بک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
ایک ماہرِ حیوانیات 'شکاری' کی منفرد کتھا
انہوں نے دنیا کے 10 خطرناک ترین آدم خوروں میں سے دو چیتوں کا شکار کیا، کہنے کو تو انہیں آپ شکاری کہہ لیجیے، لیکن اُن کی رحم دلی اور فیاضی کے چرچے اس لفظ کے تاثر پر حاوی معلوم ہوتے ہیں، یہ جم کاربٹ کا ذکر ہے جن کی داستان حیات ''کاربٹ صاحب'' کے عنوان سے شایع ہوئی ہے، جم کاربٹ کو کتاب کے ناشر فارق احمد ''زندگانیت'' کا پیام بر قرار دیتے ہیں۔ اس لیے انہیں شکاری کہنا معنوی اعتبار سے بھی عجیب معلوم ہوتا ہے اور پھر شاید یہ ان کی کئی جہتی شخصیت کا احاطہ بھی نہیں کرتا۔ وہ نہ صرف خود جانوروں کی آوازیں نکال لیتے تھے، بلکہ جانوروں کی آوازوں سے لے کر اُن کی 'بدن بولی' کے معنی بھی جاننے لگے تھے، حتیٰ کہ جانوروں کے 'نقشِ پا' سے بھی وہ یہ اخذ کر لیتے کہ اگر پیر کا نشان ایسے ہے، تو اس کا کیا مطلب ہوا۔۔۔! ہم انہیں اپنے وقت کا 'جنگلات اور حیوانات' کا ایک بڑا ماہر بھی قرار دے سکتے ہیں۔ جم کوربٹ 1875ء میں نینی تال (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، ریلوے اور برطانوی فوج میں رہے، 1947ء میں کینیا چلے گئے۔ اُن کی یہ سوانح مارٹن بوتھ نے رقم کی تھی، لیکن اس کا اردو ترجمہ اب مسز رابعہ سلیم کے قلم سے منصہ شہود پر آسکا ہے۔ اس کتاب میں آپ شکاریات اور جنگلیات کے تحیّر کے ساتھ ساتھ 'ہندوستانیات' کے حوالے سے بھی بہت سا مواد پائیں گے۔ کتاب کی مترجمہ راشد اشرف کی والدہ ہیں، جن کی دل جمعی اب 'زندہ کتابوں' کے سلسلے کو نصف صد سے بھی آگے لے گئی ہے، 'زندہ کتابیں سلسلہ نمبر 48' کی یہ کتاب ''اٹلانٹس'' کراچی نے شایع کی ہے، صفحات 359 اور قیمت 690 روپے ہے۔
ایک دل چسپ اور ادبی و تحقیقی کاوش
ہم جب بھی ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی طنز ومزاح کی کتابوں میں شامل زبان وبیان کے حوالے سے مضامین دیکھتے، تو جی چاہتا کہ مصنف کو اپنے ایسے مضامین کو علاحدہ شکل دینا چاہیے، کیوں کہ کہنے کو تو وہ مزاح نگار ہیں، لیکن صاحب، زبان وادب پر ان کا مَلکہ بھی کچھ کم نہیں ہے، اور آج کے زمانے میں اتنی قابلیت رکھنے والی علمی شخصیات بہت کم ہی ہیں۔ اس کتاب کا عنوان بننے والا 387 حوالوں سے مزین 81 صفحوں پر محیط تحقیقی مضمون 'یوں نہیں یوں' ہے، جس کے صرف حواشی ہی 22 صفحات تک دراز ہیں، یعنی کتاب کے باقی نو مضامین ایک طرف، اور صرف یہی مضمون ایک طرف، جو کتاب کا تقریباً نصف حصہ بن جاتا ہے۔ یہ تحقیقی مضمون اس سے قبل مختلف اخبار ورسائل وغیرہ کی زینت بن چکا ہے، بہرحال وہ مزاح نگار ہیں، تو اب چاہے سنجیدہ ہی کیوں نہ لکھیں، لیکن ان کی تنقید بھی خشک نہیں ہوتی، بلکہ اس میں شگفتگی بھی کہیں نہ کہیں سے در آتی ہی ہے اور کتاب کے دیگر مضامین کی ورق گردانی کے بعد یہ رائے اور بھی پختہ ہوتی ہے۔ اس تصنیف میں اسد اللہ غالب، اکبر الہ آبادی، جوش ملیح آبادی، مشتاق احمد یوسفی، اختر شیرانی سمیت دیگر موضوعات پر علمی اظہار خیال نہایت دل چسپ انداز میں کیا گیا ہے۔ یوں تو یہ مصنف کی 26 ویں تصنیف ہے، اپنی گذشتہ کتابوں میں وہ سماجی تحفظ، اشتہاریات، طنز و مزاح اور سفرناموں وغیرہ کا احاطہ کر چکے ہیں، لیکن باقاعدہ ادبی وتنقیدی نگارشات میں ''یوں نہیں یوں اور کچھ دیگر'' کا شمار تیسرا ہے۔ قریشی انٹرپرائزز، کراچی کی شایع کردہ 222 صفحات کی اس کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔
'مطالعہ پاکستان' پر ایک قابل قدر تصنیف
فرید پبلشرز کی یہ سبز ہلالی پرچم کا سرورق لی ہوئی کتاب 'پاکستان کا آئین' دیکھیے، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ 'دستور پاکستان' کی دفعات اور شقوں کا مفصل بیان ہے، لیکن جب اس کی ورق گردانی کیجیے، تو اس میں ہمارے 1973ء کے آئین کے نمایاں خدوخال کے ساتھ دراصل دستور سازی کے مراحل وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں 'میٹرک' کے طالب علم کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، تاکہ وہ امور مملکت کی جملہ ضروری معلومات سے آگاہی حاصل کر سکے۔ اس کتاب میں 1861ء تا 1973ء پوری دستوری جدوجہد اور اس کے بعد اور پہلے کے حالات و واقعات بھی سموئے گئے ہیں۔ کتاب کے 11 ابواب میں حکومتی ڈھانچا، آئینی اداروں، سیاسی جماعتوں اور ریاست کے کلیدی عہدوں کے فرائض اور اختیارات کا اچھی طرح ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم 'مطالعہ پاکستان' کی روایتی کتابوں کی طرح اس میں بھی قیام پاکستان کا مرحلہ بہت سرسری سے انداز میں گزر گیا، اس باب میں قیام پاکستان کے انتخابی نتائج کا ذکر لازمی کرنا چاہیے تھا۔ ساتھ ساتھ کچھ واقعاتی غلطیاں بھی توجہ کی متقاضی ہیں، جیسے 2002ء کے انتخابات میں چھے جماعتی اتحاد 'متحدہ مجلس عمل' کی صرف پانچ جماعتوں کا ذکر ہے۔۔۔ 1978ء میں 'اے پی ایم ایس او' کے قیام اور 'ایم کیو ایم' کا 1986ء کا جلسہ خلط ملط ہے، بلدیاتی انتخابات 1987ء کا سن 1982ء درج ہے، تاہم نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے 'اے این پی' بننے تک کے سفر نہایت اہم گوشہ ہے، کیوں کہ بائیں بازو کی سیات کا یہ باب ذرا کم ہی تذکرے میں آتا ہے۔ بھولی بسری سیاسی تاریخ تازہ کرنے والی اس دستاویز میں اگر سقم رہ جائیں، تو پھر اس اہم کتاب سے اکتساب کرنے والے طالب علم کے ساتھ یہ کافی زیادتی ہے، امید ہے اگلی اشاعت میں اس کمی کو دور کر لیا جائے گا۔ 306 صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔
قومی شاعر پر ایک اور طرح کی کتاب
ہمارے ہاں اکثر جس کے ساتھ 'قومی' کا سابقہ لگ جائے، تو وہ خود بخود ایک بلند مرتبے پر فائز ہو جاتی ہے، لیکن دفعتاً ہمیں قومی زبان اردو کا خیال آتا ہے، جو اپنے ہی دیس میں 72 برس بعد بھی اپنے مقام سے محروم ہے، خیر یہاں ذکر قومی شاعر علامہ اقبال کا ہے، جن پر بہتیرے موضوعات کے حوالے سے 'پی ایچ ڈی' کی سطح کی تحقیقات کی جا چکیں اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے، لیکن ان پر کچھ اہل قلم نے اور طرح کے انداز سے بھی قلم آرائی کی ہے، ایسے ہی پُرمزاح مضامین کو شجاع الدین غوری نے ''اقبال مزاح کی زد میں'' کے عنوان سے مرتب کیا ہے۔ جس میں قدرت اللہ شہاب، احمد ندیم قاسمی، شوکت تھانوی، نصر اللہ خان، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، مختار زمن، عطا الحق قاسمی اور محمد عثمان جامعی و دیگر کے 18 مضامین شامل ہیں۔ کہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اہل قلم نے اقبال کے اشعار کے ذریعے خوش طبع قارئین کی چٹکیاں بھرنے کی کوشش کی ہے، اور کہیں شعر کی 'وسعت' پر دل اَش اَش کر اٹھتا ہے کہ ان اشعار کو ہم نے سنا تو بہت ہوا ہے، لیکن ایسی 'تشریح' کبھی ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں کبھی آئی ہی نہیں۔ 'قرطاس' کراچی کے تحت شایع گئی اس کتاب کی قیمت 200 روپے ہے۔n
انہوں نے دنیا کے 10 خطرناک ترین آدم خوروں میں سے دو چیتوں کا شکار کیا، کہنے کو تو انہیں آپ شکاری کہہ لیجیے، لیکن اُن کی رحم دلی اور فیاضی کے چرچے اس لفظ کے تاثر پر حاوی معلوم ہوتے ہیں، یہ جم کاربٹ کا ذکر ہے جن کی داستان حیات ''کاربٹ صاحب'' کے عنوان سے شایع ہوئی ہے، جم کاربٹ کو کتاب کے ناشر فارق احمد ''زندگانیت'' کا پیام بر قرار دیتے ہیں۔ اس لیے انہیں شکاری کہنا معنوی اعتبار سے بھی عجیب معلوم ہوتا ہے اور پھر شاید یہ ان کی کئی جہتی شخصیت کا احاطہ بھی نہیں کرتا۔ وہ نہ صرف خود جانوروں کی آوازیں نکال لیتے تھے، بلکہ جانوروں کی آوازوں سے لے کر اُن کی 'بدن بولی' کے معنی بھی جاننے لگے تھے، حتیٰ کہ جانوروں کے 'نقشِ پا' سے بھی وہ یہ اخذ کر لیتے کہ اگر پیر کا نشان ایسے ہے، تو اس کا کیا مطلب ہوا۔۔۔! ہم انہیں اپنے وقت کا 'جنگلات اور حیوانات' کا ایک بڑا ماہر بھی قرار دے سکتے ہیں۔ جم کوربٹ 1875ء میں نینی تال (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، ریلوے اور برطانوی فوج میں رہے، 1947ء میں کینیا چلے گئے۔ اُن کی یہ سوانح مارٹن بوتھ نے رقم کی تھی، لیکن اس کا اردو ترجمہ اب مسز رابعہ سلیم کے قلم سے منصہ شہود پر آسکا ہے۔ اس کتاب میں آپ شکاریات اور جنگلیات کے تحیّر کے ساتھ ساتھ 'ہندوستانیات' کے حوالے سے بھی بہت سا مواد پائیں گے۔ کتاب کی مترجمہ راشد اشرف کی والدہ ہیں، جن کی دل جمعی اب 'زندہ کتابوں' کے سلسلے کو نصف صد سے بھی آگے لے گئی ہے، 'زندہ کتابیں سلسلہ نمبر 48' کی یہ کتاب ''اٹلانٹس'' کراچی نے شایع کی ہے، صفحات 359 اور قیمت 690 روپے ہے۔
ایک دل چسپ اور ادبی و تحقیقی کاوش
ہم جب بھی ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی طنز ومزاح کی کتابوں میں شامل زبان وبیان کے حوالے سے مضامین دیکھتے، تو جی چاہتا کہ مصنف کو اپنے ایسے مضامین کو علاحدہ شکل دینا چاہیے، کیوں کہ کہنے کو تو وہ مزاح نگار ہیں، لیکن صاحب، زبان وادب پر ان کا مَلکہ بھی کچھ کم نہیں ہے، اور آج کے زمانے میں اتنی قابلیت رکھنے والی علمی شخصیات بہت کم ہی ہیں۔ اس کتاب کا عنوان بننے والا 387 حوالوں سے مزین 81 صفحوں پر محیط تحقیقی مضمون 'یوں نہیں یوں' ہے، جس کے صرف حواشی ہی 22 صفحات تک دراز ہیں، یعنی کتاب کے باقی نو مضامین ایک طرف، اور صرف یہی مضمون ایک طرف، جو کتاب کا تقریباً نصف حصہ بن جاتا ہے۔ یہ تحقیقی مضمون اس سے قبل مختلف اخبار ورسائل وغیرہ کی زینت بن چکا ہے، بہرحال وہ مزاح نگار ہیں، تو اب چاہے سنجیدہ ہی کیوں نہ لکھیں، لیکن ان کی تنقید بھی خشک نہیں ہوتی، بلکہ اس میں شگفتگی بھی کہیں نہ کہیں سے در آتی ہی ہے اور کتاب کے دیگر مضامین کی ورق گردانی کے بعد یہ رائے اور بھی پختہ ہوتی ہے۔ اس تصنیف میں اسد اللہ غالب، اکبر الہ آبادی، جوش ملیح آبادی، مشتاق احمد یوسفی، اختر شیرانی سمیت دیگر موضوعات پر علمی اظہار خیال نہایت دل چسپ انداز میں کیا گیا ہے۔ یوں تو یہ مصنف کی 26 ویں تصنیف ہے، اپنی گذشتہ کتابوں میں وہ سماجی تحفظ، اشتہاریات، طنز و مزاح اور سفرناموں وغیرہ کا احاطہ کر چکے ہیں، لیکن باقاعدہ ادبی وتنقیدی نگارشات میں ''یوں نہیں یوں اور کچھ دیگر'' کا شمار تیسرا ہے۔ قریشی انٹرپرائزز، کراچی کی شایع کردہ 222 صفحات کی اس کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔
'مطالعہ پاکستان' پر ایک قابل قدر تصنیف
فرید پبلشرز کی یہ سبز ہلالی پرچم کا سرورق لی ہوئی کتاب 'پاکستان کا آئین' دیکھیے، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ 'دستور پاکستان' کی دفعات اور شقوں کا مفصل بیان ہے، لیکن جب اس کی ورق گردانی کیجیے، تو اس میں ہمارے 1973ء کے آئین کے نمایاں خدوخال کے ساتھ دراصل دستور سازی کے مراحل وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال میں 'میٹرک' کے طالب علم کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، تاکہ وہ امور مملکت کی جملہ ضروری معلومات سے آگاہی حاصل کر سکے۔ اس کتاب میں 1861ء تا 1973ء پوری دستوری جدوجہد اور اس کے بعد اور پہلے کے حالات و واقعات بھی سموئے گئے ہیں۔ کتاب کے 11 ابواب میں حکومتی ڈھانچا، آئینی اداروں، سیاسی جماعتوں اور ریاست کے کلیدی عہدوں کے فرائض اور اختیارات کا اچھی طرح ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم 'مطالعہ پاکستان' کی روایتی کتابوں کی طرح اس میں بھی قیام پاکستان کا مرحلہ بہت سرسری سے انداز میں گزر گیا، اس باب میں قیام پاکستان کے انتخابی نتائج کا ذکر لازمی کرنا چاہیے تھا۔ ساتھ ساتھ کچھ واقعاتی غلطیاں بھی توجہ کی متقاضی ہیں، جیسے 2002ء کے انتخابات میں چھے جماعتی اتحاد 'متحدہ مجلس عمل' کی صرف پانچ جماعتوں کا ذکر ہے۔۔۔ 1978ء میں 'اے پی ایم ایس او' کے قیام اور 'ایم کیو ایم' کا 1986ء کا جلسہ خلط ملط ہے، بلدیاتی انتخابات 1987ء کا سن 1982ء درج ہے، تاہم نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے 'اے این پی' بننے تک کے سفر نہایت اہم گوشہ ہے، کیوں کہ بائیں بازو کی سیات کا یہ باب ذرا کم ہی تذکرے میں آتا ہے۔ بھولی بسری سیاسی تاریخ تازہ کرنے والی اس دستاویز میں اگر سقم رہ جائیں، تو پھر اس اہم کتاب سے اکتساب کرنے والے طالب علم کے ساتھ یہ کافی زیادتی ہے، امید ہے اگلی اشاعت میں اس کمی کو دور کر لیا جائے گا۔ 306 صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔
قومی شاعر پر ایک اور طرح کی کتاب
ہمارے ہاں اکثر جس کے ساتھ 'قومی' کا سابقہ لگ جائے، تو وہ خود بخود ایک بلند مرتبے پر فائز ہو جاتی ہے، لیکن دفعتاً ہمیں قومی زبان اردو کا خیال آتا ہے، جو اپنے ہی دیس میں 72 برس بعد بھی اپنے مقام سے محروم ہے، خیر یہاں ذکر قومی شاعر علامہ اقبال کا ہے، جن پر بہتیرے موضوعات کے حوالے سے 'پی ایچ ڈی' کی سطح کی تحقیقات کی جا چکیں اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے، لیکن ان پر کچھ اہل قلم نے اور طرح کے انداز سے بھی قلم آرائی کی ہے، ایسے ہی پُرمزاح مضامین کو شجاع الدین غوری نے ''اقبال مزاح کی زد میں'' کے عنوان سے مرتب کیا ہے۔ جس میں قدرت اللہ شہاب، احمد ندیم قاسمی، شوکت تھانوی، نصر اللہ خان، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، مختار زمن، عطا الحق قاسمی اور محمد عثمان جامعی و دیگر کے 18 مضامین شامل ہیں۔ کہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اہل قلم نے اقبال کے اشعار کے ذریعے خوش طبع قارئین کی چٹکیاں بھرنے کی کوشش کی ہے، اور کہیں شعر کی 'وسعت' پر دل اَش اَش کر اٹھتا ہے کہ ان اشعار کو ہم نے سنا تو بہت ہوا ہے، لیکن ایسی 'تشریح' کبھی ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں کبھی آئی ہی نہیں۔ 'قرطاس' کراچی کے تحت شایع گئی اس کتاب کی قیمت 200 روپے ہے۔n