دو تقریریںایک مفاہمانہ دوسری مخاصمانہ

11مئی2013 کے الیکشن کے بعد ہمارے یہاں کا سیاسی ماحول ایک خوشگوار فضا اور رنگ لیے ہوئے ہے۔

mnoorani08@gmail.com

11مئی2013 کے الیکشن کے بعد ہمارے یہاں کا سیاسی ماحول ایک خوشگوار فضا اور رنگ لیے ہوئے ہے۔ مرکز میں بننے والی نون لیگ کی حکومت تمام سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کیے مسائل کی گھمبیری سے نبرد آزما ہو رہی ہے۔ سارے ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے، کراچی میں امن قائم کرنے اور وطنِ عزیز کو مالی بحران سے نکالنے کی تمام تر ذمے داریوں کا احساس کیے وہ رفتہ رفتہ بہتری کی سمت میں چل پڑی ہے۔ باوجود چند ناگوار فیصلوں کے ہمارے حکمرانوں کی معاملہ فہمی اور سنجیدہ کوششوں کو دیکھ کر لوگوں کو یہ اُمید ہو چلی ہے کہ اگر خلوصِ نیت اور نیک ارادوں کے ساتھ عوام اور ملک کو مشکلات سے نکالنے کی حکمتِ عملی یونہی جاری و ساری رہتی ہے تو انشاء اللہ یہ ملک ایک بار پھر ترقی و خوشحالی کی راہوں پر گامزن ہو جائے گا۔ میاں صاحب کو اِس بار ہمارے لوگ ماضی کے برعکس ایک نئے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ بے مقصد اور بلاوجہ کی محاذ آرائی کی سیاست کی بجائے وہ ایک سنجیدہ اور متین سیاست کے ساتھ تمام فریقوں کو ساتھ لے کر صرف ملک و قوم کی خدمت کا ارادہ اور عزم کیے ہوئے ہیں۔

کراچی میں پائیدار امن کے لیے اُنہوں نے وفاق کے غیر ضروری مداخلت کے بغیر وہاں کی صوبائی حکومت ہی کے زیرِنگرانی ایک ایسے ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز کیا جسے تمام سیاسی گروپس اور جماعتوں کی حمایت اور منظوری حاصل تھی۔ یہی حکمتِ عملی اور اندازِ حکومت دیگر مسائل کے حل میں بھی دیکھی جا رہی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کا معاملہ ہو یا بلوچستان کی پیچیدہ صورتحال ہر معاملے میں وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ خواہ مخواہ کی محاذ آرائی اور لعن طعن جیسے فضول مشغلوں میں الجھنے کی بجائے اُنہوں نے با مقصد اور تعمیری سیاست کا سفر شروع کیا ہے۔ اُن کے اِس طرزِ عمل کو دیکھتے ہوئے مخالف سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی ایسا ہی دستِ تعاون بڑھایا گیا اور مل جل کر وطن ِ عزیز کو مختلف بحرانوں سے نکالنے میں وہ حکومت کے مکمل حامی اور مددگار ہو گئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد ِ حزبِ اختلاف جناب خورشید شاہ کا رویہ ابھی تک انتہائی دوستانہ اور مفاہمانہ رہا ہے اور مخالفت برائے مخالفت کی بجائے وہ حکومت کے صحیح اور درست کاموں میں شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی حال کچھ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کا بھی ہے اور وہ حکمرانوں کے مثبت رویوں کا جواب اُسی انداز اور طرز پر دیتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے بھی اپنے حالیہ خطاب میں چند ایک بڑی خوبصورت باتیں کی ہیں۔ اور حکمرانوں کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے یہ تک کہہ گئے کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ جو کام ہم گزشتہ پانچ سالوں میں نہ کر سکے وہ تم کر ڈالو ۔ ملک کو موجودہ مشکلات اور بحران سے نکالنے میں وہ حکومت کے دوست اور ساتھی بنے ہوئے ہیں۔ سابق صدرِ مملکت کے اِن خوبصورت احساسات اور جذبات کو دیکھتے ہوئے یہ کہیں گمان نہیں ہو رہا ہے کہ یہ وہی آصف علی زرداری ہیں جو اپنے صدارت کے پانچ سالہ دور میں ہر برس گھڑی خدا بخش نوڈیرو لاڑکانہ میں بی بی شہید کی برسی کے موقعہ پر میاں صاحب کو تنقید و تحقیر کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے طنزیہ کلمات سے بھی خوب نوازا کرتے تھے۔ جس مولوی نواز شریف کی سوچ کے وہ سخت ترین مخالف تھے آج اُسی مولوی نواز شریف کی سوچ کے وہ کس قدر حامی اور قدر داں بن گئے ہیں۔ مفاہمت اور تعاون کی اِس حیران کن پیشکش پر یقین کرنے کو ابھی ہمارا ذہن اور دل ماننے کو بمشکل تیار ہو رہا تھا کہ دوسرے ہی لمحے پیپلز پارٹی کے نوخیز و نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا زہر اور انگارے اُگلتا وہ بیان آ گیا جس کی توقع پیپلز پارٹی کی زریں جمہوری اُصولوں کی دیکھتے ہوئے ایک لازمی امر کے طور پر کی جا رہی تھی۔ پاکستان کی سیاست میں اِس طرح کی آتشبازی اور شعلہ بیانی اگر نہ ہو تو شاید ہماری قوم کو مزہ بھی نہیں آتا۔


سابق صدر مملکت کی مفاہمانہ اور مخلصانہ پیشکش کو جناب بلاول بھٹو نے جس تیزی کے ساتھ اپنے نیک ارادوں اور عزائم کی بھینٹ چڑھا دیا وہ نہ صرف حیران کن تھا بلکہ افسوسناک بھی۔ اُن کا یہ بے وقت کا چنگھاڑنا اور شور مچانا کچھ زیادہ کارگر ثابت نہ ہوا۔ 11 مئی 2013 کی الیکشنوں میں جب میدان سجا ہوا تھا تو وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلے اور صرف چند ایک سیاسی بیانات کے بعد تو وہ منظرِ عام ہی سے غائب ہو گئے تھے۔ اور اب اچانک اپنے والدِ محترم کو کمان بنا کر خود تیر بننے کی آرزو اور جستجو کرنے لگے۔ باپ اور بیٹے کے اِن دو انتہائی مختلف بیانوں کا اگر بغور دیکھا جائے تو ایک مکمل اخلاص اور مفاہمت سے بھر پور اور دوسرا مخاصمت اور عناد سے مزین اور آراستہ دکھائی دے گا۔ گرچہ سب جانتے ہیں کہ ان دونوں بیانوں کے پیچھے ایک ہی شخص کی سوچ اور فکر کار فرما ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ بلاول اتنی جذباتی اور جوش مارتی تقریر کر جائیں اور اسکرپٹ کی منظوری اپنے بابا سے نہ لیں۔

جناب بلاول بھٹو کو ایک کامیاب سیاستداں بنانے کی خواہش سابق صدر کے دل و دماغ میں ایک عرصے سے پروان چڑھ رہی ہے لیکن بلاول بھٹو ابھی تک اُن کی اُمیدوں اور آرزؤں کی تسکین کا سامان نہیں بن سکے۔ سابقہ الیکشنوں میں اُنہیں پارٹی کے چیئر پرسن کا عہدہ دیکر اپنے سیاسی جوہر اور کرامات دکھانے کا سنہری موقعہ بھی سونپا گیا لیکن وہ طالبان کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہو کر کسی بڑے عوامی جلسے کا اہتمام کرنے اور قوم کو لیڈ کرنے کی ہمت و جرأت ہی نہ دکھا سکے ۔ اب سیاسی دنگل ختم ہونے کے بعد اُن کا چنگھاڑنا اور غرّانا ایک سعیِ لاحاصل اور بے نتیجہ کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ جس اگلے الیکشن میں وہ کراچی کی پتنگ کاٹنے، خیبر پختون خوا کو سونامی سے بچانے اور پنجاب میں شیر کا شکار کرنے کا اعلان آج کر رہے ہیں اُس میں ابھی بہت سا وقت باقی ہے۔ قوم ابھی اُن کی پارٹی کے گزشتہ پانچ سالا دور کا خمیازہ ہی بھگت رہی ہے۔ اتنی جلدی وہ اُنکے سحر میں ایک بار پھر گرفتار ہونے کو تیار نہیں ہے۔

جذباتی نعروں اور سحر انگیزی کا وقت اب لد چکا۔ قوم کے دلوں کو اپنی اعلیٰ کارکردگی اور درست حکمتِ عملی سے ہی جیتا جا سکتا ہے۔ اداروں کی پامالی اور ملک کو معاشی طور پر کنگال کر کے اپنے لوگوں کو اغیار کا حاجت مند اور غلام بنانے والوں کا فی الحال ملکی سیاست کوئی مقام نہیں ہے۔ ابھی قوم کے ذہنوں سے سابقہ دور کی ناقص کارکردگی اور کرپشن کی کہانیاں بھولی نہیں ہیں۔ احتساب کے کمزور نظام اور آئینی اور قانونی پیچیدگیوں کی بدولت اگر وقتی طور پر کوئی اپنے انجام سے بچ گیا ہے تو اُس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ قطعی طور پر معصوم اور بے گناہ ہے۔ سیاست کے اصول اور طریقے اب بدل چکے ہیں ۔ جہالت اور بے خبری کا دور جا چکا ہے۔ عوام کو اپنے اچھے اور بُرے کی تمیز ہو چکی ہے۔ اب یہاں صرف وہ ہی سیاست کرے گا جو خلوصِ نیت سے قوم کو ترقی و خوشحالی کی راہوں پر گامزن کرے گا۔
Load Next Story