حراستی مراکز کیس موجودہ دور کا اہم ترین مقدمہ ہےچیف جسٹس
پہلے فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننسز کا جائزہ لیں گے‘ زیرحراست افراد کا معاملہ آخر میں دیکھیں گے
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننسز اور حراستی مراکز کے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ حراستی مراکز میں قید افراد کا مقدمہ موجودہ دور کا اہم ترین اور سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں5 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، آغاز پر حکومت نے حراستی مراکز سے متعلق تفصیلات سر بمہر لفافے میں جمع کرائیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فوج کو 2008 میں کس مقصد کیلئے طلب کیا گیا؟ فوج طلب کرنے پر بھی قانون کے تحت ہی کام کر سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا فوج کو 2008 میں سول انتظامیہ کی مدد کیلئے بلایا گیا جبکہ حراستی مراکز 2011 میں بنائے گئے، جولائی 2015 میں بھی فوج کو طلب کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کیا قانون منظور کرنے سے پہلے کسی نے پڑھا نہیں؟ مسودے میں املا کی بہت غلطیاں ہیں، پہلے آرڈیننس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینگے، زیرحراست افراد کا معاملہ آخر میں دیکھیں گے۔
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ کروڑوں لوگوں کے تحفظ کیلئے چند افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے، مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں5 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، آغاز پر حکومت نے حراستی مراکز سے متعلق تفصیلات سر بمہر لفافے میں جمع کرائیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فوج کو 2008 میں کس مقصد کیلئے طلب کیا گیا؟ فوج طلب کرنے پر بھی قانون کے تحت ہی کام کر سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا فوج کو 2008 میں سول انتظامیہ کی مدد کیلئے بلایا گیا جبکہ حراستی مراکز 2011 میں بنائے گئے، جولائی 2015 میں بھی فوج کو طلب کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کیا قانون منظور کرنے سے پہلے کسی نے پڑھا نہیں؟ مسودے میں املا کی بہت غلطیاں ہیں، پہلے آرڈیننس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینگے، زیرحراست افراد کا معاملہ آخر میں دیکھیں گے۔
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ کروڑوں لوگوں کے تحفظ کیلئے چند افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے، مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔