سگ گزیدگی اور حقوق سگاں
جب کوئی جانور موذی ہوجائے اور انسانوں کےلیے خطرہ بنے تو اس کو مارنا شرعی اور قانونی طور پر جائز ہے
سندھ بالخصوص کراچی میں سگ گزیدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات تشویشناک ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ اسپتالوں میں ریبیز ویکسین مناسب مقدار میں دستیاب نہیں۔ اب تک متعدد قیمتی جانیں چلی گئی ہیں اور کئی افراد کتوں کے حملے کی وجہ سے زخمی ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔
ان واقعات کی روک تھام کےلیے سندھ حکومت نے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جانوروں کے حقوق کا درد رکھنے والے افراد اور ادارے انسانوں کی جانوں پر کتوں کو فوقیت دے رہے ہیں۔ سننے میں آرہا تھا کہ محترمہ آصفہ بھٹو کی خصوصی ہدایت ہے کہ کتوں کو نہ مارا جائے۔ خدا کرے یہ خبر درست نہ ہو۔
جب کوئی جانور موذی ہوجائے اور انسانوں کےلیے خطرہ بنے تو اس کو مارنا شرعی اور قانونی طور پر جائز ہے۔ ایسا بھی نہ ہو کہ ان جانوروں کی بقا کو نقصان پہنچے، لیکن اربن علاقوں میں یہ کتے تلف کیے جائیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ موذی کتوں کو تلف کرنے کا شرعی جواز موجود ہے۔ بعض احادیث میں اس قسم کے موذی کتے جو انسانوں کےلیے باعث تکلیف ہیں، مارنے کا حکم موجود ہے۔ امام نووی علیہ الرحمہ نے اس بارے میں اجماع کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
کراچی شہر میں جابجا کتوں کے غول نظر آتے ہیں اور کچرے کی بھرمار کی وجہ سے ان کو خوراک بھی خوب مل رہی ہے۔ اکثر کتے خارش زدہ ہیں جو پاگل کتوں کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ جناح اسپتال کی ڈائریکٹر محترمہ سیمی جمالی جو ایک باہمت خاتون ہیں، ایک ٹی وی پروگرام میں کتوں کو تلف کرنے کے درج ذیل مشورے دے رہی تھیں۔
1) شہروں میں کتوں کی آبادی میں اضافے کو روکنے کےلیے کتوں کو نیوٹرل کرنے کے ٹیکے لگائے جائیں۔ یعنی کتوں کو پکڑ کر ان کو ٹیکا لگا کر چھوڑ دیا جائے تاکہ یہ تولید نسل کے قابل نہ رہ سکیں۔
2) کتوں کو پکڑ کر باہر ایکسپورٹ کردیا جائے۔
3) ان کتوں کو خصوصی نگہداشت سینٹر میں رکھا جائے (پہلے غریب اور بے سہارا انسانوں کی نگہداشت کا بندوبست تو کریں)۔
واقعی حیران کن ہے کہ ڈاکٹر سیمی جمالی کس طرح کے مشورے دے رہی ہیں جبکہ ملک کی حالت ان کے علم میں ہے کہ یہ سب کرنے کےلیے ہمارے پاس وسائل نہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس طبقے کی نمائندگی کی جو کتوں کو مارنے کے خلاف ہے، چاہے اس کی قیمت انسانی جانوں کے زیاں کی صورت میں کیوں نہ اٹھانی پڑے۔
سندھ حکومت کی وزیر صحت عذرا پیچوہو ان کتوں کو تلف کرنے کےلیے کسی اقدام کے بجائے فرماتی ہیں کہ بچے کتوں کو پتھر نہ مارا کریں (یعنی ان کے آرام میں خلل نہ ڈالا جائے) تاکہ یہ کتے بچوں پر حملہ نہ کریں۔ بقول شاعر؛
مجھے زندگی کی دعا دینے والے
ہنسی آرہی ہے تری سادگی پر
خیر ہم محترمہ عذرا پیجوہو کے شکر گزار ہیں کہ لاڑکانہ کے غریب باپ کے بیٹے حسنین کی عیادت کےلیے تشریف لے گئیں، جس کا چہرہ کتوں کے حملے سے بری طرح مسخ ہوگیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی و وفاقی حکومتیں بڑھتی ہوئی سگ گزیدگی کے واقعات کی روک تھام کےلیے کیا اقدام اٹھاتی ہیں۔ تب تک یہ سوال موجود رہے گا کہ کتے اہم ہیں یا انسان؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ان واقعات کی روک تھام کےلیے سندھ حکومت نے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جانوروں کے حقوق کا درد رکھنے والے افراد اور ادارے انسانوں کی جانوں پر کتوں کو فوقیت دے رہے ہیں۔ سننے میں آرہا تھا کہ محترمہ آصفہ بھٹو کی خصوصی ہدایت ہے کہ کتوں کو نہ مارا جائے۔ خدا کرے یہ خبر درست نہ ہو۔
جب کوئی جانور موذی ہوجائے اور انسانوں کےلیے خطرہ بنے تو اس کو مارنا شرعی اور قانونی طور پر جائز ہے۔ ایسا بھی نہ ہو کہ ان جانوروں کی بقا کو نقصان پہنچے، لیکن اربن علاقوں میں یہ کتے تلف کیے جائیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ موذی کتوں کو تلف کرنے کا شرعی جواز موجود ہے۔ بعض احادیث میں اس قسم کے موذی کتے جو انسانوں کےلیے باعث تکلیف ہیں، مارنے کا حکم موجود ہے۔ امام نووی علیہ الرحمہ نے اس بارے میں اجماع کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
کراچی شہر میں جابجا کتوں کے غول نظر آتے ہیں اور کچرے کی بھرمار کی وجہ سے ان کو خوراک بھی خوب مل رہی ہے۔ اکثر کتے خارش زدہ ہیں جو پاگل کتوں کی علامتوں میں سے ایک ہے۔ جناح اسپتال کی ڈائریکٹر محترمہ سیمی جمالی جو ایک باہمت خاتون ہیں، ایک ٹی وی پروگرام میں کتوں کو تلف کرنے کے درج ذیل مشورے دے رہی تھیں۔
1) شہروں میں کتوں کی آبادی میں اضافے کو روکنے کےلیے کتوں کو نیوٹرل کرنے کے ٹیکے لگائے جائیں۔ یعنی کتوں کو پکڑ کر ان کو ٹیکا لگا کر چھوڑ دیا جائے تاکہ یہ تولید نسل کے قابل نہ رہ سکیں۔
2) کتوں کو پکڑ کر باہر ایکسپورٹ کردیا جائے۔
3) ان کتوں کو خصوصی نگہداشت سینٹر میں رکھا جائے (پہلے غریب اور بے سہارا انسانوں کی نگہداشت کا بندوبست تو کریں)۔
واقعی حیران کن ہے کہ ڈاکٹر سیمی جمالی کس طرح کے مشورے دے رہی ہیں جبکہ ملک کی حالت ان کے علم میں ہے کہ یہ سب کرنے کےلیے ہمارے پاس وسائل نہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس طبقے کی نمائندگی کی جو کتوں کو مارنے کے خلاف ہے، چاہے اس کی قیمت انسانی جانوں کے زیاں کی صورت میں کیوں نہ اٹھانی پڑے۔
سندھ حکومت کی وزیر صحت عذرا پیچوہو ان کتوں کو تلف کرنے کےلیے کسی اقدام کے بجائے فرماتی ہیں کہ بچے کتوں کو پتھر نہ مارا کریں (یعنی ان کے آرام میں خلل نہ ڈالا جائے) تاکہ یہ کتے بچوں پر حملہ نہ کریں۔ بقول شاعر؛
مجھے زندگی کی دعا دینے والے
ہنسی آرہی ہے تری سادگی پر
خیر ہم محترمہ عذرا پیجوہو کے شکر گزار ہیں کہ لاڑکانہ کے غریب باپ کے بیٹے حسنین کی عیادت کےلیے تشریف لے گئیں، جس کا چہرہ کتوں کے حملے سے بری طرح مسخ ہوگیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی و وفاقی حکومتیں بڑھتی ہوئی سگ گزیدگی کے واقعات کی روک تھام کےلیے کیا اقدام اٹھاتی ہیں۔ تب تک یہ سوال موجود رہے گا کہ کتے اہم ہیں یا انسان؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔