سیاسی اور مذہبی منظر نامہ

اگر خدا نخواستہ عمران خان بھی ناکام ہوگئے تو پاکستان میں سول آمریت آ جائے گی اور ملوکیت، بادشاہت کی شکل میں ہو گی۔

mohsin014@hotmail.com

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالیں تو اس میں پی پی پی، مسلم لیگ نواز۔ فنکشنل مسلم لیگ، مسلم لیگ قائداعظم، نیشنل عوامی پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام۔ جمعیت علمائے پاکستان، متحدہ قو می مومنٹ، سنی تحریک، پاکستان عوامی تحریک، پاک سرزمین پارٹی۔ یہ جماعتیں قابل ذکر رہی ہیں۔ ان میں پی پی پی پاکستان کی واحد جماعت ہے جو وجود پاکستان کے بعد 1967ء میں ایک روشن خیال ، جمہوریت پسند، وفاق پرست جماعت کے طور پر وجود میں آئی جب کہ جماعت اسلامی جو 26 اگست 1941ء میں پاکستان بننے سے پہلے وجود میں آئی۔ اس کے بانی سید مودودی تھے، وہابی نظریہ کے حامی تھی۔ انھوں نے اسی نظریہ اور افکار پر یہ جماعت بنائی۔

یہ جماعت ہندوستان، بنگلہ دیش، آزاد کشمیر اور پاکستان میں ہے۔ اسی طرح جمعیت علمائے ہندوستان میں اسی نظریہ اور اٖفکار کی جماعت جمعیت علمائے اسلام پاکستان میں ہے۔ یہ بھی مخصوص مکتبہ فکر کی جماعت ہے۔

اسی طرح1970ء کے انتخابات میں ایک مذہبی جماعت اہل سنت ہوا کرتی تھی۔ اسی جماعت اہل سنت میں سے میں جمعیت علمائے پاکستان وجود میں آئی، جس کے بانی مولانا شاہ احمد نورانی تھے۔ یہ جماعت دراصل حنفی مکتبہ فکر کی تھی، مگر بعد میں اس میں بریلوی کے نام سے ایک اور جماعت بنی، اسی طرح پاکستان فقہ جعفریہ والوں نے تحریک جعفریہ بنائی اور حال ہی میں ایک اور شعیہ امامیہ مکتب کی جماعت وحدت المسلمین بنی۔

اگر ان جماعتوں پر ایک گہری نظر ڈالیں تو معلوم ہو گاکہ جماعتیں مختلف العقیدہ۔ مختلف نظریات کی ہیں، اس جماعت سے وابستہ لوگ اسی جماعت کے نظریہ۔ عقیدہ اور فکرکے ہیں۔ مثلاً جماعت اسلامی ہو یا جمعیت علمائے اسلام یا جمعیت علمائے پاکستان ان جماعتوں میں کوئی اہل تشیع نہیں ہے۔

اسی طرح اہل تشیع کی کسی جماعت میں کوئی سنی نہیں ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ ان جماعتوں کے مکتبہ فکر کے لوگ اپنے علاوہ کسی اور کو راہ ہدایت پر نہیں مانتے، اسی لیے ان میں نظریاتی، فقہی اور فکری فرق ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو ایک دوسرے کو اتفاق اور اتحاد کی طرف نہیں آنے دیتا۔

میں سمجھتا ہوں جب اللہ نے ہر انسان کو یہ آزادی دی ہے کہ وہ جس راہ کو اپنائے۔ جس عقیدہ کو ایمان بنائے۔ جس فکرکو آگے بڑھائے تو کسی دوسرے کو یہ حق نہیں کہ اس پر پابندی لگائے۔ لیکن کم سے کم اس سچائی کو تسلیم کرے یہ تمام جماعتیں کسی خطہ نہ کسی حدود نہ کسی ملک کی پابند ہیں کیونکہ جو بھی انسان ان کے عقائد اور نظریات متفق ہے خواہ وہ عربی ہو یا عجمی۔ ہندی ہو یا سندھی۔ پاکستانی ہو یا سعودی۔ ترکی ہو یا ملائیشیائی۔ انڈونیشی ہو یا بنگلہ دیشی وہ اپنے اپنے فکر و نظر کی جماعت سے روحانی عقیدت کی بنیاد پر جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے ان جماعتوں کو پوری دنیا سے فنڈنگ ملتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔

میرا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ جماعتیں جب سیاسی میدان میں آتی ہیں تو چاہتی ہیں کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ انھیں ووٹ دیں۔ یہ شعیہ ووٹ بھی چاہتے ہیں، سنی بھی، سندھی ووٹ بھی، پنجابی ووٹ بھی۔ الغرض لسانی ووٹ بھی چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں انھیں آغا خانی، بوھری، ووٹ بھی ملیں۔ جو عملی طور پر کسی طرح ممکن نہیں اسی لیے 72 سال سے آج تک کوئی مذہبی جماعت اتنے ووٹ نہیں لے سکی کہ اس کی حکومت بن سکتی۔


یہ حقیقت ہر مذہبی جماعت کے لوگ جانتے ہیں اسی لیے پاکستان میں جب کبھی مارشل لاء لگا تو مذہبی جماعتوں نے آمریت کو مضبوط کیا اور کندھا دیا۔ آپکے سامنے 1977ء کی مثال رکھتا ہوں جب 1977ء کے عام انتخابات ہوئے اور ذوالفقارعلی بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور پی پی پی کا جمہوری مزاج اور بھٹو صاحب کی قومی خدمات جس میں 90 ہزار جنگی قیدی اور مقبوضہ علاقوں کی ہندوستان سے واپسی، پاکستان میں ترقیاتی کام، اسٹیل مل کا کراچی میں قیام عباسی شہید اسپتال، قومی شناختی کارڈ اور تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ اور سب سے برا معرکہ کہ پاکستان کو عالم اسلام کو دنیا کا پہلا مسلم جوہری ملک بنانا تھا جس کی پاداش میں امریکا کے جمی کارٹر نے بھٹو اور ان کے خاندان کو ختم کرنے کا ارادہ کیا تو اس ارادے میں پاکستان کی اس وقت کی اپوزیشن جو پی این اے کے نام سے تھی، اس نے جمی کارٹر کے ارادے پر عمل کرنے میں ساتھ دیا۔

پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاالحق کسی طور پر مارشل لاء لگانا نہیں چاہتے تھے مگر امریکی ڈالروں نے پی این اے کی تحریک کو خوب آگے بڑھایا۔ اس میں اصغر خان، مفتی محمود، میاں طفیل محمد، سردار عطا اللہ مینگل، غلام مصطفی جتوئی اور مولانا شاہ احمد نورانی شامل تھے۔ بھٹو صاحب مذاکرات کے بادشاہ کہلاتے تھے۔

ہندوستان میں شملہ معاہدہ کروا کر اپنا لوہا منوایا، انھوں نے پی این اے سے بھی بڑے کامیاب مذاکرات کیے۔اس میں وزیر اعظم کے استعفیٰ کی شرط پی این اے نے واپس لی باقی پر معاہدہ ہو گیا مگر یہ معاہدہ امریکہ کے صدر جمی کارٹر کو پسند نہ آیا اس نے سازش جاری رکھی اور اپوزیشن کے ذریعے اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف پر دبائو ڈالا کہ وہ مارشل لاء لگا دیں وہ اس بہکاوے میں آ گئے اور 5 جولائی 1977ء کو جمہوریت کا چراغ گل ہو گیا اور 14پریل 1979ء کو جمہوریت کا بانی، ایشیا کا سب سے بڑا لیڈر، مسلمانوں کو جوہری قوت دینے والا ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر پہنچا دیا۔

ہمیں نہیں پتہ کہ بلاول زرداری نے یہ تاریخ پڑھی یا نہیںکاش پڑھی ہوتی تو آج پی پی پی جو چاروں صوبوں کی اکلوتی وفاقی جماعت تھی، آج سمٹ کر سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود نہ ہوتی۔ آج بھٹو کے چاہنے والے آنکھ کھولیں اور حقیقت کو مانیں جب سے یہ پی پی پی زرداری صاحب کی قیادت میں آئی اس کا سیاسی گراف اتنا گر گیا کہ پنجاب میں صفایا ہو گیا۔

میرے اس کالم کی روشنی میں عوام یہ فیصلہ کریں کہ آیندہ ووٹ ان کو دیں جو پاکستان میں نہ مذہب کے نام پر نہ لسانیت کے نام پر ووٹ لیں۔ صرف اور صرف پاکستانیت کے نام پر وفاق کے نام پر جو ووٹ مانگے وہی حقیقی سیاستدان ہے۔ اور ہمیں جتنی جلد ہو 18 ویں ترمیم کو ختم کر دینا چاہیے اس نے ریاست کوکمزور کیا ہے۔

آج ہمارا شہر قائد جہاں سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں، ہر طرف گٹر ابل رہے ہیں۔ نہ بجلی ہے، نہ پانی، نہ گیس اتنا بدترین نظام حکومت ہے بلکہ لگتا ہے پورا صوبہ بیوروکریٹس کے رحم و کرم پر ہے۔ اب یہ ذمے داری پی ٹی آئی پر ہے، جس نے اس شہرکراچی سے قومی 14 سیٹیں لی ہیں۔ صدر ہوں یا گورنر۔ وزیر اعظم ہوں یا بحری وزارت کے وزیر ہوں یا آبی وسائل کے وزیر ان سب پر بھاری ذمے داری ہے کہ مزید تاخیر کیے بغیر یہاں کے بلدیاتی انتخابات کے لیے آئین کے خاص اختیارات سے نیا بلدیاتی نظام لائیں جو شہری حکومت کے طور پر ہو، تاکہ پاکستان میں پی ٹی آئی کا وقار بحال ہو۔

ٹیکس کا نظام ہٹ دھرمی کے بجائے مفاہمت اختیارکی جائے اور فوری طور پر اشیائے خور و نوش پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کے لیے اناج، دالیں، سبزیاں، فروٹ، گوشت کی برآمدات کو 9 ماہ کے لیے بند کر دیا جائے جب مہنگائی کم ہو تو پھر اس کی پیدا وار بڑھا کر برآمدات کی جائے۔ اس وقت پاکستان کے عوام کی اکثریت اور کاروبار و تجارت سے وابستہ لوگ عمران خان سے مطمئن نہیں ہیں حالانکہ اگر خدا نخواستہ عمران خان بھی ناکام ہوگئے تو پاکستان میں سول آمریت آ جائے گی اور ملوکیت، بادشاہت کی شکل میں ہو گی جیسا کہ عرب ملکوں میں ہے اس لیے سنجیدہ طبقہ چاہتا ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملے۔
Load Next Story