خواب دیکھنے اورخواب بانٹنے پر یقین رکھتا ہوں طاہر آفریدی

کچرے کے ڈھیر سے اخبارکے تراشے اٹھاکر پڑھنے کا شوق پورا کرتا

پشتو کے معروف فکشن نگار اور سفرنامہ نویس طاہر آفریدی کے حالات زیست

دس سال کی عمر میں جب انہوں نے اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے کے لیے پامسٹ کو اپنا ہاتھ دکھایا تو پامسٹ نے بڑے افسوس ناک اور غم ناک لہجے میں پیش گوئی کی: ''بیٹا اس دنیا میں آپ کی عمر صرف دو سال رہ گئی ہے۔''

یہ افسوس ناک اطلاع ان کی والدہ تک پہنچی تو ان پر غشی کے دورے پڑنے لگے، بیٹے کو تو خود اس بات کا احساس نہیں تھا کہ وہ زندگی اور موت کے چکر سے ناواقف تھا لیکن والد اور والدہ نے اپنے اکلوتے اور لاڈلے بیٹے کے بارے میں اس طرح کی پیش گوئی سنی تو اندر ہی اندر غم کے مارے ُگھلتے رہے۔ ہوسکتا ہے وہ پامسٹ خود اس دنیا میں موجود نہ ہو مگر وہ لڑکا ''ترکستان'' آج بھی 80 سال کی عمر میں طاہرآفریدی کی شکل میں زندگی کو زندہ دلی کے ساتھ بسر کر رہے ہیں۔

سرخ و سفید کا حسین امتزاج، کھڑی ناک اور اس پر سفید عینک، ہر وقت اور ہر حالت میں مسکراتے ہوئے سنجیدہ ہونٹ، سفید گھنی داڑھی، سر پر سفید ٹوپی نے ان کے سراپا اور چہرے پر وقار، نوارنیت اور سنجیدگی قائم کررکھی ہے۔ بات بات پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ، قلندرانہ مزاج اور انداز، ہنستے ہیں تودل کھول کرہنستے ہیں، ملتے ہیں توبھی کھل کر ملتے ہیں۔

پہلی ہی ملاقات میں آپ یوں محسوس کریں گے کہ وہ آپ کے نئے واقف کار نہیں بلکہ پرانے جاننے والے ہیں، جہاں بھی ہوں انہیں آپ ہرجگہ اور ہروقت ایک کھرا پختون اور اچھا انسان پائیںگے۔ پشتو کے جدید افسانہ نگاروں میں ترقی پسند نظریات کے لحاظ سے طاہر آفریدی کے افسانے اپنے دیگر ہم عصروں سے بالکل الگ تھلگ ہیں جسے اگر کوئی تاش کے پتوں کی طرح دیگر پشتو افسانوں کے ساتھ بانٹ دے توان کا ہرافسانہ خود ہی پکار اٹھے گا کہ میں یہاں ہوں، ان کے افسانے اور ناول پڑھنے والے کوتھپکی دینے کے ساتھ جھنجوڑتے بھی ہیں۔

جرمنی کے معروف ناول نگار یورخیم زایئل سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ اکثر ''برلن'' پر اپنے ناول لکھتے ہیں حالانکہ آپ ہمبرگ میں رہتے ہیں اور اس سے پہلے امریکا میں رہے ہیں، دوسرے ممالک میں رہتے ہوئے بھی آپ''برلن''کو ہی اپنا موضوع بناتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا، ''برلن میرے سینے میں ہے۔'' یہی کیفیت پشتو زبان کے نام ور افسانہ نگار، سفرنامہ نگار، ناول نگار اور سہ ماہی جرس پشتو کے مدیراعلیٰ طاہر آفریدی کی بھی ہے جو عرصہ دراز سے کراچی جیسے تیز، مشینی اور مرکب ثقافتی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی اپنے اکثر افسانے، رپورتاژ اور ناول اپنے ہی پختون علاقے، قبیلے اورماحول پر لکھتے ہیں۔

طاہرآفریدی جن کا اپنا اصل نام ترکستان ہے 4جنوری 1939ء کو ایک سنگلاخ اور پس ماندہ گاؤں''بوڑہ'' (علاقہ درہ آدم خیل) میں حاجی میر اکبر خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ گاؤں کے گلی کوچوں میں کھیل کود کے علاوہ غلیل سے پرندوں کا شکار بھی کرتے رہے، ایک بار جب بندوق کی گولی سے چکور مارا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے زمین پر آگرا تو اس دن سے شکار کرنے سے مکمل توبہ کرلی۔

انہوں نے کوئی نصابی تعلیم حاصل نہیں کی، سوائے ابتدائی دینی تعلیم کے جو انہوں نے اپنے چچازاد بھائی کی بیگم سے حاصل کی۔ طاہر آفریدی کو پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ وہ کچرے اور گندگی کے ڈھیروں میں پڑے ہوئے اخباری تراشوں کو اٹھاکر اپنا شوق پورا کرتے، اس کے علاوہ روایتی منظوم داستانیں پڑھنے سے بھی اپنا سبق''پکا''کرتے تھے۔ 1953ء میں جب ان کے والد شہر سے پشتو کا مجلہ ''لار'' لے کر آئے جس کے ٹائٹل پر پشتو بابائے غزل امیر حمزہ خان شینواری کی غزل چھپی تھی، اسے پڑھ کر ترکستان کے اندر کے طاہرآفریدی نے انگڑائیاں لینا شروع کر دیں، جس کے بعد والد انہیں پشتو کے مختلف ادبی رسائل لاکر دیتے رہے، اس طرح ان کے ادبی ذوق کی آبیاری ہوتی رہی۔ اپنے علاقے کے ترقی پسند شاعر مرحوم وکیل منصور سے پہلی ملاقات کے بعد ان سے تعلق بنا، جن کے طفیل مختلف ادبی نشستوں میں شریک ہونے کا موقع ملا اور بہت جلد طاہرآفریدی کے نام سے پشتو ادب میں اپنی پہچان بنا لی۔

شاعری کے مقابلے میں ان کا زیادہ تر رجحان افسانے کی طرف رہا، پہلا افسانہ 1960ء میںلکھا جسے پشتو اور اردو کے معروف انقلابی شاعر اور صحافی ولی محمدطوفان نے''غُنچہ'' میگزین میں شائع کیا۔ بعدازاں 1961ء میں روزگار کی تلاش میں کراچی چلے گئے تو وہاں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے گاڑیاں دھوتے دھوتے ٹیکسی ڈرائیور بن گئے، دن بھر پرائی ٹیکسی چلاتے اور رات کو جو کتاب بھی ہاتھ لگتی اس کا مطالعہ کیا کرتے۔ ساتھ ہی اردو اور انگریزی زبان لکھنے اور سیکھنے کے لیے اپنے ایک پڑوسی سے بات کی جسے باقاعدہ پڑھائی کی فیس دیا کرتے، اس طرح طاہر آفریدی نے اردو، انگریزی لکھنا اور پڑھنا سیکھ لی۔

کراچی میں انہیں پشتو زبان کے معروف ترقی پسند شاعر، ادیب، صحافی، عالمی پشتوکانفرنس کے چیئرمین اور انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے صدر سلیم راز کی صحبت ملی، جس کے بعد وہاں پختون آبادیوں میں مشاعرے اور ادبی اجلاسوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ''عدل'' نامی پشتو رسالے میں سلیم راز کے ساتھ معاونت کرتے رہے۔

1970ء میں نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) کی ہمدرد تنظیم ''متحدہ پختون محاذ'' کے بینر تلے سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں اور باقاعدہ ایک ترقی پسند افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے۔1971ء میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ''دمحلونوں خوا کے''(محلات کے قریب) کے نام سے چھپا۔ انہوں نے احمد ندیم قاسمی، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، قلندر مومند، زیتون بانو، گل افضل خان اور ارباب رشید احمد خان جیسے ترقی پسند افسانہ نگاروں کے فن پاروں سے بہت کچھ سیکھا۔ اپنی شب وروز محنت اور ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ٹیکسی ڈرائیور سے ایک جانے پہچانے ٹرانسپورٹر بن گئے، بولٹن مارکیٹ میں اپنے دفتر اور گلشن اقبال میں ایک کوٹھی کے مالک بن گئے۔


ان کے مشہور افسانوں کی پی ٹی وی پر ڈرامائی تشکیل بھی ہوئی ہے۔ ایک زمانے میں وہ کثرت سے سگریٹ نوشی کیا کرتے اور فلمیں بھی بہت زیادہ دیکھا کرتے تھے لیکن بہت جلد یہ شغل چھوڑ کر سگریٹ اور فلموں پر آنے والے خرچے سے پشتوکا سہ ماہی رسالہ''جرس''جاری کر دیا۔ اس سے پہلے وہ ''پلوشہ'' نامی رسالے کے ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔

سہ ماہی''جرس'' نے حقیقی معنوں میں نہ صرف پشتو زبان کے ترقی پسند ادب کو فروغ دیا بلکہ نئے لکھنے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کی۔ طاہر آفریدی نے سہ ماہی جرس کے ''غزل نمبر''کے علاوہ ایک معیاری ''نظم نمبر'' بھی لاکھوں روپے خرچ کرکے شائع کیے، جن کو پشتو ادب میں معتبر حوالے کا درجہ حاصل ہے۔ طاہرآفریدی کراچی کے اولین پختون ادیب ہیں جنہوں نے کراچی میں اردو کے شاعروں، ادیبوں کو پشتو ادب اور پختون شعراء و ادباء سے روشناس کرایا۔ اپنی ادبی تنظیم ''جرس ادبی جرگہ'' کے پلیٹ فارم سے کراچی میں رہنے والے پختون شاعروں اور ادیبوں میں مجلسی تنقید کرنے اورایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا، اب بھی جرس ادبی جرگہ کا ماہانہ تنقیدی اجلاس منعقد ہوتاہے جس میں کراچی کے بیشتر پختون لکھاری حصہ لیتے ہیں۔ اب تک طاہرآفریدی کے افسانوں، ناولوں، رپورتاژوں اور سفرناموں پر مشتمل جو کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ان میں ایک کتاب''دیدن'' اردو زبان کے افسانوں پر مشتمل ہے۔

انہیں اپنی کئی کتابوں پر مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے ایوارڈز اور انعامات ملے ہیں۔ وہ مصر، لندن، افغانستان، سعودی عرب اور قطرکے ادبی اور مطالعاتی دورے کر چکے ہیں۔ انہیں سنگاپور اور سکندریہ شہر بہت زیادہ پسند ہیں۔ طاہر آفریدی اپنے آپ کو ایسا حسن پرست کہتے ہیں جو حسن کو بھی ایک آرٹ اور فن سمجھتا ہے۔ بچپن ہی سے موسیقی سننے کا انہیں شوق رہا ہے، خود بھی ''بینجو'' سیکھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ لتامنگیشکر، محمد رفیع، طلعت محمود، مہدی حسن، اقبال بانو،کشور سلطان، گلنار بیگم، خیال محمد اور سردار علی ٹکر ان کے پسندیدہ گلوکار ہیں جبکہ سنتوش کمار، شمیم آراء، محمدعلی اور ندیم ان کے پسندیدہ اداکار ہیں۔ سیاسی شخصیات میں وہ مرحوم خان عبدالولی خان سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ اپنے جگری دوست باچا خان قاصر اور وکیل منصور کی موت کے بعد اپنے آپ کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ ان کی شادی گھر والوں کی مرضی سے بارہ سال کی عمر میں اپنی ایک رشتہ دار لڑکی سے ہوئی، باوجود اس کے کہ طاہر آفریدی بے اولاد ہیں،لیکن انہوں نے کبھی بھی اس بات کو محسوس نہیں کیا اور مشترکہ خاندانی نظام میں ہنسی خوشی زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔

ادبی دوستوں میں سلیم راز کو اپنا رازداں دوست قرار دیتے ہیں۔ گاؤں اور خاندان کے تمام چھوٹے بڑے ان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ کراچی کے لکھاریوں میں جمیل زبیری، سلطان جمیل نسیم، زاہدہ حنا، فردوس حیدر اور شہناز پروین سے ان کے گہرے مراسم ہیں۔ بلند فشارخون کے مریض ہیں جس کی وجہ سے ان پر گزشتہ سال فالج کی بیماری نے حملہ بھی کیا، جس سے ان کا ایک ہاتھ اورپاؤں سمیت زبان بھی کسی حدتک متاثرہوئی مگران کے بقول اللہ کے فضل وکرم ، دوستوں اور بہی خواہوں کی محبت اور دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ وہ اس مرگ نما بیماری سے بہت جلد صحت یاب ہوگئے ہیں۔

ان کی سب سے بڑی خواہش جبر، ظلم اور ناانصافی سے پاک پرامن، جمہوری اور ایک مساوی معاشرے کا قیام ہے۔ ملک کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ان کا کہنا ہے یہ ملک ایک کثیرالقومی ملک ہے، یہاں جتنی بھی قومیں آباد ہیں انہیں اس ملک نے بہت کچھ دیا ہے اور دے رہا ہے، جہاں تک کراچی کا تعلق ہے توپورے ملک کی تجارت اورمعیشت کا دارومدار اسی شہر پر ہے لہٰذا سب کو ایک پاکستانی ہوکر آپس میں بھائیوں کی طرح رہنا چاہیے کیوں کہ یہ ملک رہے گا توہم بھی رہیں گے، اس لیے یہاں بولی جانے والی تمام زبانوں کے ادیبوں اوردانشوروں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امن اور جمہوریت کے قیام میں اپنا اپنا کرداراداکریں، قوم میں اپنی تحریروں کے ذریعے اس بات کا شعور اجاگرکریں کہ امن اور جمہوریت کے بغیریہاں ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے اورنہ ہی کوئی قوم پرامن معاشرے کے بغیرترقی کرسکتی ہے۔

ان کے بقول ہمیں اپنے دوست اوردشمن میں فرق کرنا ہوگا، جولوگ اس ملک کے امن کوخراب کرنا چاہتے ہیں ان کے خلاف ہم سب کومتفق ہونا پڑے گا، اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کوبھی صدق دل سے اپنا کرداراداکرنا چاہیے۔ امن کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے توسب سے پہلے حکومت کوپہل کرنا ہوگی، چاہے وہ اندرونی ہاتھ ہو یا بیرونی ہاتھ سب کوبے نقاب کرنا ہوگا۔ طاہرآفریدی نے تجویزپیش کی کہ ملک میں تمام زبانوں کے شعراء وادباء کومل بیٹھ کرکسی ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے امن کے قیام کے لیے جدوجہدکرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں لینڈ مافیا بھی سرگرم ہے جس کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

طاہر آفریدی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں تاہم ان کے بارے میں فقط اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ وہ پشتو زبان کے ایک صاحب طرز اور صاحب فکر افسانہ نگار ہیں جو اپنے ماحول اور معاشرے کی ہر چیز کو ظاہر کی آنکھ سے دیکھتے اور باطن کے قلم سے لکھتے ہیں۔ ان کی تخلیقی بصیرت، تجربہ اور مشاہدہ ان کے ہر افسانے میں خون کی طرح دوڑتا ہوا نظر آتا ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ طاہر آفریدی کا افسانہ آج کے انسان کی روح کا اصل ماجرا ہے، نئی نسل کے کئی افسانہ نگاروں پر ان کی گہری چھاپ ہے۔ علامت پسند اور علامتی افسانہ نگار ہونے کے باوجود وہ افسانے میں ''کہانی پن'' کے قائل ہیں۔ ادب میں مقصدیت، جمہوری نظریات اور روایات کے طرف دار ہیں اور اپنے افسانوں میں اس کا نہایت جرات اور بے باکی سے اظہار بھی کرتے ہیں۔ عصری سچائیوںسے کمٹ منٹ کو اپنا عقیدہ اور ایمان سمجھتے ہیں۔

طاہرآفریدی انفارمشن ٹیکنالوجی کے ذریعے پشتو زبان اور ثقافت پربیرونی تہذیبی یلغار کوخطرناک قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں پختون لکھاریوں کے ہاتھوں میں جدید انفارمشن ٹیکنالوجی کی بجائے صرف قلم رہ گیا ہے جس سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ اعتراف کرتے ہیں کہ ترقی پسند ادب نے تمام زبانوں کے ادب کو ایک نئی راہ دکھائی مگر اسے ایک محدود دائرے میں مقید کرنا خود ترقی پسندی میں انتہاپسندی ہے۔ اس نظریے نے تمام زبانوں کے لکھاریوں کو انسانیت سے پیار کرنا سکھایا ہے، اپنی زمین کی بوباس سے اٹھنے والے ادب کو سب سے زیادہ کارآمد اور ترقی پسند ادب کا نام دیتے ہیں۔

گلوبلائزیشن کوچھوٹی قوموں کی زبان اور تہذیب کے لیے موت اور پس ماندہ اقوام اور ممالک کی گردن میں ایک نئی غلامی کا طوق سمجھتے ہیں۔ ملک میں رائج سیاست کو تجارت اور ذاتی مفادات کا کھیل سمجھتے ہیں۔ پختونوں کی موجودہ معاشی بدحالی کی وجہ ان کے آپس کے اختلافات اور کدورتوں کو قرار دیتے ہیں۔ان کے قریبی ادبی دوست انہیں خوابوں کا بنجارہ اور سوداگر کہتے ہیں اور وہ بھی بڑے فخریہ انداز میں اپنے آپ کو خواب دیکھنے اورخواب بانٹنے والا تخلیق کار کہتے ہیں۔

تصانیف
افسانوں، ناولوں، رپورتاژ اور سفرناموں پرمشتمل طاہر آفریدی کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ دمحلونوں خوا کے، پانڑے پانڑے (افسانے)، دیدن (اردوافسانے)، سفرپہ خیر، (سفرنامہ) لارہ کے ماخام،(افسانے )سفرمدام سفر (سفرنامہ)،جانان م قطرتہ روان دے (رپورتاژ)،گوتے قلم تہ پہ جڑا شوے(مکتوبات حمزہ شنواری)،بیا ھغہ ماخام دے (افسانے)، کانڑوکے رگونہ(ناول)،کہساروں کے یہ لوگ(ناول)،نورخوبونہ نہ وینم (افسانے)، لاڑشہ پیخاورتہ(رپورتاژ)،پہ زنجیرتڑلے خوب(افسانے)،زہ چہ زوکابل تہ (رپورتاژ)، تیری آنکھیں خوب صورت ہیں (ناول)، دسولحظولویہ قیصہ(افسانے)،مودہ پس اشنا راغلے (افسانے) تربوزک (ناول) تاسرہ خبرے (افسانے)زہ تنقیدخوبہ کومہ (رودادیں)زہ چہ زوکابل تہ(سفرنامہ) اور دسولحظولویہ قیصہ (افسانے) مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ ان کی کئی تصانیف کو سرکاری اورغیرسرکاری تنظیموں سے ایوارڈز مل چکے ہیں۔
Load Next Story