’’جن روزوں درویش ہوئے ہم‘‘
ملک محمد جعفر ایک ماہر قانون دان، بااصول سیاستدان تھے۔ بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر رہے۔
ساجدہ جعفر، ملک محمد جعفرکی صاحبزادی ہیں۔ اپنے والد سے وابستہ اپنی یادوں کی کتاب کا عنوان انھوں نے ''جن روزوں درویش ہوئے ہم'' رکھا ہے۔ملک محمد جعفر ایک ماہر قانون دان، بااصول سیاستدان تھے۔ بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر رہے۔ کتابیں لکھیں، قومی اخباروں میں کالم بھی لکھے، بڑی کامیاب پبلک لائف گزاری، لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے۔
ایک پہلو ان کی شخصیت کا اور بھی تھا۔ ان کی نجی زندگی، غورکیا جائے تو یہ زیادہ روشن، زیادہ اثر انگیز ہے۔ ان کے دوست اور احباب جنکے تاثرات اس کتاب میں شامل اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں۔آئی اے رحمن کہتے ہیں۔ ''ملک صاحب خوش مزاج انسان تھے۔ فطر سے ان کا رشتہ بہت گہرا تھا۔''
ارشاد عباسی کہتے ہیں '' دکھی انسانیت کی خدمت ان کا نصب العین تھا جسکا اظہار باتوں سے نہیں عمل سے ہوتا تھا۔'' حمید اختر کہتے ہیں ملک صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو عمر بھر خیر کی تلاش میں رہتے ہیں، جو نہ صرف خود نیکیاں کرتے رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔
خورشید بیگم فرماتی ہیں '' ملک صاحب کو بے سہارا ، بے وسیلہ انسانوں سے محبت تھی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ان کے دروازے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔'' راجہ بشیرکہتے ہیں کہ ملک صاحب دلیر اور نڈر آدمی تھے، پارسا اور پاکباز۔ ساجدہ جعفر اپنے ابو جی کے ساتھ گزرے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔ ''ابو جی ایک شفیق باپ تھے۔ بیحد شفیق، بظاہر یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ غیر معمولی اس لیے بنتی ہے کہ ابو جی کی شفقت صرف ان کے بچوں تک محدود نہ تھی بلکہ اس کا دائرہ ان تمام بچوں تک پھیلا ہوا تھا جن سے ابو جی کی رشتہ داری تھی یا جنکے والدین کے ساتھ ان کی دوستی تھی یا پھر وہ تھے جو پڑھائی کے لیے یا کسی اپنے کام کے لیے ان کے گھر پر مقیم تھے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت میں ابو جی نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اگر ہم کچھ سیکھ نہ پائے تو ہماری اپنی نالائقی اور نااہلی۔ انھوں نے ہمیں سبقاً سبقاً قرآن حکیم پڑھایا۔ ترجمہ اور تفسیر ساتھ ساتھ کرتے جاتے تھے۔ ابو جی ہمیں قرآن پاک پڑھاتے ہوئے خاص طور سے ان آیات پر زور دیتے جن میں مظاہر فطرت کا بیان ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ابو جی مظاہر فطرت کا مشاہدہ اور مطالعہ ہی نہیں کرتے تھے بلکہ وہ فطرت سے عشق کرتے تھے اور اس عشق میں ان کا عشق حقیقی پوشیدہ ہے۔'' ملک محمد جعفر کی درویشی، توکل اور قناعت پسندی کا ذکر کرتے ہوئے ساجدہ جعفر ایک واقعہ بیان کرتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں ''گرمیوں کے دن تھے، ابو جی کورٹ سے واپس آئے۔
ابھی کھانا کھایا ہی تھا کہ ملازم نے اطلاع دی کہ باہر کوئی ملنے آیا ہے۔ ابو جی سے ملنے کے لیے آنیوالا ایک تانگے والا تھا۔ اس نے رو رو کر بیان کیا کہ گزری رات کو کوئی اس کا تانگہ اور گھوڑا چرا کر لے گیا ہے۔ وہ پہلی اذان کے وقت سے اس کا سراغ لگانے کی کوشش میں ہلکان ہو چکا ہے۔ ٹوٹے دل اور برستی آنکھوں کے ساتھ اس نے چابک پر ہاتھ پھیرا اور ابو جی کے پیروں میں گر کر کہنے لگا۔ بس اس چابک کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، گھر میں بیوی بچے بھوکے ہیں، میرے پاس پھوٹی کوڑی نہیں۔ ابو جی نے اسے اٹھایا۔ ہم نے دیکھا وہ اس کی طرف بہت غور سے دیکھ رہے تھے، وہ اس کے چہرے کے تاثرات اور Demeanor سے اس کے بیان کی صداقت اور اس کی تکلیف کی شدت کا اندازہ لگا رہے تھے پھر انھوں نے اسے بنچ پر بیٹھنے کو کہا اور خود اندر چلے گئے۔
کچھ ہی دیر بعد وہ واپس آئے۔ ان کے پاس جتنی بھی رقم موجود تھی وہ لاکر انھوں نے اس شخص کے حوالے کی اور کہا کہ میری خواہش تو یہ ہے کہ تمہیں تانگہ اور گھوڑا خرید دوں لیکن اس وقت میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں یہ کرسکوں۔ جو موجود ہے وہ تم لے جاؤ۔ یہ رقم کچھ بڑی تو نہیں ہے مگر اتنی ضرور ہے کہ تم دو ڈھائی ماہ تک اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکو۔ اس عرصے میں کوشش کر کے کوئی اور کام ڈھونڈو۔ وہ شخص جھولی اٹھا کر ڈھیروں دعائیں دیتا اور آنسو پونچھتا چلا گیا۔ ابو جی گھر کے اندر آئے تو امی نے کہا ملک جی! آپ نے سارے پیسے خیرات کر دیے، میرے پاس تو اب اتنی رقم بھی نہیں کہ کل سبزی، گوشت بھی منگا سکوں۔ آپکو گھر کی بھی تو فکر کرنا چاہیے تھی۔
ابو جی نے ہنستے ہوئے کہا بس اتنی سی بات ہے، لیجیے میں مسئلہ حل کیے دیتا ہوں، آپ ایسا کریں کل دوپہر کے کھانے کے لیے تندوری مسی روٹیاں بنوائیں، ہم سب مکھن، لسی اور چٹنی کے ساتھ کھائینگے، واہ مزہ ہی تو آ جائے گا۔ اور رہی شام کی بات تو موٹھ کی دال کے ساتھ توے کی چپڑی روٹی سب شوق سے کھاتے ہیں۔
ہاں تڑکا پیاز کا لگوائے گا۔'' ساجدہ جعفر کا تعلق انفارمیشن سروس سے تھا۔ وہ لکھتی ہیں ''ہم نے لگ بھگ 33سال ملازمت کی، اس عرصے میں چند مواقع ایسے آئے جب ہمارے ابو جی نے ہمارے کام سے متعلق ہمیں کوئی نصیحت کی، ہماری سرزنش کی یا شاباش دی۔ جب پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کا اسلام آباد والا آفس بند ہو گیا اور سب آفیسرز کشمیر روڈ والے دفتر میں شفٹ ہو گئے تو ہمارے PIO احمد حسین شیخ نے ایک روز ہمیں بلایا اور کہا کہ یہاں کینٹین کا نظام بیحد ناقص ہے، میں چاہتا ہوں کہ افسروں کو صاف ستھری اچھی چائے ملے ۔ ٹی کلب کی نگرانی تم کرو گی ، ہم نے ہامی بھر لی۔ یہ بات جب میں نے ابو جی کو بتائی تو انھوں نے پوچھا کہ یہ ذمے داری تم ہی کو کیوں دی جا رہی ہے؟ ہم نے کہا کہ شاید اس لیے کہ آدھا دفتر تو پہلے ہی ہمارے کمرے میں چائے پینے آتا ہے تو ہم یہ کام نسبتاً بڑے پیمانے پر بھی کر سکتے ہیں۔
ابو جی نے کہا تم بالکل غلط سمجھیں، تمہارے باس نے تمہیں اس کام کے لیے اس لیے چنا ہے کہ تم ایک لڑکی ہو، تمہیں چاہیے کہ صاف انکار کر دو، اگر وہ ضروری سمجھیں تو یہ کام کسی لڑکے کے حوالے کر دیں۔ تم میری یہ نصیحت یاد رکھنا کہ جب تم دفتر جاتی ہو تو ایک لڑکی کی حیثیت سے نہیں جاتیں بلکہ ایک آفیسر اور ورکر کی حیثیت سے جاتی ہو۔ جب تک تم اپنے اردگرد کے لوگوں کو اس بات پر مجبور نہیں کرو گی کہ وہ تمہیں ایک فرد کے طور پر قبول کریں، تمہارا استحصال ہوتا رہے گا۔ تمہیں عورت ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی الٹی سیدھی ذمے داریاں دی جائینگی اور بدلے میں طرح طرح کی رعایتیں آفر کی جائینگی، سہولتوں کی پیشکش کی جائے گی۔
اگر تم نے اس قسم کی کوئی ذمے داری، کوئی پیشکش، کوئی آفر قبول کر لی تو سمجھ لو تم اپنے تمام حقوق سے محروم کر دی جاؤ گی۔'' اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ساجدہ جعفر لکھتی ہیں '' ایک چھوٹی سی لڑکی ابو جی کی محفلوں میں چپ چاپ کسی کونے میں بیٹھی اور تمام بڑوں کی گفتگوکچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے، سنتی رہتی۔ ہم ان لوگوں سے، ان لوگوں کے بات چیت کرنے کے انداز سے، ہنسی مذاق اور بذلہ سنجی سے متاثر اور مرعوب رہتے۔ ابو جی ابتدا ہی سے بھانپ گئے تھے کہ ان کی بیٹی کو گڑیاں کھیلنے، پٹھو گرم یا لکن مٹی میں حصہ لینے اور رسی پھلانگنے میں اتنی دلچسپی نہیں جتنی کہ اہل قلم، اہل فن و ادراک افراد کی محفلوں میں موجود رہنے سے ہے۔ انھوں نے ہمارے اس شوق پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ رفتہ رفتہ جب ہمیں تھوڑی بہت عقل آگئی تو ابو جی نے مختلف علمی، ادبی، دینی اور معاشرتی موضوعات پر حصہ لینے میں ہماری حوصلہ افزائی کی۔ آہستہ آہستہ جیسے ہم بڑے ہوتے گئے ہمیں اندازہ ہوا کہ ابو جی کے تقریباً سب کے سب دوست ہمارے بھی دوست بن گئے۔ ان لوگوں سے ہم نے کیا کیا نہ سیکھا، حق گوئی اور انسان دوستی کا سبق سیکھا اور اتنا کچھ پایا کہ قلم بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا نقصان البتہ یہ ہوا کہ ہم اپنے ہم عمروں سے کٹ کر رہ گئے۔ بظاہر ان کی دلچسپیوں میں شریک رہے، لیکن حقیقت میں اس ہجوم میں ہم تنہا ہی رہے۔''
ایک پہلو ان کی شخصیت کا اور بھی تھا۔ ان کی نجی زندگی، غورکیا جائے تو یہ زیادہ روشن، زیادہ اثر انگیز ہے۔ ان کے دوست اور احباب جنکے تاثرات اس کتاب میں شامل اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں۔آئی اے رحمن کہتے ہیں۔ ''ملک صاحب خوش مزاج انسان تھے۔ فطر سے ان کا رشتہ بہت گہرا تھا۔''
ارشاد عباسی کہتے ہیں '' دکھی انسانیت کی خدمت ان کا نصب العین تھا جسکا اظہار باتوں سے نہیں عمل سے ہوتا تھا۔'' حمید اختر کہتے ہیں ملک صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو عمر بھر خیر کی تلاش میں رہتے ہیں، جو نہ صرف خود نیکیاں کرتے رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔
خورشید بیگم فرماتی ہیں '' ملک صاحب کو بے سہارا ، بے وسیلہ انسانوں سے محبت تھی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ان کے دروازے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔'' راجہ بشیرکہتے ہیں کہ ملک صاحب دلیر اور نڈر آدمی تھے، پارسا اور پاکباز۔ ساجدہ جعفر اپنے ابو جی کے ساتھ گزرے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔ ''ابو جی ایک شفیق باپ تھے۔ بیحد شفیق، بظاہر یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ غیر معمولی اس لیے بنتی ہے کہ ابو جی کی شفقت صرف ان کے بچوں تک محدود نہ تھی بلکہ اس کا دائرہ ان تمام بچوں تک پھیلا ہوا تھا جن سے ابو جی کی رشتہ داری تھی یا جنکے والدین کے ساتھ ان کی دوستی تھی یا پھر وہ تھے جو پڑھائی کے لیے یا کسی اپنے کام کے لیے ان کے گھر پر مقیم تھے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت میں ابو جی نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اگر ہم کچھ سیکھ نہ پائے تو ہماری اپنی نالائقی اور نااہلی۔ انھوں نے ہمیں سبقاً سبقاً قرآن حکیم پڑھایا۔ ترجمہ اور تفسیر ساتھ ساتھ کرتے جاتے تھے۔ ابو جی ہمیں قرآن پاک پڑھاتے ہوئے خاص طور سے ان آیات پر زور دیتے جن میں مظاہر فطرت کا بیان ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ابو جی مظاہر فطرت کا مشاہدہ اور مطالعہ ہی نہیں کرتے تھے بلکہ وہ فطرت سے عشق کرتے تھے اور اس عشق میں ان کا عشق حقیقی پوشیدہ ہے۔'' ملک محمد جعفر کی درویشی، توکل اور قناعت پسندی کا ذکر کرتے ہوئے ساجدہ جعفر ایک واقعہ بیان کرتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں ''گرمیوں کے دن تھے، ابو جی کورٹ سے واپس آئے۔
ابھی کھانا کھایا ہی تھا کہ ملازم نے اطلاع دی کہ باہر کوئی ملنے آیا ہے۔ ابو جی سے ملنے کے لیے آنیوالا ایک تانگے والا تھا۔ اس نے رو رو کر بیان کیا کہ گزری رات کو کوئی اس کا تانگہ اور گھوڑا چرا کر لے گیا ہے۔ وہ پہلی اذان کے وقت سے اس کا سراغ لگانے کی کوشش میں ہلکان ہو چکا ہے۔ ٹوٹے دل اور برستی آنکھوں کے ساتھ اس نے چابک پر ہاتھ پھیرا اور ابو جی کے پیروں میں گر کر کہنے لگا۔ بس اس چابک کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، گھر میں بیوی بچے بھوکے ہیں، میرے پاس پھوٹی کوڑی نہیں۔ ابو جی نے اسے اٹھایا۔ ہم نے دیکھا وہ اس کی طرف بہت غور سے دیکھ رہے تھے، وہ اس کے چہرے کے تاثرات اور Demeanor سے اس کے بیان کی صداقت اور اس کی تکلیف کی شدت کا اندازہ لگا رہے تھے پھر انھوں نے اسے بنچ پر بیٹھنے کو کہا اور خود اندر چلے گئے۔
کچھ ہی دیر بعد وہ واپس آئے۔ ان کے پاس جتنی بھی رقم موجود تھی وہ لاکر انھوں نے اس شخص کے حوالے کی اور کہا کہ میری خواہش تو یہ ہے کہ تمہیں تانگہ اور گھوڑا خرید دوں لیکن اس وقت میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں یہ کرسکوں۔ جو موجود ہے وہ تم لے جاؤ۔ یہ رقم کچھ بڑی تو نہیں ہے مگر اتنی ضرور ہے کہ تم دو ڈھائی ماہ تک اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکو۔ اس عرصے میں کوشش کر کے کوئی اور کام ڈھونڈو۔ وہ شخص جھولی اٹھا کر ڈھیروں دعائیں دیتا اور آنسو پونچھتا چلا گیا۔ ابو جی گھر کے اندر آئے تو امی نے کہا ملک جی! آپ نے سارے پیسے خیرات کر دیے، میرے پاس تو اب اتنی رقم بھی نہیں کہ کل سبزی، گوشت بھی منگا سکوں۔ آپکو گھر کی بھی تو فکر کرنا چاہیے تھی۔
ابو جی نے ہنستے ہوئے کہا بس اتنی سی بات ہے، لیجیے میں مسئلہ حل کیے دیتا ہوں، آپ ایسا کریں کل دوپہر کے کھانے کے لیے تندوری مسی روٹیاں بنوائیں، ہم سب مکھن، لسی اور چٹنی کے ساتھ کھائینگے، واہ مزہ ہی تو آ جائے گا۔ اور رہی شام کی بات تو موٹھ کی دال کے ساتھ توے کی چپڑی روٹی سب شوق سے کھاتے ہیں۔
ہاں تڑکا پیاز کا لگوائے گا۔'' ساجدہ جعفر کا تعلق انفارمیشن سروس سے تھا۔ وہ لکھتی ہیں ''ہم نے لگ بھگ 33سال ملازمت کی، اس عرصے میں چند مواقع ایسے آئے جب ہمارے ابو جی نے ہمارے کام سے متعلق ہمیں کوئی نصیحت کی، ہماری سرزنش کی یا شاباش دی۔ جب پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کا اسلام آباد والا آفس بند ہو گیا اور سب آفیسرز کشمیر روڈ والے دفتر میں شفٹ ہو گئے تو ہمارے PIO احمد حسین شیخ نے ایک روز ہمیں بلایا اور کہا کہ یہاں کینٹین کا نظام بیحد ناقص ہے، میں چاہتا ہوں کہ افسروں کو صاف ستھری اچھی چائے ملے ۔ ٹی کلب کی نگرانی تم کرو گی ، ہم نے ہامی بھر لی۔ یہ بات جب میں نے ابو جی کو بتائی تو انھوں نے پوچھا کہ یہ ذمے داری تم ہی کو کیوں دی جا رہی ہے؟ ہم نے کہا کہ شاید اس لیے کہ آدھا دفتر تو پہلے ہی ہمارے کمرے میں چائے پینے آتا ہے تو ہم یہ کام نسبتاً بڑے پیمانے پر بھی کر سکتے ہیں۔
ابو جی نے کہا تم بالکل غلط سمجھیں، تمہارے باس نے تمہیں اس کام کے لیے اس لیے چنا ہے کہ تم ایک لڑکی ہو، تمہیں چاہیے کہ صاف انکار کر دو، اگر وہ ضروری سمجھیں تو یہ کام کسی لڑکے کے حوالے کر دیں۔ تم میری یہ نصیحت یاد رکھنا کہ جب تم دفتر جاتی ہو تو ایک لڑکی کی حیثیت سے نہیں جاتیں بلکہ ایک آفیسر اور ورکر کی حیثیت سے جاتی ہو۔ جب تک تم اپنے اردگرد کے لوگوں کو اس بات پر مجبور نہیں کرو گی کہ وہ تمہیں ایک فرد کے طور پر قبول کریں، تمہارا استحصال ہوتا رہے گا۔ تمہیں عورت ہونے کی وجہ سے طرح طرح کی الٹی سیدھی ذمے داریاں دی جائینگی اور بدلے میں طرح طرح کی رعایتیں آفر کی جائینگی، سہولتوں کی پیشکش کی جائے گی۔
اگر تم نے اس قسم کی کوئی ذمے داری، کوئی پیشکش، کوئی آفر قبول کر لی تو سمجھ لو تم اپنے تمام حقوق سے محروم کر دی جاؤ گی۔'' اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ساجدہ جعفر لکھتی ہیں '' ایک چھوٹی سی لڑکی ابو جی کی محفلوں میں چپ چاپ کسی کونے میں بیٹھی اور تمام بڑوں کی گفتگوکچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے، سنتی رہتی۔ ہم ان لوگوں سے، ان لوگوں کے بات چیت کرنے کے انداز سے، ہنسی مذاق اور بذلہ سنجی سے متاثر اور مرعوب رہتے۔ ابو جی ابتدا ہی سے بھانپ گئے تھے کہ ان کی بیٹی کو گڑیاں کھیلنے، پٹھو گرم یا لکن مٹی میں حصہ لینے اور رسی پھلانگنے میں اتنی دلچسپی نہیں جتنی کہ اہل قلم، اہل فن و ادراک افراد کی محفلوں میں موجود رہنے سے ہے۔ انھوں نے ہمارے اس شوق پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ رفتہ رفتہ جب ہمیں تھوڑی بہت عقل آگئی تو ابو جی نے مختلف علمی، ادبی، دینی اور معاشرتی موضوعات پر حصہ لینے میں ہماری حوصلہ افزائی کی۔ آہستہ آہستہ جیسے ہم بڑے ہوتے گئے ہمیں اندازہ ہوا کہ ابو جی کے تقریباً سب کے سب دوست ہمارے بھی دوست بن گئے۔ ان لوگوں سے ہم نے کیا کیا نہ سیکھا، حق گوئی اور انسان دوستی کا سبق سیکھا اور اتنا کچھ پایا کہ قلم بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا نقصان البتہ یہ ہوا کہ ہم اپنے ہم عمروں سے کٹ کر رہ گئے۔ بظاہر ان کی دلچسپیوں میں شریک رہے، لیکن حقیقت میں اس ہجوم میں ہم تنہا ہی رہے۔''