میاں نواز قومی ضرورت
میاں صاحب کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کے سیاسی کردار کی اس ملک کو ضرورت ہے۔
میاں نواز شریف کی صحت کے بارے میں جتنا کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے، اس پر مزید دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ میاں نواز شریف کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔ یہ بات تو ایک عرصے سے معلوم اور معروف تھی کہ میاں صاحب لندن جانا چاہتے ہیں اور ان کے دوست احباب اس کے لیے سلسلہ جنبانی شروع کیے ہوئے تھے۔
یہ رابطے اعلیٰ ترین سطح پر کیے جا رہے تھے، کسی نہ کسی توسط سے کبھی کبھار ان رابطوں کی خبریں بھی آتی رہیں لیکن اس کے ساتھ ہی معاملات رک جانے کی اطلاعات بھی ملتی رہیں چونکہ معاملات نہایت گھمبیر تھے اور ان کے مضمرات بہت دور رس تھے اس لیے پیش رفت رک جانے کی خبریں خلاف توقع یا ناقابل فہم نہیں تھیں۔
عمران خان نے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو کوئی بھی رعایت دینے سے قطعی انکار کیا ہے، اس لیے اگر اب حکومت میاں نواز شریف کو کسی بھی قسم کی شرائط پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دیتی ہے تو لا محالہ اس سے اس کی اخلاقی پوزیشن متاثر اور مجروح ہوتی ہے، اس کے احتساب کی دعوئوں کی قلعی کھل جاتی ہے اور ان میں بہت زیادہ ضعف آ جاتا ہے۔ اس لیے اب قانونی راستہ اپنانے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ میاں نواز شریف کے لیے کسی قانونی حیلے کا سہارا حاصل کر کے ان کو پاکستان سے باہر بجھوانے کا راستہ ہموار کیا جائے۔
اس مبینہ ڈیل کو پاکستان کے باشعور عوام نہایت تشویش سے دیکھ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کو علاج کے لیے پاکستان سے باہر جانے کی اجازت تو دے دینی چاہیے لیکن میاں نواز شریف کو اس بات کا پابند ضرور کیا جائے کہ وہ صحت یاب ہو کر پاکستان واپس آ کر احتساب کا سامنا کریں۔ اسی عوامی آواز پر حکومت نے ایک کوشش کی لیکن حکومت کی یہ کوشش تادم تحریر ناکام نظر آتی ہے اور اب معاملہ عدالت میں پہنچ چکا ہے اور فیصلے کا انتظار ہے۔
حکومتی کیمپ جن میں وزیر اعظم کی کابینہ کے اہم ارکان اور مشیران شامل ہیںان کا شروع دن سے میاں نواز شریف کی صحت کے متعلق موقف یہ تھا کہ وہ بیمار نہیں ہیں لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے حکومت کے موقف میں لچک پیدا ہوئی اور وزیر اعظم نے خود کہا کہ انھوں نے تحقیق کی ہے نواز شریف واقعی بیمار ہیں ان کو انسانی ہمدردی کے تحت علاج کے لیے ملک سے باہر جانے دینا چاہیے۔ لیکن نہ جانے وہ کون سی طاقتیں یا نادان مشیر ہیں جو عمران خان پر حاوی ہو چکے ہیں اور ان کے مشوروں پر اب میاں نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے لیے حکومت کی جانب سے زر ضمانت کا مطالبہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت کی صفوں میں اتحاد کا فقدان ہے اور حکومت ابھی اس معاملے پر کوئی واضح لائحہ عمل نہیں بنا سکی یعنی حکومت کو خود بھی گو مگو کی کیفیت میں ہے۔
احتساب سے جڑی میاں نواز شریف کی بیماری کے متعلق حکومت کا زر ضمانت کا مطالبہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ حکومت میاں نواز شریف کو سزا دلوانے سے زیادہ ان سے مبینہ کرپشن سے حاصل کیا جانے والا سرمایہ واپس لینے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے اور ان کی بیرون ملک روانگی کے لیے زر ضمانت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
امید اور توقع یہی ہے کہ عدالت سے اس بات کا فیصلہ اس وقت تک ہو چکا ہو گا جب آپ ان سطور کا مطالعہ کر رہے ہوں گے۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی پاکستان سے روانگی کے بعد فوری نتیجہ یہ نکلے گا کہ اپوزیشن جس نے اس وقت حکومت کو پریشان کیا ہوا ہے اس کے غبارے سے ہوا کم ہو جائے گی اور سیاسی اکھاڑے کی گرما گرمی میں بہت کمی آ جائے گی۔
میاں صاحب کے ''وفادار'' ساتھی پہلے ہی حوصلہ چھوڑ چکے ہیں، ان کے لیڈر کی بیرون ملک روانگی رہی سہی کسر پوری کر دے گی۔ حکومت کو امکانی طور پر پیش آنے والے چیلنجوں میں نمایاں کمی ہو جائے گی اور حکومت زیادہ سکون اور اطمینان سے اپنے مستقبل کے منصوبوں پر پیش رفت کر سکے گی۔ حکومت کے لیے دانشمندی کی بات یہی ہے کہ اول تو انھیں جلد از جلد میاں نواز شریف کو پاکستان سے جانے کی اجازت دے دینی چاہیے تھی لیکن اب جیسے ہی ان کو عدالت کی جانب سے اجازت ملے تو حکومت کو عدالتی فیصلے پر فوری عملدرآمد کرنا چاہیے۔
حکومت اور میاں نواز شریف کے درمیان معاملات طے پا جانے کے عمل کو عوام احتساب کے عمل پر کاری وار قرار دے رہے ہیں اور ان معاملات پر عوام کے اعتراضات اپنی جگہ موجود رہیں گے لیکن اگر خالص سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مبینہ سمجھوتے کا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں اس لیے کہ اس سے حکومت کو داخلی محاذ پر یکدم سکھ کا سانس نصیب ہو گا۔ یہ ایک اچھی بات ہو گی کیونکہ ماضی میں سیاسی رہنمائوں کے درمیان تلخیوں سے ملک کو نقصان ہی پہنچا ہے اور آج تک پہنچ رہا ہے۔ اس لیے سمجھوتہ ہی بہترین عمل ہے اور جتنی جلد اس سمجھوتے پر عمل ہو جائے وہ ملک کے فائدے میں ہے۔
اس صورتحال میںمیاں نواز شریف کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ان کے وہ حواری جو ہر وقت سائے کی طرح ان کے ساتھ رہتے تھے وہ ان کو سازشوں کے جال میں پھنسا کر پرے ہٹ کر بیٹھ گئے اور ان کو تنہا چھوڑ گئے ہیں۔ ان کا خاندان کڑے احتساب کے عمل سے گزر رہا ہے۔ ان حالات میں بہترین سیاسی فیصلہ یہی ہے کہ میاں نواز شریف اپنی صحت پر توجہ دیں تا کہ وہ مکمل صحت یاب ہو کر عملی سیاست میں فعال اور بھر پور کردار ادا کر سکیں۔
میاں صاحب کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کے سیاسی کردار کی اس ملک کو ضرورت ہے اور ان کی کمی کو کوئی دوسرا پوار نہیں کر سکتا۔ فیصلہ میاں نواز شریف نے کرنا تھا جو کہ وہ کر چکے ہیں اب اس فیصلے پر عملدرآمد ہونا باقی ہے۔
یہ رابطے اعلیٰ ترین سطح پر کیے جا رہے تھے، کسی نہ کسی توسط سے کبھی کبھار ان رابطوں کی خبریں بھی آتی رہیں لیکن اس کے ساتھ ہی معاملات رک جانے کی اطلاعات بھی ملتی رہیں چونکہ معاملات نہایت گھمبیر تھے اور ان کے مضمرات بہت دور رس تھے اس لیے پیش رفت رک جانے کی خبریں خلاف توقع یا ناقابل فہم نہیں تھیں۔
عمران خان نے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو کوئی بھی رعایت دینے سے قطعی انکار کیا ہے، اس لیے اگر اب حکومت میاں نواز شریف کو کسی بھی قسم کی شرائط پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دیتی ہے تو لا محالہ اس سے اس کی اخلاقی پوزیشن متاثر اور مجروح ہوتی ہے، اس کے احتساب کی دعوئوں کی قلعی کھل جاتی ہے اور ان میں بہت زیادہ ضعف آ جاتا ہے۔ اس لیے اب قانونی راستہ اپنانے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ میاں نواز شریف کے لیے کسی قانونی حیلے کا سہارا حاصل کر کے ان کو پاکستان سے باہر بجھوانے کا راستہ ہموار کیا جائے۔
اس مبینہ ڈیل کو پاکستان کے باشعور عوام نہایت تشویش سے دیکھ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کو علاج کے لیے پاکستان سے باہر جانے کی اجازت تو دے دینی چاہیے لیکن میاں نواز شریف کو اس بات کا پابند ضرور کیا جائے کہ وہ صحت یاب ہو کر پاکستان واپس آ کر احتساب کا سامنا کریں۔ اسی عوامی آواز پر حکومت نے ایک کوشش کی لیکن حکومت کی یہ کوشش تادم تحریر ناکام نظر آتی ہے اور اب معاملہ عدالت میں پہنچ چکا ہے اور فیصلے کا انتظار ہے۔
حکومتی کیمپ جن میں وزیر اعظم کی کابینہ کے اہم ارکان اور مشیران شامل ہیںان کا شروع دن سے میاں نواز شریف کی صحت کے متعلق موقف یہ تھا کہ وہ بیمار نہیں ہیں لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے حکومت کے موقف میں لچک پیدا ہوئی اور وزیر اعظم نے خود کہا کہ انھوں نے تحقیق کی ہے نواز شریف واقعی بیمار ہیں ان کو انسانی ہمدردی کے تحت علاج کے لیے ملک سے باہر جانے دینا چاہیے۔ لیکن نہ جانے وہ کون سی طاقتیں یا نادان مشیر ہیں جو عمران خان پر حاوی ہو چکے ہیں اور ان کے مشوروں پر اب میاں نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے لیے حکومت کی جانب سے زر ضمانت کا مطالبہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت کی صفوں میں اتحاد کا فقدان ہے اور حکومت ابھی اس معاملے پر کوئی واضح لائحہ عمل نہیں بنا سکی یعنی حکومت کو خود بھی گو مگو کی کیفیت میں ہے۔
احتساب سے جڑی میاں نواز شریف کی بیماری کے متعلق حکومت کا زر ضمانت کا مطالبہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ حکومت میاں نواز شریف کو سزا دلوانے سے زیادہ ان سے مبینہ کرپشن سے حاصل کیا جانے والا سرمایہ واپس لینے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے اور ان کی بیرون ملک روانگی کے لیے زر ضمانت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
امید اور توقع یہی ہے کہ عدالت سے اس بات کا فیصلہ اس وقت تک ہو چکا ہو گا جب آپ ان سطور کا مطالعہ کر رہے ہوں گے۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی پاکستان سے روانگی کے بعد فوری نتیجہ یہ نکلے گا کہ اپوزیشن جس نے اس وقت حکومت کو پریشان کیا ہوا ہے اس کے غبارے سے ہوا کم ہو جائے گی اور سیاسی اکھاڑے کی گرما گرمی میں بہت کمی آ جائے گی۔
میاں صاحب کے ''وفادار'' ساتھی پہلے ہی حوصلہ چھوڑ چکے ہیں، ان کے لیڈر کی بیرون ملک روانگی رہی سہی کسر پوری کر دے گی۔ حکومت کو امکانی طور پر پیش آنے والے چیلنجوں میں نمایاں کمی ہو جائے گی اور حکومت زیادہ سکون اور اطمینان سے اپنے مستقبل کے منصوبوں پر پیش رفت کر سکے گی۔ حکومت کے لیے دانشمندی کی بات یہی ہے کہ اول تو انھیں جلد از جلد میاں نواز شریف کو پاکستان سے جانے کی اجازت دے دینی چاہیے تھی لیکن اب جیسے ہی ان کو عدالت کی جانب سے اجازت ملے تو حکومت کو عدالتی فیصلے پر فوری عملدرآمد کرنا چاہیے۔
حکومت اور میاں نواز شریف کے درمیان معاملات طے پا جانے کے عمل کو عوام احتساب کے عمل پر کاری وار قرار دے رہے ہیں اور ان معاملات پر عوام کے اعتراضات اپنی جگہ موجود رہیں گے لیکن اگر خالص سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مبینہ سمجھوتے کا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں اس لیے کہ اس سے حکومت کو داخلی محاذ پر یکدم سکھ کا سانس نصیب ہو گا۔ یہ ایک اچھی بات ہو گی کیونکہ ماضی میں سیاسی رہنمائوں کے درمیان تلخیوں سے ملک کو نقصان ہی پہنچا ہے اور آج تک پہنچ رہا ہے۔ اس لیے سمجھوتہ ہی بہترین عمل ہے اور جتنی جلد اس سمجھوتے پر عمل ہو جائے وہ ملک کے فائدے میں ہے۔
اس صورتحال میںمیاں نواز شریف کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ان کے وہ حواری جو ہر وقت سائے کی طرح ان کے ساتھ رہتے تھے وہ ان کو سازشوں کے جال میں پھنسا کر پرے ہٹ کر بیٹھ گئے اور ان کو تنہا چھوڑ گئے ہیں۔ ان کا خاندان کڑے احتساب کے عمل سے گزر رہا ہے۔ ان حالات میں بہترین سیاسی فیصلہ یہی ہے کہ میاں نواز شریف اپنی صحت پر توجہ دیں تا کہ وہ مکمل صحت یاب ہو کر عملی سیاست میں فعال اور بھر پور کردار ادا کر سکیں۔
میاں صاحب کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کے سیاسی کردار کی اس ملک کو ضرورت ہے اور ان کی کمی کو کوئی دوسرا پوار نہیں کر سکتا۔ فیصلہ میاں نواز شریف نے کرنا تھا جو کہ وہ کر چکے ہیں اب اس فیصلے پر عملدرآمد ہونا باقی ہے۔