شام کے کیمیائی ہتھیاروں کا مسئلہ

حال ہی میں شام پر ہونے والا امریکی حملہ صرف اس بنیاد پر ترک کیا گیا ہے کہ روس نے کیمیائی۔۔۔

حال ہی میں شام پر ہونے والا امریکی حملہ صرف اس بنیاد پر ترک کیا گیا ہے کہ روس نے کیمیائی ہتھیاروں کے عنوان سے ایک منصوبہ پیش کیا جس کو عالمی برادری نے قبول کرتے ہوئے امریکا پر دباؤ ڈالا کہ امریکا شام پر حملے کا ارادہ ترک کر دے۔

در اصل امریکا کی جانب سے شام پر حملہ کرنے کے مقاصد کچھ اور ہی تھے ، امریکا اور اسرائیل اس بات کے خواہاں تھے کہ جلد از جلد شام پر امریکی فوجی یلغار کی جائے تا کہ خطے میں عالمی صیہونزم کے خلاف مزاحمت کا ایک ستون کم کیا جائے،مزاحمت کے ان چند ستونوں میں ایران، شام، لبنان سرفہرست ہیں جو امریکا اور اسرائیل کے ساتھ برسرسر پیکار ہیں۔

امریکا کے شام پر حملے کا بنیادی مقصد صرف اور صرف شام سے بشار الاسد حکومت کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس سے بھی اہم ترین مقصد یہ تھا کہ لبنان میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کو کمزور کیا جائے اور حزب اللہ کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے تا کہ مستقبل قریب میں اسرائیل مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک پر یلغار کرے تو حزب اللہ اس پوزیشن میں نہ رہے کہ وہ اسرائیل کا راستہ روک سکے۔خلاصہ یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے شام کے حالات کو خراب کرنے اور پھر شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کروانے سمیت شام پر امریکی فوجی یلغار کرنے کی منصوبہ بندی صرف اور صرف اس لیے کی گئی تھی کہ خطے میں اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ساتھ ساتھ قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنے والی اسلامی مزاحمتی تحریکوں حزب اللہ، جہاد اسلامی اور حماس کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے اور اس حوالے سے حزب اللہ امریکا اور اسرائیل کے پہلے ہی نشانے پر تھی۔

موجود ہ حالات کے تناظر میں امریکا ایک مقصد میں تو بہت بری طرح ناکام ہو چکا ہے کہ امریکا کے ہاتھ سے وہ موقع نکل گیا ہے جس کے اس نے خواب دیکھ رکھے تھے، اور ماہرین کاکہنا ہے کہ امریکا نے شام پر ممکنہ جارحیت کو صرف اور صرف اس لیے ترک کر دیا ہے کہ امریکا کو یہ خدشہ بھی لاحق ہو چکا تھا کہ امریکا اوراسرائیل حزب اللہ کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی تو کر رہے ہیں اور اگر شام پر حملہ کر دیا تو کہیں ایسا ہی نہ ہو کہ حزب اللہ اپنے اتحادی شام کے ساتھ مل کر اسرائیل کو ہی صفحہ ہستی سے نابود کر دے، تاہم امریکا کو اسرائیل کی نابودی کا خوف تھا جس کے سبب امریکا نے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا اور شام پر امریکی حملے کو موخر کردیا۔

امریکی حملہ تو شام پر موخر کردیا ہے لیکن غاصب ریاست اسرائیل ، اس کے حواریوں اور ان سب کے آقا امریکا نے ایک اور پراپیگنڈا شروع کر دیا ہے جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شام نے اپنے کیمیائی ہتھیار لبنان میں منتقل کردیے ہیں کیونکہ روس اور امریکا مذاکرات کے بعد ہونے والے معاہدے کے بعد امریکا کی شکست بڑی واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی ۔ امریکا اور اسرائیل جو پہلے روز سے ہی لبنان میں موجود قبلہ اول بیت المقدس اور فلسطینیوں کی آزادی کے لیے جد وجہد کرنے والی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے خلاف میدان تیار کر رہے تھے۔

اب براہ راست لبنان کے خلاف منفی پراپیگنڈا شروع کر دیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ کسی طرح حزب اللہ لبنان کو کمزور کیا جائے تا کہ جارح اور غیر انسانی صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف قائم مزاحمتی بلاک توڑا جا سکے، یہ مزاحمتی بلاک جو کہ ایران، شام اور لبنان میں موجود حزب اللہ پر مشتمل ہے اور فلسطینیوں کی مدد کو نہ صرف اپنی سیاسی ذمے داری سمجھتا ہے بلکہ یہ مزاحمتی دھڑا فلسطین کی آزادی کو نظریاتی اور عقیدتی مسئلے کے طور پر سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مزاحمتی دھڑے نے فلسطینیوں اور فلسطین کو کبھی بھی فراموش نہیں ہونے دیا ہے۔


چند روز قبل ہی یعنی 23ستمبر کو حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید المجاہدین سید حسن نصر اللہ نے اپنے ایک خطاب میں واضح طور پر کہا ہے کہ شام کے کیمیائی ہتھیار نہ تو پہلے لبنان میں تھے اور نہ ہی آج لبنان کے پاس ہیں،سید حسن نصراللہ نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شام کے کیمیائی ہتھیار، حزب اللہ لبنان کے پاس ہیں، اس قسم کے دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ حزب اللہ لبنان، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں دین اور شریعت کی پابند ہے، شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی لبنان منتقلی کا دعویٰ خطرناک نتائج کا حامل ہے اور یہ بات، لبنان کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ انھوں نے حزب اللہ لبنان کی وائرلیس سروس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ لبنان کا وائرلیس سسٹم دوسرے افراد کی گفتگو سننے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ انھوں نے شام پر حملے کے خطرناک نتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام پر حملے سے سب سے پہلے متاثر ہونے والا ملک لبنان ہوگا۔

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ شام میں تکفیری گروہوں کی موجودگی، لبنانی عوام اور دیگر ممالک کے لیے خطرے کا باعث ہے اور اس خطے کے بعض دوست ممالک نے دو سال قبل ہی انقرہ کو شام میں موجود مسلح دہشتگردوں کی جانب سے لاحق خطرات کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔

انھوں نے عرب اور ترکی کی حکومتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ شام کے بارے میں اپنے موقف پر نظرثانی کریں۔ لبنان کے داخلی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے لبنانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لبنانی عوام ملک میں امن و سلامتی کی خاطر لبنان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ انھوں نے لبنان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سلسلے میں اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اپنے اصلی فریضے پر عمل کریں گے۔ حزب اللہ لبنان اس بات کے خلاف ہے کہ کوئی بھی گروہ یا قبیلہ، خود ٹیم بنا کر اپنے علاقے کی حفاطت کرے کیونکہ لبنانی عوام کی حفاظت، حکومت کی ذمے داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیروت کے علاقے الرویس میں ہونے والے دھماکے، شام میں موجود مسلح دہشت گردوں کی سازش کا نتیجہ تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ عالمی استعمار امریکا اور اسرائیل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کو کمزور کیا جائے اور حزب اللہ کو لبنان کے داخلی مسائل میں الجھا دیا جائے تاکہ غاصب اسرائیل محفوظ رہے اور فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رہے جب کہ حزب اللہ پہلے ہی اس بات کا اعلان کر چکی ہے کہ حزب اللہ صیہونیوں سے فلسطین اور قبلہ اول بیت المقدس کو آزاد کروا کر ہی دم لے گی اور اس بات کو اسرائیل 1982ء سے اب تک بہت اچھے طریقے سے سمجھ چکا ہے کہ حزب اللہ روز بروز طاقتور ہو رہی ہے۔

کیونکہ اسرائیل نے اس بات کا مشاہدہ حزب اللہ کی جانب سے لبنان کو 2000ء میں اسرائیل کے شکنجے سے آزاد کروانے کی صورت میں دیکھا ہے، اسی طرح ایک مرتبہ پھر 2004ء میں دو اسرائیلی قیدیوں کے تبادلے میں حزب اللہ نے سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کو آزاد کروایا تھا، پھر 2006ء میں جب اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تو حزب اللہ کے مجاہدین فلسطین میں جہاد اسلامی فلسطین اور القسام بریگیڈ کے ساتھ شانہ بشانہ دیکھے گئے تھے، اس کے بعد اسرائیل کو حزب اللہ کی مزید طاقت کا اندازہ 2008ء میں اس وقت ہوا جب دنیا بھر کی طاقت اور اسلحہ حزب اللہ کے خلاف استعمال کیا گیا لیکن 33روز کی اس جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کو تاریخی شکست کا مزہ چکھایا اور اسرائیل کو بھاری مالی و جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔

جب کہ حزب اللہ اس بات کے لیے آمادہ تھی کہ اسرائیل اس جنگ کو جب تک جاری رکھنا چاہتا ہے رکھے، یہی وجہ ہے کہ آج امریکا اور اسرائیل سمیت خطے کی عرب ریاستیں جو امریکا کی دوست اور اسرائیل کی خیر خواہ ہیں وہ یہ چاہتی ہیں کہ حزب اللہ کوکمزور کر دیا جائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے سب نے مل کر شام کے خلاف سازشو ں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جسے اب شام کے بعد عراق میں اور اب برا ہ راست لبنان میں داخل کرنا چاہتے ہیں ۔
Load Next Story