کچھ مزید ذکر ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ کا
اپنے ایک گزشتہ کالم میں دو لغات کا ذکرکیا تھا۔ ایک ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ جو تین جلدوں پہ مشتمل ہے اور دوسری...
GHORA GAL:
اپنے ایک گزشتہ کالم میں دو لغات کا ذکرکیا تھا۔ ایک ''فرہنگ آصفیہ'' جو تین جلدوں پہ مشتمل ہے اور دوسری ''فیروز اللغات''۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے وعدہ بھی کیا تھا کہ اول الذکر اہم لغت سے کچھ اور بھی معلومات قارئین کے لیے فراہم کروں گی۔ بلکہ زبان کے حوالے سے اکثر و بیشتر ایسی معلومات بہم پہنچاتی رہوں گی۔ سو آج اس کی ابتدا کرتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ کی جلد اول میں ابتدا میں زبانوں اور ناموں کے حوالے سے بڑی مستند معلومات درج ہیں۔ یہ معلومات خاصی حیرت انگیز بھی ہیں اور انھیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے مولف مولوی سید احمد دہلوی نے کتنی عرق ریزی اور پتا مار کے یہ معلومات جانے کہاں کہاں سے اکٹھی کی ہوں گی۔
انھوں نے اس بات کی بھی تحقیق کی ہے کہ مختلف علاقوں اور ملکوں کے لوگ بعض الفاظ اپنی طبعی اور جغرافیائی وجوہات کی بنا پر ادا کرنے سے کیوں قاصر ہیں۔ ویسے تو ماہر لسانیات نے بھی ان وجوہات کا پتہ چلایا ہے۔ ہمارے ہر دلعزیز استاد ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ہمیشہ لسانیات کی کلاس لیتے ہوئے بڑے بھرپور انداز میں وہ وجوہات بتایا کرتے تھے ۔ اور خود بھی وہ الفاظ بھی بول کر بتایا کرتے تھے۔ مولوی صاحب نے بھی بڑی تفصیل سے ان عوامل کا ذکر کیا ہے کہ اہل عرب ''پ۔چ'' اور ''گ'' ادا نہیں کرسکتے۔ حیدرآباد دکن کے لوگ آج بھی ''ق'' کی جگہ ''خ'' بولتے ہیں۔ اس سلسلے میں مجاز لکھنوی کے حوالے سے ایک واقعہ بڑا مشہور ہے۔ جیساکہ سب جانتے ہیں کہ مجاز بلا کے ذہین اور فقرے باز انسان تھے۔ ایک دفعہ ان کے ایک حیدر آبادی دوست تشریف لائے اور بولے۔۔۔۔'' مجاز صاحب کل میری بیٹی کی تخریب نکاح ہے۔ آپ ضرور تشریف لایے گا'' مجاز مسکرا کر بولے۔۔۔۔ ''معاف کیجیے گا، مجھ سے یہ دردناک منظر نہیں دیکھا جائے گا۔''
سب سے پہلے شہروں اور ملکوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ ملاحظہ ہو۔ جسے آج ہم ''بغداد'' کہتے ہیں وہ دراصل ''باغ داد'' تھا۔ مشہور بادشاہ نوشیروان عادل ایک ہفتہ وار دربار عام لگایا کرتا تھا۔ جہاں وہ مظلوموں کی داد رسی کیا کرتا تھا اور انصاف کے تقاضے پورے کیا کرتا تھا۔ اس جگہ کا نام ''باغ داد'' تھا۔ اور یہ ایک سرسبز و شاداب باغ تھا۔ جہاں نوشیروان کی عدالت کا مکان بنا ہوا تھا۔ چنانچہ اسی نام سے یہ شہر مشہور ہوگیا۔ جو کثرت استعمال سے ''بغداد'' ہوگیا۔ اصفہان اس امر کی یادگار ہے کہ اس جگہ ایران کے سپہ سالار فریدوں نے اپنی چھاؤنی قائم کرکے اس کا نام ''اسپاہان'' رکھا تھا جو بعد میں اصفہان ہوگیا۔ قاہرہ اس امر کی یادداشت ہے کہ 941 عیسوی میں خلیفہ فاطمی مغربی کے سپہ سالار جوہر نامی نے ملک مصر کو قہرو غضب کے غلبے سے فتح کرکے اس کی یادگار کے طور پر یہ شہر بسایا تھا جو بعد میں قاہرہ کہلایا۔ اسی طرح دہلی شہر راجہ دہلو کے نام پہ بسایا گیا۔
راجہ دہلو والئی قنوج نے اندر پرست میں اپنے نام سے یہ شہر آباد کیا۔ یاد رہے کہ دہلی کا پرانا نام اندرپرست بھی ہے۔ لدھیانہ بہلول لودھی نے بسایا، لودھی کی مناسبت سے اسے لدھیانہ کا نام دیا گیا۔ لاہور رام چندر جی کے بیٹے ''لاہو'' کے نام پہ بسایا گیا جو بعد میں لاہور ہوگیا۔ بہت سے ملکوں اور شہروں کے نام ان کے آباد کرنے والوں یا سب سے پہلے ان ملکوں میں قدم رکھنے والوں کے نام پہ رکھے گئے۔ اس کے علاوہ بعض دیوی دیوتاؤں اور اوتاروں کے نام پر بھی بعض شہر آباد کیے گئے۔ جیسے کانپور جوکہ اصل میں پہلے کاہن پور تھا۔ اور کاہن کرشن جی کے دوسرے نام کاہن سے مرکب ہے جو رفتہ رفتہ کان پور ہوگیا۔ کلکتہ جو اب کول کتہ کہلانے لگا ہے اسے ہندوؤں کی دیوی کالی دیوی کے نام پر پہلے کالی کوٹ کہلایا پھر کلکتہ بن گیا۔ سملہ (Simla) سملی دیوی کے نام سے موسوم ہوا۔ لیکن بگڑ کر شملہ ہوگیا جب کہ انگریزی تلفظ آج بھی سملہ ہی ہے۔ بھارت کا ایک اور شہر ہستنا پور کو راجہ ہست نے بسایا تھا۔ بھوپال راجہ بھوج کے وزیر بھوپال سنگھ کے نام پر بسایا گیا۔ ہندوستان کا پرانا نام بھارت ورش بھی ہے جوکہ راجہ بھرت کے نام پر ہے۔ ہندوستان کو ہند کا نام سکندر اعظم کے زمانے میں دیا گیا۔ اس سے پہلے یہ بھارت ورش کہلاتا تھا۔ سکندر اعظم کی فوجوں نے اپنی یونانی زبان کے موافق سندھ کو انڈس کیا اور اسی مناسبت سے ملک کا نام انڈیا تجویز ہوا جو آج تک پوری دنیا میں اسی نام سے مشہور ہے۔
اب کچھ کہاوتوں اور ایسے محاوروں کی بات ہوجائے جو روزمرہ کی گفتگو اور تحریر میں فصاحت اور بلاغت پیدا کرتے ہیں۔ فی زمانہ ان کا استعمال مطالعے کی کمی زبان سے ناواقفیت اور عبور نہ ہونے کے باعث کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ جس کے باعث لکھنے والوں کی تحریر کمزور اور بے جان ہوتی جارہی ہے۔ لہٰذا اس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ لکشمی تیرے تین نام، پرسا، پرسو، پرس رام۔ یعنی سارے جلوے دولت کے ہیں۔ جوں ہی دولت آتی ہے ہم چشموں اور جاننے والوں میں اس کا نام عزت سے لیا جانے لگتا ہے۔ یعنی یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ دولت آئی کہاں سے؟ لوہار سنار کیسے بن گیا، چھابڑی فروش زمینوں کا سوداگر کیونکر بنا؟ جانوروں کی کھال اتارنے والے دیکھتے ہی دیکھتے کیسے انسانوں کی کھالیں کھینچنے لگے اور پھر اقتدار کی غلام گردشوں میں ٹہلنے لگے؟
''اصیل مرغی ٹکے ٹکے'' یعنی شریف اور باعزت خاندانی لوگوں کی کوئی قدر نہیں۔
''آدمی آدمی انتر، کوئی ہیرا کوئی کنکر'' یعنی یوں تو سب ہی آدمی، لیکن طبیعت، خصلت، خاندانی پس منظر اور خون کی وجہ سے جدا جدا خصلتوں کے مالک۔
''آدمی پیٹ کا کتا ہے'' یعنی پیٹ کی خاطر انسان سب کچھ کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ یعنی بھوک اسے خودکش بمبار بھی بنادیتی ہے، چور اور ڈاکو بھی۔ یہ سچ ہے کہ تمام جرائم کی ماں بھوک یعنی پیٹ ہے۔ اسی پیٹ کو بھرنے کے لیے وہ انسانی درندوں کے تلوے چاٹنے اور دم ہلانے پہ مجبور ہوتے ہیں۔ یہی پیٹ اپنے لخت جگر کو فروخت کروا دیتا ہے۔ ''نو سو چوہے کھاکے بلی حج کو چلی'' یہ کہاوت ایسے موقع پر بولی جاتی ہے جب کوئی عیار، مکار، بے ایمان اور جھوٹا شخص تمام عمر لوگوں کو دھوکہ دے کر لوٹتا رہے، بے وقوف بناتا رہے اور پھر جب رشوت و بے ایمانی سے دولت اکٹھی کرلے تو اچانک مذہبی بن جائے، عبادت گزار اور غریبوں کا ہمدرد بن جائے۔ کیونکہ دولت تمام عیب چھپا لیتی ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ کہاوت پاکستان کی سیاست کا آئینہ ہے۔ ''منہ پہ رام رام بغل میں چھری'' یہ کہاوت یا ضرب المثل بھی ہماری روزمرہ زندگی اور سیاسی قائدین کی زندگی کی آئینہ دار ہے۔
''کل کے دشمن آج کے دوست'' کل تک جن کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرتے تھے، غلیظ الزامات عائد کرتے تھے، ان کی کردار کشی کرتے تھے، غدار قرار دیتے تھے، مرتد اورکافر ٹھہراتے تھے، وہی آج اقتدار کے اسٹیج پر فوٹو سیشن کرواتے ہیں۔ گلوں میں اصلی پھولوں کے ہار ڈالتے ہیں، لیکن اندر ہی اندر انھیں ذلیل کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ خفیہ اداروں سے ان کی ذاتی زندگی کی کمزوریوں کی فائلیں تیار کرواتے رہتے ہیں۔ گویا منہ سے مخالفین کے لیے بظاہر پھول جھڑتے ہیں، لیکن دل میں نفرتوں کے شعلے ہر لمحہ بھڑکتے رہتے ہیں۔۔۔۔ ''رام نام جپنا' پرایا مال اپنا'' یعنی بظاہر نیک اور پارسا بنے رہنا، لیکن ہر ناجائز طریقے سے دوسروں کا مال ہڑپ کرنا۔ آپ دیکھ لیجیے ہمارے وطن میں ہر طرف اس کے جلوے بکھرے پڑے ہیں۔ چلیے دیکھیے تو بظاہر قرون اولیٰ کے مسلمان، تسبیح ہاتھ میں، عماموں اور جبوں کے علاوہ ہر جملے میں اللہ رسول کے فرمان کا بار بار ذکر، کبھی تھری پیس سوٹ پہن کر، تو کبھی شیروانی پہن کر۔ لیکن یتیموں، بیواؤں، ضرورت مندوں کی محنت کی کمائی کسی بھی طریقے سے ہڑپ کرجانا اور پارسا بنے رہنا۔
آپ نے دیکھا کہ ایک محاورہ یا کہاوت کتنے معنی و مفہوم رکھتی ہے کہ پورا ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ یہی بلاغت ہے اور اسی کو کفایت لفظی بھی کہتے ہیں۔چلتے چلتے ایک بات بتاتی چلوں کہ اکثر و بیشتر SMS اور فون کال کے ذریعے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آج کل میں پابندی سے ہفتے میں دو کالم کیوں نہیں لکھ رہی۔ تو وجہ صرف میری گردن کے مہروں کی تکلیف ہے۔ کچھ عرصے کے لیے فزیو تھراپسٹ نے کم لکھنے کی ہدایت کی ہے۔ اسی لیے اکثر جمعرات کا کالم نہیں بھیج پاتی۔ بہت سے قارئین اب تک پرانے پتے پر خطوط اور کتابیں بھجواتے ہیں۔ جو وہاں سے واپس کردی جاتی ہیں۔ ازراہ کرم جو بھی کتاب یا رسالہ بھیجنا ہو بہتر ہے کہ ایکسپریس کراچی کے پتے پر بھیجی جائیں۔ جہاں سے مجھے ہمیشہ نہایت ذمے داری اور پابندی سے ہر چیز مل جاتی ہے۔
اپنے ایک گزشتہ کالم میں دو لغات کا ذکرکیا تھا۔ ایک ''فرہنگ آصفیہ'' جو تین جلدوں پہ مشتمل ہے اور دوسری ''فیروز اللغات''۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے وعدہ بھی کیا تھا کہ اول الذکر اہم لغت سے کچھ اور بھی معلومات قارئین کے لیے فراہم کروں گی۔ بلکہ زبان کے حوالے سے اکثر و بیشتر ایسی معلومات بہم پہنچاتی رہوں گی۔ سو آج اس کی ابتدا کرتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ کی جلد اول میں ابتدا میں زبانوں اور ناموں کے حوالے سے بڑی مستند معلومات درج ہیں۔ یہ معلومات خاصی حیرت انگیز بھی ہیں اور انھیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے مولف مولوی سید احمد دہلوی نے کتنی عرق ریزی اور پتا مار کے یہ معلومات جانے کہاں کہاں سے اکٹھی کی ہوں گی۔
انھوں نے اس بات کی بھی تحقیق کی ہے کہ مختلف علاقوں اور ملکوں کے لوگ بعض الفاظ اپنی طبعی اور جغرافیائی وجوہات کی بنا پر ادا کرنے سے کیوں قاصر ہیں۔ ویسے تو ماہر لسانیات نے بھی ان وجوہات کا پتہ چلایا ہے۔ ہمارے ہر دلعزیز استاد ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ہمیشہ لسانیات کی کلاس لیتے ہوئے بڑے بھرپور انداز میں وہ وجوہات بتایا کرتے تھے ۔ اور خود بھی وہ الفاظ بھی بول کر بتایا کرتے تھے۔ مولوی صاحب نے بھی بڑی تفصیل سے ان عوامل کا ذکر کیا ہے کہ اہل عرب ''پ۔چ'' اور ''گ'' ادا نہیں کرسکتے۔ حیدرآباد دکن کے لوگ آج بھی ''ق'' کی جگہ ''خ'' بولتے ہیں۔ اس سلسلے میں مجاز لکھنوی کے حوالے سے ایک واقعہ بڑا مشہور ہے۔ جیساکہ سب جانتے ہیں کہ مجاز بلا کے ذہین اور فقرے باز انسان تھے۔ ایک دفعہ ان کے ایک حیدر آبادی دوست تشریف لائے اور بولے۔۔۔۔'' مجاز صاحب کل میری بیٹی کی تخریب نکاح ہے۔ آپ ضرور تشریف لایے گا'' مجاز مسکرا کر بولے۔۔۔۔ ''معاف کیجیے گا، مجھ سے یہ دردناک منظر نہیں دیکھا جائے گا۔''
سب سے پہلے شہروں اور ملکوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ ملاحظہ ہو۔ جسے آج ہم ''بغداد'' کہتے ہیں وہ دراصل ''باغ داد'' تھا۔ مشہور بادشاہ نوشیروان عادل ایک ہفتہ وار دربار عام لگایا کرتا تھا۔ جہاں وہ مظلوموں کی داد رسی کیا کرتا تھا اور انصاف کے تقاضے پورے کیا کرتا تھا۔ اس جگہ کا نام ''باغ داد'' تھا۔ اور یہ ایک سرسبز و شاداب باغ تھا۔ جہاں نوشیروان کی عدالت کا مکان بنا ہوا تھا۔ چنانچہ اسی نام سے یہ شہر مشہور ہوگیا۔ جو کثرت استعمال سے ''بغداد'' ہوگیا۔ اصفہان اس امر کی یادگار ہے کہ اس جگہ ایران کے سپہ سالار فریدوں نے اپنی چھاؤنی قائم کرکے اس کا نام ''اسپاہان'' رکھا تھا جو بعد میں اصفہان ہوگیا۔ قاہرہ اس امر کی یادداشت ہے کہ 941 عیسوی میں خلیفہ فاطمی مغربی کے سپہ سالار جوہر نامی نے ملک مصر کو قہرو غضب کے غلبے سے فتح کرکے اس کی یادگار کے طور پر یہ شہر بسایا تھا جو بعد میں قاہرہ کہلایا۔ اسی طرح دہلی شہر راجہ دہلو کے نام پہ بسایا گیا۔
راجہ دہلو والئی قنوج نے اندر پرست میں اپنے نام سے یہ شہر آباد کیا۔ یاد رہے کہ دہلی کا پرانا نام اندرپرست بھی ہے۔ لدھیانہ بہلول لودھی نے بسایا، لودھی کی مناسبت سے اسے لدھیانہ کا نام دیا گیا۔ لاہور رام چندر جی کے بیٹے ''لاہو'' کے نام پہ بسایا گیا جو بعد میں لاہور ہوگیا۔ بہت سے ملکوں اور شہروں کے نام ان کے آباد کرنے والوں یا سب سے پہلے ان ملکوں میں قدم رکھنے والوں کے نام پہ رکھے گئے۔ اس کے علاوہ بعض دیوی دیوتاؤں اور اوتاروں کے نام پر بھی بعض شہر آباد کیے گئے۔ جیسے کانپور جوکہ اصل میں پہلے کاہن پور تھا۔ اور کاہن کرشن جی کے دوسرے نام کاہن سے مرکب ہے جو رفتہ رفتہ کان پور ہوگیا۔ کلکتہ جو اب کول کتہ کہلانے لگا ہے اسے ہندوؤں کی دیوی کالی دیوی کے نام پر پہلے کالی کوٹ کہلایا پھر کلکتہ بن گیا۔ سملہ (Simla) سملی دیوی کے نام سے موسوم ہوا۔ لیکن بگڑ کر شملہ ہوگیا جب کہ انگریزی تلفظ آج بھی سملہ ہی ہے۔ بھارت کا ایک اور شہر ہستنا پور کو راجہ ہست نے بسایا تھا۔ بھوپال راجہ بھوج کے وزیر بھوپال سنگھ کے نام پر بسایا گیا۔ ہندوستان کا پرانا نام بھارت ورش بھی ہے جوکہ راجہ بھرت کے نام پر ہے۔ ہندوستان کو ہند کا نام سکندر اعظم کے زمانے میں دیا گیا۔ اس سے پہلے یہ بھارت ورش کہلاتا تھا۔ سکندر اعظم کی فوجوں نے اپنی یونانی زبان کے موافق سندھ کو انڈس کیا اور اسی مناسبت سے ملک کا نام انڈیا تجویز ہوا جو آج تک پوری دنیا میں اسی نام سے مشہور ہے۔
اب کچھ کہاوتوں اور ایسے محاوروں کی بات ہوجائے جو روزمرہ کی گفتگو اور تحریر میں فصاحت اور بلاغت پیدا کرتے ہیں۔ فی زمانہ ان کا استعمال مطالعے کی کمی زبان سے ناواقفیت اور عبور نہ ہونے کے باعث کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ جس کے باعث لکھنے والوں کی تحریر کمزور اور بے جان ہوتی جارہی ہے۔ لہٰذا اس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ لکشمی تیرے تین نام، پرسا، پرسو، پرس رام۔ یعنی سارے جلوے دولت کے ہیں۔ جوں ہی دولت آتی ہے ہم چشموں اور جاننے والوں میں اس کا نام عزت سے لیا جانے لگتا ہے۔ یعنی یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ دولت آئی کہاں سے؟ لوہار سنار کیسے بن گیا، چھابڑی فروش زمینوں کا سوداگر کیونکر بنا؟ جانوروں کی کھال اتارنے والے دیکھتے ہی دیکھتے کیسے انسانوں کی کھالیں کھینچنے لگے اور پھر اقتدار کی غلام گردشوں میں ٹہلنے لگے؟
''اصیل مرغی ٹکے ٹکے'' یعنی شریف اور باعزت خاندانی لوگوں کی کوئی قدر نہیں۔
''آدمی آدمی انتر، کوئی ہیرا کوئی کنکر'' یعنی یوں تو سب ہی آدمی، لیکن طبیعت، خصلت، خاندانی پس منظر اور خون کی وجہ سے جدا جدا خصلتوں کے مالک۔
''آدمی پیٹ کا کتا ہے'' یعنی پیٹ کی خاطر انسان سب کچھ کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ یعنی بھوک اسے خودکش بمبار بھی بنادیتی ہے، چور اور ڈاکو بھی۔ یہ سچ ہے کہ تمام جرائم کی ماں بھوک یعنی پیٹ ہے۔ اسی پیٹ کو بھرنے کے لیے وہ انسانی درندوں کے تلوے چاٹنے اور دم ہلانے پہ مجبور ہوتے ہیں۔ یہی پیٹ اپنے لخت جگر کو فروخت کروا دیتا ہے۔ ''نو سو چوہے کھاکے بلی حج کو چلی'' یہ کہاوت ایسے موقع پر بولی جاتی ہے جب کوئی عیار، مکار، بے ایمان اور جھوٹا شخص تمام عمر لوگوں کو دھوکہ دے کر لوٹتا رہے، بے وقوف بناتا رہے اور پھر جب رشوت و بے ایمانی سے دولت اکٹھی کرلے تو اچانک مذہبی بن جائے، عبادت گزار اور غریبوں کا ہمدرد بن جائے۔ کیونکہ دولت تمام عیب چھپا لیتی ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ کہاوت پاکستان کی سیاست کا آئینہ ہے۔ ''منہ پہ رام رام بغل میں چھری'' یہ کہاوت یا ضرب المثل بھی ہماری روزمرہ زندگی اور سیاسی قائدین کی زندگی کی آئینہ دار ہے۔
''کل کے دشمن آج کے دوست'' کل تک جن کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرتے تھے، غلیظ الزامات عائد کرتے تھے، ان کی کردار کشی کرتے تھے، غدار قرار دیتے تھے، مرتد اورکافر ٹھہراتے تھے، وہی آج اقتدار کے اسٹیج پر فوٹو سیشن کرواتے ہیں۔ گلوں میں اصلی پھولوں کے ہار ڈالتے ہیں، لیکن اندر ہی اندر انھیں ذلیل کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ خفیہ اداروں سے ان کی ذاتی زندگی کی کمزوریوں کی فائلیں تیار کرواتے رہتے ہیں۔ گویا منہ سے مخالفین کے لیے بظاہر پھول جھڑتے ہیں، لیکن دل میں نفرتوں کے شعلے ہر لمحہ بھڑکتے رہتے ہیں۔۔۔۔ ''رام نام جپنا' پرایا مال اپنا'' یعنی بظاہر نیک اور پارسا بنے رہنا، لیکن ہر ناجائز طریقے سے دوسروں کا مال ہڑپ کرنا۔ آپ دیکھ لیجیے ہمارے وطن میں ہر طرف اس کے جلوے بکھرے پڑے ہیں۔ چلیے دیکھیے تو بظاہر قرون اولیٰ کے مسلمان، تسبیح ہاتھ میں، عماموں اور جبوں کے علاوہ ہر جملے میں اللہ رسول کے فرمان کا بار بار ذکر، کبھی تھری پیس سوٹ پہن کر، تو کبھی شیروانی پہن کر۔ لیکن یتیموں، بیواؤں، ضرورت مندوں کی محنت کی کمائی کسی بھی طریقے سے ہڑپ کرجانا اور پارسا بنے رہنا۔
آپ نے دیکھا کہ ایک محاورہ یا کہاوت کتنے معنی و مفہوم رکھتی ہے کہ پورا ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ یہی بلاغت ہے اور اسی کو کفایت لفظی بھی کہتے ہیں۔چلتے چلتے ایک بات بتاتی چلوں کہ اکثر و بیشتر SMS اور فون کال کے ذریعے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آج کل میں پابندی سے ہفتے میں دو کالم کیوں نہیں لکھ رہی۔ تو وجہ صرف میری گردن کے مہروں کی تکلیف ہے۔ کچھ عرصے کے لیے فزیو تھراپسٹ نے کم لکھنے کی ہدایت کی ہے۔ اسی لیے اکثر جمعرات کا کالم نہیں بھیج پاتی۔ بہت سے قارئین اب تک پرانے پتے پر خطوط اور کتابیں بھجواتے ہیں۔ جو وہاں سے واپس کردی جاتی ہیں۔ ازراہ کرم جو بھی کتاب یا رسالہ بھیجنا ہو بہتر ہے کہ ایکسپریس کراچی کے پتے پر بھیجی جائیں۔ جہاں سے مجھے ہمیشہ نہایت ذمے داری اور پابندی سے ہر چیز مل جاتی ہے۔