قومی آپا دھاپی فیسٹیول
ہماری سرکار چین کو ہمیشہ رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی متمنی رہتی ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے '' آدمی اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے''۔ ایک اور قول ہے ''خاموشی عالم کا زیور اور جاہل کا پردہ ہے''۔کسی اور عظیم آدمی کا کہنا ہے کہ زبان کا لوتھڑا آدمی کو فرش سے عرش اور عرش سے فرش تک پہنچا سکتا ہے۔اردو کا محاورہ ہے گز بھر کی زبان۔
شیکسپئیر کے مشہور کھیل میکبتھ کی بنیاد پر ہدایت کار وشال بھردواج کی دو ہزار تین کی فلم مقبول کے ایک منظر میں مافیا کا سربراہ میاں جی( پنکھج کپور )اپنے ایک باتونی گرگے سے کہتا ہے '' میاں پان کھایا کرو۔ منہ بند رہتا ہے''۔
بعد اس تمہید کے عرض یہ ہے کہ زبان کے بروقت استعمال اور کہاں بولنا ہے،کہاں چپ رہنا ہے اور کہاں بات کو ٹال جانا ہے کا کلیہ جہاں فرد پر لاگو ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ سرکار پر لاگو ہوتا ہے۔
ہماری سرکار چین کو ہمیشہ رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی متمنی رہتی ہے۔شائد آپ نے کبھی غور کیا ہو کہ چین کے صدر یا وزیرِ اعظم صرف اہم پالیسی بیان دیتے ہیں۔ جب بھی ریاستی سطح پر کوئی موقف پیش کرنا ہوتا ہے تو سرکاری ترجمان ہی بات کرتا ہے۔ہر نائب ، مشیر ، وزیر ترجمان بننے کی کوشش نہیں کرتا۔کسی بھی معاملے پر جو بھی بیان جاری ہوتا ہے اس کی حیثیت ذاتی نہیں رسمی اور قانونی ہوتی ہے۔ فائدہ یہ ہے کہ باقی دنیا کو چین کی پالیسیوں اور موقف کے بارے میں کبھی کوئی ابہام نہیں رہتا۔
روسی ، ایرانی ، ترک ، اماراتی ، سعودی اور ہر مغربی حکومت کا یہی چلن ہے۔کوئی وزیر براہِ راست بیان نہیں دیتا بلکہ اپنے محکمے کے ترجمان کے توسط سے بولتا ہے۔الا یہ کہ کسی سربراہِ حکومت ، وزیر یا سفیر کی کوئی پریس کانفرنس یا انٹرویو ہو۔اور اس میں بھی اہتمام رکھا جاتا ہے کہ کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکل جائے جسے بعد میں بصد شرمندگی واپس لینا پڑ جائے یا اسے ذاتی رائے کا ٹوپا پہنانا پڑے یا پھر کہنا پڑ جائے کہ دراصل میری بات کو میڈیا نے توڑ مروڑ کر پیش کیا، درحققیت کہنا میں یہ چاہتا تھا۔
اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ زباں دانی و زباں بندی کے اس ریاستی و سرکاری معیار پر ٹرمپ سرکار کس حد تک پورا اترتی ہے۔یہ اعتراض بالکل درست ہے۔ٹرمپ نے تمام رواجات و روایات کو تلپٹ کر کے اپنے منصب کی توقیر کو گلی کے تھڑے پر بٹھا دیا ہے۔شروع شروع میں باقی دنیا ٹرمپ کے ٹویٹس سے پریشان ہو جاتی تھی مگر اب عادی ہوتی جا رہی ہے۔ آج بھی اس ٹرمپا ٹرمپی کے باوجودوائٹ ہاؤس ، محکمہ دفاع و خارجہ و داخلہ کے ترجمانوں کو امریکی انتظامیہ کی بنیادی پالیسی کا اصل بیانیہ سمجھا جاتا ہے، بھلے ٹرمپ صاحب کچھ بھی ٹویٹیاتے رہیں۔
اب آتے ہیں اپنے محلے میں۔جنوبی ایشیا کے دو سب سے اہم ممالک ہیں بھارت اور پاکستان۔ اور دونوں جگہ وہ بیانیہ آپا دھاپی ہے کہ یہی پتہ نہیں چلتا کہ پالیسی بیان کون دے رہا ہے ، ذاتی حیثیت میں کون کچھ کہہ رہا ہے ، کب ایک ہی بیان سرکاری ہے مگر اس میں تیس فیصد ذاتی ملاوٹ بھی ہے۔بقول شخصے منہ کی بواسیر کا یہ عالم ہے کہ وزیرِ اعلی خارجہ پالیسی پر بولنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔وزیرِ دفاع دشمن ملک کے لتے لینے کے بجائے حزبِ اختلاف پر گولہ باری کرنے سے نہیں چوکتا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کا وزیر غیر قانونی تارکینِ وطن پر بات کرتا ہے اور وزیرِداخلہ زرعی ٹیکنالوجی کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہوا پایا جاتا ہے۔فوجی ترجمان سیاسی مخالفین سے ترکی بہ ترکی رہتا ہے اور وزیرِ خوراک سرحدوں کی تشویشناک صورتِ حال پر تقریرِ دلپزیر سے نواز دیتا ہے۔
ایسا نہیں کہ بھارت اور پاکستانی میں ہر وزارت کا کوئی نہ کوئی باقاعدہ ترجمان نہیں۔مگر صاحب کو موقع بے موقع بولنے کا اس قدر شوق ہوتا ہے کہ ترجمان اکثر صاحب کی دم بن کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ دونوں ملکوں میں مودی اور عمران اعزازی وزیرِ اعظم ہیں اصل وزرائے اعظم تو کابینہ میں وزیروں اور مشیروں کے روپ میں کام کر رہے ہیں۔کہ جن کی مصروفیت سوائے اپنا کام دیکھنے کے باقی سب کاموں میں ٹانگ یا زبان اڑانا ہے۔
اب اپنے وزیرِِ ہوابازی غلام سرور اعوان کو ہی لے لیجے۔ان کی بنیادی ذمے داری ہے کہ سول ایوی ایشن ٹھیک چلے، ایئرپورٹس چالو حالت میں ہوں۔ ایئرلائنز کے معاملات سیدھے ہوں۔ ان کا کیا کام ہے عدالت اور نواز شریف کی ضمانت کے بیچ میں کودنے کا اور یہ کہنے کا کہ میڈیکل رپورٹیں تو ڈیل کا راستہ ہموار کرنے کے لیے تیار بھی کی جا سکتی ہیں۔
اس ایک بیان سے غلام سرور اعوان نے نہ صرف سرکاری میڈیکل بورڈ ، بلکہ وزیرِ اعظم کی نیت و اختیار، بلکہ ضمانت منظور کرنے والی عدالت پر بھی سوالیہ نشان ڈال دیا۔نتیجہ یہ ہے کہ اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیرِ موصوف کو اپنے بیان کی وضاحت کے لیے طلب کر لیا ہے۔حسن اتفاق سے اسی عدالت میں اسی موضوع پر ایک اور اعوان یعنی آپا فردوس عاشق کے خلاف بھی توہینِ عدالت کا معاملہ زیرِ سماعت ہے۔جس حکومت کی مشیرِ اطلاعات کو غلط بیان دینے پر عدالت سے زبانی و تحریری معافی مانگنا پڑ جائے وہاں باقی اطلاعاتی نظام پر کتنا بھروسہ کرنا چاہیے ؟
کہنے کو وزیرِ اطلاعات سرکار کا باضابطہ ترجمان ہوتا ہے اور اس کا منصب یہی ہے کہ صرف حکومتی فیصلوں ، پالیسی وضاحت یا موقف تک خود کو محدود رکھے۔مگر پاکستانی وزارتِ اطلاعات کی کرسی میں جانے کیا مسئلہ ہے کہ فواد چوہدری ہوں کہ آپا فردوس '' کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی''۔
بلکہ آپا کا آدھا وقت تیراندازی و شعلہ فشانی میں اور باقی آدھا وزیرِ اعظم کے دائیں بائیں تصویر میں آنے کی تگ و دو میں صرف ہو جاتا ہے۔اسی لیے آپا کے حاسدوں کی تعداد بھی بہت ہے۔انھی میں سے ایک دل جلے حاسد سے روایت ہے کہ آپ اپنے کمرے کے دروازے ، کھڑکیاں ، روشندان بند کر کے صرف اپنی تصویر کھچوائیں۔ جب یہ دھل کے آئے گی تو اس میں آپا بھی مسکرا رہی ہوں گی۔
تو کیا یہ سب باتیں وزیرِ اعظم کے علم میں نہیں ؟ یقیناً ہیں۔تبھی تو یہ آپا دھاپی کا میلہ سجا ہوا ہے۔بے خودی بے سبب نہیں غالب۔۔۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
شیکسپئیر کے مشہور کھیل میکبتھ کی بنیاد پر ہدایت کار وشال بھردواج کی دو ہزار تین کی فلم مقبول کے ایک منظر میں مافیا کا سربراہ میاں جی( پنکھج کپور )اپنے ایک باتونی گرگے سے کہتا ہے '' میاں پان کھایا کرو۔ منہ بند رہتا ہے''۔
بعد اس تمہید کے عرض یہ ہے کہ زبان کے بروقت استعمال اور کہاں بولنا ہے،کہاں چپ رہنا ہے اور کہاں بات کو ٹال جانا ہے کا کلیہ جہاں فرد پر لاگو ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ سرکار پر لاگو ہوتا ہے۔
ہماری سرکار چین کو ہمیشہ رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی متمنی رہتی ہے۔شائد آپ نے کبھی غور کیا ہو کہ چین کے صدر یا وزیرِ اعظم صرف اہم پالیسی بیان دیتے ہیں۔ جب بھی ریاستی سطح پر کوئی موقف پیش کرنا ہوتا ہے تو سرکاری ترجمان ہی بات کرتا ہے۔ہر نائب ، مشیر ، وزیر ترجمان بننے کی کوشش نہیں کرتا۔کسی بھی معاملے پر جو بھی بیان جاری ہوتا ہے اس کی حیثیت ذاتی نہیں رسمی اور قانونی ہوتی ہے۔ فائدہ یہ ہے کہ باقی دنیا کو چین کی پالیسیوں اور موقف کے بارے میں کبھی کوئی ابہام نہیں رہتا۔
روسی ، ایرانی ، ترک ، اماراتی ، سعودی اور ہر مغربی حکومت کا یہی چلن ہے۔کوئی وزیر براہِ راست بیان نہیں دیتا بلکہ اپنے محکمے کے ترجمان کے توسط سے بولتا ہے۔الا یہ کہ کسی سربراہِ حکومت ، وزیر یا سفیر کی کوئی پریس کانفرنس یا انٹرویو ہو۔اور اس میں بھی اہتمام رکھا جاتا ہے کہ کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکل جائے جسے بعد میں بصد شرمندگی واپس لینا پڑ جائے یا اسے ذاتی رائے کا ٹوپا پہنانا پڑے یا پھر کہنا پڑ جائے کہ دراصل میری بات کو میڈیا نے توڑ مروڑ کر پیش کیا، درحققیت کہنا میں یہ چاہتا تھا۔
اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ زباں دانی و زباں بندی کے اس ریاستی و سرکاری معیار پر ٹرمپ سرکار کس حد تک پورا اترتی ہے۔یہ اعتراض بالکل درست ہے۔ٹرمپ نے تمام رواجات و روایات کو تلپٹ کر کے اپنے منصب کی توقیر کو گلی کے تھڑے پر بٹھا دیا ہے۔شروع شروع میں باقی دنیا ٹرمپ کے ٹویٹس سے پریشان ہو جاتی تھی مگر اب عادی ہوتی جا رہی ہے۔ آج بھی اس ٹرمپا ٹرمپی کے باوجودوائٹ ہاؤس ، محکمہ دفاع و خارجہ و داخلہ کے ترجمانوں کو امریکی انتظامیہ کی بنیادی پالیسی کا اصل بیانیہ سمجھا جاتا ہے، بھلے ٹرمپ صاحب کچھ بھی ٹویٹیاتے رہیں۔
اب آتے ہیں اپنے محلے میں۔جنوبی ایشیا کے دو سب سے اہم ممالک ہیں بھارت اور پاکستان۔ اور دونوں جگہ وہ بیانیہ آپا دھاپی ہے کہ یہی پتہ نہیں چلتا کہ پالیسی بیان کون دے رہا ہے ، ذاتی حیثیت میں کون کچھ کہہ رہا ہے ، کب ایک ہی بیان سرکاری ہے مگر اس میں تیس فیصد ذاتی ملاوٹ بھی ہے۔بقول شخصے منہ کی بواسیر کا یہ عالم ہے کہ وزیرِ اعلی خارجہ پالیسی پر بولنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔وزیرِ دفاع دشمن ملک کے لتے لینے کے بجائے حزبِ اختلاف پر گولہ باری کرنے سے نہیں چوکتا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کا وزیر غیر قانونی تارکینِ وطن پر بات کرتا ہے اور وزیرِداخلہ زرعی ٹیکنالوجی کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہوا پایا جاتا ہے۔فوجی ترجمان سیاسی مخالفین سے ترکی بہ ترکی رہتا ہے اور وزیرِ خوراک سرحدوں کی تشویشناک صورتِ حال پر تقریرِ دلپزیر سے نواز دیتا ہے۔
ایسا نہیں کہ بھارت اور پاکستانی میں ہر وزارت کا کوئی نہ کوئی باقاعدہ ترجمان نہیں۔مگر صاحب کو موقع بے موقع بولنے کا اس قدر شوق ہوتا ہے کہ ترجمان اکثر صاحب کی دم بن کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ دونوں ملکوں میں مودی اور عمران اعزازی وزیرِ اعظم ہیں اصل وزرائے اعظم تو کابینہ میں وزیروں اور مشیروں کے روپ میں کام کر رہے ہیں۔کہ جن کی مصروفیت سوائے اپنا کام دیکھنے کے باقی سب کاموں میں ٹانگ یا زبان اڑانا ہے۔
اب اپنے وزیرِِ ہوابازی غلام سرور اعوان کو ہی لے لیجے۔ان کی بنیادی ذمے داری ہے کہ سول ایوی ایشن ٹھیک چلے، ایئرپورٹس چالو حالت میں ہوں۔ ایئرلائنز کے معاملات سیدھے ہوں۔ ان کا کیا کام ہے عدالت اور نواز شریف کی ضمانت کے بیچ میں کودنے کا اور یہ کہنے کا کہ میڈیکل رپورٹیں تو ڈیل کا راستہ ہموار کرنے کے لیے تیار بھی کی جا سکتی ہیں۔
اس ایک بیان سے غلام سرور اعوان نے نہ صرف سرکاری میڈیکل بورڈ ، بلکہ وزیرِ اعظم کی نیت و اختیار، بلکہ ضمانت منظور کرنے والی عدالت پر بھی سوالیہ نشان ڈال دیا۔نتیجہ یہ ہے کہ اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیرِ موصوف کو اپنے بیان کی وضاحت کے لیے طلب کر لیا ہے۔حسن اتفاق سے اسی عدالت میں اسی موضوع پر ایک اور اعوان یعنی آپا فردوس عاشق کے خلاف بھی توہینِ عدالت کا معاملہ زیرِ سماعت ہے۔جس حکومت کی مشیرِ اطلاعات کو غلط بیان دینے پر عدالت سے زبانی و تحریری معافی مانگنا پڑ جائے وہاں باقی اطلاعاتی نظام پر کتنا بھروسہ کرنا چاہیے ؟
کہنے کو وزیرِ اطلاعات سرکار کا باضابطہ ترجمان ہوتا ہے اور اس کا منصب یہی ہے کہ صرف حکومتی فیصلوں ، پالیسی وضاحت یا موقف تک خود کو محدود رکھے۔مگر پاکستانی وزارتِ اطلاعات کی کرسی میں جانے کیا مسئلہ ہے کہ فواد چوہدری ہوں کہ آپا فردوس '' کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی''۔
بلکہ آپا کا آدھا وقت تیراندازی و شعلہ فشانی میں اور باقی آدھا وزیرِ اعظم کے دائیں بائیں تصویر میں آنے کی تگ و دو میں صرف ہو جاتا ہے۔اسی لیے آپا کے حاسدوں کی تعداد بھی بہت ہے۔انھی میں سے ایک دل جلے حاسد سے روایت ہے کہ آپ اپنے کمرے کے دروازے ، کھڑکیاں ، روشندان بند کر کے صرف اپنی تصویر کھچوائیں۔ جب یہ دھل کے آئے گی تو اس میں آپا بھی مسکرا رہی ہوں گی۔
تو کیا یہ سب باتیں وزیرِ اعظم کے علم میں نہیں ؟ یقیناً ہیں۔تبھی تو یہ آپا دھاپی کا میلہ سجا ہوا ہے۔بے خودی بے سبب نہیں غالب۔۔۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)