سندھ حکومت کا صدارتی آرڈیننس کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع
سندھ حکومت کا موقف ہے کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم صوبائی اختیارات سے متصادم ہے۔
حکومت سند ھ نے اپنے اعلان کے مطابق قیدیوں اور جیل سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
سندھ حکومت کا موقف ہے کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم صوبائی اختیارات سے متصادم ہے، قیدیوں اور جیل سے متعلق قانون سازی صوبائی حکومتوں کا اختیار ہے۔ سندھ حکومت نے کہا ہے کہ قیدیوں کو بی کلاس سے محروم کرنا بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، اسلام آباد میں بیٹھ کر صوبوں کے اختیارات کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دو ٹوک اعلان کیا کہ ہم نیب آرڈیننس میں وفاقی ترمیم کو نہیں مانتے ہیں۔
حکومت سندھ کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے آرڈیننس کے اجرا کے ذریعے صوبائی معاملات میں مداخلت کی اور ایسا کرنا اٹھارہویں آئینی ترمیم کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔ پی ایم ڈی سی کی تحلیل صوبوں کی مشاورت کے بغیر کی گئی اور دیگر آرڈیننس کے اجرا سے بھی وفاقی حکومت نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق 18ویں ترمیم پیپلزپارٹی کے لیے انتہائی حساس معاملہ ہے اور وہ اس کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسی طرح اگر وفاق کی جانب سے کچھ اس طرح کے اقدامات کیے جاتے ہیں، جس سے یہ محسوس ہو کہ ان سے صوبائی خود مختاری پر کوئی آنچ آرہی ہے تو وہ اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ نیب آرڈیننس میں ترمیم کے حوالے سے بھی پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ یہ صوبوں کے معاملے میں مداخلت ہے، اس لیے صوبائی حکومت نے قانونی راستہ اختیار کیا ہے۔
صوبہ سندھ کی سیاست اب کچرے سے نکل کر کتوں کے گرد گھومنا شروع ہوگئی ہے۔ پہلے صوبے کی ہر سیاسی جماعت کراچی کے کچرے کو لے کر صوبائی حکومت کو ہدف تنقید بنا رہی تھی لیکن اب کراچی سمیت سندھ بھر میں سگ گزیدگی کے واقعات میں اضافے نے سیاست کا رخ اس جانب موڑ دیا ہے۔
اس ضمن میں تازہ ترین واقعہ پاکستان پیپلز پارٹی کے گڑھ اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے شہر لاڑکانہ میں پیش آیا،جہاں 6 سے 7 کتوں نے کمسن بچے حسنین بگھیو پر حملہ کیا اور اس کا منہ کھا گئے، دربدر کی ٹھوکروں کے بعد متاثرہ بچے کو این آئی سی ایچ اسپتال کی ایمرجنسی سے آئی سی یو منتقل کردیا گیا۔اسپتال انتظامیہ کے مطابق حسنین ایمرجنسی میں ہے، طبی امداد دی جا رہی ہے، بچے کے چہرے کا ایک حصہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ وزیراعلی کے مشیر مرتضی وہاب نے اس افسوسناک واقعے کا ذمہ دار وفاقی حکوت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ دوائیں امپورٹ کرنا وفاقی حکومت کا کام ہے، جس کی ادائیگی سندھ حکومت کر چکی ہے۔
سندھ کی وزیر صحت عذرا پیچوہو کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں کتے کے کاٹے کی 13 ہزار کے قریب ویکسین موجود ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے آفتاب صدیقی نے متاثرہ بجے کے علاج معالجے کا بیڑا اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ بچے کی ہرممکن مدد کریں گے۔ ان کا سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لاڑکانہ میں لوگ بھوک بیماریوں کے بعد کتے کے کاٹے سے مرنے لگے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ دنیا کا کون سا ملک ہے جس کے صوبے میں ہزاروں کتے ملیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ عذراپیچوہو کہتی ہیں کتوں کا علاج کرنے کے لیے 50کروڑ کی ضرورت ہے۔پیپلزپارٹی سے صوبے کے مسائل حل نہیں ہو رہے، سندھ میں لوگ کتوں کے کاٹنے سے مر رہے ہیں۔گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی زخمی بچے کی عیادت کے لیے اسپتال پہنچے ،جہاں ان کا کہنا تھا کہ کتا مارنے کا معاملہ دو دھاری تلوار بن گیا ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ اس جدید ترقی یافتہ دور میں بھی صوبہ سندھ کے عوام سگ گزیدگی جیسے واقعات سے باہر نکل نہیں پا رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں جب صوبے میں مطلوبہ مقدار میں اینٹی ربیز ویکسین بھی موجود نہیں ہیں اس طرح کے واقعات پیش آنے سے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ صوبائی حکومت کو اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیے اور اگر کتوں کے مارنے کے حوالے سے کچھ حلقوں کو تحفظات ہیں ان کی افزائش نسل روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکاجاسکے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی احتجاجی تحریک کے پلان بی کے تحت ملک بھر کی طرح سندھ کے مختلف شہروں میں بھی احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔ خیرپور،گھوٹکی،جیکب آباد اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں جے یو آئی کے کارکنان نے اہم شاہراہوں کو بلاک کردیا ۔اب تک ہونے والے احتجاج میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سب کچھ انتہائی پرامن انداز میں ہو رہا ہے اور کسی بھی جگہ سے کسی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ میں ''عوامی مسائل سے متعلق معاملات '' پر توجہ نہ دینے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ جی ڈی اے مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے۔
اس حوالے سے جی ڈی اے کے رہنما غلام مرتضٰی جتوئی کی رہائش گاہ پر منعقدہ کورکمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیرپگارا نے کہاکہ سندھ حکومت پر صوبے کے لوگوں کو اعتماد نہیں ہے مگر وفاق نے بھی سندھ کے لوگوں کو مایوس کیا ہے، اٹھارویں ترمیم کا مطلب یہ نہیں کہ وفاق صوبے کو تنہا چھوڑدے، حکومت سازی کے وقت شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین ہمارے پاس آئے تھے ہم نے اپنے ارکان قومی اسمبلی کی حمایت اس لیے ان کے حوالے کی کیونکہ ہمیں سندھ حکومت پر اعتماد نہیں تھا، ہم نے سمجھا وفاقی حکومت سندھ کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے ہماری مدد کرے گی مگر مایوسی ہوئی وفاقی حکومت نے کبھی حال بھی نہیں پوچھا۔ انہوں نے سندھ حکومت کی کارکردگی پر بھی کڑی تنقید کی۔اس اجلاس میں طے کیا گیا کہ جی ڈی اے جلد عوامی رابطہ مہم شروع کرے گی۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی اتحادی جماعت جی ڈی اے کے تحفظات پر خصوصی توجہ دیں۔ سندھ کے عوام کو ریلیف دینے کے لیے وفاق فوری اقدام کرے۔ اگر وفاقی حکومت سندھ میں عوامی مسائل کے حل پر مستقبل میں توجہ دیتی ہے تو آئندہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر صوبے میں پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کو اس کے سیاسی ثمرات حاصل ہو سکتے ہیں۔
سندھ حکومت کا موقف ہے کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم صوبائی اختیارات سے متصادم ہے، قیدیوں اور جیل سے متعلق قانون سازی صوبائی حکومتوں کا اختیار ہے۔ سندھ حکومت نے کہا ہے کہ قیدیوں کو بی کلاس سے محروم کرنا بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، اسلام آباد میں بیٹھ کر صوبوں کے اختیارات کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دو ٹوک اعلان کیا کہ ہم نیب آرڈیننس میں وفاقی ترمیم کو نہیں مانتے ہیں۔
حکومت سندھ کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے آرڈیننس کے اجرا کے ذریعے صوبائی معاملات میں مداخلت کی اور ایسا کرنا اٹھارہویں آئینی ترمیم کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔ پی ایم ڈی سی کی تحلیل صوبوں کی مشاورت کے بغیر کی گئی اور دیگر آرڈیننس کے اجرا سے بھی وفاقی حکومت نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق 18ویں ترمیم پیپلزپارٹی کے لیے انتہائی حساس معاملہ ہے اور وہ اس کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسی طرح اگر وفاق کی جانب سے کچھ اس طرح کے اقدامات کیے جاتے ہیں، جس سے یہ محسوس ہو کہ ان سے صوبائی خود مختاری پر کوئی آنچ آرہی ہے تو وہ اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ نیب آرڈیننس میں ترمیم کے حوالے سے بھی پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ یہ صوبوں کے معاملے میں مداخلت ہے، اس لیے صوبائی حکومت نے قانونی راستہ اختیار کیا ہے۔
صوبہ سندھ کی سیاست اب کچرے سے نکل کر کتوں کے گرد گھومنا شروع ہوگئی ہے۔ پہلے صوبے کی ہر سیاسی جماعت کراچی کے کچرے کو لے کر صوبائی حکومت کو ہدف تنقید بنا رہی تھی لیکن اب کراچی سمیت سندھ بھر میں سگ گزیدگی کے واقعات میں اضافے نے سیاست کا رخ اس جانب موڑ دیا ہے۔
اس ضمن میں تازہ ترین واقعہ پاکستان پیپلز پارٹی کے گڑھ اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے شہر لاڑکانہ میں پیش آیا،جہاں 6 سے 7 کتوں نے کمسن بچے حسنین بگھیو پر حملہ کیا اور اس کا منہ کھا گئے، دربدر کی ٹھوکروں کے بعد متاثرہ بچے کو این آئی سی ایچ اسپتال کی ایمرجنسی سے آئی سی یو منتقل کردیا گیا۔اسپتال انتظامیہ کے مطابق حسنین ایمرجنسی میں ہے، طبی امداد دی جا رہی ہے، بچے کے چہرے کا ایک حصہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ وزیراعلی کے مشیر مرتضی وہاب نے اس افسوسناک واقعے کا ذمہ دار وفاقی حکوت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ دوائیں امپورٹ کرنا وفاقی حکومت کا کام ہے، جس کی ادائیگی سندھ حکومت کر چکی ہے۔
سندھ کی وزیر صحت عذرا پیچوہو کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں کتے کے کاٹے کی 13 ہزار کے قریب ویکسین موجود ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے آفتاب صدیقی نے متاثرہ بجے کے علاج معالجے کا بیڑا اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ بچے کی ہرممکن مدد کریں گے۔ ان کا سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لاڑکانہ میں لوگ بھوک بیماریوں کے بعد کتے کے کاٹے سے مرنے لگے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ دنیا کا کون سا ملک ہے جس کے صوبے میں ہزاروں کتے ملیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ عذراپیچوہو کہتی ہیں کتوں کا علاج کرنے کے لیے 50کروڑ کی ضرورت ہے۔پیپلزپارٹی سے صوبے کے مسائل حل نہیں ہو رہے، سندھ میں لوگ کتوں کے کاٹنے سے مر رہے ہیں۔گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی زخمی بچے کی عیادت کے لیے اسپتال پہنچے ،جہاں ان کا کہنا تھا کہ کتا مارنے کا معاملہ دو دھاری تلوار بن گیا ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ اس جدید ترقی یافتہ دور میں بھی صوبہ سندھ کے عوام سگ گزیدگی جیسے واقعات سے باہر نکل نہیں پا رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں جب صوبے میں مطلوبہ مقدار میں اینٹی ربیز ویکسین بھی موجود نہیں ہیں اس طرح کے واقعات پیش آنے سے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ صوبائی حکومت کو اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیے اور اگر کتوں کے مارنے کے حوالے سے کچھ حلقوں کو تحفظات ہیں ان کی افزائش نسل روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکاجاسکے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی احتجاجی تحریک کے پلان بی کے تحت ملک بھر کی طرح سندھ کے مختلف شہروں میں بھی احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔ خیرپور،گھوٹکی،جیکب آباد اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں جے یو آئی کے کارکنان نے اہم شاہراہوں کو بلاک کردیا ۔اب تک ہونے والے احتجاج میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سب کچھ انتہائی پرامن انداز میں ہو رہا ہے اور کسی بھی جگہ سے کسی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ میں ''عوامی مسائل سے متعلق معاملات '' پر توجہ نہ دینے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ جی ڈی اے مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے۔
اس حوالے سے جی ڈی اے کے رہنما غلام مرتضٰی جتوئی کی رہائش گاہ پر منعقدہ کورکمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیرپگارا نے کہاکہ سندھ حکومت پر صوبے کے لوگوں کو اعتماد نہیں ہے مگر وفاق نے بھی سندھ کے لوگوں کو مایوس کیا ہے، اٹھارویں ترمیم کا مطلب یہ نہیں کہ وفاق صوبے کو تنہا چھوڑدے، حکومت سازی کے وقت شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین ہمارے پاس آئے تھے ہم نے اپنے ارکان قومی اسمبلی کی حمایت اس لیے ان کے حوالے کی کیونکہ ہمیں سندھ حکومت پر اعتماد نہیں تھا، ہم نے سمجھا وفاقی حکومت سندھ کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے ہماری مدد کرے گی مگر مایوسی ہوئی وفاقی حکومت نے کبھی حال بھی نہیں پوچھا۔ انہوں نے سندھ حکومت کی کارکردگی پر بھی کڑی تنقید کی۔اس اجلاس میں طے کیا گیا کہ جی ڈی اے جلد عوامی رابطہ مہم شروع کرے گی۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی اتحادی جماعت جی ڈی اے کے تحفظات پر خصوصی توجہ دیں۔ سندھ کے عوام کو ریلیف دینے کے لیے وفاق فوری اقدام کرے۔ اگر وفاقی حکومت سندھ میں عوامی مسائل کے حل پر مستقبل میں توجہ دیتی ہے تو آئندہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر صوبے میں پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کو اس کے سیاسی ثمرات حاصل ہو سکتے ہیں۔