سپریم کورٹ نے قبائلی علاقوں میں حراستی مراکز اور قیدیوں کی فہرست طلب کرلی
فوج سول انتظامیہ کے اختیارات سلب نہیں کرسکتی، چیف جسٹس
BERLIN:
سپریم کورٹ نے حکومت کو قبائلی علاقوں میں موجود حراستی مراکز اور ان میں موجود قیدیوں کی فہرست فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ فوج سول انتظامیہ کے اختیارات سلب نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے فاٹا، پاٹا اصلاحات کیس کی سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز پر اعتراض مسترد
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میری ذات سے متعلق رائے دی اور وفاق، وزیراعظم اور صدر مملکت پر تعصب کا سوال اٹھایا تھا۔
چیف جسٹس نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جو بات آپ کررہے تھے وہ صرف ایک کیس سے متعلق ہے، جج صاحب کی اپروچ ہر مقدمے میں ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔
کیس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت سے فاٹا میں موجود حراستی مراکز اور ان میں موجود قیدیوں کی فہرست فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ شہریوں کی آئینی آزادی اور انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے، اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اگر تو یہ حراست قانونی ثابت ہوئی تو آپ جانیں اور قیدی، لیکن اگر حراست غیر قانونی ہوئی تو معاملے کا فیصلہ کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سول انتظامیہ کی مدد کیلئے آنے والی فوج کن اختیار کے تحت کام کرتی ہے، کیا کسی کو حراست میں رکھنے کا حکم صوبائی انتظامیہ کے علاوہ فوج کا کوئی افسر بھی دے سکتا ہے؟۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قرار دیا کہ کسی کو حراست میں رکھنے کی مدت زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے ہے، جس کے بعد قیدی کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے، دہشتگردی کے کیسز میں یہ مدت 3 ماہ ہے، اس معاملے میں صوبائی اختیارات کے ساتھ عدالتی اختیارات بھی شامل ہیں، سول انتظامیہ کی مدد کیلئے آنے والی فوج سول انتظامیہ کے اختیارات سلب نہیں کرسکتی۔
عدالت نے کل تک ملک میں موجود حراستی مراکز کی فہرست فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نے حکومت کو قبائلی علاقوں میں موجود حراستی مراکز اور ان میں موجود قیدیوں کی فہرست فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ فوج سول انتظامیہ کے اختیارات سلب نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے فاٹا، پاٹا اصلاحات کیس کی سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز پر اعتراض مسترد
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میری ذات سے متعلق رائے دی اور وفاق، وزیراعظم اور صدر مملکت پر تعصب کا سوال اٹھایا تھا۔
چیف جسٹس نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جو بات آپ کررہے تھے وہ صرف ایک کیس سے متعلق ہے، جج صاحب کی اپروچ ہر مقدمے میں ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔
کیس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت سے فاٹا میں موجود حراستی مراکز اور ان میں موجود قیدیوں کی فہرست فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ شہریوں کی آئینی آزادی اور انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے، اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اگر تو یہ حراست قانونی ثابت ہوئی تو آپ جانیں اور قیدی، لیکن اگر حراست غیر قانونی ہوئی تو معاملے کا فیصلہ کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سول انتظامیہ کی مدد کیلئے آنے والی فوج کن اختیار کے تحت کام کرتی ہے، کیا کسی کو حراست میں رکھنے کا حکم صوبائی انتظامیہ کے علاوہ فوج کا کوئی افسر بھی دے سکتا ہے؟۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قرار دیا کہ کسی کو حراست میں رکھنے کی مدت زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے ہے، جس کے بعد قیدی کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے، دہشتگردی کے کیسز میں یہ مدت 3 ماہ ہے، اس معاملے میں صوبائی اختیارات کے ساتھ عدالتی اختیارات بھی شامل ہیں، سول انتظامیہ کی مدد کیلئے آنے والی فوج سول انتظامیہ کے اختیارات سلب نہیں کرسکتی۔
عدالت نے کل تک ملک میں موجود حراستی مراکز کی فہرست فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔