ملک میں بڑھتا ہوا غذائی بحران
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود یہاں غذائی اشیاء کی قلت عروج پر پہنچ چکی ہے۔
انسان کو زندہ رہنے کے لیے ہوا پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان تینوں چیزوں میں سے کوئی ایک چیز نہ ملے تو انسان زیادہ وقت زندہ نہیں رہ سکتا ۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود یہاں غذائی اشیاء کی قلت عروج پر پہنچ چکی ہے ، لوگ خود کشیوں پر مجبور ہیں ، ملک میں بجٹ کا طریقہ کار اور معاشی پالیسی اول روز سے ہی ایسی بنیادوں پر مرتب کی گئی ہے جس سے ملکی زراعت ، کسان ، مزدور اور لوئر مڈل کلاس کی قوت کو کمزور اور شاہوکار وں ، جاگیرداروں ، سرمایہ دار وںکو مزید شاہوکار بنادیا ہے۔
ملکی آبادی کی اکثریت دیہاتوں میں رہتی ہے ، جس کا دارومدار 100%زراعت پر ہے ۔ یہ آج بھی جی ڈی پی میں 25%حصہ دینے کے ساتھ ساتھ ملک کے 50% لوگوں کو روزگار فراہم کررہی ہے۔
1948 میں ملکی جی ڈی پی میں 55% حصہ رکھنے والی زراعت کو جی ڈی پی کی مجموعی ملکی پیداوار میں 25فیصد حصہ رکھنے کے باوجود مطلوبہ توجہ سے محروم رکھا گیا ہے ۔ زراعت سے وابستہ 70فیصد آبادی کی محنت پر30فیصد صنعت و تجارت اور شہری لابی سول و نان سویلین بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ملکی ریوینیو آمدن اور جی ڈی پی کے 73فیصد سے بہرہ مند ہوکر عیاشیوں میں مصروف ہے۔
صنعتی اہمیت سے انکار نہیں بلکہ مضبوط صنعت نہ صرف زراعت و معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے بلکہ دنیا سے مسابقت کے لیے بھی لازم ہے لیکن صنعت و تجارت اور زراعت میں Balanceپر مبنی پالیسی ہی ملک کی حقیقی ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہوسکتی ہے ورنہ یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک شعبہ کو ترقی دلانے کے چکر میں دوسرے شعبوں کی تباہی کا ساماں و ماحول پیدا کردیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ملک میں متواتر حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے یہی کچھ ہوا ہے ۔
ہم نے صنعت و تجارت کے فروغ کی one sidedپالیسیاں بنائیں لیکن اِن شعبوں اور ملک کو خام مال فراہم کرنیوالے زرعی شعبے اور اُس کی ترقی کو پس پشت ڈال دیا ۔ ہم نے بڑی بڑی صنعتیں تو لگالیں لیکن اُنہیں خام مال کی فراہمی کی طرف توجہ نہیں دی، نتیجتاً خام مال کی ملکی پیداوار میں کمی کی باعث صنعتیں بھی بیمار اور مسائل سے دو چار ہوگئیں ۔ ملک کو صنعتی و تجارتی ترقی تو حاصل نہ ہوسکی اُلٹا زرعی خوشحالی کوبھی ہم نے گنوا دیا ۔
کیمیائی کھاد ، زرعی ادویات کے نرخوں پر کنٹرول نہ ہونا ، دیہی بیج کا بندوبست، اُس کی صنعت اور قدرتی طریقوں پر مبنی زراعت کے لیے جدید تحقیق و دسترس کا مناسب ماحول نہ رکھنا ، کسانوں کی فنی تربیت کامناسب بندوبست نہ کرنا ، کسانوں کو منڈی تک براہ راست و آسان رسائی نہ دینا اور مواصلاتی و تیکنیکی نظام کی عدم موجودگی کے باعث کسان قومی دھارا میںاپنی بنیادی حیثیت کھوچکا ہے تو دوسری جانب عام استعمال کی اشیاء کی اسمگلنگ کو روکنے کی منتظمیں میں اہلیت نہ ہونا اور پڑوسی ممالک سے خارجی اُمور میں عدم توازن کے باعث کسی کے ساتھ سرحدیں کھولنا تو کسی کے ساتھ بند کردینا بھی عام استعمال کی اشیاء کی اسمگلنگ کی وجہ بن رہی ہے اور نتیجتاً عوام اشیائے خوردو نوش سے محروم ہورہے ہیں ۔
پھر افغانستان ، ایران اور سینٹرل ایشیا کے ممالک کی جانب اسمگلنگ ہونے کا اقرار تو کئی بار کیا جاچکا ہے لیکن اس اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کوئی تحرک نہیں لیا جاتا ۔ ملک میں اس وقت غذائی عدم تحفظ کی صورتحال شدید صورت اختیار کرچکی ہے لیکن حکمرانوں کو اس پر کوئی تشویش لاحق نظر نہیں آتی ۔ بلکہ ملک میں اریگیشن سے متعلق ناکارہ پالیسی ، کاشتکار و کسان دشمنی پر مبنی زرعی پالیسی اور سرمایہ دار کی بے تحاشہ و بے جا سپورٹ پر مبنی انتظامی اقدامات نے اس غذائی قلت و غذائی عدم تحفظ کے بحران کو جنم دیا ہے ۔ پھر گھوم پھر کر بات حکومتی اہلیت و انتظامی بحران پر آجاتی ہے اس لیے حکومت کو مہنگائی کی شرح پر قابو پانے اور بلا سبب قیمتوں میں اضافے کو روکنے کی انتظامی ذمے داری پوری کرنے پر توجہ دینی چاہیے ، اسمگلنگ کو روکنے کے لیے سخت و مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں ۔
عوام کی تکالیف اور مارکیٹ صورتحال کو سمجھنے کے لیے وزراء ، مشیر اور حکومتی کارندوں کو عوام سے روابط بڑھانے اور کھلی کچہریوں کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ اُنہیں آٹے ، چینی اور ٹماٹر سمیت اشیائے خورد نوش کی چیزوں کے مارکیٹ نرخوں کا اندازہ ہوسکے ۔ پھر دیکھا جائے توملکی بجٹ ایک اہم دستاویز ہوتا ہے ۔ اس لیے اُس کی تیاری صورتحال کی حقیقی نشاندہی کے بعد اور عوام کی فلاح پر مبنی اور گزشتہ برسوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد مرتب ہونی چاہیے ۔ بجٹ کو ملک کی سیاسی ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی اور امن امان کی بجا طور پر عکاسی کرنی چاہیے مگر یہاں ایسا نہیں ہوتا ۔
ہمارا بجٹ عالمی مالیاتی اداروں کی فرمائش پر ملک میں زمینی حقائق کے برخلاف امیدوں اور اشاروں پر ترتیب دیا جاتا ہے ۔ جس کے تحت سب سے بڑی مُصیبت Indirect Taxes ہیں جس کا بوجھ براہ راست زراعت سے وابستہ ستر فیصد دیہی آبادی برداشت کرتی ہے ۔ جوکہ پہلے سے ہی عام غربت کی شرح 33 اور سندھ و بلوچستان میں انتہائی غربت کی شرح 53%مگر سندھ کی کوسٹل بیلٹ ، تھر ، کوہستان اور کاچھو میں غربت کی انتہائی شرح 93%سے دوچار ہے جو کہ بھیانک صورتحال کا پیش خیمہ ہے ۔
ملک میں غذائی قلت اور غذائی عدم تحفظ کا سبب شعبہ زراعت کی تباہی کے باعث ہے اور زراعت کی تباہی دراصل ہمارے معاشی و سیاسی منیجرز کی جانب سے زراعت کو نظرانداز کرکے صرف صنعت اور سروسز کو ترجیح دینے کی بدولت ہے ۔ انھی پالیسیوں کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں دن بہ دن اضافہ اور صنعتیں دیوالیہ ہوتی جارہی ہیں ۔ اُس کے باوجود ملک کی معاشی و سیاسی خوشحالی کے ضامن شعبہ زراعت کا استحکام حکومت کے ایجنڈہ پر نہیں اور نہ ہی اس شعبے کے لیے کوئی پروگرام ، پالیسی ترتیب دی جارہی ہے اور نہ ہی بجٹ میں کوئی حصہ مختص کیا گیا ہے۔
ملک میں بیج تیار کرنے والے اکثر پلانٹ ناکارہ پڑے ہیں ۔ ملک میں ایشیا کی سب سے بڑی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور ٹنڈو جام میں ہونے کے باوجود سوائے سطحی تحقیق اور سیمینارز سے آگے بات نہیں بڑھ سکی ہے ۔کرپشن اور بیڈ گورننس کے باعث زراعت کے شعبے میں کروڑوں بلکہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود تحقیق اور نئے طریقے ایجاد نہیں ہوسکے ہیں اور تو اور دنیا کی تحقیق سے بھی فائدہ اُٹھانے کے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں ۔
صحت مند معاشرے ، ترقی اور روشن مستقبل کے لیے بہتر و بھرپورغذاکی درست و طلب کے مطابق بروقت فراہمی لازمی امر ہے ۔ پاکستان میںماضی قریب سے لے کر 10ملین بچے غذائی قلت کا شکار ہورہے ہیں ۔ کیونکہ ماؤں کو مناسب غذا میسر نہ ہونے کے باعث صرف 38فیصد بچوں کو اپنی پیدائش کے پہلے 6ماہ ہی ماں کا دودھ نصیب ہوتا ہے نتیجتاً اُن میں وٹامن اے ، ڈی اور زنک کی 40فیصد تک کمی لاحق ہوجاتی ہے ۔
ایک طرف ملک میں غذائی قلت عروج پر ہے تو دوسری طرف امیر طبقے کی جانب سے ملک میں غذا کو ضایع کرنے کی بے حسی بھی انتہا کو چُھو رہی ہے ۔ ملک میں پہلی بار قومی صحت کی خدمات کی وزارت کی جانب سے آغا خان یونیورسٹی اور یونیسیف کے تعاون سے 2018میں نیشنل نیوٹریشن سروسے (NNS) کروایا گیا ۔ جس کے اعداد و شمار کیمطابق ملک کی تقریباً 50%آبادی غذائی قلت کا شکار ہے ۔
ملک کے 44فیصد بچے کمسنی میں جاں بحق ہوجاتے ہیں یا پھر اُن کی نشو و نما متاثر ہوجاتی ہے ۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں غذائی قلت کی شرح افریقہ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کے معیار کیمطابق جی ایم ایم کی 15%شرح ایک ہنگامی صورتحال ہے لیکن سندھ و بلوچستان میں انتہائی غذائی قلت کے معیار ای اے ایم کی شرح 40%سے 65%فیصد تک پہنچ گئی ہے لیکن حکمرانوں کو اب بھی کوئی خاص پریشانی لاحق ہوتی نظر نہیں آتی ۔ غذائی عدم تحفظ عالمی ایشو بن چکا ہے لیکن ہمارا ملک الارمنگ صورتحال سے دو چار ہے ۔
گلوبل ہنگر انڈیکس 2015کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریبا ً 90کروڑ لوگوں کو پوری غذا میسر نہیں اور دنیا میں 25ممالک ایسے ہیں جہاں خوراک کی صورتحال پریشان کُن یا تشویشناک ہے ۔ اُن میں پہلے نمبر پر سینٹر افریقن ری پبلک اور11ویں نمبر پر پاکستان ہے ۔ جب کہ پاکستان سمیت8ممالک ایسے ہیں جہاں غذائی قلت کی صورتحال انتہائی خوفناک ہے ۔ملک میں ایک طرف معاشی بہتری کے اشاروں کے اعلانات کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف عوام کی زندگی کا معیار پست سے پست ترین ہوتا جارہا ہے ۔
ملک میں دو طبقے ہیں ، ایک امیر تو دوسرا غریب ۔ کرپشن ، رشوت ستانی ، اقربا پروری اور چور بازاری نے متوسط طبقے کو تو ملک سے ناپید کردیا ہے ۔ ایسے میں امیر کو تو بزور ِ دولت غذائی و دوسری عام اشیائے صرف میسر ہوجاتی ہیں لیکن غریب کو حصول ِخوراک کے لیے روز جینا اور روز مرنا پڑتا ہے ۔ غذائی قلت اور غذائی عدم تحفظ کی اس بھیانک صورتحال نے معاشرے کا نظام ہی ڈانواں ڈول (درہم برہم) کردیا ہے ۔
عزت ، توقیر ، امن ، اخوت ، حسن ِ اخلاق ، ایثار و برادرانہ جذبوں کا گلہ گھونٹ دیا ہے ۔ ہمارا معاشرہ 16ویں صدی کے فرانسیسی معاشرے کی تمثیل بن چکا ہے ۔ حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ فرانس کے مشہور ِ زمانہ انقلاب کی بنیادی وجہ بھی بازار سے روٹی کی ناپید صورتحال تھی ۔ وہ انقلاب بھی غریب طبقے کی عورتوں کی طرف سے حکمرانوں کے گھیراؤ سے شروع ہوا تھا جو آگے چل کر جدید فرانس اور سوشلسٹ دنیا کا موجد ثابت ہوا ۔
اس لیے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملک کے ستر فیصد غریب عوام کے مسائل خصوصا ً غربت ، غذائی قلت ، اور غذائی عدم تحفظ کی اس تشویشناک صورتحال پر توجہ دیکر کسان دوست و زراعت دوست پالیسی بنائی جائے ، زراعت اور صنعت و تجارت کے درمیان Balanceپر مبنی اقدامات کرکے ملک کی ریڑھ زراعت کو مضبوط کیا جائے ۔ورنہ غریب کی کوکھ سے اُٹھنے ولا طوفان کہیں اس نام نہاد امراء و اشرافیہ طبقے کے ساتھ ساتھ ملک کی بنیادوں کا شیرازہ نہ بکھیر کر رکھ دے ۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود یہاں غذائی اشیاء کی قلت عروج پر پہنچ چکی ہے ، لوگ خود کشیوں پر مجبور ہیں ، ملک میں بجٹ کا طریقہ کار اور معاشی پالیسی اول روز سے ہی ایسی بنیادوں پر مرتب کی گئی ہے جس سے ملکی زراعت ، کسان ، مزدور اور لوئر مڈل کلاس کی قوت کو کمزور اور شاہوکار وں ، جاگیرداروں ، سرمایہ دار وںکو مزید شاہوکار بنادیا ہے۔
ملکی آبادی کی اکثریت دیہاتوں میں رہتی ہے ، جس کا دارومدار 100%زراعت پر ہے ۔ یہ آج بھی جی ڈی پی میں 25%حصہ دینے کے ساتھ ساتھ ملک کے 50% لوگوں کو روزگار فراہم کررہی ہے۔
1948 میں ملکی جی ڈی پی میں 55% حصہ رکھنے والی زراعت کو جی ڈی پی کی مجموعی ملکی پیداوار میں 25فیصد حصہ رکھنے کے باوجود مطلوبہ توجہ سے محروم رکھا گیا ہے ۔ زراعت سے وابستہ 70فیصد آبادی کی محنت پر30فیصد صنعت و تجارت اور شہری لابی سول و نان سویلین بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ملکی ریوینیو آمدن اور جی ڈی پی کے 73فیصد سے بہرہ مند ہوکر عیاشیوں میں مصروف ہے۔
صنعتی اہمیت سے انکار نہیں بلکہ مضبوط صنعت نہ صرف زراعت و معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے بلکہ دنیا سے مسابقت کے لیے بھی لازم ہے لیکن صنعت و تجارت اور زراعت میں Balanceپر مبنی پالیسی ہی ملک کی حقیقی ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہوسکتی ہے ورنہ یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک شعبہ کو ترقی دلانے کے چکر میں دوسرے شعبوں کی تباہی کا ساماں و ماحول پیدا کردیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ملک میں متواتر حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے یہی کچھ ہوا ہے ۔
ہم نے صنعت و تجارت کے فروغ کی one sidedپالیسیاں بنائیں لیکن اِن شعبوں اور ملک کو خام مال فراہم کرنیوالے زرعی شعبے اور اُس کی ترقی کو پس پشت ڈال دیا ۔ ہم نے بڑی بڑی صنعتیں تو لگالیں لیکن اُنہیں خام مال کی فراہمی کی طرف توجہ نہیں دی، نتیجتاً خام مال کی ملکی پیداوار میں کمی کی باعث صنعتیں بھی بیمار اور مسائل سے دو چار ہوگئیں ۔ ملک کو صنعتی و تجارتی ترقی تو حاصل نہ ہوسکی اُلٹا زرعی خوشحالی کوبھی ہم نے گنوا دیا ۔
کیمیائی کھاد ، زرعی ادویات کے نرخوں پر کنٹرول نہ ہونا ، دیہی بیج کا بندوبست، اُس کی صنعت اور قدرتی طریقوں پر مبنی زراعت کے لیے جدید تحقیق و دسترس کا مناسب ماحول نہ رکھنا ، کسانوں کی فنی تربیت کامناسب بندوبست نہ کرنا ، کسانوں کو منڈی تک براہ راست و آسان رسائی نہ دینا اور مواصلاتی و تیکنیکی نظام کی عدم موجودگی کے باعث کسان قومی دھارا میںاپنی بنیادی حیثیت کھوچکا ہے تو دوسری جانب عام استعمال کی اشیاء کی اسمگلنگ کو روکنے کی منتظمیں میں اہلیت نہ ہونا اور پڑوسی ممالک سے خارجی اُمور میں عدم توازن کے باعث کسی کے ساتھ سرحدیں کھولنا تو کسی کے ساتھ بند کردینا بھی عام استعمال کی اشیاء کی اسمگلنگ کی وجہ بن رہی ہے اور نتیجتاً عوام اشیائے خوردو نوش سے محروم ہورہے ہیں ۔
پھر افغانستان ، ایران اور سینٹرل ایشیا کے ممالک کی جانب اسمگلنگ ہونے کا اقرار تو کئی بار کیا جاچکا ہے لیکن اس اسمگلنگ کو روکنے کے لیے کوئی تحرک نہیں لیا جاتا ۔ ملک میں اس وقت غذائی عدم تحفظ کی صورتحال شدید صورت اختیار کرچکی ہے لیکن حکمرانوں کو اس پر کوئی تشویش لاحق نظر نہیں آتی ۔ بلکہ ملک میں اریگیشن سے متعلق ناکارہ پالیسی ، کاشتکار و کسان دشمنی پر مبنی زرعی پالیسی اور سرمایہ دار کی بے تحاشہ و بے جا سپورٹ پر مبنی انتظامی اقدامات نے اس غذائی قلت و غذائی عدم تحفظ کے بحران کو جنم دیا ہے ۔ پھر گھوم پھر کر بات حکومتی اہلیت و انتظامی بحران پر آجاتی ہے اس لیے حکومت کو مہنگائی کی شرح پر قابو پانے اور بلا سبب قیمتوں میں اضافے کو روکنے کی انتظامی ذمے داری پوری کرنے پر توجہ دینی چاہیے ، اسمگلنگ کو روکنے کے لیے سخت و مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں ۔
عوام کی تکالیف اور مارکیٹ صورتحال کو سمجھنے کے لیے وزراء ، مشیر اور حکومتی کارندوں کو عوام سے روابط بڑھانے اور کھلی کچہریوں کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ اُنہیں آٹے ، چینی اور ٹماٹر سمیت اشیائے خورد نوش کی چیزوں کے مارکیٹ نرخوں کا اندازہ ہوسکے ۔ پھر دیکھا جائے توملکی بجٹ ایک اہم دستاویز ہوتا ہے ۔ اس لیے اُس کی تیاری صورتحال کی حقیقی نشاندہی کے بعد اور عوام کی فلاح پر مبنی اور گزشتہ برسوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد مرتب ہونی چاہیے ۔ بجٹ کو ملک کی سیاسی ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی اور امن امان کی بجا طور پر عکاسی کرنی چاہیے مگر یہاں ایسا نہیں ہوتا ۔
ہمارا بجٹ عالمی مالیاتی اداروں کی فرمائش پر ملک میں زمینی حقائق کے برخلاف امیدوں اور اشاروں پر ترتیب دیا جاتا ہے ۔ جس کے تحت سب سے بڑی مُصیبت Indirect Taxes ہیں جس کا بوجھ براہ راست زراعت سے وابستہ ستر فیصد دیہی آبادی برداشت کرتی ہے ۔ جوکہ پہلے سے ہی عام غربت کی شرح 33 اور سندھ و بلوچستان میں انتہائی غربت کی شرح 53%مگر سندھ کی کوسٹل بیلٹ ، تھر ، کوہستان اور کاچھو میں غربت کی انتہائی شرح 93%سے دوچار ہے جو کہ بھیانک صورتحال کا پیش خیمہ ہے ۔
ملک میں غذائی قلت اور غذائی عدم تحفظ کا سبب شعبہ زراعت کی تباہی کے باعث ہے اور زراعت کی تباہی دراصل ہمارے معاشی و سیاسی منیجرز کی جانب سے زراعت کو نظرانداز کرکے صرف صنعت اور سروسز کو ترجیح دینے کی بدولت ہے ۔ انھی پالیسیوں کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں دن بہ دن اضافہ اور صنعتیں دیوالیہ ہوتی جارہی ہیں ۔ اُس کے باوجود ملک کی معاشی و سیاسی خوشحالی کے ضامن شعبہ زراعت کا استحکام حکومت کے ایجنڈہ پر نہیں اور نہ ہی اس شعبے کے لیے کوئی پروگرام ، پالیسی ترتیب دی جارہی ہے اور نہ ہی بجٹ میں کوئی حصہ مختص کیا گیا ہے۔
ملک میں بیج تیار کرنے والے اکثر پلانٹ ناکارہ پڑے ہیں ۔ ملک میں ایشیا کی سب سے بڑی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور ٹنڈو جام میں ہونے کے باوجود سوائے سطحی تحقیق اور سیمینارز سے آگے بات نہیں بڑھ سکی ہے ۔کرپشن اور بیڈ گورننس کے باعث زراعت کے شعبے میں کروڑوں بلکہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود تحقیق اور نئے طریقے ایجاد نہیں ہوسکے ہیں اور تو اور دنیا کی تحقیق سے بھی فائدہ اُٹھانے کے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں ۔
صحت مند معاشرے ، ترقی اور روشن مستقبل کے لیے بہتر و بھرپورغذاکی درست و طلب کے مطابق بروقت فراہمی لازمی امر ہے ۔ پاکستان میںماضی قریب سے لے کر 10ملین بچے غذائی قلت کا شکار ہورہے ہیں ۔ کیونکہ ماؤں کو مناسب غذا میسر نہ ہونے کے باعث صرف 38فیصد بچوں کو اپنی پیدائش کے پہلے 6ماہ ہی ماں کا دودھ نصیب ہوتا ہے نتیجتاً اُن میں وٹامن اے ، ڈی اور زنک کی 40فیصد تک کمی لاحق ہوجاتی ہے ۔
ایک طرف ملک میں غذائی قلت عروج پر ہے تو دوسری طرف امیر طبقے کی جانب سے ملک میں غذا کو ضایع کرنے کی بے حسی بھی انتہا کو چُھو رہی ہے ۔ ملک میں پہلی بار قومی صحت کی خدمات کی وزارت کی جانب سے آغا خان یونیورسٹی اور یونیسیف کے تعاون سے 2018میں نیشنل نیوٹریشن سروسے (NNS) کروایا گیا ۔ جس کے اعداد و شمار کیمطابق ملک کی تقریباً 50%آبادی غذائی قلت کا شکار ہے ۔
ملک کے 44فیصد بچے کمسنی میں جاں بحق ہوجاتے ہیں یا پھر اُن کی نشو و نما متاثر ہوجاتی ہے ۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں غذائی قلت کی شرح افریقہ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کے معیار کیمطابق جی ایم ایم کی 15%شرح ایک ہنگامی صورتحال ہے لیکن سندھ و بلوچستان میں انتہائی غذائی قلت کے معیار ای اے ایم کی شرح 40%سے 65%فیصد تک پہنچ گئی ہے لیکن حکمرانوں کو اب بھی کوئی خاص پریشانی لاحق ہوتی نظر نہیں آتی ۔ غذائی عدم تحفظ عالمی ایشو بن چکا ہے لیکن ہمارا ملک الارمنگ صورتحال سے دو چار ہے ۔
گلوبل ہنگر انڈیکس 2015کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریبا ً 90کروڑ لوگوں کو پوری غذا میسر نہیں اور دنیا میں 25ممالک ایسے ہیں جہاں خوراک کی صورتحال پریشان کُن یا تشویشناک ہے ۔ اُن میں پہلے نمبر پر سینٹر افریقن ری پبلک اور11ویں نمبر پر پاکستان ہے ۔ جب کہ پاکستان سمیت8ممالک ایسے ہیں جہاں غذائی قلت کی صورتحال انتہائی خوفناک ہے ۔ملک میں ایک طرف معاشی بہتری کے اشاروں کے اعلانات کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف عوام کی زندگی کا معیار پست سے پست ترین ہوتا جارہا ہے ۔
ملک میں دو طبقے ہیں ، ایک امیر تو دوسرا غریب ۔ کرپشن ، رشوت ستانی ، اقربا پروری اور چور بازاری نے متوسط طبقے کو تو ملک سے ناپید کردیا ہے ۔ ایسے میں امیر کو تو بزور ِ دولت غذائی و دوسری عام اشیائے صرف میسر ہوجاتی ہیں لیکن غریب کو حصول ِخوراک کے لیے روز جینا اور روز مرنا پڑتا ہے ۔ غذائی قلت اور غذائی عدم تحفظ کی اس بھیانک صورتحال نے معاشرے کا نظام ہی ڈانواں ڈول (درہم برہم) کردیا ہے ۔
عزت ، توقیر ، امن ، اخوت ، حسن ِ اخلاق ، ایثار و برادرانہ جذبوں کا گلہ گھونٹ دیا ہے ۔ ہمارا معاشرہ 16ویں صدی کے فرانسیسی معاشرے کی تمثیل بن چکا ہے ۔ حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ فرانس کے مشہور ِ زمانہ انقلاب کی بنیادی وجہ بھی بازار سے روٹی کی ناپید صورتحال تھی ۔ وہ انقلاب بھی غریب طبقے کی عورتوں کی طرف سے حکمرانوں کے گھیراؤ سے شروع ہوا تھا جو آگے چل کر جدید فرانس اور سوشلسٹ دنیا کا موجد ثابت ہوا ۔
اس لیے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملک کے ستر فیصد غریب عوام کے مسائل خصوصا ً غربت ، غذائی قلت ، اور غذائی عدم تحفظ کی اس تشویشناک صورتحال پر توجہ دیکر کسان دوست و زراعت دوست پالیسی بنائی جائے ، زراعت اور صنعت و تجارت کے درمیان Balanceپر مبنی اقدامات کرکے ملک کی ریڑھ زراعت کو مضبوط کیا جائے ۔ورنہ غریب کی کوکھ سے اُٹھنے ولا طوفان کہیں اس نام نہاد امراء و اشرافیہ طبقے کے ساتھ ساتھ ملک کی بنیادوں کا شیرازہ نہ بکھیر کر رکھ دے ۔