مت سمجھو ہم نے بھلا دیا
قیدی اپنے اوپر موت سے مشابہت رکھنے والی خاموش طاری کر لیتے ہیں جو ان کے جسم کے لیے آخری خطرہ ہوتی ہے۔
ہمارے لیے نومبرکا مہینہ خونیں یادوں میں تربتر آتا ہے۔ وہ مہینہ جب برصغیرکے ایک دانشور، کمیونسٹ رہنما اور عوام کے دلدار دوست کو شاہی قلعہ لاہور میں ناقابلِ برداشت تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ وہ جان سے گزرگیا۔ حسن ناصر ہم سے 59 برس پہلے رخصت ہوئے تھے لیکن ان کا نام ان کے چاہنے والوں کے لہو میں چراغاں کرتا ہے۔ آج کے صارفیت زدہ سماج میں کچھ لوگوں کو دوسروں کے بارے میں سوچنے، ان کا غم کھانے اور ان کی زندگی کو مقدور بھر سنوارنے کا راستہ دکھاتا ہے۔
حسن ناصر کی زندگی پر نظرکیجیے تو یہ مصرعہ بے اختیار یاد آتا ہے کہ ''پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے'' وہ ریاست حیدرآباد دکن کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ نواب محسن الملک کے نواسے۔ ناز و نعم میں پلے ہوئے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کی تعلیم ہوئی تھی ، انھیں ولایت روانہ کیا گیا تھا کہ وہ کیمبرج سے پڑھ کر واپس آئے۔ روشن اورکامیاب زندگی ان کے لیے کھلی ہوئی تھی لیکن ہونی کو بھلا کون روک سکا ہے۔ ان کے علاقے میں تلنگانہ تحریک اپنے عروج پر تھی، انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کے اشعار گلیوں اور بازاروں میں گونجتے تھے۔ شعورکی آنکھیں کھلیں تو حسن ناصر ان انقلابی نوجوانوں کے نعروں کے اسیر ہوئے۔
سبط حسن نے لکھا ہے کہ حسن ناصر سے ان کی پہلی ملاقات مئی 1948 میں شہر بمبئی میں اور دوسری ملاقات جولائی 1948کے کراچی میں ہوئی تھی۔ حسن ناصر اس وقت صرف 20 برس کے تھے لیکن کمیونسٹ پارٹی سے ان کی وابستگی اتنی گہری اور مستحکم تھی کہ پارٹی اور اس سے متعلق حلقوں میں وہ نہ صرف معروف تھے بلکہ ان کا بے حد احترام کیا جاتا تھا۔ ان کی زندگی اسرارکے پردے میں چھپی رہی۔ ان کی شہادت کے بارے میں جو تفتیش و تحقیق میجر محمد اسحاق نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرکی، وہ کسی کارنامے سے کم نہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات قابل فہم نہیں کہ ایک پنجابی نے، ایک دکنی کمیونسٹ کی جرات اور جواں مردی ثابت کرنے کے لیے اپنی زندگی کے ماہ وسال کیوں داؤ پر لگا دیے۔
یہ بات بس وہی سمجھ سکتے ہیں جوکسی آدرش پر اپنی خوشیاں اور اپنی جان بھی قربان کردیتے ہیں۔ یہ میجر اسحاق تھے جن کے ذریعے حسن ناصرکی ماں بیگم زہرا علمبردارحسین کو جواں سال بیٹے کے جان سے گزر جانے کی خبر ملی۔ صدمے سے نڈھال لیکن بیٹے کو ساتھ لے جانے کا تہیہ کیے ہوئے زہرا علمبردار حسین لاہور پہنچیں، قبرکشائی ہوئی۔ اس سے برآمد ہونے والی کسی ناقابل شناخت لاش کے بارے میں پولیس کا اصرار تھا کہ وہ ناصر کی ہے اور ماں کا اسے اپنے بیٹے کا جسد خاکی ماننے سے انکار اور پھر واپس حیدرآباد چلے جانا، ایک اندوہناک واقعہ ہے۔
جاتے جاتے وہ اپنے بیٹے کے دوستوں سے یہ کہہ گئیں کہ '' ہر انسان کی زندگی کا اپنی ذات کے علاوہ بھی مقصد ہونا چاہیے ورنہ وہ انسان نہیں۔ بعض مقاصد ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جان کی بازی لگانی ہوتی ہے ۔ میرے بیٹے کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ میں بہت دنوں سے یہ جانتی تھی۔ کئی برسوں سے جی کڑاکیے رکھا، بالآخر وہ لمحہ آگیا جو ٹل نہیں سکتا تھا۔ میری بات چھوڑئیے۔ البتہ حسن ناصر خوش قسمت تھا کہ اگر اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا تو اس کے لیے جان دے دینے کی سعادت تو پالی۔''
کسی کو حسن ناصر کے آخری دنوں اور شہادت کے بارے میں سب کچھ جاننے کی خواہش ہو تو وہ میجر اسحاق کی کتاب ''حسن ناصرکی شہادت '' کا مطالعہ کرے۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات۔ یقین نہیں آتا کہ انسان ، شرفِ انسانیت سے اس حد تک بھی گرسکتا ہے۔
حسن ناصرکے بارے میں پولیس کا اصرار تھا کہ وہ اپنی ماں کا خط پڑھ کر اس قدر دل گرفتہ ہوا کہ اس نے خود کشی کرلی جب کہ میجر اسحاق اور ناصرکے دوسرے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ کسی کمیونسٹ کا اس طرح دل برداشتہ ہونا ممکن ہی نہیں کہ وہ خودکشی کا ارتکاب کر لے۔ یاد رہے کہ چند دن پہلے حسن ناصر نے جیل لائبریری سے History of Saracens منگوائی تھی اور اسے پڑھ رہے تھے۔ روزانہ کے اخبارات (سنسر شدہ) کا مطالعہ بھی ان کا روزمرہ تھا۔ یہ تمام واقعات ''حسن ناصر کی شہادت'' اور کامران اژدر علی کی کتاب ''سرخ سلام'' میں مل جاتے ہیں ۔ یہ اس شخص کی زندگی کا منظرنامہ ہے جو برصغیر کی کمیونسٹ تحریک میں ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیارکرگیا۔
1950 کی دہائی کے اوائل میں حسن ناصر اپنی قید کے دوران نہ صرف قیدیوں بلکہ جیل کے عملے میں بھی کافی مقبول تھے۔ ان کے شاگرد کا کہنا تھاکہ اسے 1950 کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں گرفتار کرکے جب کراچی سینٹرل جیل بھیجا گیا اور وہاں کے غیر سیاسی قیدیوں کو یہ معلوم ہوا کہ میں حسن ناصر کا دوست ہوں تو انھوں نے مجھ سے اضافی عزت اور احترام سے پیش آنا شروع کر دیا۔ قیدیوں کے علاوہ جیل کے محافظ بھی ان کا پورا خیال رکھا کرتے تھے۔
تاہم ، کراچی کے پولیس لاک اپ اور کراچی سینٹرل جیل میں رہنا ،لاہور قلعے میں رہنے سے مختلف بات رہی ہوگی کیونکہ لاہور قلعہ اس وقت دہشت ناک سی آئی ڈی اور انٹیلی جنس بیورو کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ حسن ناصر، جیل حکام کے احکامات کی مزاحمت کرسکتے تھے لیکن لاہور قلعے میں ایسے مطالبات، مزاحمت کے زمرے میں آتے تھے جس کا مفہوم یہ تھا کہ سرکش قیدی کو نظم وضبط میں لانے کے لیے مزید تشدد اور ایذا رسانی کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حسن ناصر نے یہاں خاموشی اختیار کر لی ہوگی اورکچھ بولنے سے گریز کیا ہوگا۔
ایک قیدی ہمیشہ خاموش رہ کر (یا تشدد سے بے ہوش ہوکر خاموشی میں چلا جاتا ہے) ، قیدی اپنے اوپر موت سے مشابہت رکھنے والی خاموش طاری کر لیتے ہیں جو ان کے جسم کے لیے آخری خطرہ ہوتی ہے۔ اس خاموشی کے جواب میں اکثر ایذا رسانی کی شدت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں خاموشی، اعتراف جرم اور بامعنی زبان میں بیانیے کی عدم موجودگی کے مترادف تھی۔ اس لیے تشدد کا مقصد یہ تھا کہ جس قیدی کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ تکلیف اور اذیت کے باعث قابل سماعت آوازیں نکال سکے۔ ان حوالوں سے حسن ناصرکی موت ، اس کے رفیقوں اور خاندان کا نقصان تھا لیکن یہ خود تشدد اور ایذا رسانی کی ایک آخری حد بھی بن گئی، ایک بولنے والا جسم جس سے امکانی طور پر اعتراف جرم کرایا جاسکتا تھا اب دنیا میں موجود نہیں تھا ۔
حسن ناصر کو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ان کی باتیں سنتی رہی۔ ممتاز آپا (ممتاز نورانی) سبط حسن اور بعض دوسرے کمیونسٹوں سے ان کے بارے میں بہت کچھ سنا۔ سال بہ سال ان سے وفاداری گہری ہوتی گئی۔ ان کے بارے میں ایک نہیں کئی کالم لکھے۔ اپنے ایک کالم میں وہ دو خط بھی نقل کیے جو ڈاکٹرکامران اژدر علی کی کتاب ''سرخ سلام'' کا حصہ ہیں۔ ان میں سے ایک حسن ناصر نے اپنے والدہ بیگم علمبردار حسین کے نام لکھا ہے اور دوسرا ان کی والدہ نے حسن ناصرکو تحریر کیا ہے۔ دونوں ماں اور بیٹے کی محبت کے غماز ہیں۔
حسن ناصر نے زندگی کے آخری دنوں میں لکھا تھا :
''میں ہندوستان چلا گیا تھا لیکن اپنی جلا وطنی کے بعد واپس آگیا۔ میرے خاندان کی زمینیں اور دولت مجھے وہاں روک نہیں سکیں۔ میری پارٹی (انڈین کمیونسٹ پارٹی) بھی مجھے نہ روک سکی ، میرے خاندان والوں نے ان سے کہا تھا کہ میں وہیں کام کروں۔ میں وہاں رہنا کیوں نہیں چاہتا تھا ؟ یہ بات نہیں ہے کہ میں انڈیا کو پسند نہیں کرتا ۔ آخر میں وہیں پیدا ہوا تھا اور اس کی زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کوکھا کر بڑا ہوا تھا ۔ ایسی جگہ سے میں کس طرح نفرت کرسکتا ہوں ؟ لیکن یہ وہ جگہ نہیں ہے جہاں مجھے جدوجہد کرنا ہے۔ یہاں وہ مزدور نہیں ہیں جن کے ساتھ میں رہتا ، سہتا اور جنھیں سوشل ازم پڑھاتا تھا۔ وہ سب یہاں ہیں، کراچی میں، وہ ہندوستان میں نہیں ہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے میں واپس آیا ہوں کیونکہ میں یہاں رہوں گا اورآپ بھی ایساکریں گے۔ ہماری قبریں بھی اسی زمین پر بنیں گی۔''
ان کی خواہش کے مطابق ان کی قبر اسی زمین پر بنی۔ لیکن ہم نہیں جانتے لاہورکے کس قبرستان میں اور یہی مقدر ہمارے بعض دوسرے روشن خیال اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ہوا۔ حسن ناصر ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھیں سفاکی سے قتل نہ کیا گیا ہوتا تو پاکستان اخلاقی زوال کی اس دلدل میں نہ اترتا، جس میں وہ آج اتر چکا ہے۔
حسن ناصر سے ہم صرف یہی عرض کرسکتے ہیں کہ:
مت سمجھو ہم نے بھلا دیا/یہ مٹی تم کو پیاری تھی/سمجھو مٹی میں سلا دیا/یہ چاندنی رات یہ سنہری کرن/اس جگمگ رت کا اک اک پل/ہم نے تم سے آباد رکھا/ہر لحظہ تم کو یاد رکھا/یہ مٹی تم کو پیاری تھی/سمجھو مٹی میں سلا دیا/مت سمجھو ہم نے بھلادیا......
حسن ناصر کی زندگی پر نظرکیجیے تو یہ مصرعہ بے اختیار یاد آتا ہے کہ ''پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے'' وہ ریاست حیدرآباد دکن کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ نواب محسن الملک کے نواسے۔ ناز و نعم میں پلے ہوئے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کی تعلیم ہوئی تھی ، انھیں ولایت روانہ کیا گیا تھا کہ وہ کیمبرج سے پڑھ کر واپس آئے۔ روشن اورکامیاب زندگی ان کے لیے کھلی ہوئی تھی لیکن ہونی کو بھلا کون روک سکا ہے۔ ان کے علاقے میں تلنگانہ تحریک اپنے عروج پر تھی، انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کے اشعار گلیوں اور بازاروں میں گونجتے تھے۔ شعورکی آنکھیں کھلیں تو حسن ناصر ان انقلابی نوجوانوں کے نعروں کے اسیر ہوئے۔
سبط حسن نے لکھا ہے کہ حسن ناصر سے ان کی پہلی ملاقات مئی 1948 میں شہر بمبئی میں اور دوسری ملاقات جولائی 1948کے کراچی میں ہوئی تھی۔ حسن ناصر اس وقت صرف 20 برس کے تھے لیکن کمیونسٹ پارٹی سے ان کی وابستگی اتنی گہری اور مستحکم تھی کہ پارٹی اور اس سے متعلق حلقوں میں وہ نہ صرف معروف تھے بلکہ ان کا بے حد احترام کیا جاتا تھا۔ ان کی زندگی اسرارکے پردے میں چھپی رہی۔ ان کی شہادت کے بارے میں جو تفتیش و تحقیق میجر محمد اسحاق نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرکی، وہ کسی کارنامے سے کم نہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات قابل فہم نہیں کہ ایک پنجابی نے، ایک دکنی کمیونسٹ کی جرات اور جواں مردی ثابت کرنے کے لیے اپنی زندگی کے ماہ وسال کیوں داؤ پر لگا دیے۔
یہ بات بس وہی سمجھ سکتے ہیں جوکسی آدرش پر اپنی خوشیاں اور اپنی جان بھی قربان کردیتے ہیں۔ یہ میجر اسحاق تھے جن کے ذریعے حسن ناصرکی ماں بیگم زہرا علمبردارحسین کو جواں سال بیٹے کے جان سے گزر جانے کی خبر ملی۔ صدمے سے نڈھال لیکن بیٹے کو ساتھ لے جانے کا تہیہ کیے ہوئے زہرا علمبردار حسین لاہور پہنچیں، قبرکشائی ہوئی۔ اس سے برآمد ہونے والی کسی ناقابل شناخت لاش کے بارے میں پولیس کا اصرار تھا کہ وہ ناصر کی ہے اور ماں کا اسے اپنے بیٹے کا جسد خاکی ماننے سے انکار اور پھر واپس حیدرآباد چلے جانا، ایک اندوہناک واقعہ ہے۔
جاتے جاتے وہ اپنے بیٹے کے دوستوں سے یہ کہہ گئیں کہ '' ہر انسان کی زندگی کا اپنی ذات کے علاوہ بھی مقصد ہونا چاہیے ورنہ وہ انسان نہیں۔ بعض مقاصد ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جان کی بازی لگانی ہوتی ہے ۔ میرے بیٹے کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ میں بہت دنوں سے یہ جانتی تھی۔ کئی برسوں سے جی کڑاکیے رکھا، بالآخر وہ لمحہ آگیا جو ٹل نہیں سکتا تھا۔ میری بات چھوڑئیے۔ البتہ حسن ناصر خوش قسمت تھا کہ اگر اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا تو اس کے لیے جان دے دینے کی سعادت تو پالی۔''
کسی کو حسن ناصر کے آخری دنوں اور شہادت کے بارے میں سب کچھ جاننے کی خواہش ہو تو وہ میجر اسحاق کی کتاب ''حسن ناصرکی شہادت '' کا مطالعہ کرے۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات۔ یقین نہیں آتا کہ انسان ، شرفِ انسانیت سے اس حد تک بھی گرسکتا ہے۔
حسن ناصرکے بارے میں پولیس کا اصرار تھا کہ وہ اپنی ماں کا خط پڑھ کر اس قدر دل گرفتہ ہوا کہ اس نے خود کشی کرلی جب کہ میجر اسحاق اور ناصرکے دوسرے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ کسی کمیونسٹ کا اس طرح دل برداشتہ ہونا ممکن ہی نہیں کہ وہ خودکشی کا ارتکاب کر لے۔ یاد رہے کہ چند دن پہلے حسن ناصر نے جیل لائبریری سے History of Saracens منگوائی تھی اور اسے پڑھ رہے تھے۔ روزانہ کے اخبارات (سنسر شدہ) کا مطالعہ بھی ان کا روزمرہ تھا۔ یہ تمام واقعات ''حسن ناصر کی شہادت'' اور کامران اژدر علی کی کتاب ''سرخ سلام'' میں مل جاتے ہیں ۔ یہ اس شخص کی زندگی کا منظرنامہ ہے جو برصغیر کی کمیونسٹ تحریک میں ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیارکرگیا۔
1950 کی دہائی کے اوائل میں حسن ناصر اپنی قید کے دوران نہ صرف قیدیوں بلکہ جیل کے عملے میں بھی کافی مقبول تھے۔ ان کے شاگرد کا کہنا تھاکہ اسے 1950 کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں گرفتار کرکے جب کراچی سینٹرل جیل بھیجا گیا اور وہاں کے غیر سیاسی قیدیوں کو یہ معلوم ہوا کہ میں حسن ناصر کا دوست ہوں تو انھوں نے مجھ سے اضافی عزت اور احترام سے پیش آنا شروع کر دیا۔ قیدیوں کے علاوہ جیل کے محافظ بھی ان کا پورا خیال رکھا کرتے تھے۔
تاہم ، کراچی کے پولیس لاک اپ اور کراچی سینٹرل جیل میں رہنا ،لاہور قلعے میں رہنے سے مختلف بات رہی ہوگی کیونکہ لاہور قلعہ اس وقت دہشت ناک سی آئی ڈی اور انٹیلی جنس بیورو کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ حسن ناصر، جیل حکام کے احکامات کی مزاحمت کرسکتے تھے لیکن لاہور قلعے میں ایسے مطالبات، مزاحمت کے زمرے میں آتے تھے جس کا مفہوم یہ تھا کہ سرکش قیدی کو نظم وضبط میں لانے کے لیے مزید تشدد اور ایذا رسانی کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حسن ناصر نے یہاں خاموشی اختیار کر لی ہوگی اورکچھ بولنے سے گریز کیا ہوگا۔
ایک قیدی ہمیشہ خاموش رہ کر (یا تشدد سے بے ہوش ہوکر خاموشی میں چلا جاتا ہے) ، قیدی اپنے اوپر موت سے مشابہت رکھنے والی خاموش طاری کر لیتے ہیں جو ان کے جسم کے لیے آخری خطرہ ہوتی ہے۔ اس خاموشی کے جواب میں اکثر ایذا رسانی کی شدت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں خاموشی، اعتراف جرم اور بامعنی زبان میں بیانیے کی عدم موجودگی کے مترادف تھی۔ اس لیے تشدد کا مقصد یہ تھا کہ جس قیدی کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ تکلیف اور اذیت کے باعث قابل سماعت آوازیں نکال سکے۔ ان حوالوں سے حسن ناصرکی موت ، اس کے رفیقوں اور خاندان کا نقصان تھا لیکن یہ خود تشدد اور ایذا رسانی کی ایک آخری حد بھی بن گئی، ایک بولنے والا جسم جس سے امکانی طور پر اعتراف جرم کرایا جاسکتا تھا اب دنیا میں موجود نہیں تھا ۔
حسن ناصر کو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ان کی باتیں سنتی رہی۔ ممتاز آپا (ممتاز نورانی) سبط حسن اور بعض دوسرے کمیونسٹوں سے ان کے بارے میں بہت کچھ سنا۔ سال بہ سال ان سے وفاداری گہری ہوتی گئی۔ ان کے بارے میں ایک نہیں کئی کالم لکھے۔ اپنے ایک کالم میں وہ دو خط بھی نقل کیے جو ڈاکٹرکامران اژدر علی کی کتاب ''سرخ سلام'' کا حصہ ہیں۔ ان میں سے ایک حسن ناصر نے اپنے والدہ بیگم علمبردار حسین کے نام لکھا ہے اور دوسرا ان کی والدہ نے حسن ناصرکو تحریر کیا ہے۔ دونوں ماں اور بیٹے کی محبت کے غماز ہیں۔
حسن ناصر نے زندگی کے آخری دنوں میں لکھا تھا :
''میں ہندوستان چلا گیا تھا لیکن اپنی جلا وطنی کے بعد واپس آگیا۔ میرے خاندان کی زمینیں اور دولت مجھے وہاں روک نہیں سکیں۔ میری پارٹی (انڈین کمیونسٹ پارٹی) بھی مجھے نہ روک سکی ، میرے خاندان والوں نے ان سے کہا تھا کہ میں وہیں کام کروں۔ میں وہاں رہنا کیوں نہیں چاہتا تھا ؟ یہ بات نہیں ہے کہ میں انڈیا کو پسند نہیں کرتا ۔ آخر میں وہیں پیدا ہوا تھا اور اس کی زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کوکھا کر بڑا ہوا تھا ۔ ایسی جگہ سے میں کس طرح نفرت کرسکتا ہوں ؟ لیکن یہ وہ جگہ نہیں ہے جہاں مجھے جدوجہد کرنا ہے۔ یہاں وہ مزدور نہیں ہیں جن کے ساتھ میں رہتا ، سہتا اور جنھیں سوشل ازم پڑھاتا تھا۔ وہ سب یہاں ہیں، کراچی میں، وہ ہندوستان میں نہیں ہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے میں واپس آیا ہوں کیونکہ میں یہاں رہوں گا اورآپ بھی ایساکریں گے۔ ہماری قبریں بھی اسی زمین پر بنیں گی۔''
ان کی خواہش کے مطابق ان کی قبر اسی زمین پر بنی۔ لیکن ہم نہیں جانتے لاہورکے کس قبرستان میں اور یہی مقدر ہمارے بعض دوسرے روشن خیال اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ہوا۔ حسن ناصر ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھیں سفاکی سے قتل نہ کیا گیا ہوتا تو پاکستان اخلاقی زوال کی اس دلدل میں نہ اترتا، جس میں وہ آج اتر چکا ہے۔
حسن ناصر سے ہم صرف یہی عرض کرسکتے ہیں کہ:
مت سمجھو ہم نے بھلا دیا/یہ مٹی تم کو پیاری تھی/سمجھو مٹی میں سلا دیا/یہ چاندنی رات یہ سنہری کرن/اس جگمگ رت کا اک اک پل/ہم نے تم سے آباد رکھا/ہر لحظہ تم کو یاد رکھا/یہ مٹی تم کو پیاری تھی/سمجھو مٹی میں سلا دیا/مت سمجھو ہم نے بھلادیا......