2 لاکھ سے زائد گاڑیوں کے مالکان سرکاری نمبر پلیٹ سے محروم
1 لاکھ سے زائد گاڑی مالکان 2015-16 سے نمبر پلیٹ کیلیے ایکسائز کے چکر کاٹ رہے ہیں
کراچی میں نئی گاڑی خرید نے میں مشکل نہیں لیکن اس کے لیے سرکاری نمبر پلیٹ حاصل کرنا ضرور مشکل کام ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً2لاکھ سے زائد گاڑیوں کے مالکان ایسے ہیں جنہیں بڑے عرصے سے سرکاری نمبر پلیٹ نہیں ملی، ان میں آدھی سے زیادہ تعداد 2015-16 سے سرکاری نمبر پلیٹ حاصل کرنے کے لیے محکمہ ایکسائز کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن تاحال وہ سرکاری نمبر پلیٹ حاصل نہیں کرسکے ہیں اور اتنے عرصے سے اپنی گاڑیاں عارضی نمبر پلیٹ پر چلانے پر مجبور ہیں،ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری نمبر پلیٹ نہ ہونے کے باعث ٹریفک پولیس آئے دن ان کی گاڑیوں کا چالان بھی کرتی رہی ہے۔
محکمہ ایکسائز ان لوگوں سے گاڑیاں رجسٹر کراتے وقت نمبر پلیٹ کی فیس بھی وصول کر چکی ہے، محتاط اندازے کے مطابق جو لوگ فیس ادا کرنے کے باوجود اتنے عرصے سے سرکاری نمبر پلیٹ سے محروم ہیں ان سے پیشگی وصول کی گئی فیس کی رقم 10 کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔
واضح رہے کہ محکمہ ایکسائز گزشتہ مالی سال تک فی نمبر پلیٹ 500 روپے وصول کرتی آئی ہے جبکہ رواں مالی سال کی ابتدا سے یہ فیس دگنی کردی گئی اور جولائی 2019 سے فی نمبر پلیٹ ایک ہزار روپے وصول کیے جارہے ہیں۔ مذکورہ فیس میں دگنے اضافے کی وجہ افراط زر اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ بتایا جاتا ہے۔
ایک شہری ریاض احمد نے ایکسپریس کو بتایا کہ انھوں نے ڈیڑھ سال قبل اپنی گاڑی کی رجسٹریشن کرائی تھی لیکن تاحال سرکاری نمبر پلیٹ سے محروم ہیں، ان کے مطابق انھیں BLP کی سیریز کا کوئی نمبر الاٹ ہونا تھا لیکن محکمہ ایکسائز والے گزشتہ ڈیڑھ سال سے ایک ہی جواب دے رہے ہیں کہ مذکورہ سیریز کی نمبر پلیٹس ابھی تیار نہیں ہوئی ہیں جب بنیں گی تو آپ کو مل جائے گی۔
گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے شوروم کے مالک محمد طاہر کا کہنا ہے کہ سرکاری نمبر پلیٹس نہ ملنے کا مسئلہ اس سے پہلے 2004 میں ہوا تھا لیکن پہلی مرتبہ شدید نوعیت کا مسئلہ پیدا ہوا ہے جب لاکھوں لوگوں کو سالوں سے نمبر پلیٹس نہیں دی گئی ہیں۔
محکمہ ایکسائز کے ذرائع کے مطابق مذکورہ مسئلے کے پیچھے محکمے کے بعض بااثر افسران کے مالی مفادات ایک اہم سبب ہے، ذرائع کے مطابق یہ ہی وجہ ہے کہ محض اس سال کے دوران نمبر پلیٹوں کی تیاری کا ٹینڈر چار مرتبہ منسوخ کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ایکسپریس کی جانب سے جب موٹر رجسٹریشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر شیر محمد شیخ سمیت مختلف متعلقہ افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن متعدد بار کوششوں کے باوجود انھوں نے نہ فون اٹینڈ کیا اور نہ ہی ایس ایم ایس کا جواب دیا البتہ محکمہ ایکسائز سندھ کے سیکریٹری عبدالحلیم شیخ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر نمبر پلیٹس کی تیاری کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے اسٹے جاری کرنے کی بعد روکا گیا جس کی وجہ سے2015-16 میں نمبر پلیٹس جاری نہیں کی گئیں تاہم زیادہ ریٹ ہونے کے باعث مالی سال 2018-19میں بھی نئی نمبر پلیٹس کی تیاری کا ٹینڈر نہیں دیا گیا اور تاحال رواں مالی سال میں بھی اسی بنیاد پر ٹھیکہ نہیں دیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ ہر سال تقریباً ایک لاکھ نئی گاڑیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں جن کے لیے محکمہ ایکسائز کو نمبر پلیٹس کا انتظام کرنا ہوتا ہے، ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ صوبہ سندھ میں مشین ریڈایبل چپس لگی نئی نمبر پلیٹس جاری کرنے کا منصوبہ ابھی تک حکومت سندھ اور سندھ اسمبلی سے منظور نہیں ہوا، اس ضمن میں باضابطہ منظوری ملنے کے بعد نئی نمبر پلیٹس کی تیاری شروع کی جائے گی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً2لاکھ سے زائد گاڑیوں کے مالکان ایسے ہیں جنہیں بڑے عرصے سے سرکاری نمبر پلیٹ نہیں ملی، ان میں آدھی سے زیادہ تعداد 2015-16 سے سرکاری نمبر پلیٹ حاصل کرنے کے لیے محکمہ ایکسائز کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن تاحال وہ سرکاری نمبر پلیٹ حاصل نہیں کرسکے ہیں اور اتنے عرصے سے اپنی گاڑیاں عارضی نمبر پلیٹ پر چلانے پر مجبور ہیں،ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری نمبر پلیٹ نہ ہونے کے باعث ٹریفک پولیس آئے دن ان کی گاڑیوں کا چالان بھی کرتی رہی ہے۔
محکمہ ایکسائز ان لوگوں سے گاڑیاں رجسٹر کراتے وقت نمبر پلیٹ کی فیس بھی وصول کر چکی ہے، محتاط اندازے کے مطابق جو لوگ فیس ادا کرنے کے باوجود اتنے عرصے سے سرکاری نمبر پلیٹ سے محروم ہیں ان سے پیشگی وصول کی گئی فیس کی رقم 10 کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔
واضح رہے کہ محکمہ ایکسائز گزشتہ مالی سال تک فی نمبر پلیٹ 500 روپے وصول کرتی آئی ہے جبکہ رواں مالی سال کی ابتدا سے یہ فیس دگنی کردی گئی اور جولائی 2019 سے فی نمبر پلیٹ ایک ہزار روپے وصول کیے جارہے ہیں۔ مذکورہ فیس میں دگنے اضافے کی وجہ افراط زر اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ بتایا جاتا ہے۔
ایک شہری ریاض احمد نے ایکسپریس کو بتایا کہ انھوں نے ڈیڑھ سال قبل اپنی گاڑی کی رجسٹریشن کرائی تھی لیکن تاحال سرکاری نمبر پلیٹ سے محروم ہیں، ان کے مطابق انھیں BLP کی سیریز کا کوئی نمبر الاٹ ہونا تھا لیکن محکمہ ایکسائز والے گزشتہ ڈیڑھ سال سے ایک ہی جواب دے رہے ہیں کہ مذکورہ سیریز کی نمبر پلیٹس ابھی تیار نہیں ہوئی ہیں جب بنیں گی تو آپ کو مل جائے گی۔
گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے شوروم کے مالک محمد طاہر کا کہنا ہے کہ سرکاری نمبر پلیٹس نہ ملنے کا مسئلہ اس سے پہلے 2004 میں ہوا تھا لیکن پہلی مرتبہ شدید نوعیت کا مسئلہ پیدا ہوا ہے جب لاکھوں لوگوں کو سالوں سے نمبر پلیٹس نہیں دی گئی ہیں۔
محکمہ ایکسائز کے ذرائع کے مطابق مذکورہ مسئلے کے پیچھے محکمے کے بعض بااثر افسران کے مالی مفادات ایک اہم سبب ہے، ذرائع کے مطابق یہ ہی وجہ ہے کہ محض اس سال کے دوران نمبر پلیٹوں کی تیاری کا ٹینڈر چار مرتبہ منسوخ کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ایکسپریس کی جانب سے جب موٹر رجسٹریشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر شیر محمد شیخ سمیت مختلف متعلقہ افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن متعدد بار کوششوں کے باوجود انھوں نے نہ فون اٹینڈ کیا اور نہ ہی ایس ایم ایس کا جواب دیا البتہ محکمہ ایکسائز سندھ کے سیکریٹری عبدالحلیم شیخ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر نمبر پلیٹس کی تیاری کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے اسٹے جاری کرنے کی بعد روکا گیا جس کی وجہ سے2015-16 میں نمبر پلیٹس جاری نہیں کی گئیں تاہم زیادہ ریٹ ہونے کے باعث مالی سال 2018-19میں بھی نئی نمبر پلیٹس کی تیاری کا ٹینڈر نہیں دیا گیا اور تاحال رواں مالی سال میں بھی اسی بنیاد پر ٹھیکہ نہیں دیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ ہر سال تقریباً ایک لاکھ نئی گاڑیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں جن کے لیے محکمہ ایکسائز کو نمبر پلیٹس کا انتظام کرنا ہوتا ہے، ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ صوبہ سندھ میں مشین ریڈایبل چپس لگی نئی نمبر پلیٹس جاری کرنے کا منصوبہ ابھی تک حکومت سندھ اور سندھ اسمبلی سے منظور نہیں ہوا، اس ضمن میں باضابطہ منظوری ملنے کے بعد نئی نمبر پلیٹس کی تیاری شروع کی جائے گی۔