ملک کی معاشی بہتری کیلئے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے
عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی ٹیم کی مینجمنٹ کو بہتر بنائیں۔
بالآخر وزیراعظم عمران خان نے مان لیا ہے کہ ریاست مدینہ ان کی زندگی میں نہیں بن سکے گی۔ وہ سمجھتے ہیں ان کے رستے میں مافیاز بیٹھے ہوئے ہیں، جو میڈیا میں، سیاست میں اور بیو رو کریسی میں موجود ہیں۔
وزیر اعظم سیرت نبی کانفرنس کے موقع پر بھی اپنے سیاسی حریفوں کو نہ بھولے اور کہا کہ ہم نے این آر او دیدے کر اور رحم کرکے معاشرے کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ واضح طور پر ان کا اشارہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنے کے حوالے سے تھا اور ان کے خیالات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔
دوسری طرف وفاقی وزیر زبیدہ جلا ل نے ایک ٹیلی ویڑن پروگرام میں کہا ہے کہ وزیراعظم نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور کابینہ اجلاس میں باضابطہ طور پر نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا جائے گا۔
حکومت ایک دو دن کی فیس سیونگ کے بعد بالآخر نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکام دے گی۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر وزیراعظم نے فیصلہ کر لیا ہے لیکن وہ اس فیصلے سے خوش بھی نہیں تو پھر ان سے فیصلہ کون کروا رہا ہے۔ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو این آر او دینا بھی نہیں چاہتے مگر دے بھی رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق آصف زرداری صاحب کو بھی ریلیف دیے جانے کے اشارے دئے جا رہے ہیں لیکن زرداری صاحب کو جیل کی عادت سی ہو گئی ہے اور وہ ضد میں اپنے ضمانت کی درخواست پر بھی دستخط نہیں کر رہے ہیں، لیکن امید ہے بلاول کی جانب سے دی گئی درخواست پر ہی ان کو ریلیف مل جائے گا۔
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی اپنے احتجاج کے نتائج سے مطمئن ہیں۔ وہ وزیر اعظم کے استعفی کے مطالبہ سے دستبردار تو نہیں ہوئے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ استعفٰی کے برابر کی کسی چیز پر بات ہو سکتی ہے، مطلب درمیانہ رستہ نکل سکتا ہے۔
وزیر اعظم کو اس ساری صورت حا ل پر جھنجھلاہت کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اطمینان کا سانس لینا چاہیے کیونکہ حالات جتنے پرسکون ہوں گے، ان کے لئے حکومت چلانا اتنا آسان ہو گا اور وہ اپنے معاشی اہداف حاصل کر سکیں گے کیونکہ آخر میں فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے اور عوام ملک کی معاشی صورت حال اور اس سلسلے میں کارکردگی کو ہی بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔
وزیر اعظم کو اپنے مزاج میں ٹھہراو پیدا کرنا چاہیے۔ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ وزیر اعظم کی مستقل مزاجی اور پر سکون طبیعت ملک کے مجموعی حالات کو پرسکون رکھنے کے لئے اہم ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے کسی بھی قسم کی بد اعتمادی اور غیر سنجیدہ بیان، ان کی معاشی ٹیم کی کوششوں سے حاصل فوائد کو زائل کر سکتی ہے۔
ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر مشکل کی وجہ چوری اور کرپشن نہیں۔ ہمارے ملک کے مخصوص معروضی حالات ہیں اور ہر حکومت کو ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شائد ان کی یہ پہلی مرتبہ ہے اس لیے انہیں ہر کوئی چور اور ہر جانب مافیاز نظر آ رہے ہیں۔ انہیں اب اس گرداب سے باہر نکلنا ہے۔ اپنے اوپر اور اپنی ٹیم پر اعتماد رکھیں۔
حکومت کی نئی معاشی ٹیم کے سخت فیصلوں کے بہتر نتائج اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) نے پاکستان کو 45 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط جاری کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ رقم ملنے سے حکومت کے مالی صورت حال کافی مستحکم ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف کے جائزہ کے مطابق مشکل حالات کے باوجود پاکستان نے پروگرام پر بہتر عمل درآمد کیا، اندرونی اور بیرونی خسارے کم ہو رہے ہیں۔
مشن کے مطابق پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ روکنے کے لیے مثبت اقدامات کیے ہیں، آنے والے دنوں میں مہنگائی میں کمی کا امکان ہے۔ اسی مالی استحکام کی وجہ سے حکومت نے نیا پاکستان ہاوسنگ اسکیم کے لیے 30 ارب روپے اضافی دینے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ گردشی قرضے ختم کرنے کے لیے پاور سیکٹرکو 250 ارب روپے دینے کی منظوری بھی دیدی گئی ہے جبکہ ایکسپورٹرز کو 200 ارب روپے کی سبسڈی ملے گی اور اسٹیٹ بینک 100 ارب روپے کے اضافی قرضے دے گا۔
ادارہ برائے شماریات پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال میں پہلی سہ ماہی میں جولائی تا ستمبر 2019ء کے دوران برآمدات میں 2.75 فیصد اضافہ جبکہ درآمدات میں 20.59 فیصد کمی کے نتیجہ میں تجارتی خسارہ 34.85 فیصد تک کم ہو گیا، اس ساری صورتحال کو سرمایہ کار بھی مثبت لے رہے ہیں جس کا واضح اشارہ سٹاک مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری ہے۔ ایس ای سی پی کی نئی مینجمنٹ مبادک باد کی مستحق ہے جس نے آتے ہی سرمایہ کاروں کو اعتماد دینے کے لئے اہم اقدامات کئے اور ساتھ ہی ساتھ سرمایہ کاری میں حائل مشکلات کو دور کیا اور اپنے ریگولیشنز کو سہل کر دیا۔
ایس ای سی پی کی جانب سے بروقت اقدامات کے نتائج بھی سامنے ہیں اور مارکیٹ میں سرمایہ کاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس وقت مارکیٹ 6 ماہ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں مارکیٹ میں 14 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ لگتا ہے کہ حکومت کی نئی ٹیم نے معاشی حالات پر کنٹرول کر لیا ہے۔تاہم ان سب مثبت اشاروں کے باوجود عوام کو اس وقت مہنگائی کے عذاب کا سامنا ہے، ٹماٹر 300 روپے کلو اور ہر ی مرچ 250 روپے کلو میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ آٹے کی قیمت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
روز مرہ اشیاء اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق حکومت کی ناتجربہ کاری اور طلب اور سپلائی میں بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ سے ہے۔ بھارت کے ساتھ واہگہ بارڈر سے تجارت بند ہونے کی وجہ سے کئی ایک سبزیوں جیسے کہ ٹماٹر اور پیاز کی سپلائی لائن پر فرق پڑا ہے۔
آلو، پیاز ، ٹماٹر اور دور دراز علاقوں سے آنے والے فروٹ کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ کنٹینرز کی کمی بھی بیان کی جا رہی ہے آزادی مارچ کی وجہ سے دس ہزار سے زائد کنٹینرز پولیس نے قبضہ میں لے رکھے ہیں، چھ ہزار کنٹینرز تو صرف اسلام آباد میں ہی رکاوٹوں کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں۔ واضح نظر آ رہا ہے کہ مرکزی بینک جلد ہی شرح سود میں کمی کا اعلان کر دے گا جس کے بعد افراط زر کی شرح میں بھی کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی۔
عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی ٹیم کی مینجمنٹ کو بہتر بنائیں اور اپوزیشن کے ساتھ خوامخواہ میں الجھنے کے بجائے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں کیونکہ با لآخر عوام ان کی کارکردگی کو ہی جانچیں گے۔
وزیر اعظم سیرت نبی کانفرنس کے موقع پر بھی اپنے سیاسی حریفوں کو نہ بھولے اور کہا کہ ہم نے این آر او دیدے کر اور رحم کرکے معاشرے کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ واضح طور پر ان کا اشارہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنے کے حوالے سے تھا اور ان کے خیالات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔
دوسری طرف وفاقی وزیر زبیدہ جلا ل نے ایک ٹیلی ویڑن پروگرام میں کہا ہے کہ وزیراعظم نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور کابینہ اجلاس میں باضابطہ طور پر نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا جائے گا۔
حکومت ایک دو دن کی فیس سیونگ کے بعد بالآخر نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکام دے گی۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر وزیراعظم نے فیصلہ کر لیا ہے لیکن وہ اس فیصلے سے خوش بھی نہیں تو پھر ان سے فیصلہ کون کروا رہا ہے۔ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو این آر او دینا بھی نہیں چاہتے مگر دے بھی رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق آصف زرداری صاحب کو بھی ریلیف دیے جانے کے اشارے دئے جا رہے ہیں لیکن زرداری صاحب کو جیل کی عادت سی ہو گئی ہے اور وہ ضد میں اپنے ضمانت کی درخواست پر بھی دستخط نہیں کر رہے ہیں، لیکن امید ہے بلاول کی جانب سے دی گئی درخواست پر ہی ان کو ریلیف مل جائے گا۔
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی اپنے احتجاج کے نتائج سے مطمئن ہیں۔ وہ وزیر اعظم کے استعفی کے مطالبہ سے دستبردار تو نہیں ہوئے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ استعفٰی کے برابر کی کسی چیز پر بات ہو سکتی ہے، مطلب درمیانہ رستہ نکل سکتا ہے۔
وزیر اعظم کو اس ساری صورت حا ل پر جھنجھلاہت کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اطمینان کا سانس لینا چاہیے کیونکہ حالات جتنے پرسکون ہوں گے، ان کے لئے حکومت چلانا اتنا آسان ہو گا اور وہ اپنے معاشی اہداف حاصل کر سکیں گے کیونکہ آخر میں فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے اور عوام ملک کی معاشی صورت حال اور اس سلسلے میں کارکردگی کو ہی بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔
وزیر اعظم کو اپنے مزاج میں ٹھہراو پیدا کرنا چاہیے۔ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ وزیر اعظم کی مستقل مزاجی اور پر سکون طبیعت ملک کے مجموعی حالات کو پرسکون رکھنے کے لئے اہم ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے کسی بھی قسم کی بد اعتمادی اور غیر سنجیدہ بیان، ان کی معاشی ٹیم کی کوششوں سے حاصل فوائد کو زائل کر سکتی ہے۔
ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر مشکل کی وجہ چوری اور کرپشن نہیں۔ ہمارے ملک کے مخصوص معروضی حالات ہیں اور ہر حکومت کو ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شائد ان کی یہ پہلی مرتبہ ہے اس لیے انہیں ہر کوئی چور اور ہر جانب مافیاز نظر آ رہے ہیں۔ انہیں اب اس گرداب سے باہر نکلنا ہے۔ اپنے اوپر اور اپنی ٹیم پر اعتماد رکھیں۔
حکومت کی نئی معاشی ٹیم کے سخت فیصلوں کے بہتر نتائج اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) نے پاکستان کو 45 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط جاری کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ رقم ملنے سے حکومت کے مالی صورت حال کافی مستحکم ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف کے جائزہ کے مطابق مشکل حالات کے باوجود پاکستان نے پروگرام پر بہتر عمل درآمد کیا، اندرونی اور بیرونی خسارے کم ہو رہے ہیں۔
مشن کے مطابق پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ روکنے کے لیے مثبت اقدامات کیے ہیں، آنے والے دنوں میں مہنگائی میں کمی کا امکان ہے۔ اسی مالی استحکام کی وجہ سے حکومت نے نیا پاکستان ہاوسنگ اسکیم کے لیے 30 ارب روپے اضافی دینے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ گردشی قرضے ختم کرنے کے لیے پاور سیکٹرکو 250 ارب روپے دینے کی منظوری بھی دیدی گئی ہے جبکہ ایکسپورٹرز کو 200 ارب روپے کی سبسڈی ملے گی اور اسٹیٹ بینک 100 ارب روپے کے اضافی قرضے دے گا۔
ادارہ برائے شماریات پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال میں پہلی سہ ماہی میں جولائی تا ستمبر 2019ء کے دوران برآمدات میں 2.75 فیصد اضافہ جبکہ درآمدات میں 20.59 فیصد کمی کے نتیجہ میں تجارتی خسارہ 34.85 فیصد تک کم ہو گیا، اس ساری صورتحال کو سرمایہ کار بھی مثبت لے رہے ہیں جس کا واضح اشارہ سٹاک مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری ہے۔ ایس ای سی پی کی نئی مینجمنٹ مبادک باد کی مستحق ہے جس نے آتے ہی سرمایہ کاروں کو اعتماد دینے کے لئے اہم اقدامات کئے اور ساتھ ہی ساتھ سرمایہ کاری میں حائل مشکلات کو دور کیا اور اپنے ریگولیشنز کو سہل کر دیا۔
ایس ای سی پی کی جانب سے بروقت اقدامات کے نتائج بھی سامنے ہیں اور مارکیٹ میں سرمایہ کاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس وقت مارکیٹ 6 ماہ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں مارکیٹ میں 14 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ لگتا ہے کہ حکومت کی نئی ٹیم نے معاشی حالات پر کنٹرول کر لیا ہے۔تاہم ان سب مثبت اشاروں کے باوجود عوام کو اس وقت مہنگائی کے عذاب کا سامنا ہے، ٹماٹر 300 روپے کلو اور ہر ی مرچ 250 روپے کلو میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ آٹے کی قیمت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
روز مرہ اشیاء اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق حکومت کی ناتجربہ کاری اور طلب اور سپلائی میں بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ سے ہے۔ بھارت کے ساتھ واہگہ بارڈر سے تجارت بند ہونے کی وجہ سے کئی ایک سبزیوں جیسے کہ ٹماٹر اور پیاز کی سپلائی لائن پر فرق پڑا ہے۔
آلو، پیاز ، ٹماٹر اور دور دراز علاقوں سے آنے والے فروٹ کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ کنٹینرز کی کمی بھی بیان کی جا رہی ہے آزادی مارچ کی وجہ سے دس ہزار سے زائد کنٹینرز پولیس نے قبضہ میں لے رکھے ہیں، چھ ہزار کنٹینرز تو صرف اسلام آباد میں ہی رکاوٹوں کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں۔ واضح نظر آ رہا ہے کہ مرکزی بینک جلد ہی شرح سود میں کمی کا اعلان کر دے گا جس کے بعد افراط زر کی شرح میں بھی کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی۔
عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی ٹیم کی مینجمنٹ کو بہتر بنائیں اور اپوزیشن کے ساتھ خوامخواہ میں الجھنے کے بجائے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں کیونکہ با لآخر عوام ان کی کارکردگی کو ہی جانچیں گے۔