حاضر دماغی ہی جانوروں کے پنجوں اورجبڑوں سے بچاتی ہے زوکیپر

شیرجیسے خطرناک جانور،بن مانس اوردیگرجانوروں کی دیکھ بھال کیلیے جسمانی طاقت کی ضرورت نہیں پڑتی،کنوپیرادنتاکی گفتگو

چابیوں کی شناخت،پنجرے کے مختلف حصوں کے درمیانی دروازوںکوبنداورکھولنے کے نظام سے مکمل واقفیت رکھناضروری ہوتاہے

کراچی کا زولوجیکل گارڈن اس شہر میں بچپن گزارنے والے اکثر افراد کی خوشگواریادوں کا حصہ ہے۔

بچوں کے لیے شہر کی سب سے دلچسپ تفریحی سرگرمی چڑیا گھر کی سیر ہے جہاں بچوں کے ساتھ بڑے بھی جانوروں کو دیکھ کر دل بہلاتے ان کے پنجرے میں کانچ کی بوتلیں پھینک دیتے ہیں بعض افراد جوس کے ڈبے اور گلے سڑے پھل ڈال دیتے ہیں پھل کھانے سے بندر وغیرہ بیمار پڑجاتے ہیں جبکہ کانچ کی بوتلوں سے شیر شیرنیوں اور دیگر جانوروں کے زخمی ہونے کا بھی خدشہ رہتاہے۔

عید کے دنوں میں بچے چھرے والی کھلونا بندوقیں لے کر آتے ہیں اور جانوروں کو چھرے مارتے ہیں جس سے جانور زخمی ہوتے ہیںاور غصے میں بھی آجاتے ہیں ،اپنی ڈیوٹی کاآغاز جانوروں کے معائنے سے کرتاہوں اورسب سے پہلے اس بات کا اطمینان کرتا ہوں کہ جانور ہشاش بشاش ہیں اورانھیں کوئی زخم تونہیں لگ گیا ،اس کے لیے وہ جانورکو آوازیں دیتے اور پانی پھینک کر تھوڑا تنگ کرتے ہیں تاکہ وہ بھاگ دوڑ کرے۔

اس عمل کے بعد پنجروں کی صفائی کی جاتی ہے خطرناک جانوروں کو دوسرے حصوں میں منتقل کرکے ایک ایک کرکے پورے پنجرے کی صفائی کی جاتی ہے ،گرمیوں میں نہانے کے لیے پنجرے میں پانی بھرا جاتا ہے اور برف رکھی جاتی ہے جبکہ سردیوں میں ہیٹر کا انتظام کیا جاتا ہے اور پنجرے کو چاروں طرف سے ڈھکا جاتا ہے تاکہ اسے ٹھنڈی ہوا سے بچایاجاسکے، شیروں اور ٹائیگر کو دن میں ایک مرتبہ 12 سے 2بجے کے درمیان کھانا دیا جاتا ہے ،منگل کے روز کھانے کا ناغہ کیا جاتا ہے تاکہ ان جانوروں کا ہاضمہ درست ہوسکے یہ جانور اپنے پنجروں میں سستی سے پڑے رہ کرکھانا ہضم کرتے ہیں۔

خطرناک جانوروں سے دوستی مہنگی پڑسکتی ہے

کنو پیرادنتاکے مطابق خطرناک جنگلی جانوروں سے دوستی کسی بھی وقت مہنگی پڑسکتی ہے اور ان کے کام میں غلطی کا مطلب ہے اپنی گردن شیروں کے منہ میں دینا اس لیے ہر وقت احتیاط کا دامن ہاتھ سے پکڑے رکھتے ہیں ،خطرناک جانوروں سے انسیت اور دوستی سے انہیں اپنے کام میں مدد ملتی ہے اور جانور انہیں دیکھ کر اشتعال میں نہیں آتے اور انہیں اپنا دوست اور مدد گار سمجھتے ہیں، جنگلی جانور اپنے رکھوالے کے جسم کی خوشبو پہچانتے ہیں اور 2سے 3ماہ میں مانوس ہوجاتے ہیں لیکن اپنی فطرت سے مجبور ہوتے ہیں اس لیے ناراضی کا اظہارکرنے کیلیے وہ پنجہ لہراکر وارننگ دیتے ہیں اس لیے جب بھی کسی شیر یا شیرنی کے قریب جانا ہوتا ہے ایک نظراس کے پنجہ کی حرکت پر رہتی ہے جانوروں کی قربت یا ان کے پنجرے کے تالے کھولتے بند کرتے وقت مکمل توجہ اس تالے اور پنجرے میں بند جانور پر ہوتی ہے اور کسی دوسری جانب دھیان بھٹکنے نہیں دینا ہوتا کیونکہ آپ کی معمولی سی غفلت کسی بڑے حادثہ کا سبب بن سکتی ہے۔

چڑیاگھرکی شیرنی اورٹائیگربہت مانوس ہوچکے ہیں

کنو چڑیا گھر میں سفید شیروںکی جوڑی، ببرشیرراجہ شیرنی سارہ، دھاری دار مادہ ٹائیگرریچل اورنر ٹے بی کے علاوہ بن مانس کی مادہ رانواورنر راجوکی دیکھ بھال کرتے ہیں، شیرنی اور ٹائیگر ان سے بہت مانوس ہیں اور گردن اور جسم پر ہاتھ پھرواتے ہیں ،کنوپیرادنتا شیرنی کے منہ اوردانتوں تک اپنے ہاتھ سے خلال کرتے ہیں اسی طرح بن مانس کی مادہ کو کان میں گدگی کروانا پسند ہے،جب وہ اپنے مخصوص انداز میں جانوروں کو نام لے کر پکارتے ہیں تو وہ فوری پلٹ کر دیکھتے ہیں اور موڈ اچھا ہوتو فوری جنگلے کے قریب آکر خودکوسہلواتے ہیں۔


کنوپیرادنتا ان خطرناک جنگلی جانوروں کے پنجروں میں جاتے ہیں ،کھانا دیتے ہیں، صفائی کرتے ہیں تاہم اس دوران جنگلی جانور پنجرے کے دوسرے حصہ میں رہتے ہیں اور درمیانی دروازہ بند رہتا ہے ،شیروں اور ٹائیگر کے اتنے قریب جاکر انھیں پیار کرتا دیکھنے کے لیے شہریوں کا رش لگ جاتا ہے اور وہ حیرت سے جسمانی طور پر کمزور اور ادھیڑ عمر شخص کو خطرناک جانوروں سے پیار کرتا دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور اس منظر کو موبائل کیمروں کی آنکھ سے محفوظ کرتے ہیں۔

بچپن میں والدین اوردوستوں کے ہمراہ چڑیاگھرآتاتھا

چڑیا گھر کے خطرناک جانوروں کے رکھوالے کنو نے بتایاکہ وہ بھی اپنے بچپن سے کراچی زوآیاکرتے تھے اس زمانے میںکراچی زو کا داخلی ٹکٹ دو آنے کا ہوتاتھا ، وہ اپنے والدین کے ہمراہ اور کبھی دوستوں کے ساتھ چڑیا گھر آتے اور پنجروں میں بند جانوروں کو قریب سے دیکھ کرخوش ہوتے تھے ،میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی میرا پورا دن اور عمرکا ایک بڑا حصہ ہی چڑیاگھر میں ان جانوروں کے ساتھ گزرجائے گا ، انھوں نے بتایاکہ1997میںکراچی زولوجیکل گارڈن میں ملازمت اختیارکی ڈیڑھ سال تک بلامعاوضہ کام کرکے تربیت لی جس کے بعد انھیں ملازمت پر رکھ لیا گیا۔

ان کے استادوں میں ملک مسیح اور جعفر علی بلوچ شامل ہیں جنھوں نے انھیں جانوروں کی دیکھ بھال کی تربیت دی ابتدامیں 13سے 14سال تک سانپ گھر میں ذمے داریاں سنبھالیں جہاں سانپوں کی فطرت کو سمجھنے انھیں مانوس کرنے کا ہنر سیکھا اس دوران دو مرتبہ کالے ناگ نے کاٹ لیا اور جسم میں زہر پھیلنے لگا تو اس وقت کے ڈائریکٹر منصور قاضی نے آغا خان اسپتال سے علاج کروایا، اپنی نوکری کے آغاز میں ہی ببون کے پنجرے کی صفائی کے دوران ببون نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کاٹ کھایا جس کا نشان آج بھی ان کے ہاتھ پر موجود ہے ،اس موقع پر ان کے گھروالوں نے نوکری چھوڑنے کا مطالبہ کیا جس پر انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ نوکری مشکل سے ملتی ہے چھوڑ دی تو گھر کیسے چلے گا۔

چڑیا گھر آنے والے افراد جانوروں کو تنگ کرتے ہیں

کنونے بتایاکہ چڑیا گھر آنے والے افراد جانوروںکو تنگ کرتے ہیں ان کے پنجرے میںکانچ کی بوتلیں پھینک دیتے ہیں بعض افراد جوس کے ڈبے اور گلے سڑے پھل ڈال دیتے ہیں پھل کھانے سے بندر وغیرہ بیمار پڑجاتے ہیں جبکہ کانچ کی بوتلوں سے شیر شیرنیوں اور دیگر جانوروں کے زخمی ہونے کا بھی خدشہ رہتاہے ، عید کے دنوں میں بچے چھرے والی کھلونا بندوقیں لے کر آتے ہیں اور جانوروں کو چھرے مارتے ہیں جس سے جانور زخمی ہوتے ہیںاور غصے میں بھی آجاتے ہیں ،اپنی ڈیوٹی کاآغاز جانوروں کے معائنے سے کرتاہوں اورسب سے پہلے اس بات کا اطمینان کرتا ہوں کہ جانور ہشاش بشاش ہیں اورانھیں کوئی زخم تونہیںلگ گیا۔

اس کے لیے وہ جانورکو آوازیں دیتے اور پانی پھینک کر تھوڑا تنگ کرتے ہیں تاکہ وہ بھاگ دوڑ کرے ، اس عمل کے بعد پنجروں کی صفائی کی جاتی ہے خطرناک جانوروں کو دوسرے حصوں میں منتقل کرکے ایک ایک کرکے پورے پنجرے کی صفائی کی جاتی ہے ،گرمیوں میں نہانے کے لیے پنجرے میں پانی بھرا جاتا ہے اور برف رکھی جاتی ہے جبکہ سردیوں میں ہیٹر کا انتظام کیا جاتا ہے اور پنجرے کو چاروں طرف سے ڈھکا جاتا ہے تاکہ اسے ٹھنڈی ہوا سے بچایاجاسکے، شیروں اور ٹائیگر کو دن میں ایک مرتبہ 12 سے 2بجے کے درمیان کھانا دیا جاتا ہے ،منگل کے روز کھانے کا ناغہ کیا جاتا ہے تاکہ ان جانوروں کا ہاضمہ درست ہوسکے یہ جانور اپنے پنجروں میں سستی سے پڑے رہ کرکھانا ہضم کرتے ہیں۔

شیروں سے نہیں بلکہ مہنگائی سے خوف آتاہے

چڑیا گھر میں خطرناک جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے کنوکاکہناہے کہ اسے شیروں سے ڈر نہیں لگتا بلکہ مہنگائی سے خوف آتا ہے، شیرتوایک ہی جھٹکے میں جان نکال دے گا،مہنگائی روز مارتی ہے، ملازمت کی مدت 30دسمبر 2022کو ختم ہوجائیگی جس کے بعد اسے پھر سے روزگارتلاش کرنا ہوگا کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں گزارہ کرنادشوار ہوتا جارہاہے ، وہ اب کرایے کے گھر میں سکونت پذیر ہیں، مہنگائی کی وجہ سے گزربسر مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، 1997میں جب ان کی نوکری لگی تو 2055 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی جس میں چار بچوں کی کفالت کرتے رہے، 2019 میں یہ تنخواہ بڑھ کر 27ہزار روپے تک پہنچ گئی لیکن اب گزربسر مشکل سے ہوتاہے، دلی خواہش اپنا گھر بنانا ہے۔
Load Next Story