کس کی خاطرجان دیتے ہو
’’ آپ کو ہی نصیب ہو ایسا کھانا، ہم تو اللہ کا کرم ہے کہ حلال کی کھاتے ہیں…
'' اس ملک کو تو ہماری فوج لوٹ کر کھا گئی ہے... '' الفاظ تھے یا کوئی بم پھٹا تھا... جس کے ہاتھ میں جو نوالہ تھا ، وہیں کا وہیں رک گیا۔ ہمارے درمیان بیٹھی ہوئی وہ خاتون ، جنہوں نے تھوڑی دیرقبل ہی اپنا تعارف خود کو صبوحی کہہ کر کروایا تھا، اس وقت ہم سب انھی کے ایک کزن کے ساتھ کھانے پر مدعو تھے ، جو کہ فوج کے ایک سینئیر ریٹائرڈ افسر ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر قبل... ذرا پہلے وہ بتا رہی تھیں کہ وہ اپنے علاقے کی ایک سیاسی کارکن ہیں اور انھوں نے ہر دور حکومت میں کچھ نہ کچھ فوائد تو ضرور حاصل کیے ہیں ، '' مگر جتنے کام میرے مشرف صاحب کے زمانے میں ہوئے ہیں، اتنے کبھی کسی دور حکومت میں نہیں ہوئے... اصل میں اس ملک میں کام ہوتا ہی تب ہے ، جب فوج برسراقتدار آتی ہے... '' ابھی چند منٹ پہلے ان کے یہ الفاظ تھے۔
مگر اب جو الفاظ کا بم انھوں نے پھاڑا تھا وہ ان کی اپنی بات کی نفی کر رہا تھا... اس محفل میں مردانہ حصے میں جو شخصیات بیٹھی تھیں، ان میں کئی ریٹائرڈ سول اور فوجی تھے، ان کے ساتھ نیول چیف اور چیئرمین جائنٹ کے علاوہ کئی سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری بھی تھے جن کا کوئی نہ کوئی تعلق فوج سے تھا اور ان سب کی بیگمات اس کمرے میں تھیں، جہاں ابھی ابھی یہ بات ہوئی تھی۔ '' کس طرح کہہ سکتی ہیں یہ بات آپ؟ '' کسی نے سوال کیا۔
'' آپ اپنے گھر دیکھ لیں، اپنے پلاٹ دیکھ لیں، اپنی سہولیات دیکھ لیں... ''
'' آپ لوگوں کو ہمارے مسائل اور مشکلات بھی نظر آتی ہیں کبھی؟ '' ایک سینئر افسر کی بیگم نے سوال کیا، '' کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہم جب ہر صبح اپنے شوہروں ، بھائیوں اور بیٹوں کو گھر سے نکلتے وقت اللہ کے حوالے کرتے ہیں تو ہمیں علم نہیں ہوتا کہ شام کو ان کا چہرہ دوبارہ دیکھنا نصیب ہو گا کہ نہیں... ایک فوجی سے شادی ہوتی ہے تو پہلی رات ہی وہ اپنی بیوی کو بتا دیتا ہے کہ اس کی جان ملک اور قوم کی امانت ہے، اس کے کاندھوں پر اس ملک کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کا فرض ہے... '' بات کرتے کرتے وہ آبدیدہ سی ہونے لگیں تو میں نے سوچا کہ کیا ضرورت ہے ان کے پیاروں کو ہم جیسے بے حسوں کی فکر کرنے کی... کیوں ان کے جوان اور پیارے پیارے لال دشمنوں کی گولیوں کی بوچھاڑوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں؟ کاش میں ان جیالوں سے پوچھ سکتی... کس کی خاطر جان دیتے ہو تم پیارو، ایسے لوگوں کی خاطر جو ہر ہر فورم پر تمہیں نیچا دکھانے ، تمہیں لالچی ثابت کرنے اور تمہاری قربانیوں کی نا قدری کرتے ہیں...
'' کون ہیں یہ فوجی مس صبوحی؟ '' میں نے سوال کیا، '' کوئی باہر سے درآمد کیے گئے لوگ؟ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق... یا کوئی زر خرید؟ ''
'' کیا مطلب؟ '' مس صبوحی نے پوچھا۔
'' مطلب یہ کہ فوج کن لوگوں سے بنتی ہے، ہمارے اپنوں سے ہی نا، ہمارے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے، جو اپنے جذبوں میں صادق اور مادر وطن کے متوالے ہیں۔ جن کی رگوں میں وفاداری کا لہو ہے، جن کے خمیر کی مٹی جنت کے باغوں سے چنی جاتی ہے، جن کے وجود تہہ خاک جاتے ہیں تو اس ملک کے پھلوں میں ذائقہ اور پھولوں کے رنگ قائم رہتے ہیں... '' میرا لہجہ جذباتی ہو گیا۔
'' آپ لوگ کھانا کھائیں... '' مس صبوحی نے کہا، '' میں نے تو یونہی ایک بات کہہ دی، جس طرح میں نے ٹیلی وژن پر سنا ہے... ''
المیہ یہی ہے کہ اس ملک کی جڑوں میں بیٹھ جانے والے لیڈر اور ارزاں نرخوں پر بکے ہوئے اذہان، جو ٹیلی وژن اسکرینوں پر بیٹھ کر منافرت کا زہر ہمارے ذہنوں میں پھیلاتے ہیں، اصل میں یہی لوگ ہیں جو ہماری صفوں میں گھس کر ہمارے یقین کو کمزور کر دیتے ہیں، اسی تھالی میں چھید کرتے ہیں جس میں انھیں کھانا ہوتا ہے۔
'' کھانا کیا کھائیں... ہمارے تو حلق میں نوالے ہی پھنس گئے ہیں، جو کچھ کھا رہے ہیں، آپ کے بیان کے بعد وہ بھی حلق میں سے نہیں اتر رہا...'' ایک خاتون نے اپنی کیفیت بیان کی۔
'' آپ کو صرف ہمارے پلاٹ اور گھر نظر آتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ فوج کا کیا نظام ہے اور فوج میں اپنی مدت ملازمت پوری کرنے والے کس طریقے سے ، کتنے عرصے میں اور کتنی رقم اپنے گھر یا پلاٹ کی مد میں جمع کرواتے ہیں... کتنی مشکل سے وہ یہ رقم ہر ماہ بچا پاتے ہیں ... شہر شہر، قریہ قریہ اور ڈگر ڈگر گھومتے ہوئے کس طرح وہ مشکلات اور کٹھنائیوں سے ہنس ہنس کر کھیلتے اور آخر اس قابل ہوتے ہیں کہ سر چھپانے کو ٹھکانہ میسر آ جاتا ہے... ایسی ایسی جگہوں پر ہم لوگ رہتے ہیں کہ جہاں بسا اوقات سڑک تک کی رسائی نہیں ہوتی، نہ کوئی اسکول نہ کوئی تفریحی مقام اور ہم خود اپنی ایک ننھی سی دنیا بسا کر اسی کو جنت سمجھ لیتے ہیں... '' ایک خاتون نے اس نظام کی کچھ وضاحت کرنے کو کوشش کی۔
'' کوئی بات نہیں... '' مس صبوحی نے کہا، '' جہاں سب کھا رہے ہیں وہاں فوج بھی کھائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں... '' جلتی پر تیل کا کام کرنے والے الفاظ نے کمرے میں سناٹا طاری کر دیا۔ کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا، دلائل وہاں کام کرتے ہیں جہاں بات کرنے والا ایسی بات کر رہا ہو جس کے بارے میں اس کے پاس ثبوت ہوں، مگر جب الفاظ کسی اور کے ہوں، منہ کسی اور کا اور کھوکھلی بات کو زور زور سے کیا جائے ...اس بات کی تہہ میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
'' آپ کو ہی نصیب ہو ایسا کھانا، ہم تو اللہ کا کرم ہے کہ حلال کی کھاتے ہیں، موت کی آنکھوں سے ہمہ وقت آنکھیں دو چار رہتی ہیں ... مگر سکون سے سوتے ہیں کہ ہمارے لیے موت شہادت ہے اور زندگی اللہ کا انعام۔ ہر دو میں سکون ہے، نہ کسی کا دیا کھاتے ہیں، نہ اپنے ضمیر بیچتے ہیں، نہ اقرباء پروری ہے، نہ رشوت دے کر فائلوں کو حرکت دی جاتی ہے، نہ سفارش سے تبادلے اور ترقیاں ہوتی ہیں... '' ایک خاتون نے مدلل بات کی۔
'' ہاں ہاں ... یہ سب تو ہے، میں مانتی ہوں! '' مس صبوحی نے اپنے الفاظ کا اثر سب پر دیکھ لیا تھا اور اب انھیں کسی طور ان کا مداوا ہوتا نظر نہ آ رہا تھا، وہ جیسے آگ کے دہانے پر بیٹھ کر پانی کی ہلکی ہلکی پھوار سے اسے بجھانے کی کوشش کر رہی تھیں، مگر یہ نسخہ کام نہ کر رہا تھا۔ الفاظ کے گھاؤ، لگانا آسان اور ان کا علاج نا ممکن ہوتا ہے... ایک ہلکی سی لرزش انسان کو کنویں میں پھینک دیتی ہے اور سو چھلانگیں لگا کر انسان باہر نہیں آ سکتا... '' آپ نے ایسی بات کیوں کی پھر، اگر آپ یہ سب مانتی ہیں؟ '' میں نے پوچھا۔
'' آپ لوگ تو سب اپنی اپنی توپیں لے کر مجھ پر چڑھائی کرنے کو تیار ہو گئے ہیں... '' انھوں نے ذرا ناراضی سے کہا، '' بتایا تو ہے کہ جیسا میں نے ٹی وی پر سنا ہے، ویسا کہہ دیا... ''
'' آپ خود پڑھی لکھی ہیں اور ابھی آپ نے اپنے تعارف میں کہا کہ آ پ کا تعلق ایک علمی خاندان سے ہے، جس میں معروف لکھاری مرد و خواتین شامل ہیں... '' میں نے کہا، دل میں خیال آیا کہ تعلیم یافتہ اور پڑھا لکھا ہونا ہرگز اس بات کا ثبوت نہیں کہ انسان کی شخصیت میں ، اس کی سوچ میں اور اس کے پس منظر میں تبدیلی واقع ہو جائے۔ جو کچھ ارد گرد کہا اور سنا جا رہا ہے ، جو کچھ ٹیلی وژن کے چینلوں پر بتایا جا رہا ہے... اس کو انتہائی مصدقہ انداز میں اور یوں بیان کرنا کہ جیسے سب کچھ آپ نے ہوتے ہوئے دیکھا ہے... جو پراپیگنڈا اس ملک اور اس ملک کے ریڑھ کی ہڈی جیسے اہم اداروں کے خلاف کیا جا رہا ہے، اس کی روح کو سمجھے بغیر... اس کے نقصانات کا اندازہ کیے بغیر، بات کو سینہ گزٹ کا hot topic بنا کر ہر محفل کا حصہ بنا دیا جاتا ہے... میں ، آپ اور ہم سب، ان جانے میں اس سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
کیوں ہیں ہم اتنے بودے کہ جو چاہتا ہے ہماری ڈوریاں پکڑ کر ہمارے منہ میں اپنے الفاظ ٹھونس کر ہمیں اپنے اہم ترین اداروں کے خلاف منہ بھر بھر کر بولنے پر مجبور کرتا ہے... اور کیا ہم نے اپنے ضمیر کو اتنی گہری نیند سلا رکھا ہے کہ اتنے حادثات اور اتنی رسوائیوں کے باوجود بھی اس کی آنکھ ہی نہیں کھل رہی؟؟؟خود سے سوال کریں!!!!
کوئی اس تیزی سے پھیلنے والے مرض کا کوئی علاج جانتا ہو تو ہم بھی جاننا چاہیں گے...
مگر اب جو الفاظ کا بم انھوں نے پھاڑا تھا وہ ان کی اپنی بات کی نفی کر رہا تھا... اس محفل میں مردانہ حصے میں جو شخصیات بیٹھی تھیں، ان میں کئی ریٹائرڈ سول اور فوجی تھے، ان کے ساتھ نیول چیف اور چیئرمین جائنٹ کے علاوہ کئی سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری بھی تھے جن کا کوئی نہ کوئی تعلق فوج سے تھا اور ان سب کی بیگمات اس کمرے میں تھیں، جہاں ابھی ابھی یہ بات ہوئی تھی۔ '' کس طرح کہہ سکتی ہیں یہ بات آپ؟ '' کسی نے سوال کیا۔
'' آپ اپنے گھر دیکھ لیں، اپنے پلاٹ دیکھ لیں، اپنی سہولیات دیکھ لیں... ''
'' آپ لوگوں کو ہمارے مسائل اور مشکلات بھی نظر آتی ہیں کبھی؟ '' ایک سینئر افسر کی بیگم نے سوال کیا، '' کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہم جب ہر صبح اپنے شوہروں ، بھائیوں اور بیٹوں کو گھر سے نکلتے وقت اللہ کے حوالے کرتے ہیں تو ہمیں علم نہیں ہوتا کہ شام کو ان کا چہرہ دوبارہ دیکھنا نصیب ہو گا کہ نہیں... ایک فوجی سے شادی ہوتی ہے تو پہلی رات ہی وہ اپنی بیوی کو بتا دیتا ہے کہ اس کی جان ملک اور قوم کی امانت ہے، اس کے کاندھوں پر اس ملک کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کا فرض ہے... '' بات کرتے کرتے وہ آبدیدہ سی ہونے لگیں تو میں نے سوچا کہ کیا ضرورت ہے ان کے پیاروں کو ہم جیسے بے حسوں کی فکر کرنے کی... کیوں ان کے جوان اور پیارے پیارے لال دشمنوں کی گولیوں کی بوچھاڑوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں؟ کاش میں ان جیالوں سے پوچھ سکتی... کس کی خاطر جان دیتے ہو تم پیارو، ایسے لوگوں کی خاطر جو ہر ہر فورم پر تمہیں نیچا دکھانے ، تمہیں لالچی ثابت کرنے اور تمہاری قربانیوں کی نا قدری کرتے ہیں...
'' کون ہیں یہ فوجی مس صبوحی؟ '' میں نے سوال کیا، '' کوئی باہر سے درآمد کیے گئے لوگ؟ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق... یا کوئی زر خرید؟ ''
'' کیا مطلب؟ '' مس صبوحی نے پوچھا۔
'' مطلب یہ کہ فوج کن لوگوں سے بنتی ہے، ہمارے اپنوں سے ہی نا، ہمارے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے، جو اپنے جذبوں میں صادق اور مادر وطن کے متوالے ہیں۔ جن کی رگوں میں وفاداری کا لہو ہے، جن کے خمیر کی مٹی جنت کے باغوں سے چنی جاتی ہے، جن کے وجود تہہ خاک جاتے ہیں تو اس ملک کے پھلوں میں ذائقہ اور پھولوں کے رنگ قائم رہتے ہیں... '' میرا لہجہ جذباتی ہو گیا۔
'' آپ لوگ کھانا کھائیں... '' مس صبوحی نے کہا، '' میں نے تو یونہی ایک بات کہہ دی، جس طرح میں نے ٹیلی وژن پر سنا ہے... ''
المیہ یہی ہے کہ اس ملک کی جڑوں میں بیٹھ جانے والے لیڈر اور ارزاں نرخوں پر بکے ہوئے اذہان، جو ٹیلی وژن اسکرینوں پر بیٹھ کر منافرت کا زہر ہمارے ذہنوں میں پھیلاتے ہیں، اصل میں یہی لوگ ہیں جو ہماری صفوں میں گھس کر ہمارے یقین کو کمزور کر دیتے ہیں، اسی تھالی میں چھید کرتے ہیں جس میں انھیں کھانا ہوتا ہے۔
'' کھانا کیا کھائیں... ہمارے تو حلق میں نوالے ہی پھنس گئے ہیں، جو کچھ کھا رہے ہیں، آپ کے بیان کے بعد وہ بھی حلق میں سے نہیں اتر رہا...'' ایک خاتون نے اپنی کیفیت بیان کی۔
'' آپ کو صرف ہمارے پلاٹ اور گھر نظر آتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ فوج کا کیا نظام ہے اور فوج میں اپنی مدت ملازمت پوری کرنے والے کس طریقے سے ، کتنے عرصے میں اور کتنی رقم اپنے گھر یا پلاٹ کی مد میں جمع کرواتے ہیں... کتنی مشکل سے وہ یہ رقم ہر ماہ بچا پاتے ہیں ... شہر شہر، قریہ قریہ اور ڈگر ڈگر گھومتے ہوئے کس طرح وہ مشکلات اور کٹھنائیوں سے ہنس ہنس کر کھیلتے اور آخر اس قابل ہوتے ہیں کہ سر چھپانے کو ٹھکانہ میسر آ جاتا ہے... ایسی ایسی جگہوں پر ہم لوگ رہتے ہیں کہ جہاں بسا اوقات سڑک تک کی رسائی نہیں ہوتی، نہ کوئی اسکول نہ کوئی تفریحی مقام اور ہم خود اپنی ایک ننھی سی دنیا بسا کر اسی کو جنت سمجھ لیتے ہیں... '' ایک خاتون نے اس نظام کی کچھ وضاحت کرنے کو کوشش کی۔
'' کوئی بات نہیں... '' مس صبوحی نے کہا، '' جہاں سب کھا رہے ہیں وہاں فوج بھی کھائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں... '' جلتی پر تیل کا کام کرنے والے الفاظ نے کمرے میں سناٹا طاری کر دیا۔ کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا، دلائل وہاں کام کرتے ہیں جہاں بات کرنے والا ایسی بات کر رہا ہو جس کے بارے میں اس کے پاس ثبوت ہوں، مگر جب الفاظ کسی اور کے ہوں، منہ کسی اور کا اور کھوکھلی بات کو زور زور سے کیا جائے ...اس بات کی تہہ میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
'' آپ کو ہی نصیب ہو ایسا کھانا، ہم تو اللہ کا کرم ہے کہ حلال کی کھاتے ہیں، موت کی آنکھوں سے ہمہ وقت آنکھیں دو چار رہتی ہیں ... مگر سکون سے سوتے ہیں کہ ہمارے لیے موت شہادت ہے اور زندگی اللہ کا انعام۔ ہر دو میں سکون ہے، نہ کسی کا دیا کھاتے ہیں، نہ اپنے ضمیر بیچتے ہیں، نہ اقرباء پروری ہے، نہ رشوت دے کر فائلوں کو حرکت دی جاتی ہے، نہ سفارش سے تبادلے اور ترقیاں ہوتی ہیں... '' ایک خاتون نے مدلل بات کی۔
'' ہاں ہاں ... یہ سب تو ہے، میں مانتی ہوں! '' مس صبوحی نے اپنے الفاظ کا اثر سب پر دیکھ لیا تھا اور اب انھیں کسی طور ان کا مداوا ہوتا نظر نہ آ رہا تھا، وہ جیسے آگ کے دہانے پر بیٹھ کر پانی کی ہلکی ہلکی پھوار سے اسے بجھانے کی کوشش کر رہی تھیں، مگر یہ نسخہ کام نہ کر رہا تھا۔ الفاظ کے گھاؤ، لگانا آسان اور ان کا علاج نا ممکن ہوتا ہے... ایک ہلکی سی لرزش انسان کو کنویں میں پھینک دیتی ہے اور سو چھلانگیں لگا کر انسان باہر نہیں آ سکتا... '' آپ نے ایسی بات کیوں کی پھر، اگر آپ یہ سب مانتی ہیں؟ '' میں نے پوچھا۔
'' آپ لوگ تو سب اپنی اپنی توپیں لے کر مجھ پر چڑھائی کرنے کو تیار ہو گئے ہیں... '' انھوں نے ذرا ناراضی سے کہا، '' بتایا تو ہے کہ جیسا میں نے ٹی وی پر سنا ہے، ویسا کہہ دیا... ''
'' آپ خود پڑھی لکھی ہیں اور ابھی آپ نے اپنے تعارف میں کہا کہ آ پ کا تعلق ایک علمی خاندان سے ہے، جس میں معروف لکھاری مرد و خواتین شامل ہیں... '' میں نے کہا، دل میں خیال آیا کہ تعلیم یافتہ اور پڑھا لکھا ہونا ہرگز اس بات کا ثبوت نہیں کہ انسان کی شخصیت میں ، اس کی سوچ میں اور اس کے پس منظر میں تبدیلی واقع ہو جائے۔ جو کچھ ارد گرد کہا اور سنا جا رہا ہے ، جو کچھ ٹیلی وژن کے چینلوں پر بتایا جا رہا ہے... اس کو انتہائی مصدقہ انداز میں اور یوں بیان کرنا کہ جیسے سب کچھ آپ نے ہوتے ہوئے دیکھا ہے... جو پراپیگنڈا اس ملک اور اس ملک کے ریڑھ کی ہڈی جیسے اہم اداروں کے خلاف کیا جا رہا ہے، اس کی روح کو سمجھے بغیر... اس کے نقصانات کا اندازہ کیے بغیر، بات کو سینہ گزٹ کا hot topic بنا کر ہر محفل کا حصہ بنا دیا جاتا ہے... میں ، آپ اور ہم سب، ان جانے میں اس سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
کیوں ہیں ہم اتنے بودے کہ جو چاہتا ہے ہماری ڈوریاں پکڑ کر ہمارے منہ میں اپنے الفاظ ٹھونس کر ہمیں اپنے اہم ترین اداروں کے خلاف منہ بھر بھر کر بولنے پر مجبور کرتا ہے... اور کیا ہم نے اپنے ضمیر کو اتنی گہری نیند سلا رکھا ہے کہ اتنے حادثات اور اتنی رسوائیوں کے باوجود بھی اس کی آنکھ ہی نہیں کھل رہی؟؟؟خود سے سوال کریں!!!!
کوئی اس تیزی سے پھیلنے والے مرض کا کوئی علاج جانتا ہو تو ہم بھی جاننا چاہیں گے...