روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام نسل کُشی نہیں آنگ سان سوچی
فسادات میں صرف روہنگیا مسلمان ہی نشانہ نہیں بنے بدھ مت کے ماننے والوں کی بھی بڑی تعداد متاثر ہوئی، برمی رہنما
برما میں سب سے بڑی سیاسی رہنما اور نوبل انعام یافتہ سیاستدان آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو ان کی نسل کشی قرار دینے سے انکار کردیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں آنگ سان سوچی کا کہنا تھا کہ برما کے چند علاقوں میں گزشتہ چند برسوں سے وقفے وقفے سے ہونے والے فسادات میں صرف روہنگیا مسلمان ہی نشانہ نہیں بنے، ان پرتشدد واقعات میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر سیکڑوں روہنگیا مسلمان فسادات کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو اتنی ہی تعداد میں بدھ مت کے ماننے والے بھی علاقے سے بے دخل ہوکر مختلف علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں اس لئے وہ فسادات میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل کو ان کی نسل کشی نہیں مانتیں تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ بدھ اکثریت کے ملک میں مسلمانوں کو سیکیورٹی فرایم کی جانی چاہئے۔
واضح رہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو برمی حکومت اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی، ان پر ڈھائے گئے مظالم کی وجہ سے اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی سب سے زیادہ ستائی جانے والی قوم قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود برما میں جمہوریت کے لئے طویل عرصے تک پابند سلاسل رہنے والی آنگ سان سوچی نے کبھی بھی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم پر اپنی آواز بلند نہیں کی۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں آنگ سان سوچی کا کہنا تھا کہ برما کے چند علاقوں میں گزشتہ چند برسوں سے وقفے وقفے سے ہونے والے فسادات میں صرف روہنگیا مسلمان ہی نشانہ نہیں بنے، ان پرتشدد واقعات میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر سیکڑوں روہنگیا مسلمان فسادات کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو اتنی ہی تعداد میں بدھ مت کے ماننے والے بھی علاقے سے بے دخل ہوکر مختلف علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں اس لئے وہ فسادات میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل کو ان کی نسل کشی نہیں مانتیں تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ بدھ اکثریت کے ملک میں مسلمانوں کو سیکیورٹی فرایم کی جانی چاہئے۔
واضح رہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو برمی حکومت اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی، ان پر ڈھائے گئے مظالم کی وجہ سے اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی سب سے زیادہ ستائی جانے والی قوم قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود برما میں جمہوریت کے لئے طویل عرصے تک پابند سلاسل رہنے والی آنگ سان سوچی نے کبھی بھی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم پر اپنی آواز بلند نہیں کی۔