کراچی کی ٹرانسپورٹ
ملک کے معاشی حب ہونے کے باوجود کراچی میں صورتحال اس قدر ناگفتہ ہے کہ اس پر کوئی بات کرنا ہی فضول ہے۔
NORTHAMPTON:
اس حقیقت میں کوئی راز نہیں کہ کراچی کا ٹرانسپورٹ نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ شہری ہر روز کام پر جانے' اسکول یا مارکیٹ تک جانے کے لیے شدید دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی بسیں مکمل طور پر غائب ہو چکی ہیں یا ان کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ مسافروں کو ان بسوں میں اپنی نشست حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ دھینگا مشتی کرنا پڑتی ہے۔
بصورت دیگر انھیں تمام سفر کھڑے کھڑے طے کرنا پڑتا ہے یا پھر بس کے اندر نشستوں کی عدم موجودگی کے باعث بس کی چھت پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ کراچی کی تو صرف ایک مثال ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ملک کے دیگر شہروں کا بھی یہی حال ہے۔ لیکن ملک کے معاشی حب ہونے کے باوجود کراچی میں صورتحال اس قدر ناگفتہ ہے کہ اس پر کوئی بات کرنا ہی فضول ہے۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ 21 ویں صدی میں بھی ملک کے سب سے بڑے شہر کا ایسا حال ہے حالانکہ یہ وہ شہر ہے جہاں سالہا سال پہلے سڑکوں پر ٹرام بھی چلتی تھی۔ بغیر دروازوں کے چلنے والی اس پبلک ٹرانسپورٹ کا یہ عالم تھا کہ لوگ چلتی ٹرام میں اترتے چڑھتے رہتے تھے کیونکہ اس کی رفتار بے حد مناسب ہوتی تھی لہذا چلتی ٹرام میں اترنے چڑھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔
اس صورتحال میں نجی شعبہ کے لوگ ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ازخود بھی میدان میں آ گئے اور پورے شہر میں بڑی تعداد میں ویگنوں کے بیڑے سڑکوں پر نظر آنے لگے۔ واضح رہے کراچی میں روزانہ ہزاروں لاکھوں لوگ کام پر جانے اور گھر واپس لوٹنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے محتاج ہوتے ہیں۔
میڈیا میں ہم روزانہ کی بنیادوں پر یہ خبریں پڑھتے ہیں کہ بین الاقوامی طور پر بہت سی پارٹیاں اس شہر کی ٹرانسپورٹ کو رواں دواں رکھنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے پر تیار ہیں مگر بات ابتدائی خبروں سے آگے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ٹرانسپورٹ کے مقاصد کے لیے ادھار رقوم دینے کے لیے بہت ہی پارٹیاں تیار ہیں مگر اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ آخر شہر کی انتظامیہ نجی شعبے کی خدمات حاصل کرنے میں کیوں ہچکچا رہی ہے اور ابھی تک ان کی طرف سے اس اہم پیشکش سے استفادہ کیوں نہیں کیا جا رہا۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ چین کے ایک بینک نے ٹرانسپورٹ پراجیکٹ کے لیے قرضہ دینے کی پیشکش کی ہے ، اگر یہ درست تو متعلقہ حکام پر لازم ہے کہ وہ مزید وقت ضایع کیے بغیر اس پیش کش کو قبول کر لیں تا کہ کراچی کے شہری اپنے اس سب سے بڑے مسئلہ کو بحسن و خوبی حل کر سکیں۔ پورے شہر کے ٹرانسپورٹ سسٹم کو جدید بنانے کے لیے متعلقہ حکام کو غیرملکی اور ملک سرمایہ کاروں سے تعاون لینا چاہیے تاکہ کراچی کے شہریوں کا اہم ترین مسئلہ حل ہوسکے۔
اس حقیقت میں کوئی راز نہیں کہ کراچی کا ٹرانسپورٹ نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ شہری ہر روز کام پر جانے' اسکول یا مارکیٹ تک جانے کے لیے شدید دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی بسیں مکمل طور پر غائب ہو چکی ہیں یا ان کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ مسافروں کو ان بسوں میں اپنی نشست حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ دھینگا مشتی کرنا پڑتی ہے۔
بصورت دیگر انھیں تمام سفر کھڑے کھڑے طے کرنا پڑتا ہے یا پھر بس کے اندر نشستوں کی عدم موجودگی کے باعث بس کی چھت پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ کراچی کی تو صرف ایک مثال ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ملک کے دیگر شہروں کا بھی یہی حال ہے۔ لیکن ملک کے معاشی حب ہونے کے باوجود کراچی میں صورتحال اس قدر ناگفتہ ہے کہ اس پر کوئی بات کرنا ہی فضول ہے۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ 21 ویں صدی میں بھی ملک کے سب سے بڑے شہر کا ایسا حال ہے حالانکہ یہ وہ شہر ہے جہاں سالہا سال پہلے سڑکوں پر ٹرام بھی چلتی تھی۔ بغیر دروازوں کے چلنے والی اس پبلک ٹرانسپورٹ کا یہ عالم تھا کہ لوگ چلتی ٹرام میں اترتے چڑھتے رہتے تھے کیونکہ اس کی رفتار بے حد مناسب ہوتی تھی لہذا چلتی ٹرام میں اترنے چڑھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔
اس صورتحال میں نجی شعبہ کے لوگ ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ازخود بھی میدان میں آ گئے اور پورے شہر میں بڑی تعداد میں ویگنوں کے بیڑے سڑکوں پر نظر آنے لگے۔ واضح رہے کراچی میں روزانہ ہزاروں لاکھوں لوگ کام پر جانے اور گھر واپس لوٹنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے محتاج ہوتے ہیں۔
میڈیا میں ہم روزانہ کی بنیادوں پر یہ خبریں پڑھتے ہیں کہ بین الاقوامی طور پر بہت سی پارٹیاں اس شہر کی ٹرانسپورٹ کو رواں دواں رکھنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے پر تیار ہیں مگر بات ابتدائی خبروں سے آگے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ٹرانسپورٹ کے مقاصد کے لیے ادھار رقوم دینے کے لیے بہت ہی پارٹیاں تیار ہیں مگر اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ آخر شہر کی انتظامیہ نجی شعبے کی خدمات حاصل کرنے میں کیوں ہچکچا رہی ہے اور ابھی تک ان کی طرف سے اس اہم پیشکش سے استفادہ کیوں نہیں کیا جا رہا۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ چین کے ایک بینک نے ٹرانسپورٹ پراجیکٹ کے لیے قرضہ دینے کی پیشکش کی ہے ، اگر یہ درست تو متعلقہ حکام پر لازم ہے کہ وہ مزید وقت ضایع کیے بغیر اس پیش کش کو قبول کر لیں تا کہ کراچی کے شہری اپنے اس سب سے بڑے مسئلہ کو بحسن و خوبی حل کر سکیں۔ پورے شہر کے ٹرانسپورٹ سسٹم کو جدید بنانے کے لیے متعلقہ حکام کو غیرملکی اور ملک سرمایہ کاروں سے تعاون لینا چاہیے تاکہ کراچی کے شہریوں کا اہم ترین مسئلہ حل ہوسکے۔