مصنوعی بحران
موجودہ حکومت کے پہلے سال میں25لاکھ 10 ہزارٹیکس ریٹرن فائل کیے گئے جوپاکستان کی آج تک کی تاریخ میں سب سے زیادہ تعدادہے۔
پچھلے مسلم لیگ (نواز) کے دور حکومت میں پاکستان کی برآمدات گھٹتے گھٹتے درآمدات کی نصف رہ گئی تھیں، نتیجتاً پاکستان کو اپنی تاریخ کے بد ترین تجارتی خسارے کا سامنا تھا۔ جب کہ موجودہ حکومت نے آتے کے ساتھ ہی برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی کے لیے جو اقدامات کیے ان کا نتیجہ ہے کہ موجودہ مالی سال 2019-20ء کے صرف ابتدائی دو مہینوں میں ہی پاکستان کے تجارتی خسارے میں 28 فیصد کمی ہوگئی اور تجارتی خسارہ سکڑکر 3.97 ارب ڈالر رہ گیا جب کہ 2018ء میں یہ اس وقت 6.37 ارب ڈالر تھا یعنی ملک 2.4 ارب ڈالر درآمدات پر خرچ کرنے سے بچ گیا جو پاکستانی روپوں میں بنتے ہیں تقریباً 374 ارب روپے۔ یہ بہت بڑی رقم ہے۔ مگر یہ ممکن کیسے ہوا ؟
اس کا جواب ہے پی ٹی آئی حکومت کی پرتعیش آئٹمزکی درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے کی مستقل پالیسی۔ تجارتی خسارے میں کمی کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے امپورٹ بل میں ملک کے لیے کئی کئی سو ارب روپے بچا رہے ہیں جو ہم اپنی معیشت بہتر بنانے اور قرضے اور ان کا سود ادا کرنے میں خرچ کر رہے ہیں۔ ادھر موجودہ حکومت کے پہلے سال میں ہی براہ راست ٹیکس دینے والے افراد کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوگیا یعنی تحریک انصاف حکومت کے صرف پہلے سال میں ہی 783039 نئے ٹیکس دہندگان بنے جب کہ اس سے پہلے کے سال یعنی نواز لیگ حکومت کے آخری سال میں صرف 190391 نئے ٹیکس دہندگان بنے تھے۔
موجودہ حکومت کے پہلے سال میں 25 لاکھ 10 ہزار ٹیکس ریٹرن فائل کیے گئے جو پاکستان کی آج تک کی تاریخ میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ براہ راست ٹیکسوں کی وصولی میں مسلسل اضافہ ہی وہ معاشی پالیسی ہے جس پہ چل کے موجودہ حکومت ترقی یافتہ ممالک کی طرح بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی کرنا چاہتی ہے تاکہ روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں مستقل کمی ہوسکے۔
دنیا میں کاروبار کرنے کی آسانی پیدا کرنے والے ممالک کے ورلڈ بینک کے عالمی انڈیکس میں پاکستان صرف اسی ایک سال میں 28 درجے ترقی کرکے دنیا کے ان دس ٹاپ ممالک میں شامل ہوگیا جنھوں نے اپنے ہاں کاروبار کرنے کے راستے میں نمایاں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ چنانچہ ملک میں انرجی سیکٹر سے لے کر سیاحت تک کے شعبے میں بڑے پیمانے پہ بیرونی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔
آپ اس کا اندازہ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ ہر مہینے ہی پاکستان میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ مثلاً ستمبر 2019ء میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 385.3 ملین ڈالر سے بڑھ گئی جو پاکستانی 60106.8 ملین روپے یعنی کوئی 60 ارب دس کروڑ روپے۔ ستمبر 2019ء میں ملک میں آنے والی یہ بیرونی سرمایہ کاری اگست 2019ء میں ملک میں آنے والی بیرونی سرمایہ کاری سے 83.4 ملین ڈالر زیادہ ہے یعنی کوئی 13 ارب روپے۔
یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حکومت میں پاکستان میں کی جانے والی غیر ملکی سرمایہ کاری میں ہر مہینے اربوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور یہ سرمایہ کاری یورپ، امریکا، خلیج، مشرق بعید دنیا بھر سے پاکستان آ رہی ہے۔ اس سرمایہ کاری کے قومی معیشت اور روزگار کے لیے مثبت نتائج چند مہینوں میں نہیں آسکتے۔ اس میں کچھ وقت لگتا ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور حکومت کے 10 سالوں میں بڑے پیمانے پہ صنعتی اور مالیاتی ادارے قائم ہوئے، پاکستان پورے ایشیا میں جاپان کے بعد تیز ترین ترقی کرنے والا ملک تھا۔
وقت قریب تھا کہ اس صنعتی اور مالیاتی ترقی کے ثمرات وسیع پیمانے پہ عام لوگوں کو ملنا شروع ہو جاتے کہ ملک کی بدقسمتی کہ 1970ء کے انتخابات میں اکثریتی نشستیں حاصل کرنے والی مشرقی پاکستان کے متوسط طبقے کی جماعت کی جگہ دوسرے نمبر پہ آنیوالی مغربی پاکستان کے وڈیروں اور جاگیرداروں کی جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی جس کی نیشنلائزیشن کی پالیسی نے ملک کی معیشت ایسی تباہ کی کہ آج تک سنبھل نہ سکی۔
ملک میں جاگیردارانہ نظام مضبوط ہوا اور ملک تب سے اب تک ایک غریب ترقی پذیر ملک بن کر رہ گیا۔ ادھر ملک کا منہ زور تاجر طبقہ بھی تھوڑا بہت ٹیکس دینے کو آمادہ ہو گیا ہے جو ایک تاریخی ابتدا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو قومی معیشت کے بارے میں اتنی اچھی خبریں سن کر کچھ تعجب ہو کیونکہ میڈیا تو ہر وقت معیشت تباہ ہوگئی، ہم برباد ہوگئے کا واویلا مچاتا رہتا ہے۔
ادھر خارجہ محاذ پہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ دنیا کشمیر پہ ناجائز بھارتی قبضے کے بارے میں بات کر رہی ہے۔ ترکی اور ملائیشیا کے تو بھارت سے تعلقات کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے خراب ہو گئے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا تواتر کے ساتھ کشمیریوں کے خلاف بھارتی جرائم پہ بات کر رہا ہے۔ ملک میں اب بند صنعتیں بحال ہو رہی ہیں، سی پیک پہ کام تیز ہو رہا ہے۔
ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پہ جہاز آ جا رہے ہیں۔ اسکول، کالج، یونیورسٹیوں میں لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وڈیرہ جمہوریت کے غلام کراچی کے لوگ ڈنگی اور کتوں کے کاٹنے سے مر رہے ہیں، ساتھ ہی اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں بھی مارے جا رہے ہیں۔ لوگ ہر روز ملک میں کروڑوں اربوں پلاسٹک کی تھیلیاں کوڑے میں پھینک رہے ہیں۔ نہ بجلی کی نہ گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے تو پھر وہ بحران کہاں ہے کہ جس پہ ٹی وی چینلز پہ ٹی وی اینکروں نے چلا چلا کر آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے؟
2008ء کے قومی الیکشن میں متحدہ مجلس عمل جس کا جے یو آئی ایف ایک حصہ تھی کو 2.21 فیصد ووٹ حاصل ہوئے، 2013ء کے الیکشن میں جے یو آئی ایف نے 3.22 فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ 2018ء کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل نے جس کا جے یو آئی ایف ایک حصہ تھی 4.85 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اب یہ سیاسی و مسلکی پارٹی 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے یعنی اس الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے جس میں حالیہ تاریخ میں اسے سب سے زیادہ ووٹوں کی شرح حاصل ہوئی۔
یہ پارٹی اپنے کارکنوں اور اپنے زیر کنٹرول مدارس کے ہزاروں طلبا کے ساتھ اسلام آباد کیا پہنچی کہ ٹی وی اینکروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ، یوں لگا جیسے ملک بھر میں لاکھوں لوگوں نے مل کر ملک کو مفلوج کردیا ہے اور بہت بڑا بحران کھڑا ہوگیا ہے۔ جے یو آئی ایف اور ٹی وی اینکروں کو بہرحال اپنے مقاصد میں کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔
پاکستان لوٹنے والوں کو بار بار این آر او دینے والوں نے ایک بار پھر شریف فیملی کو این آر او دلوا دیا ہے اور جلد زرداری خاندان کو بھی این آر او ملنے والا ہے، اٹھارہویں ترمیم کے خود مختار راجواڑے سندھ میں میگا کرپشن کے خلاف کارروائیاں دم توڑ گئی ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ مسئلہ کشمیر کہیں بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ تاہم جے یو آئی ایف اور ٹی وی اینکروں کی بڑی اکثریت 70 سال سے ملک میں رائج کرپشن زندہ باد اور طاقتوروں کے لیے کوئی قانون نہیں اور کمزوروں کے لیے کوئی انصاف نہیں کے سسٹم کی حفاظت اور تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے عمران خان کو حکومت سے ہٹانا چاہتے ہیں، یہ اپنی مرضی کا انتخابی نظام چاہتے ہیں جہاں ان کی پارٹیوں کے کارکنان اپنی ''نگرانی میں شفاف'' انتخابات کروائیں۔
یہ کروڑ پتی ٹی وی اینکر اس کرپٹ اور ظالمانہ ملک دشمن نظام سے مستفید ہونے والے گروہوں میں شامل ہیں اور ملک میں انتشار پھیلانے کے جے یو آئی ایف اور دوسرے معروف پاکستان مخالف سیاستدانوں کے نام نہاد پلان بی کے لیے فضا ہموار کر رہے ہیں۔ ان ٹی وی اینکروں نے اپنے شور شرابے سے ریاستی اداروں کے اعصاب شل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور اب یہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں اس ملک کو ''فارغ'' کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اب یہ ملک لوٹنے والوں کو بار بار این آر او دینے والے طاقتور اداروں بشمول نظام انصاف و قانون پہ ہے کہ وہ ڈیڑھ دو درجن ٹی وی اینکروں کی خوشنودی کے لیے مزید اس ملک کے کیا کیا حشر کرواتے ہیں۔
اس کا جواب ہے پی ٹی آئی حکومت کی پرتعیش آئٹمزکی درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے کی مستقل پالیسی۔ تجارتی خسارے میں کمی کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے امپورٹ بل میں ملک کے لیے کئی کئی سو ارب روپے بچا رہے ہیں جو ہم اپنی معیشت بہتر بنانے اور قرضے اور ان کا سود ادا کرنے میں خرچ کر رہے ہیں۔ ادھر موجودہ حکومت کے پہلے سال میں ہی براہ راست ٹیکس دینے والے افراد کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوگیا یعنی تحریک انصاف حکومت کے صرف پہلے سال میں ہی 783039 نئے ٹیکس دہندگان بنے جب کہ اس سے پہلے کے سال یعنی نواز لیگ حکومت کے آخری سال میں صرف 190391 نئے ٹیکس دہندگان بنے تھے۔
موجودہ حکومت کے پہلے سال میں 25 لاکھ 10 ہزار ٹیکس ریٹرن فائل کیے گئے جو پاکستان کی آج تک کی تاریخ میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ براہ راست ٹیکسوں کی وصولی میں مسلسل اضافہ ہی وہ معاشی پالیسی ہے جس پہ چل کے موجودہ حکومت ترقی یافتہ ممالک کی طرح بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی کرنا چاہتی ہے تاکہ روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں مستقل کمی ہوسکے۔
دنیا میں کاروبار کرنے کی آسانی پیدا کرنے والے ممالک کے ورلڈ بینک کے عالمی انڈیکس میں پاکستان صرف اسی ایک سال میں 28 درجے ترقی کرکے دنیا کے ان دس ٹاپ ممالک میں شامل ہوگیا جنھوں نے اپنے ہاں کاروبار کرنے کے راستے میں نمایاں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ چنانچہ ملک میں انرجی سیکٹر سے لے کر سیاحت تک کے شعبے میں بڑے پیمانے پہ بیرونی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔
آپ اس کا اندازہ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ ہر مہینے ہی پاکستان میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ مثلاً ستمبر 2019ء میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 385.3 ملین ڈالر سے بڑھ گئی جو پاکستانی 60106.8 ملین روپے یعنی کوئی 60 ارب دس کروڑ روپے۔ ستمبر 2019ء میں ملک میں آنے والی یہ بیرونی سرمایہ کاری اگست 2019ء میں ملک میں آنے والی بیرونی سرمایہ کاری سے 83.4 ملین ڈالر زیادہ ہے یعنی کوئی 13 ارب روپے۔
یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حکومت میں پاکستان میں کی جانے والی غیر ملکی سرمایہ کاری میں ہر مہینے اربوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور یہ سرمایہ کاری یورپ، امریکا، خلیج، مشرق بعید دنیا بھر سے پاکستان آ رہی ہے۔ اس سرمایہ کاری کے قومی معیشت اور روزگار کے لیے مثبت نتائج چند مہینوں میں نہیں آسکتے۔ اس میں کچھ وقت لگتا ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور حکومت کے 10 سالوں میں بڑے پیمانے پہ صنعتی اور مالیاتی ادارے قائم ہوئے، پاکستان پورے ایشیا میں جاپان کے بعد تیز ترین ترقی کرنے والا ملک تھا۔
وقت قریب تھا کہ اس صنعتی اور مالیاتی ترقی کے ثمرات وسیع پیمانے پہ عام لوگوں کو ملنا شروع ہو جاتے کہ ملک کی بدقسمتی کہ 1970ء کے انتخابات میں اکثریتی نشستیں حاصل کرنے والی مشرقی پاکستان کے متوسط طبقے کی جماعت کی جگہ دوسرے نمبر پہ آنیوالی مغربی پاکستان کے وڈیروں اور جاگیرداروں کی جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی جس کی نیشنلائزیشن کی پالیسی نے ملک کی معیشت ایسی تباہ کی کہ آج تک سنبھل نہ سکی۔
ملک میں جاگیردارانہ نظام مضبوط ہوا اور ملک تب سے اب تک ایک غریب ترقی پذیر ملک بن کر رہ گیا۔ ادھر ملک کا منہ زور تاجر طبقہ بھی تھوڑا بہت ٹیکس دینے کو آمادہ ہو گیا ہے جو ایک تاریخی ابتدا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو قومی معیشت کے بارے میں اتنی اچھی خبریں سن کر کچھ تعجب ہو کیونکہ میڈیا تو ہر وقت معیشت تباہ ہوگئی، ہم برباد ہوگئے کا واویلا مچاتا رہتا ہے۔
ادھر خارجہ محاذ پہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ دنیا کشمیر پہ ناجائز بھارتی قبضے کے بارے میں بات کر رہی ہے۔ ترکی اور ملائیشیا کے تو بھارت سے تعلقات کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے خراب ہو گئے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا تواتر کے ساتھ کشمیریوں کے خلاف بھارتی جرائم پہ بات کر رہا ہے۔ ملک میں اب بند صنعتیں بحال ہو رہی ہیں، سی پیک پہ کام تیز ہو رہا ہے۔
ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پہ جہاز آ جا رہے ہیں۔ اسکول، کالج، یونیورسٹیوں میں لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وڈیرہ جمہوریت کے غلام کراچی کے لوگ ڈنگی اور کتوں کے کاٹنے سے مر رہے ہیں، ساتھ ہی اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں بھی مارے جا رہے ہیں۔ لوگ ہر روز ملک میں کروڑوں اربوں پلاسٹک کی تھیلیاں کوڑے میں پھینک رہے ہیں۔ نہ بجلی کی نہ گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے تو پھر وہ بحران کہاں ہے کہ جس پہ ٹی وی چینلز پہ ٹی وی اینکروں نے چلا چلا کر آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے؟
2008ء کے قومی الیکشن میں متحدہ مجلس عمل جس کا جے یو آئی ایف ایک حصہ تھی کو 2.21 فیصد ووٹ حاصل ہوئے، 2013ء کے الیکشن میں جے یو آئی ایف نے 3.22 فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ 2018ء کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل نے جس کا جے یو آئی ایف ایک حصہ تھی 4.85 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اب یہ سیاسی و مسلکی پارٹی 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے یعنی اس الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے جس میں حالیہ تاریخ میں اسے سب سے زیادہ ووٹوں کی شرح حاصل ہوئی۔
یہ پارٹی اپنے کارکنوں اور اپنے زیر کنٹرول مدارس کے ہزاروں طلبا کے ساتھ اسلام آباد کیا پہنچی کہ ٹی وی اینکروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ، یوں لگا جیسے ملک بھر میں لاکھوں لوگوں نے مل کر ملک کو مفلوج کردیا ہے اور بہت بڑا بحران کھڑا ہوگیا ہے۔ جے یو آئی ایف اور ٹی وی اینکروں کو بہرحال اپنے مقاصد میں کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔
پاکستان لوٹنے والوں کو بار بار این آر او دینے والوں نے ایک بار پھر شریف فیملی کو این آر او دلوا دیا ہے اور جلد زرداری خاندان کو بھی این آر او ملنے والا ہے، اٹھارہویں ترمیم کے خود مختار راجواڑے سندھ میں میگا کرپشن کے خلاف کارروائیاں دم توڑ گئی ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ مسئلہ کشمیر کہیں بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ تاہم جے یو آئی ایف اور ٹی وی اینکروں کی بڑی اکثریت 70 سال سے ملک میں رائج کرپشن زندہ باد اور طاقتوروں کے لیے کوئی قانون نہیں اور کمزوروں کے لیے کوئی انصاف نہیں کے سسٹم کی حفاظت اور تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے عمران خان کو حکومت سے ہٹانا چاہتے ہیں، یہ اپنی مرضی کا انتخابی نظام چاہتے ہیں جہاں ان کی پارٹیوں کے کارکنان اپنی ''نگرانی میں شفاف'' انتخابات کروائیں۔
یہ کروڑ پتی ٹی وی اینکر اس کرپٹ اور ظالمانہ ملک دشمن نظام سے مستفید ہونے والے گروہوں میں شامل ہیں اور ملک میں انتشار پھیلانے کے جے یو آئی ایف اور دوسرے معروف پاکستان مخالف سیاستدانوں کے نام نہاد پلان بی کے لیے فضا ہموار کر رہے ہیں۔ ان ٹی وی اینکروں نے اپنے شور شرابے سے ریاستی اداروں کے اعصاب شل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور اب یہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں اس ملک کو ''فارغ'' کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اب یہ ملک لوٹنے والوں کو بار بار این آر او دینے والے طاقتور اداروں بشمول نظام انصاف و قانون پہ ہے کہ وہ ڈیڑھ دو درجن ٹی وی اینکروں کی خوشنودی کے لیے مزید اس ملک کے کیا کیا حشر کرواتے ہیں۔