پاکستان کا سپوت اسنوکر ورلڈ چیمپئن

محمدآصف نے فائنل میں فلپائن کے جیفری روڈاکوپانچ کے مقابلے میں آٹھ فریمزسے شکست دیکریہ اعزازدوسری مرتبہ اپنے نام کیا۔

محمدآصف نے فائنل میں فلپائن کے جیفری روڈاکوپانچ کے مقابلے میں آٹھ فریمزسے شکست دیکریہ اعزازدوسری مرتبہ اپنے نام کیا۔ فوٹو: فائل

یہ خبرکھیلوں کے شائقین کے لیے باعث مسرت وانبساط ٹھہری کہ پاکستان نے انٹرنیشنل بلیئرڈ اینڈ اسنوکر فیڈریشن (آئی بی ایس ایف) ورلڈ اسنوکر چیمپئن شپ جیت لی۔ خوشی کے ساتھ ساتھ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ کسی بھی کھیل پر بھرپورتوجہ نہیں دی جاتی ہے۔

اسنوکر بھی ورلڈ لیول کا کھیل ہے جو عالمی سطح پر اپنی مقبولیت رکھتا ہے، المیہ تو یہ ہے کہ برائے نام سرکاری گرانٹ کے سبب پاکستان بلیئرڈ اینڈ اسنوکر ایسوسی ایشن اپنی کوششوں سے وسائل اکٹھے کرکے کھلاڑیوں کو بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیے بھیجتی رہی ہے۔ ایسے میں کوئی کھلاڑی اپنی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باوجود شاندارکارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی اعزاز حاصل کرتا ہے تو وہ یقینا داد اور تحسین کے لائق ہے۔

محمد آصف نے فائنل میں فلپائن کے جیفری روڈا کو پانچ کے مقابلے میں آٹھ فریمز سے شکست دے کر یہ اعزاز دوسری مرتبہ اپنے نام کیا۔ اس سے قبل انھوں نے دسمبر 2012 میں بلغاریہ میں کھیلی گئی عالمی چیمپئن شپ کے فائنل میں انگلینڈ کے گیری ولسن کو آٹھ کے مقابلے میں دس فریمز سے شکست دی تھی۔ ان سے قبل محمد یوسف نے 1994 میں عالمی چیمپئن شپ جیتی تھی۔


محمد آصف نے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انھیں خوشی ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنے ملک کے لیے عالمی اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اسنوکر کا معیار بڑھتا جا رہا ہے۔ انھوں نے توقع ظاہر کرتے ہوئے کہ حکومتی سطح پر اسنوکر اور اس سے وابستہ کھلاڑیوں کی پذیرائی ہو گی جو بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔

محمد آصف نے دو مرتبہ عالمی چیمپئن شپ جیتنے کے علاوہ متعدد دوسرے بین الاقوامی اعزازات بھی حاصل کیے ہیں۔ وہ دو مرتبہ ورلڈ ٹیم اسنوکر چیمپئن شپ جیت چکے ہیں۔ انھوں نے ایشیئن سکس ریڈ بال چیمپئن شپ کا انفرادی ٹائٹل ایک بار اور ٹیم چیمپئن شپ ٹائٹل دو بار جیتا ہے تاہم اتنی زیادہ کامیابیاں اپنے دامن میں سمیٹنے کے باوجود ایسے قابل فخر کھلاڑیوں کا حکومتی سرپرستی سے محروم رہنا حوصلہ شکنی کے مترادف ہے، ماضی میں حکومتی اسپورٹس پالیسی کی بنیاد پر انھیں جو مالی انعام ملنا چاہیے تھا اس کی پوری رقم بھی نہیں مل سکی۔

موجودہ حکومت کو ایک ایسی یکساں پالیسی مرتب کرنی چاہیے جس میں ملک میں تمام کھیلوں کو یکساں فروغ حاصل ہوسکے۔ حقیقی معنوں میں کھلاڑیوں کا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آئے اور وہ ملک وقوم کا نام اقوام عالم میں روشن کرسکیں۔
Load Next Story