جمہوری نظام
انسان کو اگر بخار ہو جاتا ہے تو بخار صرف بیماری کی علامت ہوا کرتی ہے بیماری نہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوری نظام ہی ملک چلانے کے لیے ایک بہترین نظام ہے آج آپ کو میڈیا کی مختلف جگہوں پر جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا دکھائی دیتا ہے یقین جانیے کہ یہ صرف عوام کے اذہان کے ساتھ کھیلنے کی گھنائونی سازش ہے۔
آسان الفاظ کے اندر یہ افراد جو کہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کا نظام ملک چلانے کے لیے اچھا نظام نہیں ہے تو گویا وہ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو اپنی زندگی گزارنے کا کوئی اختیار نہیں اور آپ کی رائے کسی بھی طرح سے وزن نہیں رکھتی ۔اور بھولے بھالے شہری اس سازش کو نہ سمجھتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور خود اپنے آپ کو غلامی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ تعجب تو یہاں ہوتا ہے کہ جب میڈیا کے اندر نام نہاد دانشور جمہوریت کے اوپر سنگ باری کر رہے ہوتے ہیں ۔
میڈیا کی بنیاد جمہوریت پر ہے اگر میڈیا میں سے جمہوری نظام نکال دیا جائے تو وہ محض پروپیگنڈا بن کے رہ جاتا ہے۔ میڈیا کا کام ہی یہی ہے کہ طاقت کو عوام کے ہاتھ میں لا کر دے دیں۔جتنے بھی ریاست کے ادارے ہیں ان کو عوام کے تابع ہونا ضروری ہے جب کوئی بھی حکومتی ادارہ اپنی حدود اور قیود کے مطابق نہ چل رہا ہو تو اس کی اس غلطیوں کوعوام کو آگاہ کرنا میڈیا کا اولین فرض ہے۔
پاکستان کے اندر افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ ادارے اتنے طاقت ور ہو جاتے ہیں یا میڈیا کی ضروریات اس قدر جڑ چکی ہوتی ہیں کہ وہ عوام کے مفادات کی بجائے ان اداروں کے ساتھ وفاداری نبھانا شروع کردیتے ہیں یہ رویہ صحافتی اصولوں کے بالکل مخالف ہے۔ آپ اگر کسی بھی میڈیا پر کبھی بھی یہ بحث سنیں کہ جمہوریت بہترین طرز حکومت نہیں ہے بلکہ سمجھ جائیں کہ یہ صحافت نہیں بلکہ پروپیگنڈا کی کوئی ایک شکل ہے۔ جمہوریت کو کمزور کرنے کے اندر بہت سارے حلقوں کے مفاد بھی منسلک ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر آپ دیکھ لیں کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان میں جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے ممالک نے پاکستان کا منفی مفاد اٹھایا اسی کی دہائی کے اندر پاکستان کے اندر اگر جمہوریت ہوتی تو پاکستان شاید کبھی بھی افغانستان کے اندر نہ کودتا اور پھر افغانستان میں کودنے کے بعد جو خرابیاں پیدا ہوئی انھی کے اثرات سے ازالا کیا جا سکتا تھا ۔مگر پاکستان کے جو نوے کی دہائی کے اندرپاکستان کی جمہوریت پر شب خون مارا گیا ۔
کبھی منتخب وزیر اعظم کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا گیااور کبھی اسی وزیر اعظم کو پابند سلاسل بھی کیا گیا ۔آج عوام کو جمہوریت اور سیاست کے بارے میں علم رکھنا نہایت ضروری ہے سیاست بنیادی طور پر طاقت کے حصول کا کھیل ہے اور یہ سیاست ادارے بھی کر سکتے ہیں۔ جو کر ہمارے آئین اور قانون کی بات ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق سیاست صرف سیاست دانوں یاعام شہری کوئی بھی کر سکتا ہے لیکن کوئی بھی سرکاری شخص یا ادارہ سیاست کے اندر بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ نہیں لے سکتا تاریخ گواہ ہے کہ ایسا پاکستان میںبار بار ہوتا رہا ہے ۔کچھ لوگوں نے اس صورتحال کو نظریہ ضرورت سمجھ کر ملک پر لاگو کرنے کی کوشش کی اب صورتحال یہ ہے کہ ہر پاکستان کی سیاسی صورتحال سے ہر کوئی واقف ہے لیکن اس میں موجود کمی اورخامیاں ہیں اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بڑے بڑے دانشوروں کے پر جلتے ہیں۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کب تک ہم اس لولے لنگڑے نظام کو گھسیٹتے رہیں گے؟ آج اگر دنیا میں دیکھیں تو انھی اقوام کی عزت ہے جہاں پر جمہوریت مضبوط اور مستحکم ہے۔ ہمارے حکمران چاہے جتنی بڑی تقریریں کیوں نہ کر لیں چاہے کتنے ہی سوشل میڈیا پر اپنے پیروکار نہ بنا لیں چاہے کتنے ہی کرشماتی شخصیت کے مالک نہ ہوجب تک ملک کے اندر جمہوریت کا درخت پروان نہیں چڑھے گا تو نہ ان کو بین الااوامی سطح پر عزت میسر آ سکتی ہے نہ ہی قوم کو۔
کبھی عوام کو کرپشن اور کبھی سازش وغیرہ کے راگ سنا کر پاکستان کے حقیقی مسائل سے دور ر کھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دیا ہے اگر پاکستان کا کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے موازنہ کریں تو مسئلہ کرپشن نہیں بلکہ جمہوریت کا تسلسل نہ ہونا ہے۔ جس میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاںپر جمہوریت مضبوط ہو جائے وہاں پر عوام کی زندگیوںمیں بہتری نہ آئے دنیا بھر میں نظر ڈال کر دیکھ لیں جن ممالک کے اندر جمہوریت جتنی مضبوط ہوتی ہے انھی ممالک میں عوام کی زندگیاں اتنی بہترہوتی چلی جاتی ہیں۔ان اقوام کو کبھی عزت ووقار کبھی نصیب نہیں ہوتا جہاں پر جمہوریت کمزور کر دی جاتی ہے۔
آج اگر پاکستانی تاجر کو بین الاقوامی مارکیٹ کے اندر اپنی تجارت کرتے ہوئے جو مشکلات پیش آرہی ہیں یا پھر ہمارے پاسپورٹ کی قدر نہیںکی جا رہی تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ پاکستان میںکرپشن بہت زیادہ ہے بلکہ کرپشن تو محض بیماری کی علامت ہے۔ اصل بیماری جمہوریت کی کمزوری ہے مثال کے طور پر انسان کو اگر بخار ہو جاتا ہے تو بخار صرف بیماری کی علامت ہوا کرتی ہے بیماری نہیں۔آج وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو جو بیماری لاحق ہے اس کی صحیح تشخیص کی جائے اور اس کا علاج کیا جائے ورنہ خدا انخواستہ کہیں اتنا کمزورنہ ہو جائے کہ پھر نہ اس کو کوئی دوا اثر کرے نہ دعا۔
آسان الفاظ کے اندر یہ افراد جو کہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کا نظام ملک چلانے کے لیے اچھا نظام نہیں ہے تو گویا وہ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو اپنی زندگی گزارنے کا کوئی اختیار نہیں اور آپ کی رائے کسی بھی طرح سے وزن نہیں رکھتی ۔اور بھولے بھالے شہری اس سازش کو نہ سمجھتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور خود اپنے آپ کو غلامی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ تعجب تو یہاں ہوتا ہے کہ جب میڈیا کے اندر نام نہاد دانشور جمہوریت کے اوپر سنگ باری کر رہے ہوتے ہیں ۔
میڈیا کی بنیاد جمہوریت پر ہے اگر میڈیا میں سے جمہوری نظام نکال دیا جائے تو وہ محض پروپیگنڈا بن کے رہ جاتا ہے۔ میڈیا کا کام ہی یہی ہے کہ طاقت کو عوام کے ہاتھ میں لا کر دے دیں۔جتنے بھی ریاست کے ادارے ہیں ان کو عوام کے تابع ہونا ضروری ہے جب کوئی بھی حکومتی ادارہ اپنی حدود اور قیود کے مطابق نہ چل رہا ہو تو اس کی اس غلطیوں کوعوام کو آگاہ کرنا میڈیا کا اولین فرض ہے۔
پاکستان کے اندر افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ ادارے اتنے طاقت ور ہو جاتے ہیں یا میڈیا کی ضروریات اس قدر جڑ چکی ہوتی ہیں کہ وہ عوام کے مفادات کی بجائے ان اداروں کے ساتھ وفاداری نبھانا شروع کردیتے ہیں یہ رویہ صحافتی اصولوں کے بالکل مخالف ہے۔ آپ اگر کسی بھی میڈیا پر کبھی بھی یہ بحث سنیں کہ جمہوریت بہترین طرز حکومت نہیں ہے بلکہ سمجھ جائیں کہ یہ صحافت نہیں بلکہ پروپیگنڈا کی کوئی ایک شکل ہے۔ جمہوریت کو کمزور کرنے کے اندر بہت سارے حلقوں کے مفاد بھی منسلک ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر آپ دیکھ لیں کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان میں جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے ممالک نے پاکستان کا منفی مفاد اٹھایا اسی کی دہائی کے اندر پاکستان کے اندر اگر جمہوریت ہوتی تو پاکستان شاید کبھی بھی افغانستان کے اندر نہ کودتا اور پھر افغانستان میں کودنے کے بعد جو خرابیاں پیدا ہوئی انھی کے اثرات سے ازالا کیا جا سکتا تھا ۔مگر پاکستان کے جو نوے کی دہائی کے اندرپاکستان کی جمہوریت پر شب خون مارا گیا ۔
کبھی منتخب وزیر اعظم کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا گیااور کبھی اسی وزیر اعظم کو پابند سلاسل بھی کیا گیا ۔آج عوام کو جمہوریت اور سیاست کے بارے میں علم رکھنا نہایت ضروری ہے سیاست بنیادی طور پر طاقت کے حصول کا کھیل ہے اور یہ سیاست ادارے بھی کر سکتے ہیں۔ جو کر ہمارے آئین اور قانون کی بات ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق سیاست صرف سیاست دانوں یاعام شہری کوئی بھی کر سکتا ہے لیکن کوئی بھی سرکاری شخص یا ادارہ سیاست کے اندر بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ نہیں لے سکتا تاریخ گواہ ہے کہ ایسا پاکستان میںبار بار ہوتا رہا ہے ۔کچھ لوگوں نے اس صورتحال کو نظریہ ضرورت سمجھ کر ملک پر لاگو کرنے کی کوشش کی اب صورتحال یہ ہے کہ ہر پاکستان کی سیاسی صورتحال سے ہر کوئی واقف ہے لیکن اس میں موجود کمی اورخامیاں ہیں اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بڑے بڑے دانشوروں کے پر جلتے ہیں۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کب تک ہم اس لولے لنگڑے نظام کو گھسیٹتے رہیں گے؟ آج اگر دنیا میں دیکھیں تو انھی اقوام کی عزت ہے جہاں پر جمہوریت مضبوط اور مستحکم ہے۔ ہمارے حکمران چاہے جتنی بڑی تقریریں کیوں نہ کر لیں چاہے کتنے ہی سوشل میڈیا پر اپنے پیروکار نہ بنا لیں چاہے کتنے ہی کرشماتی شخصیت کے مالک نہ ہوجب تک ملک کے اندر جمہوریت کا درخت پروان نہیں چڑھے گا تو نہ ان کو بین الااوامی سطح پر عزت میسر آ سکتی ہے نہ ہی قوم کو۔
کبھی عوام کو کرپشن اور کبھی سازش وغیرہ کے راگ سنا کر پاکستان کے حقیقی مسائل سے دور ر کھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دیا ہے اگر پاکستان کا کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے موازنہ کریں تو مسئلہ کرپشن نہیں بلکہ جمہوریت کا تسلسل نہ ہونا ہے۔ جس میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاںپر جمہوریت مضبوط ہو جائے وہاں پر عوام کی زندگیوںمیں بہتری نہ آئے دنیا بھر میں نظر ڈال کر دیکھ لیں جن ممالک کے اندر جمہوریت جتنی مضبوط ہوتی ہے انھی ممالک میں عوام کی زندگیاں اتنی بہترہوتی چلی جاتی ہیں۔ان اقوام کو کبھی عزت ووقار کبھی نصیب نہیں ہوتا جہاں پر جمہوریت کمزور کر دی جاتی ہے۔
آج اگر پاکستانی تاجر کو بین الاقوامی مارکیٹ کے اندر اپنی تجارت کرتے ہوئے جو مشکلات پیش آرہی ہیں یا پھر ہمارے پاسپورٹ کی قدر نہیںکی جا رہی تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ پاکستان میںکرپشن بہت زیادہ ہے بلکہ کرپشن تو محض بیماری کی علامت ہے۔ اصل بیماری جمہوریت کی کمزوری ہے مثال کے طور پر انسان کو اگر بخار ہو جاتا ہے تو بخار صرف بیماری کی علامت ہوا کرتی ہے بیماری نہیں۔آج وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو جو بیماری لاحق ہے اس کی صحیح تشخیص کی جائے اور اس کا علاج کیا جائے ورنہ خدا انخواستہ کہیں اتنا کمزورنہ ہو جائے کہ پھر نہ اس کو کوئی دوا اثر کرے نہ دعا۔