انصاف کا خون

بھارت کے علاوہ عالمی طور پر بھی اس فیصلے کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے بھارتی سپریم کورٹ کے سیاسی فیصلے سے جہاں بھارت دنیا بھر میں عدالتی نا انصافی کی بد ترین مثال بن گیا ہے، وہاں بھارت کا نام نہاد سیکولر ازم اسی مسجد کی زمین میں اب ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا ہے ، ساتھ ہی مودی کی مسلم دشمنی اور ہوس اقتدار بھی کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے۔

افسوس اس امر پر ہے کہ کانگریس جو ڈیڑھ سو سال سے سیکولر ازم کا ڈھول پیٹ رہی ہے وہ سپریم کورٹ کے متعصبانہ فیصلے کو قبول کرکے ہندو توا کی ہمنوا بن گئی ہے۔ اب ایسے حالات میں اس کی سیاست کہاں کھڑی ہے ؟ اب کیا وہ کبھی بی جے پی کا مقابلہ کرسکے گی؟

دراصل اس وقت بھارتی عوام میں ہندو توا کے سر چڑھتے جادو نے دیگر بھارتی سیاسی پارٹیوں کو بھی ان کے مذہبی رواداری کے فلسفے سے دست بردار ہونے پر مجبور کر دیا ہے اور اسی لیے وہ اب مسلمانوں کے ساتھ کسی ناانصافی کو نا انصافی نہیں سمجھتیں۔ تاہم وہاں اب بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو بابری مسجد کے فیصلے کو غلط اور ناانصافی کا شاہکار قرار دے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک ریٹائرڈ جج اشوک کمارگنگولی نے اس فیصلے کا جائزہ لے کر روزنامہ ٹیلی گراف کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ '' صدیوں سے مسلمان بابری مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے جنھیں بھارت کی آزادی کے بعد 1949 میں وہاں مورتیاں رکھے جانے کے بعد نماز پڑھنے سے روک دیا گیا تھا تو جب وہاں شروع سے باقاعدگی سے نماز ادا کی جا رہی تھی تو مسلمانوں کو اپنی اس عبادت گاہ کے دفاع کا پورا اختیار حاصل ہے اور بھارتی آئین بھی انھیں اس کا پورا حق دیتا ہے۔

بھارتی آئین کے مطابق آزادی کے وقت بھارت میں جہاں جہاں عبادت گاہیں جس حالت میں تھیں وہ ویسی ہی رہیں گی، اگر آزادی سے پہلے کی عبادت گاہوں پر سپریم کورٹ فیصلے جاری کرنا شروع کردے گی تو بھارت میں ایسی درجنوں متنازعہ عبادت گاہیں ہیں ، جن کی بابت پرانی کہانیوں کی بنیاد پر فیصلے کیے گئے تھے تو بھارت مذہبی اکھاڑہ بن کر رہ جائے گا۔ بابری مسجد کا حالیہ فیصلہ بھی ایک پرانی کہانی کی بنیاد پر ہوا ہے جو سرا سر بھارتی آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔''

بھارت کے ایک نامور وکیل مسٹر کلیس ورم راج جو کئی اہم بھارتی مقدموں کی پیروی کر چکے ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کو انصاف کے تقاضوں سے متصادم مانتے ہیں، وہ کہتے ہیں '' اس فیصلے کے بعد ہمیں اپنے آپ کو ایک سیکولر ملک کا شہری کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اس فیصلے کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ جب مسجد کا توڑنا ایک بڑا جرم قرار دیا گیا ہے تو پھر اس کی جگہ مندر بنانے کی اجازت دینا اس سے بڑا جرم ہے۔ جب مسجد کو توڑنے والوں کو مجرم قرار دیا گیا ہے تو پھر فیصلہ ان کے ہی حق میں کیسے چلا گیا؟ اور ان پر مقدمہ چلانے کا حکم دینے کے بجائے انھیں ہی مندر بنانے کا اختیار دے دیا گیا ؟ اس فیصلے نے نہ صرف بھارتی عدلیہ کی جڑیں ہلادی ہیں بلکہ اسے ہندو توا کا ہمنوا ثابت کردیا ہے۔ اس کے بعد تمام بھارتی اقلیتوں کا عدلیہ سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔''


بھارت کے علاوہ عالمی طور پر بھی اس فیصلے کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے کئی مغربی اخباروں نے اس فیصلے پر سوال اٹھا دیے ہیں اور اسے بھارتی جمہوریت کے لیے تباہ کن قرار دے دیا ہے۔ بابری مسجد کے نیچے مندرکی تلاش کے لیے جن دنوں سرکاری طور پر کھدائی کی جا رہی تھی آثار قدیمہ سے منسلک ایک آزاد گروپ نے بھی وہاں کھدائی شروع کی تھی۔ کھدائی کے بعد اس نے بھی اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی تھی اس رپورٹ کو تیارکرنے والے پروفیسر سورج بھان ، آر۔ایس شرما ، اطہر علی اور ڈی این جھا تھے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کھدائی کے بعد مسجد کے نیچے سے کسی مندر یا کسی اور عمارت کے کوئی آثار نہیں پائے گئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے آنے کے بعد اس گروپ کے رکن ڈی این جھا نے فیصلے کو حقائق کے خلاف قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس فیصلے سے صرف جنونی ہندوؤں اور خاص طور پر مودی کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان کے تیسری بار الیکشن جیتنے کے لیے راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ اس مقدمے کے لیے جن پانچ ججوں کا بینچ بنایا گیا تھا اس میں عبدالعزیز نامی ایک مسلمان جج کو بھی شامل کیا گیا تھا انھیں بھی اس فیصلے میں شامل کرکے دراصل یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ فیصلہ بینچ کے تمام ججوں کا متفقہ فیصلہ ہے جب کہ ابھی تک مسلمان جج کے اس فیصلے پر ریمارکس کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے نوٹ میں کیا لکھا ہے۔

مسجد کے نیچے مندر کی باقیات تلاش کرنے والی سرکاری ٹیم میں ایک مسلمان ماہر آثار قدیمہ کے۔ کے محمد بھی شامل تھے کھدائی کے بعد اپنی رپورٹ میں انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ مندر کے نیچے سے کچھ مورتیاں ضرور ملی ہیں مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ہندو دھرم سے متعلق ہیں وہ بودھ اور جین دھرموں سے متعلق ہوسکتی ہیں۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مورتیاں دراصل انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کے نیچے خود دبا دی تھیں تاکہ وہاں مندر کے ہونے کی تصدیق ہوسکے مگر شاید جلد بازی میں انھوں نے اتنی قدیم مورتیاں وہاں گاڑ دی تھیں جن کی شناخت ہی ایک مسئلہ بن گئی۔ بہرحال جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے اور ایک دن اسے شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے مگر بھارت میں ایسا نہیں ہوتا وہاں جھوٹ بھی سر چڑھ کر بولتا ہے اور وہاں کی عدالتیں اسے سچ ثابت کردیتی ہیں۔

اب اہم سوال یہ ہے کہ اگر مسجد کے نیچے رام جنم بھومی موجود ہے تو کیا رام کا جنم ایک مندر میں ہوا تھا۔ ایسا تو ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ رام راجہ دسرت کے بیٹے تھے اور ظاہر ہے کہ وہ محل میں ہی پیدا ہوئے ہوں گے تو پھر مسجد کے نیچے سے دراصل مندرکے بجائے محل کے آثار تلاش کیا جانا چاہیے تھا۔

اس طرح مسجد کے نیچے رام جنم بھومی کا واویلا مچانا محض مسلمان دشمنی کا مظہر ہے اور مسجد کو ڈھانا ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ تھی جس کی انگریز حکومت نے اپنی حکومت کو طول دینے کے لیے ابتدا کی اور بعد میں انگریزوں کے آلہ کار ہندوؤں نے اسے آگے بڑھایا۔ بی جے پی کی حکومت نے اس جھوٹ کو عدالت کے ذریعے سچ ثابت کرکے اپنی نفرت انگیز سیاست سے اب بھارت کو رام راج میں تبدیل کر دیا ہے مگر مندر کے بننے کے بعد بھی وہ کشمیر کی طرح ہمیشہ متنازعہ ہی رہے گا۔
Load Next Story