امت مسلمہ کا کردار
بھارتی صحافی وی ٹی راج شیکر نے انکشاف کیا ہے کہ بمبئی حملوں میں بھارت کی انتہا پسند خفیہ تنظیم ’’ابھینو‘‘ بھی ملوث تھی
تمام مسلمانوںکو اﷲ کا گھر خانہ کعبہ اور روضۂ رسولﷺ بے حد عزیز ہے۔ لاکھوں حجاج مخصوص دنوں میں فریضۂ حج کے لیے سعودی عرب کا رخ کرتے اور مقدس مقامات کی زیارت کرتے ہیں ۔ دعائیں مانگتے ہیں جو قبول ہوتی ہیں۔ امراض دور ہوجاتے ہیں اور دل کی مرادیں بر آتی ہیں تسکین قلب حاصل ہوتا ہے ان خاص مواقعوں کے لیے سعودی حکمران بہت اعلیٰ نظم و نسق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح عمرہ ادا کرنے والوں کو بے شمار سہولتوں سے نوازا جاتا ہے۔
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے جب پانچوں ارکان کو دل کی گہرائیوں سے مانا اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں۔ حج پر جانے کے لیے ایک بڑی رقم درکار ہوتی ہے تو اس کے لیے بھی زبردستی نہیں کی گئی ہے اگر صاحب استطاعت ہے تو زندگی میں ایک بار ضرور حج کرے اور اپنی زندگی ، نشست و برخاست میں تبدیلی پیدا کرے ورنہ حج اور عمرے کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لانا ہی اپنے مبارک سفر کو کامیاب بنانا ہے۔
اس مبارک زمین کے وارث والی سعودی عرب کے حکمراں ہیں جو کہ سچے مسلمان ہیں دین اسلام اور اس کی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا بھی ہیں۔ سزائیں بھی اسلامی ہیں ۔ روزے نماز کے پابند ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے حوالے سے ان کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہے۔ دنیا کے عیش و عشرت میں اس قدر گم ہیں کہ انھیں یہ احساس بھی نہیں کہ ان کے مسلمان بھائی ان کی مدد کے طالب ہیں۔
وہ ان جیلوں میں سالہا سال سے دردناک سزائیں بھگت رہے ہیں جہاں شیخوں کی دولت بینکوں میں موجود ہے اور اسی دولت سے امریکی خوب خوب فائدے حاصل کر رہے ہیں اور اسی مال و زر سے مسلمانوں پر ڈرون حملے کیے جاتے ہیں۔ بم برسائے جاتے ہیں اغواء کیا جاتا ہے بدنام زمانہ جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
شیخ اپنی دولت کی نمود و نمائش کے لیے کروڑوں اور اربوں کی گاڑیاں اور دوسری چیزیں مہنگے داموں خرید کر اپنے دشمن اور اسلام کے دشمنوں کو معاشی طور پر مضبوط کر رہے ہیں اور کسی بھی کام کی کامیابی کے لیے اہم ترین ضرورت دولت ہے اس کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں تو یہ روپیہ پیسہ سعودی حکمرانوں اور امراء نے کسی نہ کسی شکل میں انھیں بڑی محبت اور عزت کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ سعودی عرب کی تمام دولت امریکی بینکوں میں موجود ہے۔
اﷲ رب العزت نے سعودی عرب کو تیل کی دولت سے مالا مال کر دیا ہے اس ہی تیل کی دولت سے اگر سعودی حکمران چاہیں تو اپنی شرائط و ضوابط کے تحت مسلمان قوم کو ''تحفظ'' فراہم کر سکتے تھے۔ حدیث پاک ہے کہ اگر ایک مسلمان کو تکلیف پہنچے تو دوسرے مسلمان کو اس کا احساس ہر قیمت پر ہونا چاہیے گویا مسلمان کی مثال ایک بدن کی سی ہے جس طرح بدن کے کسی بھی حصے کو اذیت پہنچے تو پورا جسم دکھ درد میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ لیکن آج امت مسلمہ کے یہ حالات ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بے قصور مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ان کے معصوم بچوں کو جلتی آگ میں پھینکا جا رہا ہے اور والدین کے سامنے ذبح کیا جا رہا ہے۔ پوری پوری بستیوں کو ان کے مکینوں کے ساتھ نذر آتش کر دیا گیا لیکن امتِ مسلمہ خاموش رہی جن کے پاس قوت ہے، دولت ہے، حالات بھی سازگار ہیں انھوں نے بھی حق مسلمانی ادا نہیں کیا۔
انھیں تنہا مرنے اور سسکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ''برما'' کا حالیہ واقعہ ظہور پذیر ہوا، برمی مسلمانوں کے دیہات کے دیہات اجاڑ دیے گئے جب کہ بدھ مت کے ماننے والے انسانیت کا دعویٰ ببانگ دہل کیا کرتے تھے اور آج ان کے ہی ملک میں قیامت صغریٰ کا منظر عیاں ہے۔ کوئی بولنے والا نہیں، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دوسری امن تنظیمیں بھی بے حسی کا لبادہ اوڑھے رہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اپنے لوگوں کو ہی اپنے مسلمان بھائیوں کا خیال نہ ہو تو دوسروں سے کیا شکوہ ؟ سالہا سال سے بلکہ کئی عشرے گزر چکے ہیں اسرائیلی فلسطین پر قابض ہونے کے لیے ہر طرح کا ظلم کرتے ہیں۔
طرح طرح سے فلسطینیوں کو تنگ کرتے ہیں اسرائیل کے پاس جدید ہتھیار ہیں اور فلسطینی نہتے، سوائے پتھروں کے اور کچھ نہیں وہ جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہیں، بے شمار فلسطین شہید ہوچکے ہیں انھیں اغواء کیا گیا ان کی خواتین کی بے حرمتی کرنے سے بھی اسرائیلی باز نہیں آتے ہیں لیکن امت مسلمہ خاموش ہے ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا اور نہ ہی سپر طاقتوں کو اپنے ذاتی مراسم کے تحت مظالم کو بند کرانے کے لیے کہا جاتا ہے۔
ایسا ہی حال کشمیر اور افغانستان کا بھی ہے ۔ ہزاروں، لاکھوں کشمیری نوجوانوں کو معذور کر دیا گیا ، شہید کر دیا گیا ، بے جان تشدد کیا گیا مگر کسی بھی امن کی تنظیم کو بھارتیوں کی بے انصافی نظر نہ آئی اور تو اور بمبئی حملوں کا ذمے دار بھی پاکستانیوں کا ٹھہرایا گیا۔ بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں'' شیوسینا'' نے شہید کر دیا تب بھی مسجدکی بے حرمتی اور مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی پامالی کو کسی نے اہمیت نہیں دی۔ 29 /اگست کی خبر کے مطابق بھارتی دانشور اور صحافی وی ٹی راج شیکر نے انکشاف کیا ہے کہ بمبئی حملوں میں بھارت کی انتہا پسند خفیہ تنظیم ''ابھینو'' بھارت بھی ملوث تھی، جس کے تمام ارکان مہاراشٹر کی ٹاسک جیل میں قید ہیں، یہ تنظیم سمجھوتا ایکسپریس سمیت کئی بم دھماکوں میں شامل ہے۔
سمجھوتہ ایکسپریس حملے کی نگرانی بھارتی فوج کا حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل شری کانت پروہت کر رہا تھا میڈیا نے بھی اس تمام معاملے کو عوام سے چھپایا جس کا مقصد اپنے مذہب کے لوگوں کی مدد کرنا ہے ان خیالات کا اظہار انھوں نے لندن میں ایک تقریب کے دوران کیا۔ برمی مسلمانوں پر کون سے مظالم تھے جو نہیں کیے گئے 20 ہزار لوگ اب تک لاپتہ ہیں لیکن میڈیا خاموش رہا جب سب کچھ برباد ہوگیا لوگ جل کر خاکستر ہوگئے تب برمی مسلمانوں کی تباہی کی خبریں یا چھوٹا موٹا پروگرام تک نہیں دکھایا گیا۔ البتہ علماء اکرام نے ریلیاں نکالیں۔
جہاں سعودی عرب کا کردار اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد اور آپس کی یکجہتی اور امت مسلمہ کے اتحاد کے حوالے نہایت ترین کمزور اور افسوس ناک ہے وہاں متحدہ عرب امارات نے بے حد مایوس کن امور انجام دیئے۔ ایک فیچر کے مطابق متحدہ عرب امارات کے حالات کچھ اس طرح ہیں کہ 14 مئی 2011ء کو نیویارک ٹائمز میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بدنام زمانہ تنظیم بلیک واٹر ورلڈ وائڈ کے سربراہ اور سابق امریکی فوجی ''ایرک پرنس'' کی وساطت سے متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کی ایک شخصیت کے مابین معاہدے کا ذکر تھا ۔
معاہدے کے مطابق متحدہ عرب امارات نے لاطینی امریکا کے ملک کولمبیا کے تقریباً 842 کرائے کے فوجی اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تعینات کیے تھے اور اب یہ فوجی متحدہ عرب امارات کی ایران سے متصل سرحد پر خدمت انجام دے رہے ہیں اب اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ غیر مسلم ان مسلم جرنیلوں اور عوام کی حفاظت پر مامور ہیں جن کے مذہب میں جہاد کی اہمیت مسلم ہے اور جس مذہب میں ایسی ایسی جنگوں کا ظہور ہوا کہ جن جنگوں میں مسلمانوں کی تعداد 313 سے زیادہ نہ تھی وہاں اﷲ تعالٰی نے غیب سے مدد فرمائی۔
خالد بن ولید، جن کی بہادری و شجاعت کی وجہ سے انھیں ''سیف اﷲ'' کا خطاب دیا گیا ۔ حضرت علیؓ کی شجاعت و بہادری کا اعتراف''فتح خبیر'' کے حوالے سے غیر مسلم بھی کرتے۔ اس مذہب کے پیروکار اپنے اس دشمن کو اپنا محافظ سمجھ رہے ہیں جو ساری عمر سلطان صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان سے میدان جنگ میں نبرد آزما رہے اور جس نے دونوں سلاطین کی دلیری کو سراہا اس بات کی صداقت کے لیے تاریخ گواہ ہے۔
سچ ہے کہ مسلمانوں کا زوال ان کے اپنے ہی ہاتھوں اس وقت ہوا جب وہ اپنے ذاتی مفاد اور تعیشات زندگی کو مدِ نظر رکھنے لگے۔
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے جب پانچوں ارکان کو دل کی گہرائیوں سے مانا اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں۔ حج پر جانے کے لیے ایک بڑی رقم درکار ہوتی ہے تو اس کے لیے بھی زبردستی نہیں کی گئی ہے اگر صاحب استطاعت ہے تو زندگی میں ایک بار ضرور حج کرے اور اپنی زندگی ، نشست و برخاست میں تبدیلی پیدا کرے ورنہ حج اور عمرے کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لانا ہی اپنے مبارک سفر کو کامیاب بنانا ہے۔
اس مبارک زمین کے وارث والی سعودی عرب کے حکمراں ہیں جو کہ سچے مسلمان ہیں دین اسلام اور اس کی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا بھی ہیں۔ سزائیں بھی اسلامی ہیں ۔ روزے نماز کے پابند ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے حوالے سے ان کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہے۔ دنیا کے عیش و عشرت میں اس قدر گم ہیں کہ انھیں یہ احساس بھی نہیں کہ ان کے مسلمان بھائی ان کی مدد کے طالب ہیں۔
وہ ان جیلوں میں سالہا سال سے دردناک سزائیں بھگت رہے ہیں جہاں شیخوں کی دولت بینکوں میں موجود ہے اور اسی دولت سے امریکی خوب خوب فائدے حاصل کر رہے ہیں اور اسی مال و زر سے مسلمانوں پر ڈرون حملے کیے جاتے ہیں۔ بم برسائے جاتے ہیں اغواء کیا جاتا ہے بدنام زمانہ جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
شیخ اپنی دولت کی نمود و نمائش کے لیے کروڑوں اور اربوں کی گاڑیاں اور دوسری چیزیں مہنگے داموں خرید کر اپنے دشمن اور اسلام کے دشمنوں کو معاشی طور پر مضبوط کر رہے ہیں اور کسی بھی کام کی کامیابی کے لیے اہم ترین ضرورت دولت ہے اس کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں تو یہ روپیہ پیسہ سعودی حکمرانوں اور امراء نے کسی نہ کسی شکل میں انھیں بڑی محبت اور عزت کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ سعودی عرب کی تمام دولت امریکی بینکوں میں موجود ہے۔
اﷲ رب العزت نے سعودی عرب کو تیل کی دولت سے مالا مال کر دیا ہے اس ہی تیل کی دولت سے اگر سعودی حکمران چاہیں تو اپنی شرائط و ضوابط کے تحت مسلمان قوم کو ''تحفظ'' فراہم کر سکتے تھے۔ حدیث پاک ہے کہ اگر ایک مسلمان کو تکلیف پہنچے تو دوسرے مسلمان کو اس کا احساس ہر قیمت پر ہونا چاہیے گویا مسلمان کی مثال ایک بدن کی سی ہے جس طرح بدن کے کسی بھی حصے کو اذیت پہنچے تو پورا جسم دکھ درد میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ لیکن آج امت مسلمہ کے یہ حالات ہیں کہ دنیا کے مختلف خطوں میں بے قصور مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ان کے معصوم بچوں کو جلتی آگ میں پھینکا جا رہا ہے اور والدین کے سامنے ذبح کیا جا رہا ہے۔ پوری پوری بستیوں کو ان کے مکینوں کے ساتھ نذر آتش کر دیا گیا لیکن امتِ مسلمہ خاموش رہی جن کے پاس قوت ہے، دولت ہے، حالات بھی سازگار ہیں انھوں نے بھی حق مسلمانی ادا نہیں کیا۔
انھیں تنہا مرنے اور سسکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ''برما'' کا حالیہ واقعہ ظہور پذیر ہوا، برمی مسلمانوں کے دیہات کے دیہات اجاڑ دیے گئے جب کہ بدھ مت کے ماننے والے انسانیت کا دعویٰ ببانگ دہل کیا کرتے تھے اور آج ان کے ہی ملک میں قیامت صغریٰ کا منظر عیاں ہے۔ کوئی بولنے والا نہیں، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دوسری امن تنظیمیں بھی بے حسی کا لبادہ اوڑھے رہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اپنے لوگوں کو ہی اپنے مسلمان بھائیوں کا خیال نہ ہو تو دوسروں سے کیا شکوہ ؟ سالہا سال سے بلکہ کئی عشرے گزر چکے ہیں اسرائیلی فلسطین پر قابض ہونے کے لیے ہر طرح کا ظلم کرتے ہیں۔
طرح طرح سے فلسطینیوں کو تنگ کرتے ہیں اسرائیل کے پاس جدید ہتھیار ہیں اور فلسطینی نہتے، سوائے پتھروں کے اور کچھ نہیں وہ جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہیں، بے شمار فلسطین شہید ہوچکے ہیں انھیں اغواء کیا گیا ان کی خواتین کی بے حرمتی کرنے سے بھی اسرائیلی باز نہیں آتے ہیں لیکن امت مسلمہ خاموش ہے ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا اور نہ ہی سپر طاقتوں کو اپنے ذاتی مراسم کے تحت مظالم کو بند کرانے کے لیے کہا جاتا ہے۔
ایسا ہی حال کشمیر اور افغانستان کا بھی ہے ۔ ہزاروں، لاکھوں کشمیری نوجوانوں کو معذور کر دیا گیا ، شہید کر دیا گیا ، بے جان تشدد کیا گیا مگر کسی بھی امن کی تنظیم کو بھارتیوں کی بے انصافی نظر نہ آئی اور تو اور بمبئی حملوں کا ذمے دار بھی پاکستانیوں کا ٹھہرایا گیا۔ بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں'' شیوسینا'' نے شہید کر دیا تب بھی مسجدکی بے حرمتی اور مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی پامالی کو کسی نے اہمیت نہیں دی۔ 29 /اگست کی خبر کے مطابق بھارتی دانشور اور صحافی وی ٹی راج شیکر نے انکشاف کیا ہے کہ بمبئی حملوں میں بھارت کی انتہا پسند خفیہ تنظیم ''ابھینو'' بھارت بھی ملوث تھی، جس کے تمام ارکان مہاراشٹر کی ٹاسک جیل میں قید ہیں، یہ تنظیم سمجھوتا ایکسپریس سمیت کئی بم دھماکوں میں شامل ہے۔
سمجھوتہ ایکسپریس حملے کی نگرانی بھارتی فوج کا حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل شری کانت پروہت کر رہا تھا میڈیا نے بھی اس تمام معاملے کو عوام سے چھپایا جس کا مقصد اپنے مذہب کے لوگوں کی مدد کرنا ہے ان خیالات کا اظہار انھوں نے لندن میں ایک تقریب کے دوران کیا۔ برمی مسلمانوں پر کون سے مظالم تھے جو نہیں کیے گئے 20 ہزار لوگ اب تک لاپتہ ہیں لیکن میڈیا خاموش رہا جب سب کچھ برباد ہوگیا لوگ جل کر خاکستر ہوگئے تب برمی مسلمانوں کی تباہی کی خبریں یا چھوٹا موٹا پروگرام تک نہیں دکھایا گیا۔ البتہ علماء اکرام نے ریلیاں نکالیں۔
جہاں سعودی عرب کا کردار اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد اور آپس کی یکجہتی اور امت مسلمہ کے اتحاد کے حوالے نہایت ترین کمزور اور افسوس ناک ہے وہاں متحدہ عرب امارات نے بے حد مایوس کن امور انجام دیئے۔ ایک فیچر کے مطابق متحدہ عرب امارات کے حالات کچھ اس طرح ہیں کہ 14 مئی 2011ء کو نیویارک ٹائمز میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بدنام زمانہ تنظیم بلیک واٹر ورلڈ وائڈ کے سربراہ اور سابق امریکی فوجی ''ایرک پرنس'' کی وساطت سے متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کی ایک شخصیت کے مابین معاہدے کا ذکر تھا ۔
معاہدے کے مطابق متحدہ عرب امارات نے لاطینی امریکا کے ملک کولمبیا کے تقریباً 842 کرائے کے فوجی اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تعینات کیے تھے اور اب یہ فوجی متحدہ عرب امارات کی ایران سے متصل سرحد پر خدمت انجام دے رہے ہیں اب اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ غیر مسلم ان مسلم جرنیلوں اور عوام کی حفاظت پر مامور ہیں جن کے مذہب میں جہاد کی اہمیت مسلم ہے اور جس مذہب میں ایسی ایسی جنگوں کا ظہور ہوا کہ جن جنگوں میں مسلمانوں کی تعداد 313 سے زیادہ نہ تھی وہاں اﷲ تعالٰی نے غیب سے مدد فرمائی۔
خالد بن ولید، جن کی بہادری و شجاعت کی وجہ سے انھیں ''سیف اﷲ'' کا خطاب دیا گیا ۔ حضرت علیؓ کی شجاعت و بہادری کا اعتراف''فتح خبیر'' کے حوالے سے غیر مسلم بھی کرتے۔ اس مذہب کے پیروکار اپنے اس دشمن کو اپنا محافظ سمجھ رہے ہیں جو ساری عمر سلطان صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان سے میدان جنگ میں نبرد آزما رہے اور جس نے دونوں سلاطین کی دلیری کو سراہا اس بات کی صداقت کے لیے تاریخ گواہ ہے۔
سچ ہے کہ مسلمانوں کا زوال ان کے اپنے ہی ہاتھوں اس وقت ہوا جب وہ اپنے ذاتی مفاد اور تعیشات زندگی کو مدِ نظر رکھنے لگے۔