نہیں ہے بلکہ ایک خبر میں تو بتایا گیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹرز نے بھی انٹرسٹی بسوں کے کرائے دس فیصد بڑھا دیئے ہیں۔
یہ سلسلہ شاید عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے تک چلتا رہے گا۔ یہ بات یقیناً حیرت کا باعث ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے نوٹیفکیشن کے اجراء کے اختیارات کے تعین کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا لیکن ان مصنوعات کی قیمتوں میں اضافوں پر اضافے کا کوئی موقع ضایع نہیں جانے دیا جا رہا۔ پتہ چلا ہے کہ یہ معاملہ طے نہ ہونے کے باعث اوگرا نے وزارت پٹرولیم کی ایڈوائس پر صرف سی این جی اور مٹی کے تیل و ای ٹین فیول کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جبکہ پٹرول، ڈیزل سمیت دیگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان پی ایس او نے کیا۔
چنانچہ ضروری ہے کہ نہ صرف اس حالیہ اضافے کو واپس لیا جائے بلکہ یہ فیصلہ بھی کیا جائے کہ قیمتوں کا تعین دراصل کس کی ذمے داری ہے' علاوہ ازیں قیمتوں کا تعین کم از کم تین ماہ بعد کرنے کا سسٹم بنایا جائے تاکہ عوام کو بار بار مالی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایک اور قابل توجہ مسئلہ یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافے کی اطلاعات کے بعد مختلف شہروں میں پٹرول پمپ بند ہو گئے جس سے صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا' اب جبکہ ان مصنوعات کی قیمتیں ہفتہ وار بنیادوں پر بڑھائی جا رہی ہیں تو ہر ہفتے صارفین پٹرول کو ایسی ہی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ جب تک پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں ردوبدل کا سہ ماہی نظام نہیں لایا جاتا اس وقت تک پٹرول پمپ مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ اضافے کی اطلاع پر پٹرول کی فروخت بند نہ کریں۔