شاعری بھی گناہ ہے
تہ نہیں اس شاعر کے نور نظر نے کونسی کتابیں پڑھی تھیں جنہیں پڑھ کر اس نے یہ بصیرت حاصل کی۔
KARACHI:
جو شعری مجموعہ اس وقت ہمارے سامنے ہے اس کا عنوان ہے پیکر زندگی۔ حالانکہ اس کا عنوان ہونا چاہیے تھا 'باپ کا گناہ'۔ اس اجمال کی تفصیل سننے سے پہلے اکبر الہ آبادی کا ایک شعر سن لیجیے؎
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
جنہیں پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
پتہ نہیں اس شاعر کے نور نظر نے کونسی کتابیں پڑھی تھیں جنہیں پڑھ کر اس نے یہ بصیرت حاصل کی کہ شاعری گناہ ہے۔ اس نے بجا سوچا کہ باقی شاعروں پر اگر میرا بس نہیں چلتا تو گھر میں جو شاعری کا گناہ ہو رہا ہے اس پر تو بند باندھا جا سکتا ہے۔ شاعر کی زندگی میں بیٹے نے باپ کو گنہگار بننے سے بچانے کے لیے کیا جتن کیے اس کے متعلق شاعر کے یار احباب نے کچھ نہیں بتایا ہے۔ مجموعہ کے مرتب افتخار قریشی نے صرف اتنا بتایا ہے کہ اگر شاعر کے پُرگو ہونے کے باوجود یہ مجموعہ ضخیم نہیں ہے تو اس کی وجہ شاعر کا فرزند ارجمند ہے اس سعادت مند فرزند نے باپ کے کلام کو چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ باپ کے گناہوں کی تشہیر اسے گوارا نہیں لیکن گناہ کہیں چھپا رہتا ہے۔ اس گنہگار شخص نے جس کا نام عثمان صدیقی ہے زندگی میں اپنے گناہوں کی اپنی طرف سے تشہیر نہیں کی تھی۔ افتخار قریشی صاحب بتاتے ہیں کہ جب بھی ان کے شعری مجموعہ کی اشاعت کی تجویز یاروں نے ان کے سامنے پیش کی وہ طرح دے گئے۔ کہتے تھے کہ میں تو بس اپنے اطمینان قلب کے لیے شعر کہتا ہوں۔ مشاعرے میں جا کر غزل سنائوں یا ان کا مجموعہ مرتب کر کے شایع کروں یہ بندے کو منظور نہیں ہے۔
مگر ان کے دوستوں نے ان کی کتنی غزلیں نظمیں کسی نہ کسی طور ان سے حاصل کر کے انھیں رسالوں میں چھپوا دیا۔ افتخار صدیقی صاحب نے اس مطبوعہ مال کو یکجا کر کے ایک شعری مجموعہ ترتیب دیا۔ بیٹے کو جب پتہ چلا کہ اس کے باپ کے گناہوں کی اب تشہیر ہونے کو ہے تو انھوں نے قریشی صاحب کو لکھا کہ خدا کے لیے میرے باپ کے گناہوں کی تشہیر نہ کیجیے۔ مجموعہ شایع کرنے سے باز آئیے۔ مگر قریشی صاحب نے بیٹے کے جذبات کا مطلق احترام نہ کیا اور ایک اشاعتی ادارہ جمہوری پبلی کیشنز (لاہور) کے ذریعہ اس کی اشاعت کا اہتمام کر ڈالا۔ اب یہ گناہوں کی پوٹ 'پیکر زندگی' کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے۔ سعادتمند بیٹے سے ہم معذرت خواہ ہیں۔ اب یہ گناہوں کا دفتر ہمارے ہاتھ آ گیا ہے تو اسے پڑھنا بھی ضرور تھا۔ اور اب پبلک کو بتانا بھی لازم نظر آیا کہ ایک شریف آدمی کے سعادتمند بیٹے نے باپ کو بدنام ہونے سے بچانے کی بہت کوشش کی مگر بدنامی مقدر ہو چکی تھی۔ اب اس کی شاعری کا چرچا ادبی حلقوں میں ہو گا اور گناہ اپنا رنگ لائے گا۔
تو مرحوم عثمان صدیقی کا مجموعہ ہمارے پیش نظر ہے۔ اب مرحوم کی ایک اور حرکت ملاحظہ فرمائیے۔ ویسے تو وہ سید زادے ہیں لیکن ایک صدیقی کی دوستی میں اتنے مگن ہوئے کہ صدیقی بن گئے۔ صدیقی صاحب کی شاعری اپنی جگہ مگر اس میں ان کے دوستوں نے جو کلی پھندنے' ٹانکے ہیں وہ بھی دلچسپ ہیں۔ مشکور حسین یاد بتاتے ہیں کہ صدیقی صاحب ہنس مکھ قسم کے آدمی تھے۔ یہاں سے انھوں نے اشارہ لیا اور ہمیں بتایا کہ ان کی ہنسی ان کی شاعری میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ ''کسی طرح کا بھی مضمون کیوں نہ ہو ان کے ہاں اس ہنسی کے ہلکوروں سے خالی نہیں ہوتا''۔ ہم ان کے بہکانے میں آ کر اسی راہ پر چل پڑے اور اس شاعری میں ہنسی کے ہلکورے تلاش کرتے رہے۔ وہ ہنسی کے ہلکورے ہمیں تو جل دے گئے۔ اپنا سارا جلوہ مشکور حسین یاد کو دکھایا اور غائب ہو گئے۔
ہاں قریشی صاحب کی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے ہاں تشبیہہ اور استعارے کا سہارا کم کم لیا گیا ہے۔ یہ بات شاعری کے معمول سے ہٹ کر ہے۔ انداز بیان سلیس اور رواں ہے''۔
اس شاعری کا نقشہ یہی ہے۔ مگر شاید نئی غزل مجموعی طور پر تغزل کے تام جھام سے اکتا گئی ہے۔ وہ تشبیہیں' استعارے' تلمیحیں جن کا کلاسیکی عہد کی غزل میں وفور تھا کہاں گئیں۔ لیلی مجنوں کہاں جا کر چھپ گئے نئی غزل میں مشکل ہی سے ان کی جھلک نظر آتی ہے۔ شیریں فرہاد کا معاملہ بھی یہی ہے۔ پہلے اردو نثر نے مقفیٰ مسجع قسم کی عبادت ارائی سے نجات حاصل کی تھی۔ اب اردو غزل بھی اپنے اس تغزل سے جو اس میں رچا بسا تھا رسہ تڑا رہی ہے۔
خیر تو یہ غزل تشبیہہ، استعارہ' تلمیح سے نجات حاصل کر کے ہلکی پھلکی ہو گئی ہے۔ اس باعث اس میں روانی اور سادگی آ گئی ہے۔ ذرا یہ شعر دیکھئے؎
کاروبار زندگی یکسر فریب
اس جہاں کے مخمصے سارے غلط
منزل مقصود ملتی کس طرح
طے کیے جو مرحلے سارے غلط
جو بھی خواہش تھی ادھوری رہ گئی
اپنے اندازے ہی تھے سارے غلط
یہاں صرف تشبیہوں استعاروں ہی سے کنارہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ مفرس زبان سے بھی چھٹکارا حاصل کیا گیا ہے۔ فارسی ترکیبیں غائب۔ سیدھی سچی اردو میں بات ہو رہی ہے۔ اور سنئے؎
کیسا انصاف' عدل کیا معنی
ہر طرف ظالموں کا ڈیرا ہے
دل کہاں دل میں ایک مدت سے
یاس و اندوہ کا بسیرا ہے
اس سیدھی سچی زبان میں آج کے سارے مضمون ادا ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یعنی غم جاناں بھی ہے اور غم عشق بھی ہے۔ روز مرہ کے معاملات اور گورکھ دھندے بھی ہیں۔ شاعر نے کتنی خوش اسلوبی سے کس بے تکلفی سے ہر مضمون کو ادا کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ہماری شاعری فارسی کو ہضم کر کے اپنی زبان کو پا رہی ہے اور اک نیا اظہار اپنے دکھ درد کے بیان کے لیے تراش رہی ہے۔
جو شعری مجموعہ اس وقت ہمارے سامنے ہے اس کا عنوان ہے پیکر زندگی۔ حالانکہ اس کا عنوان ہونا چاہیے تھا 'باپ کا گناہ'۔ اس اجمال کی تفصیل سننے سے پہلے اکبر الہ آبادی کا ایک شعر سن لیجیے؎
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
جنہیں پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
پتہ نہیں اس شاعر کے نور نظر نے کونسی کتابیں پڑھی تھیں جنہیں پڑھ کر اس نے یہ بصیرت حاصل کی کہ شاعری گناہ ہے۔ اس نے بجا سوچا کہ باقی شاعروں پر اگر میرا بس نہیں چلتا تو گھر میں جو شاعری کا گناہ ہو رہا ہے اس پر تو بند باندھا جا سکتا ہے۔ شاعر کی زندگی میں بیٹے نے باپ کو گنہگار بننے سے بچانے کے لیے کیا جتن کیے اس کے متعلق شاعر کے یار احباب نے کچھ نہیں بتایا ہے۔ مجموعہ کے مرتب افتخار قریشی نے صرف اتنا بتایا ہے کہ اگر شاعر کے پُرگو ہونے کے باوجود یہ مجموعہ ضخیم نہیں ہے تو اس کی وجہ شاعر کا فرزند ارجمند ہے اس سعادت مند فرزند نے باپ کے کلام کو چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ باپ کے گناہوں کی تشہیر اسے گوارا نہیں لیکن گناہ کہیں چھپا رہتا ہے۔ اس گنہگار شخص نے جس کا نام عثمان صدیقی ہے زندگی میں اپنے گناہوں کی اپنی طرف سے تشہیر نہیں کی تھی۔ افتخار قریشی صاحب بتاتے ہیں کہ جب بھی ان کے شعری مجموعہ کی اشاعت کی تجویز یاروں نے ان کے سامنے پیش کی وہ طرح دے گئے۔ کہتے تھے کہ میں تو بس اپنے اطمینان قلب کے لیے شعر کہتا ہوں۔ مشاعرے میں جا کر غزل سنائوں یا ان کا مجموعہ مرتب کر کے شایع کروں یہ بندے کو منظور نہیں ہے۔
مگر ان کے دوستوں نے ان کی کتنی غزلیں نظمیں کسی نہ کسی طور ان سے حاصل کر کے انھیں رسالوں میں چھپوا دیا۔ افتخار صدیقی صاحب نے اس مطبوعہ مال کو یکجا کر کے ایک شعری مجموعہ ترتیب دیا۔ بیٹے کو جب پتہ چلا کہ اس کے باپ کے گناہوں کی اب تشہیر ہونے کو ہے تو انھوں نے قریشی صاحب کو لکھا کہ خدا کے لیے میرے باپ کے گناہوں کی تشہیر نہ کیجیے۔ مجموعہ شایع کرنے سے باز آئیے۔ مگر قریشی صاحب نے بیٹے کے جذبات کا مطلق احترام نہ کیا اور ایک اشاعتی ادارہ جمہوری پبلی کیشنز (لاہور) کے ذریعہ اس کی اشاعت کا اہتمام کر ڈالا۔ اب یہ گناہوں کی پوٹ 'پیکر زندگی' کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے۔ سعادتمند بیٹے سے ہم معذرت خواہ ہیں۔ اب یہ گناہوں کا دفتر ہمارے ہاتھ آ گیا ہے تو اسے پڑھنا بھی ضرور تھا۔ اور اب پبلک کو بتانا بھی لازم نظر آیا کہ ایک شریف آدمی کے سعادتمند بیٹے نے باپ کو بدنام ہونے سے بچانے کی بہت کوشش کی مگر بدنامی مقدر ہو چکی تھی۔ اب اس کی شاعری کا چرچا ادبی حلقوں میں ہو گا اور گناہ اپنا رنگ لائے گا۔
تو مرحوم عثمان صدیقی کا مجموعہ ہمارے پیش نظر ہے۔ اب مرحوم کی ایک اور حرکت ملاحظہ فرمائیے۔ ویسے تو وہ سید زادے ہیں لیکن ایک صدیقی کی دوستی میں اتنے مگن ہوئے کہ صدیقی بن گئے۔ صدیقی صاحب کی شاعری اپنی جگہ مگر اس میں ان کے دوستوں نے جو کلی پھندنے' ٹانکے ہیں وہ بھی دلچسپ ہیں۔ مشکور حسین یاد بتاتے ہیں کہ صدیقی صاحب ہنس مکھ قسم کے آدمی تھے۔ یہاں سے انھوں نے اشارہ لیا اور ہمیں بتایا کہ ان کی ہنسی ان کی شاعری میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ ''کسی طرح کا بھی مضمون کیوں نہ ہو ان کے ہاں اس ہنسی کے ہلکوروں سے خالی نہیں ہوتا''۔ ہم ان کے بہکانے میں آ کر اسی راہ پر چل پڑے اور اس شاعری میں ہنسی کے ہلکورے تلاش کرتے رہے۔ وہ ہنسی کے ہلکورے ہمیں تو جل دے گئے۔ اپنا سارا جلوہ مشکور حسین یاد کو دکھایا اور غائب ہو گئے۔
ہاں قریشی صاحب کی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے ہاں تشبیہہ اور استعارے کا سہارا کم کم لیا گیا ہے۔ یہ بات شاعری کے معمول سے ہٹ کر ہے۔ انداز بیان سلیس اور رواں ہے''۔
اس شاعری کا نقشہ یہی ہے۔ مگر شاید نئی غزل مجموعی طور پر تغزل کے تام جھام سے اکتا گئی ہے۔ وہ تشبیہیں' استعارے' تلمیحیں جن کا کلاسیکی عہد کی غزل میں وفور تھا کہاں گئیں۔ لیلی مجنوں کہاں جا کر چھپ گئے نئی غزل میں مشکل ہی سے ان کی جھلک نظر آتی ہے۔ شیریں فرہاد کا معاملہ بھی یہی ہے۔ پہلے اردو نثر نے مقفیٰ مسجع قسم کی عبادت ارائی سے نجات حاصل کی تھی۔ اب اردو غزل بھی اپنے اس تغزل سے جو اس میں رچا بسا تھا رسہ تڑا رہی ہے۔
خیر تو یہ غزل تشبیہہ، استعارہ' تلمیح سے نجات حاصل کر کے ہلکی پھلکی ہو گئی ہے۔ اس باعث اس میں روانی اور سادگی آ گئی ہے۔ ذرا یہ شعر دیکھئے؎
کاروبار زندگی یکسر فریب
اس جہاں کے مخمصے سارے غلط
منزل مقصود ملتی کس طرح
طے کیے جو مرحلے سارے غلط
جو بھی خواہش تھی ادھوری رہ گئی
اپنے اندازے ہی تھے سارے غلط
یہاں صرف تشبیہوں استعاروں ہی سے کنارہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ مفرس زبان سے بھی چھٹکارا حاصل کیا گیا ہے۔ فارسی ترکیبیں غائب۔ سیدھی سچی اردو میں بات ہو رہی ہے۔ اور سنئے؎
کیسا انصاف' عدل کیا معنی
ہر طرف ظالموں کا ڈیرا ہے
دل کہاں دل میں ایک مدت سے
یاس و اندوہ کا بسیرا ہے
اس سیدھی سچی زبان میں آج کے سارے مضمون ادا ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یعنی غم جاناں بھی ہے اور غم عشق بھی ہے۔ روز مرہ کے معاملات اور گورکھ دھندے بھی ہیں۔ شاعر نے کتنی خوش اسلوبی سے کس بے تکلفی سے ہر مضمون کو ادا کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ہماری شاعری فارسی کو ہضم کر کے اپنی زبان کو پا رہی ہے اور اک نیا اظہار اپنے دکھ درد کے بیان کے لیے تراش رہی ہے۔