ایک تقابلی جائزہ
پٹیالہ کا دو روزہ دورہ کر کے جب واپس آئے تو واہگہ بارڈر پرایک کسٹمزافسرنے دردمندانہ اندازمیں سوال کیا کہ...
پٹیالہ کا دو روزہ دورہ کر کے جب واپس آئے تو واہگہ بارڈر پرایک کسٹمزافسرنے دردمندانہ اندازمیں سوال کیا کہ وہ کیااسباب ہیں کہ وہ(بھارت)ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں، جب کہ ہم(پاکستان) تیزی کے ساتھ پسماندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ اس سوال کا فوری جواب تو یہ ہے کہ ہر وہ قوم جوحصول علم کا راستہ اختیار کرتی ہے اور اپنے اداروں کومستحکم بناتی ہے، لازمی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔دنیاکی معلوم تاریخ میں یہ ایک آفاقی کلیہ رہا ہے۔لیکن ان کے علاوہ بھی دیگر کئی دیگر عوامل قوموں کی ترقی وتنزلی کا اسباب بنتے ہیں۔جن کا جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہے۔
پاکستان اور بھارت کاسیاسی، سماجی اور معاشی تقابل کرنے سے پہلے معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ کے تناظر میں قوموں کی شکست وریخت کے جو چھ اسباب بیان کیے ہیں، ان پر گفتگو کرنا ضروری ہے۔اول،اخلاقی اقدارکا کمزور یا ختم ہوجانا ہے۔ایسی صورت میںانفرادی اور اجتماعی سطح پرکرپشن، بدعنوانی اور جرم پروری سماجی کلچر کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اس پر ندامت اور شرمندگی کی بجائے اسے طاقت اور قوت کا اظہار سمجھا جانے لگتا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ معاشرے میں بے حسی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ اخلاقی اقدار کو روندنے والے افراد کی نہ تو کھل کر مذمت کرتا ہے اور نہ ان کا بائیکاٹ کرتا ہے۔دوئم،قومی مفاد پر ذاتی مفاد کاحاوی آنا۔جب اخلاقی اقدار موجود نہ رہیں، ادارے کمزور پڑچکے ہوں اور احتساب وجوابدہی کا نظام شکست خوردگی کا شکار ہوچکاہو،توذاتی مفادات قومی مفاد پر حاوی آجاتے ہیں۔سیاسی رہنماء، اعلیٰ سے ادنیٰ ریاستی اہلکار،کاروباری طبقات اور عام شہری ذاتی مفادات میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ ان کی نظرمیں قومی مفادات کی کوئی اہمیت وافادیت ہی نہیں رہ پاتی۔
سوئم، مذہب سے زیادہ مذہبیت (Religiosity) پرتوجہ دی جانے لگتی ہے۔مذہب کو ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ایسے افراد جن کی مذہب کے بارے میں معلومات محض واجبی سی ہوتی ہے، مذہب کے ٹھیکیدار بن کرسامنے آتے ہیں اور مذہبی عقائد کی من پسند تفہیم وتفسیرکرتے ہیں۔ایسے ماحول میں برداشت اور رواداری کو دانستہ ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مذہب کے نام پر قتل وغارت گری عام ہوجاتی ہے۔ چہارم،ریاست اور ریاستی اداروں کا کمزور ہوجانا۔ جب ریاستی ادارے کمزور پڑجاتے ہیں،تو ان میں قانون کی عملداری قائم کرنے کی سکت باقی نہیں رہتی۔ایک طرح کا اندھیرنگری چوپٹ راج قسم کا ماحول جنم لے لیتا ہے۔جس میںسزااور جزاکا تصور مفقود ہوجاتاہے،نتیجتاً معاشرے کا ہرفردحسب حیثیت من مانیوں پر اترآتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے۔خاص طور پر بااثر اور سیاسی طورپر طاقتور افرادجب چاہتے ہیں قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیںاور انھیں پوچھنے والاکوئی نہیں ہوتا۔انتظامیہ امن وامان قائم کرنے اور عدلیہ نظام عدل کو جاری رکھنے میں ناکام ہوجاتی ہے۔
پنجم، معاشرے کافکری طورپر بانجھ ہوجانا۔ایسے معاشرے جہاں تحقیق وتخلیق پر مختلف حیلوں بہانوں سے قدغن عائد کیے جاتے ہوں۔جہاںادیب، دانشور، مصور، مجسمہ ساز اور موسیقار آزادانہ اظہاراور تخلیق سے خوفزدہ ہوں ۔جہاںمعاشرے کی تخلیقی صلاحیتوں پرکبھی ریاستی اور کبھی غیر ریاستی عناصر مختلف انداز سے اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہوں۔ وہاںاوریجنل ادب،شاعری، مصوری ا ورموسیقی تخلیق نہیں ہوتی۔ایسے معاشرے وقت گذرنے کے ساتھ فکری بانجھ پن میں مبتلاہوکرسفاکی وبے رحمی کی نفسیات میں مبتلاہوجاتے ہیں۔اگربغورجائزہ لیا جائے تواندازہ ہوگا کہ ہم اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔ششم،علم کی بے قدری۔وہ معاشرے جہاں علم کی قدرومنزلت نہ ہو۔ جہاںسیکھنے اور سمجھنے پر توجہ نہ دی جاتی ہو۔جہاں تعلیم میں صنفی امتیاز برتا جاتا ہو اورخواتین کو زبردستی علم سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہو۔ جہاں فروغ علم کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے میں ریاست اور ریاستی اداروںمیں دلچسپی کافقدان ہو۔تو ایسے معاشرے بہت جلد جہل کی تاریکیوں میں ڈوب کرتاریخ کے نہ پڑھے جانے والے ابواب کا حصہ بن جاتے ہیںاور دنیا انھیں فراموش کردیتی ہے۔
درج بالا نکات سے ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی پسماندگی کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔قصہ ایک دو دن یا محض66برس کا نہیں ہے۔ ہندو کمیونٹی کی اہلیتوں کو داد دینا چاہیے کہ ان کی کائستھ جاتی نے مسلم دور میںبھی عربی اورفارسی میں مہارت حاصل کرکے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو تسلیم کرایا تھااور انگریزی دور میں بھی سب سے پہلے عصری تعلیم کی طرف بڑھے۔ہندو کمیونٹی نے راجہ رام موہن رائے کوسرآنکھوں پر بٹھایا،جب کہ ہم نے سرسید کی تکفیرکی اور بعض حلقے آج تک کرتے ہیں۔ ہم نے صرف یہ مقابلہ کیا کہ اگر بھارت پانچ جوہری دھماکے کرتاہے، تو ہم چھ کریں گے۔لیکن کیا ہم نے تعلیم کی شرح اور معیار کا تقابل کرنے کی کوشش کی؟ کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ انھوں نے ان66برسوں میں تعلیم پر کتنی رقم خرچ کی اور ہم نے کتنی کی؟کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ انھوں نے برطانیہ سے وراثت میں ملنے والے ریاستی اداروں کو کیسے مضبوط ومستحکم بنایا اور ہم نے کس بیدردی کے ساتھ انھیں تباہی و بربادی سے ہمکنارکیا۔کیا ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ بھارتی پنجاب جو رقبے میں پاکستانی پنجاب سے بہت چھوٹا ہے، اس کی زرعی پیداوار ہمارے پنجاب سے کیوں زیادہ ہے؟
کیا کبھی اس پہلو پر غور کیا کہ وہ کون سے اسباب ہیں کہ وہاں ریلوے روزانہ قومی خزانے میں12کروڑ روپے منافع جمع کراتی ہے جب کہ ہماری ریلوے روزانہ اتنا خسارہ دے رہی ہے۔ اگر غیرمتعصبانہ اندازمیں مکمل غیر جانبداری کے ساتھ بھارت کے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا جائزہ لیا جائے، توچند باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔اول، مضبوط سیاسی و انتظام نظام۔دوئم،معاشی ترقی کے لیے مربوط طویل المدتی اور قلیل المدتی منصوبہ بندی۔اب جہاں تک سیاسی استحکام کا تعلق ہے تو اس کی جڑیں آئین کی مختلف شقوںمیں پیوست ہوتی ہیں۔26جنوری1950ء کو بھارت میں آئین تیار ہوکر نافذ ہوگیا۔ اس آئین کے خدوخال پر کم وبیش 17برس بحث ہوئی۔ ابتدائی خدوخال پنڈت موتی لعل نہرو نے1931ء میں الہ آباد کنونشن میں واضح کردئیے تھے، جب آزادی کا دور دور کا پتہ نہیں تھا۔ جب کہ مارچ1940ء میں قرارداد پاکستان پیش کیے جانے سے قیام پاکستان تک7برس کے عرصہ میں نئی مملکت کے آئین کے خدوخال کے بارے میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آتی۔یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے 9برس بعد کہیں جاکر آئین تشکیل پایا، جو دو برس بعدہی آمریت کے ایڈونچر کا شکار ہوگیا۔
دوئم، بھارت نے وراثت میں ملنے والے ریاستی انتظامی اداروںمیں تطہیر یا تبدیلی اس وقت تک نہیں کی جب تک کہ متبادل نظام وضع نہیں کرلیا۔اس کے علاوہ معاشی ترقی کے اہداف انھوں نے1950ء کے عشرے ہی میں طے کرلیے تھے، جن میں وقتاً فوقتاً ردوبدل کی جاتی رہی۔1947 سے 1980 تک نہرو ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے صرف اندرون ملک صنعتوں کو فروغ دینے پرتوجہ مرکوز رکھی۔جب کہ1980کے عشرے میں نرسیما رائو حکومت نے جس کے وزیر خزانہ موجودہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ تھے، بھارت کی منڈیوں کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھول کر معاشی ترقی کے لیے نئی راہیں ہموار کیں ۔ جس کے نتیجے میں آج بھارت کا ایشیا کی تیزفتار معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔اس کے برعکس ہم شروع ہی سے معاشی ترقی کے لیے مربوط پالیسیاں ترتیب دینے میں ناکام ہیں۔ ہمارے یہاں 66 برسوں کے دوران کسی قسم کی طویل المدتی یا قلیل المدتی منصوبہ بندی نہیںکی گئی۔ 1950ء کے عشرے میںجب کولمبو پلان کے تحت صنعتی انفرا اسٹرکچر لگانے کے لیے امداد ملی اور مہاراشٹر اور گجرات کے بیوپاریوں نے سرمایہ کاری کی تو صنعتکاری کاعمل شروع ہوا، جو واضح پالیسی نہ ہونے کے سبب سقوط ڈھاکہ کے بعد رک گیا۔ اسی طرح وراثت میں ملنے والے منفعت بخش ادارے سیاسی بھرتیوں اور کرپشن کے باعث تباہی کے دہانے تک جا پہنچے۔
اس تقابل سے یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ اس وقت ہماری اولین ترجیح معاشی استحکام ہونا چاہیے۔جس کے لیے ہمیں اپنی پالیسیوں پرنظر ثانی کرتے ہوئے تعلیم سمیت مختلف شعبہ جات میںکلیدی تبدیلیوں کی طرف بڑھنا ہوگا۔اس کے علاوہ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتی اس دنیا میں سرد جنگ کی حکمت عملیوں کو جاری رکھنا اور ان پر اصرار کرنا اب ممکن نہیںرہا ہے۔اس لیے ہمیں اپنے انداز فکر اور روش کوبھی تبدیل کرنا ہوگا۔
پاکستان اور بھارت کاسیاسی، سماجی اور معاشی تقابل کرنے سے پہلے معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ کے تناظر میں قوموں کی شکست وریخت کے جو چھ اسباب بیان کیے ہیں، ان پر گفتگو کرنا ضروری ہے۔اول،اخلاقی اقدارکا کمزور یا ختم ہوجانا ہے۔ایسی صورت میںانفرادی اور اجتماعی سطح پرکرپشن، بدعنوانی اور جرم پروری سماجی کلچر کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اس پر ندامت اور شرمندگی کی بجائے اسے طاقت اور قوت کا اظہار سمجھا جانے لگتا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ معاشرے میں بے حسی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ اخلاقی اقدار کو روندنے والے افراد کی نہ تو کھل کر مذمت کرتا ہے اور نہ ان کا بائیکاٹ کرتا ہے۔دوئم،قومی مفاد پر ذاتی مفاد کاحاوی آنا۔جب اخلاقی اقدار موجود نہ رہیں، ادارے کمزور پڑچکے ہوں اور احتساب وجوابدہی کا نظام شکست خوردگی کا شکار ہوچکاہو،توذاتی مفادات قومی مفاد پر حاوی آجاتے ہیں۔سیاسی رہنماء، اعلیٰ سے ادنیٰ ریاستی اہلکار،کاروباری طبقات اور عام شہری ذاتی مفادات میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ ان کی نظرمیں قومی مفادات کی کوئی اہمیت وافادیت ہی نہیں رہ پاتی۔
سوئم، مذہب سے زیادہ مذہبیت (Religiosity) پرتوجہ دی جانے لگتی ہے۔مذہب کو ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ایسے افراد جن کی مذہب کے بارے میں معلومات محض واجبی سی ہوتی ہے، مذہب کے ٹھیکیدار بن کرسامنے آتے ہیں اور مذہبی عقائد کی من پسند تفہیم وتفسیرکرتے ہیں۔ایسے ماحول میں برداشت اور رواداری کو دانستہ ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مذہب کے نام پر قتل وغارت گری عام ہوجاتی ہے۔ چہارم،ریاست اور ریاستی اداروں کا کمزور ہوجانا۔ جب ریاستی ادارے کمزور پڑجاتے ہیں،تو ان میں قانون کی عملداری قائم کرنے کی سکت باقی نہیں رہتی۔ایک طرح کا اندھیرنگری چوپٹ راج قسم کا ماحول جنم لے لیتا ہے۔جس میںسزااور جزاکا تصور مفقود ہوجاتاہے،نتیجتاً معاشرے کا ہرفردحسب حیثیت من مانیوں پر اترآتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے۔خاص طور پر بااثر اور سیاسی طورپر طاقتور افرادجب چاہتے ہیں قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیںاور انھیں پوچھنے والاکوئی نہیں ہوتا۔انتظامیہ امن وامان قائم کرنے اور عدلیہ نظام عدل کو جاری رکھنے میں ناکام ہوجاتی ہے۔
پنجم، معاشرے کافکری طورپر بانجھ ہوجانا۔ایسے معاشرے جہاں تحقیق وتخلیق پر مختلف حیلوں بہانوں سے قدغن عائد کیے جاتے ہوں۔جہاںادیب، دانشور، مصور، مجسمہ ساز اور موسیقار آزادانہ اظہاراور تخلیق سے خوفزدہ ہوں ۔جہاںمعاشرے کی تخلیقی صلاحیتوں پرکبھی ریاستی اور کبھی غیر ریاستی عناصر مختلف انداز سے اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہوں۔ وہاںاوریجنل ادب،شاعری، مصوری ا ورموسیقی تخلیق نہیں ہوتی۔ایسے معاشرے وقت گذرنے کے ساتھ فکری بانجھ پن میں مبتلاہوکرسفاکی وبے رحمی کی نفسیات میں مبتلاہوجاتے ہیں۔اگربغورجائزہ لیا جائے تواندازہ ہوگا کہ ہم اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔ششم،علم کی بے قدری۔وہ معاشرے جہاں علم کی قدرومنزلت نہ ہو۔ جہاںسیکھنے اور سمجھنے پر توجہ نہ دی جاتی ہو۔جہاں تعلیم میں صنفی امتیاز برتا جاتا ہو اورخواتین کو زبردستی علم سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہو۔ جہاں فروغ علم کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے میں ریاست اور ریاستی اداروںمیں دلچسپی کافقدان ہو۔تو ایسے معاشرے بہت جلد جہل کی تاریکیوں میں ڈوب کرتاریخ کے نہ پڑھے جانے والے ابواب کا حصہ بن جاتے ہیںاور دنیا انھیں فراموش کردیتی ہے۔
درج بالا نکات سے ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی پسماندگی کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔قصہ ایک دو دن یا محض66برس کا نہیں ہے۔ ہندو کمیونٹی کی اہلیتوں کو داد دینا چاہیے کہ ان کی کائستھ جاتی نے مسلم دور میںبھی عربی اورفارسی میں مہارت حاصل کرکے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو تسلیم کرایا تھااور انگریزی دور میں بھی سب سے پہلے عصری تعلیم کی طرف بڑھے۔ہندو کمیونٹی نے راجہ رام موہن رائے کوسرآنکھوں پر بٹھایا،جب کہ ہم نے سرسید کی تکفیرکی اور بعض حلقے آج تک کرتے ہیں۔ ہم نے صرف یہ مقابلہ کیا کہ اگر بھارت پانچ جوہری دھماکے کرتاہے، تو ہم چھ کریں گے۔لیکن کیا ہم نے تعلیم کی شرح اور معیار کا تقابل کرنے کی کوشش کی؟ کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ انھوں نے ان66برسوں میں تعلیم پر کتنی رقم خرچ کی اور ہم نے کتنی کی؟کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ انھوں نے برطانیہ سے وراثت میں ملنے والے ریاستی اداروں کو کیسے مضبوط ومستحکم بنایا اور ہم نے کس بیدردی کے ساتھ انھیں تباہی و بربادی سے ہمکنارکیا۔کیا ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ بھارتی پنجاب جو رقبے میں پاکستانی پنجاب سے بہت چھوٹا ہے، اس کی زرعی پیداوار ہمارے پنجاب سے کیوں زیادہ ہے؟
کیا کبھی اس پہلو پر غور کیا کہ وہ کون سے اسباب ہیں کہ وہاں ریلوے روزانہ قومی خزانے میں12کروڑ روپے منافع جمع کراتی ہے جب کہ ہماری ریلوے روزانہ اتنا خسارہ دے رہی ہے۔ اگر غیرمتعصبانہ اندازمیں مکمل غیر جانبداری کے ساتھ بھارت کے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا جائزہ لیا جائے، توچند باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔اول، مضبوط سیاسی و انتظام نظام۔دوئم،معاشی ترقی کے لیے مربوط طویل المدتی اور قلیل المدتی منصوبہ بندی۔اب جہاں تک سیاسی استحکام کا تعلق ہے تو اس کی جڑیں آئین کی مختلف شقوںمیں پیوست ہوتی ہیں۔26جنوری1950ء کو بھارت میں آئین تیار ہوکر نافذ ہوگیا۔ اس آئین کے خدوخال پر کم وبیش 17برس بحث ہوئی۔ ابتدائی خدوخال پنڈت موتی لعل نہرو نے1931ء میں الہ آباد کنونشن میں واضح کردئیے تھے، جب آزادی کا دور دور کا پتہ نہیں تھا۔ جب کہ مارچ1940ء میں قرارداد پاکستان پیش کیے جانے سے قیام پاکستان تک7برس کے عرصہ میں نئی مملکت کے آئین کے خدوخال کے بارے میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آتی۔یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے 9برس بعد کہیں جاکر آئین تشکیل پایا، جو دو برس بعدہی آمریت کے ایڈونچر کا شکار ہوگیا۔
دوئم، بھارت نے وراثت میں ملنے والے ریاستی انتظامی اداروںمیں تطہیر یا تبدیلی اس وقت تک نہیں کی جب تک کہ متبادل نظام وضع نہیں کرلیا۔اس کے علاوہ معاشی ترقی کے اہداف انھوں نے1950ء کے عشرے ہی میں طے کرلیے تھے، جن میں وقتاً فوقتاً ردوبدل کی جاتی رہی۔1947 سے 1980 تک نہرو ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے صرف اندرون ملک صنعتوں کو فروغ دینے پرتوجہ مرکوز رکھی۔جب کہ1980کے عشرے میں نرسیما رائو حکومت نے جس کے وزیر خزانہ موجودہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ تھے، بھارت کی منڈیوں کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھول کر معاشی ترقی کے لیے نئی راہیں ہموار کیں ۔ جس کے نتیجے میں آج بھارت کا ایشیا کی تیزفتار معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔اس کے برعکس ہم شروع ہی سے معاشی ترقی کے لیے مربوط پالیسیاں ترتیب دینے میں ناکام ہیں۔ ہمارے یہاں 66 برسوں کے دوران کسی قسم کی طویل المدتی یا قلیل المدتی منصوبہ بندی نہیںکی گئی۔ 1950ء کے عشرے میںجب کولمبو پلان کے تحت صنعتی انفرا اسٹرکچر لگانے کے لیے امداد ملی اور مہاراشٹر اور گجرات کے بیوپاریوں نے سرمایہ کاری کی تو صنعتکاری کاعمل شروع ہوا، جو واضح پالیسی نہ ہونے کے سبب سقوط ڈھاکہ کے بعد رک گیا۔ اسی طرح وراثت میں ملنے والے منفعت بخش ادارے سیاسی بھرتیوں اور کرپشن کے باعث تباہی کے دہانے تک جا پہنچے۔
اس تقابل سے یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ اس وقت ہماری اولین ترجیح معاشی استحکام ہونا چاہیے۔جس کے لیے ہمیں اپنی پالیسیوں پرنظر ثانی کرتے ہوئے تعلیم سمیت مختلف شعبہ جات میںکلیدی تبدیلیوں کی طرف بڑھنا ہوگا۔اس کے علاوہ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوتی اس دنیا میں سرد جنگ کی حکمت عملیوں کو جاری رکھنا اور ان پر اصرار کرنا اب ممکن نہیںرہا ہے۔اس لیے ہمیں اپنے انداز فکر اور روش کوبھی تبدیل کرنا ہوگا۔