طبی این آر او بھی کیوں

موجودہ حکومت کا رویہ اپوزیشن کے ساتھ انتقامی اور غیر سیاسی ہے جس کا اظہار برملا کیا جاتا رہا ہے۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے بقول ''نظریہ ضرورت کے تحت طبی این آر او وجود میں آگیا ہے جس کے تحت ہی نواز شریف کا بیماری کا مسئلہ حل ہوا ہے'' وزیر اعظم نے اس بار یہ تو نہیں کہا کہ این آر او نہیں دوں گا بلکہ پہلی بار یہ کہا ہے کہ ماضی میں کرپٹ سابق حکمرانوں کو این آر او دے کر ملک کو بہت نقصان پہنچایا گیا جس کی وجہ سے ملک کی یہ حالت ہوئی ہے۔

ملک میں مارشل لا متعدد بار لگے اور سیاستدانوں پر ایبڈوکے تحت پابندیاں بھی جنرل ایوب کے دور میں لگی تھیں۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے طویل مارشل لا میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگائی تھیں اور اقتدار میں آنے کے بعد دو سال ہی میں سابق وزیر اعظم بھٹوکو اپریل 1979 میں پھانسی بھی دی گئی تھی حالانکہ بعض اسلامی ممالک کے سربراہوں نے جنرل ضیا کوکہا تھا کہ وہ بھٹو کو پھانسی نہ دیں بلکہ ملک سے باہر جانے دیں مگر جنرل ضیا الحق نہیں مانے تھے۔

سابق وزیر اعظم بھٹو کے لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے جنرل ضیا الحق سے معافی کی اپیل کرنے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے جنرل ضیا الحق نے ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی تھی۔ جنرل ضیا الحق 1977 میں مارشل لا لگانے کے بعد مری میں حراست میں معزول وزیر اعظم بھٹو سے ملنے گئے تھے تو بھٹو صاحب سوٹ میں ملبوس بڑے کروفر سے بیٹھے تھے اور جنرل ضیا الحق نے کھڑے ہوکر وردی میں سلیوٹ بھی کیا تھا مگر بھٹو صاحب غصے میں تھے اور انھوں نے ضیا الحق کو دھمکیاں دی تھیں۔

اس ملاقات کی تصویر میڈیا پر آئی تھی جس کے بعد کہا گیا تھا کہ بھٹو کے رویے کی وجہ سے ضیا الحق نے اس ملاقات کے بعد الیکشن نہ کرانے اور بھٹو کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا تھا ،کیونکہ بھٹو نے ضیا الحق کو آرٹیکل 6 کے تحت پھانسی دلوانے کی دھمکی دی تھی۔ ایسے حالات میں قبر ایک تھی جس میں بھٹو نے جانا تھا یا ضیا الحق نے۔ اگر مری میں بھٹوکا رویہ انتقامی نہ ہوتا تو ممکن تھا انھیں سزائے موت نہ ہوتی۔

بھٹو مرحوم کا خیال تھا کہ ضیا الحق انھیں پھانسی دینے کی جرأت نہیں کریں گے اور ضیا الحق نے سوچا ہوگا کہ اگر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بنے تو انھیں ضرور نقصان پہنچائیں گے۔ بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی آرمی چیف جنرل گل حسن کو فارغ کیا تھا اور سانحہ مشرقی پاکستان اور ایک لاکھ فوجی بھارتی قید میں ہونے کی وجہ سے فوج دباؤ میں تھی اور بھٹو طاقتور حکمران تھے۔

سابق وزیر اعظم بھٹو اگر حالات دیکھ کر مفاہمتی پالیسی اختیار کر لیتے اور ملک سے باہر چلے جاتے تو بعد میں واپس آسکتے تھے اور آج سیاست کی بجائے عملاً زندہ ہوسکتے تھے۔ بھٹو ملک چھوڑنے پر تیار ہوتے تو ضیا انھیں این آر او دے سکتے تھے اور انھیں یہ اختیار بھی تھا مگر وزیر اعظم عمران خان کو این آر او دینے کا اختیار ہی نہیں ہے کیونکہ وہ غیر جمہوری حکمران نہیں بلکہ الیکشن کے ذریعے اقتدار میں لائے گئے ہیں اور اپوزیشن 2018 کے انتخابات کو متنازعہ اور وزیر اعظم کو منتخب نہیں سلیکٹڈ قرار دیتی آرہی ہے اور مولانا کا دھرنا بھی اسی وجہ سے ہے۔


مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے قبل وزیر اعظم عمران خان کا رویہ اپوزیشن اور خصوصاً نواز شریف اور آصف علی زرداری کے خلاف واقعی بہت سخت تھا۔ کسی نے بھی ان سے این آر او نہیں مانگا تھا کیونکہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری کی طرف سے این آر او کے لیے حکومت سے رجوع کرنا بھی ان کی اپنی سیاست کے لیے نقصان دہ ہوتا اور دونوں کبھی اپنے پر کرپشن کے لگائے گئے الزامات تسلیم کریں گے نہ کوئی رقم حکومت کو کبھی دیں گے بلکہ اگر انھیں سیاست میں رہنا ہے تو وہ حکومت سے مفاہمت کی بجائے جیل میں رہنا ہی پسند کریں گے کیونکہ جیل میں رہنا ہی ان کی سیاست کی زندگی ہے۔ شیخ رشید اور بعض وزرا مسلسل این آر او کے لیے جھوٹے دعوے کرتے رہے اور وزیر اعظم کہتے رہے کہ این آر او نہیں دوں گا، نہیں دوں گا مگر کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ این آر او مانگ کون رہا ہے۔

قید اور نیب کے مقدمات بھگتنے والے نواز شریف اور آصف زرداری اس سے پہلے بھی گرفتار ہوئے اور جنرل مشرف کے قیدی رہے ہیں مگر جنرل مشرف نے عمران خان کی طرح کسی کو این آر او دینے کی بات بھی نہیں کی تھی اور انھوں نے خفیہ معاہدہ کرکے سزا یافتہ نواز شریف کو سعودی عرب جانے دیا اور پھر 8 سال بعد بے نظیر بھٹو کو خود دبئی جاکر این آر او دیا تھا اور اپنی حکمران مسلم لیگ (ق) کو بھی اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا تھا کیونکہ وہ بااختیار صدر تھے جنھوں نے بے نظیر کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھانے کے لیے پہلے اپنے قیدی آصف زرداری کو ملک سے باہر جانے دیا تھا۔

موجودہ حکومت کا رویہ اپوزیشن کے ساتھ انتقامی اور غیر سیاسی ہے جس کا اظہار برملا کیا جاتا رہا ہے اور اپوزیشن رہنماؤں سے ملنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔پی ٹی آئی قیادت نے ارکان الیکشن کمیشن کے تقرر پر آئینی طور پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے مشاورت تک کرنا ضروری نہیں سمجھا اور ضد کی وجہ سے اپنے صدر سے حکم جاری کرا دیا جو بعد میں ہائی کورٹ سے کالعدم قرار پایا ہے جو پی ٹی آئی قیادت کے رویے کی وجہ سے ہوا جب کہ ابھی الیکشن کمیشن کے سربراہ کا تقرر بھی آئین کے تحت اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے بغیر کیا ہی جاسکتا ہے۔ مفاہمت نہ ہونے کے آثار ابھی سے نمایاں ہیں۔

کہاں وزیر اعظم امریکا میں قید رہنماؤں کی قانونی مراعات ختم کرنے کا اعلان کر رہے تھے کہاں اب حکومت خود کہہ رہی ہے کہ انھیں نواز شریف کے علاج کے لیے جانے پر اعتراض نہیں ہے۔ آصف زرداری حکومت سے کوئی رعایت مانگنا نہیں چاہتے ۔ نیب کے رویے کو اپوزیشن جانبدارانہ کہتی آ رہی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کو پکڑنے کا شوق ہے مگر پکڑے گئے لیڈروں کے ریمانڈ پر ریمانڈ لیے جا رہے ہیں اور گرفتار رہنماؤں کے مقدمات آگے نہیں بڑھنے دیے جا رہے۔

بعض اینکر اور وزیر سب سے ایک جیسے سلوک کی بات کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے جہاں امیر و غریب کے لیے کہنے کے لیے تو ایک قانون ہے مگر عملی طور پر ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ یہاں ہر جگہ سرکاری دفاتر ہوں، پولیس، عدلیہ اور حکومت ہر جگہ اس کی حیثیت کے مطابق سلوک ہوتا ہے۔ حکومت کی حمایت کرنے والے مجرم بھی آزاد پھرتے ہیں اپوزیشن کا ساتھ دینے والا بے بنیاد مقدمات میں اب سماعتیں بھگتتا ہے اور اس کے ریمانڈ پر ریمانڈ لیے جاتے ہیں۔ بے گناہوں کو تو سالوں ضمانت نہیں ملتی اور حکومت کے حامیوں پر نیب ہاتھ نہیں ڈالتی۔ امیروں کو جیلوں میں ہر سہولت میسر ہے وہ وہاں شاہانہ زندگی گزارتے ہیں۔

طبی این آر او واقعی وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہے اور عمران خان جیسا وزیر اعظم بھی اپنے سخت مخالف کو کسی مصلحت پر ہی این آر او بغیر رقم وصولی طبی بنیاد پر این آر او دے ہی دیتا ہے یہ این آر او کسی غریب کو نہیں بلکہ مالی و سیاسی حیثیت کے حامل با اثر کو ہی ملتا ہے۔
Load Next Story