16 ارب ڈالر کی سلامی کا جھانسہ
حکومتوں کا کام ہی جھوٹ بولنا یا کم از کم حقائق کو چھپانا ہوتا ہے.
لاہور:
حکومتوں کا کام ہی جھوٹ بولنا یا کم از کم حقائق کو چھپانا ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ صحافت کو پسند نہیں کرتے۔ پسند تو دور کی بات گوارا بھی کیوں کریں کہ خبر چیز ہی وہ سمجھی جاتی ہے جو اس بات کو کھول کر بیان کر دیتی ہے جو حکمران یا طاقتور اشرافیہ لوگوں سے چھپانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے ہاں کے صحافیوں سے البتہ اب ہمارے حکمرانوں کو کوئی خاص تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ بجائے ٹھوس حقائق کے ساتھ صرف اور صرف خبر ڈھونڈ کر اسے بیان کرنے کے میرے جیسے اپنے تئیں ''وفاداری''بنے رپورٹر اب مبلغ بن گئے ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھتے ہیں تو سیاپا کرتے ہیں یا جُگتوں کے ذریعے لوگوں کو ہنسانے کی کوشش۔
سیاپا اور جُگت ہزار ہا سال سے ہماری ثقافت کا بڑا نمایاں حصہ رہے ہیں۔ حکمرانوں کو ان دونوں سے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوتی۔ ان میں سے زیادہ سیانے تو بلکہ ان دونوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تا کہ لوگوں کے دلوں میں پلتا غصہ لاوے کی شکل اختیار نہ کرے۔ لوگ سیاپے پر رو کر یا جگتوں پر ہنس کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔ ارسطو بہت بڑا فلاسفر تھا۔ مگر اپنے دور کی اشرافیہ کا حصہ اور محافظ۔ اس نے بڑی محنت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ ڈرامے کا اصل مقصد Catharsis کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ خدا بھلا کرے جرمنی کے بریخت کا جس نے ہٹلر کے عروج کے دنوں میں دریافت کیا کہ ڈرامے کو لوگوں کے دلوں میں پلنے والے غصے کو کتھارسس کے ذریعے کم نہیں بلکہ اور زیادہ بھڑکانا چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد آنے والے ڈرامہ نگار اس جیسی تخلیقی ذہانتوں سے محروم رہے اور بات آگے نہ بڑھ پائی۔
ڈرامے سے متعلقہ سوالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم خبر کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں اور ذرا یاد کر لیتے ہیں کہ پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نواز شریف صاحب اپنے پہلے دورۂ امریکا پر اس ہفتے کے آغاز میں روانہ ہوئے۔ ابھی ان کا طیارہ واشنگٹن اترا بھی نہ تھا کہ ہماری ٹی وی اسکرینوں پر پھڑکتے ٹِکروں کے ساتھ خبریں چلنا شروع ہو گئیں کہ امریکا پاکستان کو ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم ''امداد'' کی صورت میں مختلف اقساط میں دینے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ نواز شریف صاحب کے چاہنے والوں نے اس خطیر رقم کو اپنے لیڈر کی ''سلامی'' کے طور پر بڑے فخر و انبساط سے قبول کیا۔ ان سے کسی دوسرے ردعمل کی توقع کرنا ایک غیر مناسب بات ہوتی۔ حیرت تو پاکستان پیپلز پارٹی والوں کی خاموشی پر ہو رہی ہے۔ وہ لوگ 5 سال تک ہمارے حکمران رہے۔ حسین حقانی کے بعد شیری رحمن جیسی بہت ہی سمجھ دار صحافی اس پارٹی کی حکومت کی واشنگٹن میں نمایندگی کرتی رہیں۔ انھوں نے پورا سچ کیوں نہ بیان کر دیا؟حنا ربانی کھر کو بھی معاملات کی پوری سمجھ تھی۔ وہ بھی خاموش رہیں۔ 18 اکتوبر 2013ء کو سانحہ کار ساز کی برسی کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے اپنے نانا کی طرح آستینیں چڑھا کر سیاست میں اپنی بھرپور آمد کا اعلان کیا۔ شیری رحمن اور حنا ربانی کھر خاموش رہیں تو کوئی بات نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے کو خارجہ امور کی گہرائیوں کی جبلی طور پر خبر ہونا چاہیے تھی۔ اپنی تقریر میں مگر وہ شیر کا شکار کرنے اور سونامی کو ٹھکانے لگانے والے عزم کے اظہار تک محدود رہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو پتہ نہیں کسی نے بتایا ہے یا نہیں۔ ان کے نانا نے 27 اپریل 1977ء کے دن اس وقت کی قومی اسمبلی میں ایک تقریر کی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دنوں میں بہت سارے جیالے کمیونی کیشن کے ماہر بن کر پاکستان ٹیلی وژن کے دفاتر میں جا کر ''آ بے لونڈے جا بے لونڈے'' والے احکامات صادر فرمایا کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ ان میں سے کسی ایک جیالے نے بھی اس تقریر کی تاریخی اہمیت کا احساس کیا۔ مجھے چونکہ یہ کالم لکھنے کے پیسے ایکسپریس اخبار سے ملتے ہیں اس لیے اس تقریر کی اہمیت بیان کرنا میرا فریضہ نہیں۔ صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اس تقریر میں ہاتھیوں (یعنی امریکا) کی یادداشت اور بندۂ صحرائی کی ''بلھیا اساں مرنا ناہیں'' والے رویوں کا بڑا شاعرانہ موازنہ کیا گیا تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد آپریشن اور پھر سلالہ کے بعد پاکستانی راستوں سے افغانستان میں مقیم امریکی افواج کی سات مہینے رسد روکنے کے بعد واشنگٹن کو پیغام مل گیا کہ آصف علی زرداری اور ان کے وزیر اعظم کے ''پلے'' کچھ نہیں۔ واشنگٹن کے اسلام آباد کے ساتھ معاملات کے بارے میں قطعی اختیار اس ادارے کے پاس ہے جو فیلڈ مارشل ایوب خان نے سیٹو اور سینٹو کے دنوں میں ہتھیا لیا تھا۔ جنرل ضیاء اور مشرف نے اس اختیار کو مزید مستحکم اور دیرپا بنایا اور جب قطعی اختیارات کسی فرشتے کے پاس بھی آ جائیں تو وہ بخوشی ان سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا۔ پنجابی کے اولین شاعروں میں سے ایک ملامتی شاہ حسین تو کئی صدیاں پہلے بتا گئے تھے کہ تخت یعنی اختیار مانگے سے نہیں ملا کرتے۔
آصف علی زرداری اور ان کی حکومت کی اصل حقیقت جان کر امریکا بس خاموش ہو گیا۔ مگر اس نے وہ رقومات ادا کرنا چھوڑ دیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے نام پر ہم پہلے اپنے خزانے سے خرچ کر کے بعد ازاں واشنگٹن سے ڈالروں کی صورت Reimburse کرایا کرتے تھے۔ رقومات کی ادائیگی کا صاف لفظوں میں انکار نہ ہوا۔ ''آڈٹ'' کے نام پر اعتراض پر اعتراض آتا رہا۔ ہمارا بہت ہی مستعد بنا میڈیا ان ''اعتراضات'' کی بھنک تک نہ پا سکا۔ سرخی پائوڈر لگائے ائر کنڈیشنڈ اسٹوڈیوز میں بیٹھے ''مجاہدین اینکر'' تو بلکہ سلالہ کے بعد حکومت کو ''شیر بن شیر'' والے مشورے دیتے رہے۔ بالآخر نتیجہ کیا نکلا؟ آصف علی زرداری ''شیر'' بن گئے اور عام انتخابات سر پر آ گئے۔ خزانے میں اتنا پیسہ نہ تھا کہ بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کے گردشی قرضے ادا کر دیے جاتے۔ انتخابی مہم کے ساتھ ہی دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی۔ لوگوں نے سارا غصہ ''زربابا'' اور ان کے ''راجہ رینٹل'' پر نکال دیا اور نواز شریف تیسری مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔
نواز شریف صاحب آ گئے ہیں تو آیندہ کچھ ماہ تک واشنگٹن انھیں Under Watch رکھے گا۔ مگر ظاہری طور پر میٹھی میٹھی باتیں کرے گا۔ ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی ''سلامی'' بھی ایک جھانسہ ہے۔ اس کا خطیر حصہ ان رقوم پر مشتمل ہے جو 2011ء اور 2012ء کے سالوں میں آڈٹ کے نام پر روک دی گئی تھیں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم نے ان سالوں میں جو رقم مانگی تھی اس کا ایک تہائی حصہ ''آڈٹ'' کی نذر ہو گیا ہے۔ ویسے بھی 2014ء میں جان کیری بل کی پانچ سالہ معیاد ختم ہو جائے گی۔ اسی سال امریکا نے افغانستان سے بھی جان چھڑا لینا ہے۔ پھر پاکستان کو واشنگٹن میں کون یاد رکھے گا۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں۔۔۔
حکومتوں کا کام ہی جھوٹ بولنا یا کم از کم حقائق کو چھپانا ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ صحافت کو پسند نہیں کرتے۔ پسند تو دور کی بات گوارا بھی کیوں کریں کہ خبر چیز ہی وہ سمجھی جاتی ہے جو اس بات کو کھول کر بیان کر دیتی ہے جو حکمران یا طاقتور اشرافیہ لوگوں سے چھپانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے ہاں کے صحافیوں سے البتہ اب ہمارے حکمرانوں کو کوئی خاص تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ بجائے ٹھوس حقائق کے ساتھ صرف اور صرف خبر ڈھونڈ کر اسے بیان کرنے کے میرے جیسے اپنے تئیں ''وفاداری''بنے رپورٹر اب مبلغ بن گئے ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھتے ہیں تو سیاپا کرتے ہیں یا جُگتوں کے ذریعے لوگوں کو ہنسانے کی کوشش۔
سیاپا اور جُگت ہزار ہا سال سے ہماری ثقافت کا بڑا نمایاں حصہ رہے ہیں۔ حکمرانوں کو ان دونوں سے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوتی۔ ان میں سے زیادہ سیانے تو بلکہ ان دونوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تا کہ لوگوں کے دلوں میں پلتا غصہ لاوے کی شکل اختیار نہ کرے۔ لوگ سیاپے پر رو کر یا جگتوں پر ہنس کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔ ارسطو بہت بڑا فلاسفر تھا۔ مگر اپنے دور کی اشرافیہ کا حصہ اور محافظ۔ اس نے بڑی محنت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ ڈرامے کا اصل مقصد Catharsis کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ خدا بھلا کرے جرمنی کے بریخت کا جس نے ہٹلر کے عروج کے دنوں میں دریافت کیا کہ ڈرامے کو لوگوں کے دلوں میں پلنے والے غصے کو کتھارسس کے ذریعے کم نہیں بلکہ اور زیادہ بھڑکانا چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد آنے والے ڈرامہ نگار اس جیسی تخلیقی ذہانتوں سے محروم رہے اور بات آگے نہ بڑھ پائی۔
ڈرامے سے متعلقہ سوالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم خبر کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں اور ذرا یاد کر لیتے ہیں کہ پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نواز شریف صاحب اپنے پہلے دورۂ امریکا پر اس ہفتے کے آغاز میں روانہ ہوئے۔ ابھی ان کا طیارہ واشنگٹن اترا بھی نہ تھا کہ ہماری ٹی وی اسکرینوں پر پھڑکتے ٹِکروں کے ساتھ خبریں چلنا شروع ہو گئیں کہ امریکا پاکستان کو ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم ''امداد'' کی صورت میں مختلف اقساط میں دینے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ نواز شریف صاحب کے چاہنے والوں نے اس خطیر رقم کو اپنے لیڈر کی ''سلامی'' کے طور پر بڑے فخر و انبساط سے قبول کیا۔ ان سے کسی دوسرے ردعمل کی توقع کرنا ایک غیر مناسب بات ہوتی۔ حیرت تو پاکستان پیپلز پارٹی والوں کی خاموشی پر ہو رہی ہے۔ وہ لوگ 5 سال تک ہمارے حکمران رہے۔ حسین حقانی کے بعد شیری رحمن جیسی بہت ہی سمجھ دار صحافی اس پارٹی کی حکومت کی واشنگٹن میں نمایندگی کرتی رہیں۔ انھوں نے پورا سچ کیوں نہ بیان کر دیا؟حنا ربانی کھر کو بھی معاملات کی پوری سمجھ تھی۔ وہ بھی خاموش رہیں۔ 18 اکتوبر 2013ء کو سانحہ کار ساز کی برسی کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے اپنے نانا کی طرح آستینیں چڑھا کر سیاست میں اپنی بھرپور آمد کا اعلان کیا۔ شیری رحمن اور حنا ربانی کھر خاموش رہیں تو کوئی بات نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے کو خارجہ امور کی گہرائیوں کی جبلی طور پر خبر ہونا چاہیے تھی۔ اپنی تقریر میں مگر وہ شیر کا شکار کرنے اور سونامی کو ٹھکانے لگانے والے عزم کے اظہار تک محدود رہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو پتہ نہیں کسی نے بتایا ہے یا نہیں۔ ان کے نانا نے 27 اپریل 1977ء کے دن اس وقت کی قومی اسمبلی میں ایک تقریر کی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دنوں میں بہت سارے جیالے کمیونی کیشن کے ماہر بن کر پاکستان ٹیلی وژن کے دفاتر میں جا کر ''آ بے لونڈے جا بے لونڈے'' والے احکامات صادر فرمایا کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ ان میں سے کسی ایک جیالے نے بھی اس تقریر کی تاریخی اہمیت کا احساس کیا۔ مجھے چونکہ یہ کالم لکھنے کے پیسے ایکسپریس اخبار سے ملتے ہیں اس لیے اس تقریر کی اہمیت بیان کرنا میرا فریضہ نہیں۔ صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اس تقریر میں ہاتھیوں (یعنی امریکا) کی یادداشت اور بندۂ صحرائی کی ''بلھیا اساں مرنا ناہیں'' والے رویوں کا بڑا شاعرانہ موازنہ کیا گیا تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد آپریشن اور پھر سلالہ کے بعد پاکستانی راستوں سے افغانستان میں مقیم امریکی افواج کی سات مہینے رسد روکنے کے بعد واشنگٹن کو پیغام مل گیا کہ آصف علی زرداری اور ان کے وزیر اعظم کے ''پلے'' کچھ نہیں۔ واشنگٹن کے اسلام آباد کے ساتھ معاملات کے بارے میں قطعی اختیار اس ادارے کے پاس ہے جو فیلڈ مارشل ایوب خان نے سیٹو اور سینٹو کے دنوں میں ہتھیا لیا تھا۔ جنرل ضیاء اور مشرف نے اس اختیار کو مزید مستحکم اور دیرپا بنایا اور جب قطعی اختیارات کسی فرشتے کے پاس بھی آ جائیں تو وہ بخوشی ان سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا۔ پنجابی کے اولین شاعروں میں سے ایک ملامتی شاہ حسین تو کئی صدیاں پہلے بتا گئے تھے کہ تخت یعنی اختیار مانگے سے نہیں ملا کرتے۔
آصف علی زرداری اور ان کی حکومت کی اصل حقیقت جان کر امریکا بس خاموش ہو گیا۔ مگر اس نے وہ رقومات ادا کرنا چھوڑ دیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے نام پر ہم پہلے اپنے خزانے سے خرچ کر کے بعد ازاں واشنگٹن سے ڈالروں کی صورت Reimburse کرایا کرتے تھے۔ رقومات کی ادائیگی کا صاف لفظوں میں انکار نہ ہوا۔ ''آڈٹ'' کے نام پر اعتراض پر اعتراض آتا رہا۔ ہمارا بہت ہی مستعد بنا میڈیا ان ''اعتراضات'' کی بھنک تک نہ پا سکا۔ سرخی پائوڈر لگائے ائر کنڈیشنڈ اسٹوڈیوز میں بیٹھے ''مجاہدین اینکر'' تو بلکہ سلالہ کے بعد حکومت کو ''شیر بن شیر'' والے مشورے دیتے رہے۔ بالآخر نتیجہ کیا نکلا؟ آصف علی زرداری ''شیر'' بن گئے اور عام انتخابات سر پر آ گئے۔ خزانے میں اتنا پیسہ نہ تھا کہ بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کے گردشی قرضے ادا کر دیے جاتے۔ انتخابی مہم کے ساتھ ہی دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی۔ لوگوں نے سارا غصہ ''زربابا'' اور ان کے ''راجہ رینٹل'' پر نکال دیا اور نواز شریف تیسری مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔
نواز شریف صاحب آ گئے ہیں تو آیندہ کچھ ماہ تک واشنگٹن انھیں Under Watch رکھے گا۔ مگر ظاہری طور پر میٹھی میٹھی باتیں کرے گا۔ ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی ''سلامی'' بھی ایک جھانسہ ہے۔ اس کا خطیر حصہ ان رقوم پر مشتمل ہے جو 2011ء اور 2012ء کے سالوں میں آڈٹ کے نام پر روک دی گئی تھیں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم نے ان سالوں میں جو رقم مانگی تھی اس کا ایک تہائی حصہ ''آڈٹ'' کی نذر ہو گیا ہے۔ ویسے بھی 2014ء میں جان کیری بل کی پانچ سالہ معیاد ختم ہو جائے گی۔ اسی سال امریکا نے افغانستان سے بھی جان چھڑا لینا ہے۔ پھر پاکستان کو واشنگٹن میں کون یاد رکھے گا۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں۔۔۔