ہوائوں کا رخ اور سیاسی حقائق
حکومت اور اپوزیشن رہنما ملکی صورتحال کی نزاکت اور خطے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مفاہمت کےلیے قدم آگے بڑھائیں
ملکی سیاست کا منظرنامہ دشت پیماں ہے۔ قیاس آرائیوں اور چہ میگوئیوں کی دلفریبی متنوع بھی ہے اور ناقابل یقین حد تک دلچسپ وچشم کشا بھی۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ معیشت درست سمت میں چل پڑی، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوگیا ، حکومت نے نواز شریف کی لندن روانگی کو سپریم کورٹ میں بوجوہ چیلنج نہیں کیا، سیاسی حلقوں میں اس سے خیر سگالی کی ایک غیر معمولی لہرسے تعبیرکیا گیا، تاہم تلخ تجزیوں اور پس پردہ سیاسی اتھل پتھل کے حوالے سے مستقبل کی ایک دھندلی سی تصویر ابھاری جارہی ہے جس میں باخبر مبصرین، سیاسی بزرجمہر رنگ بھرنے میں دانائی کے سارے ہنر دکھا چکے۔
جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد نہ '' ایسے'' گئے اورنہ ہی '' ویسے '' آئے ، بعض سیاسی پنڈتوں کے مطابق حکومت نے نواز شریف '' ساگا '' میں سیاسی دانشمندی کا ثبوت دیا اور ان کی روانگی میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ڈالی، فرسٹریشن کا رکنا دوطرفہ طور پر ملکی مفاد میں ہی ہے، سیاست میں تندی اور تیزی کا رکنے والا عمل اب جمہوری رواداری کا مرہون منت ہے۔
عوام کی نظر بھی سیاسی عوامل پر ہے لیکن معاشی امورکو بہر صورت سیاسی کشیدگی اور تناؤکی کیفیت پر سبقت لینا پڑے گی، میڈیا کو اس ضمن میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ ادھر لندن سے دستیاب اطلاعات کے مطابق نوازشریف علاج کے لیے لندن پہنچ گئے، اپنے بیٹے حسین نوازکی رہائش گاہ میں منتقل ہوگئے ہیں ، اغلب امکان ہے کہ انھیں ابتدائی طبی امداد کے بعد امریکا میں بوسٹن کے ایک اسپتال میں علاج کے لیے لے جایا جائے گا۔
سیاسی حوالے سے چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کے بیان نے دلچسپ صورت پیدا کی ہے، انھوں نے کہا کہ ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے، بظاہر احتساب یکطرفہ نظر آتا ہے تاہم اس تاثرکا ازالہ کریں گے۔ نیب کے یکطرفہ احتساب کا تاثر غلط ہے، 2017 کے بعد کوئی میگا کرپشن اسکینڈل سامنے نہیں آیا، جوکرے گا وہ بھرے گا،کسی سے ڈیل ہو گی نہ ڈھیل ہوگی اور نہ ہی کسی کو این آر او ملے گا، اب صوبہ کارڈ نہیں چلے گا، نیب کارروائی جاری رکھے گا۔
عمدہ کارکردگی دکھانے والے نیب راولپنڈی کے افسران میں سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب میں چیئرمین نیب نے بہت کچھ واضح کیا ، چیئرمین نیب نے کہا کہ کرکٹ بورڈ میں کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، سری لنکن ٹیم پاکستان آنے والی ہے لہذا نہیں چاہتے ملک کا امیج خراب ہو، اس شکایت یا تنقید کا ازالہ ہوجائے گا کہ بظاہر احتساب یک طرفہ نظر آتا ہے۔
یہ الزام اس لیے درست نہیں۔ میں عمرکے اس حصے میں ہوں کہ دشنام تراشی، کردارکشی، الزام تراشی، لالچ اور مختلف قسم کے حربوں کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ خیال بھی تصور میں لانا کہ میں سمجھوتہ کروں گا ناممکن ہے۔ 100 ارب ڈالر کا قرض کہاں گیا، اگر یہ پوچھ گچھ جرم ہے تو نیب کو عادی مجرم سمجھ لیں کیونکہ یہ سلسلہ تو جاری رہے گا۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو اصولی سیاسی موقف تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کا یہی ہے کہ ملک میں احتساب ضرور ہو مگر وہ بلا امتیازہو تاکہ کسی کو یہ شکایت نہ ہو کہ نیب کے احتسابی عمل میں ہدف کچھ خاص افراد یا سیاسی جماعتیں ہیں، یہ خوش آیند بات ہے کہ چیئرمین نیب نے اس تاثرکے بارے میں دل کی بات کہہ ڈالی، لیکن جن ہواؤں کے رخ بدلنے کی انھوں نے بات کی ہے وہ استعارہ ان ہی کی طرف سے وضاحت طلب ہے ، کیونکہ سیاسی فضا اور اس میں چلنے والی ہوا کا کچھ پتا نہیں کہ اس سرد موسم میں کس طرف رخ کرے ، تاہم کشیدہ سیاست میں ادبی حوالوں، اور لطیف طنز اور منطق سے لیس گفتگوکا امکان بھی رہنا چاہیے۔
لہذا اس سیاق وسباق میں ہواؤں کا رخ بدلنے کا استعارہ سیاسی سطح پر معنی خیزی کا ساماں لیے ہوئے ہے، بعض غیر جانبدارمبصرین کا کہنا ہے کہ سیاست میں جاری اضطراب اور برہمی کا تناسب گھٹنا شرط ہے، سیاسی مکالمہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، حکومت اور اپوزیشن کو اس کی جمہوری اسپیس ملنی چاہیے اور جس روش اور چلن کی بند گلی میں سیاست کو دھکیلنے کی کوشش ہورہی ہے۔
اس راستے پر چلنے میں جمہوریت ہی کا نقصان زیادہ ہے، اگرگزشتہ13ماہ کے حکومتی تسلسل اورکارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو تمام اقدامات، پالیسیوں، کارروائیوں اور پیش رفت میں جس چیز پر نظر آکر رک جاتی ہے وہ کثیر جہتی دباؤ، سیاسی تناؤ ، کشیدگی، محاذ آرائی اور الزام تراشی وکردارکشی کا سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا ، اسی کا سبب ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیز فائرکا امکان پیدا نہیں ہوتا ، سیاسی قائدین جمہوری عمل، حکومت، مفاہمت اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے ایک پیج پر آنے سے دورہیں ، جب کہ فوج اور حکومت کے ایک پیج پر رہنے سے نہ صرف سیاسی پولیرائزیشن کا راستہ بند ہوا ہے۔
بہت سے سیاسی ، معاشی، سفارتی، عسکری اور بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے اپوزیشن اور حکومت عوام کے مسائل کے حل ، ملکی ترقی اور سماجی شیرازہ بندی کے لیے اپنے اختلافات ختم کیوں کرتے، وہ کون سی مجبوری ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا احساس شدت سے ابھرتا جا رہا ہے ۔آخر حکومت حزب اختلاف سے بنیادی ایشوز اور عوامی مصائب ومعاشی مشکلات کے خاتمے کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا چارٹرکب جاری کرے گی ۔اس سمت میں جتنی جلدی اقدامات ہونگے اس کا ملکی ترقی وعوام کی خوشحالی پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
سیاسی تناظر میں جو جمہوری قوتیں ملکی سیاست میں ہوشمندی اور سیاسی بالغ نظرکے موقف کی حمایت کرتی ہیں ، ان کی بات سنی جانی چاہیے، ان جمہوری عناصرکاکہنا ہے کہ نواز شریف کے علاج کے لیے بیرون ملک جانا، اس اعتبار سے ایک فری ہینڈہے، وزیراعظم نواز شریف کی روانگی اور ممکنہ واپسی تک کے دورانیے میں بہت ہی نمایاں پیش قدمی سیاسی اور معاشی طور پرکرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں، حکومتی وزرا، بیوروکریٹس ، تاجر ، دکاندار ، صوبائی حکومتیں ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے اپنے شعبوں میں کارکردگی بڑھا سکتے ہیں، سیاسی مصالحت کی کوششیں بارآور ثابت ہوسکتی ہیں، افواہوں، قیاس آرائیوں اور تند وتیز بیانات سے پیدا شدہ صورتحال کو کنٹرول کرتے ہوئے خیرسگالی کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔
افہام وتفہیم سے معاشی پیش رفت کو مزید دوچند کیا جاسکتا ہے، حکمراں حالات کی بہتری کے لیے معیشت کا راستہ ہی تلاش کرلیں اور اپنی ترجیحات میں معاشی نشاۃ ثانیہ کو ٹاسک بنا لیں تو خلق خدا کو آسودگی مل سکتی ہے، اشیائے ضرورت کی قیمتوںکو معقول سطح پر لایا جاسکتا ہے، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں، پھلوں ، دوائیوں کی قیمتوں اور ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی لاکر عوام کو قلبی سکون مہیا کیا جاسکتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بہترین جگہ بن چکا، وفاقی کابینہ کے مطابق نئی ٹیرف پالیسی کا محور برآمدات اور صنعتی ترقی ہوگی ، کابینہ میں ردوبدل جاری ہے۔
پاکستان کوآئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر سے99 کروڑ مل چکے ہیں، سندھ کابینہ میں بھی توسیع کی گئی ہے، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے ہدایت کی ہے کہ وزرا کارکردگی بڑھائیں، عوام سے رابطے میں رہیں، وہ ان کی کارکردگی سے ناخوش نظرآئے۔
امید کی جانی چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن رہنما ملکی صورتحال کی نزاکت اور خطے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے گریٹر مفاہمت کے لیے قدم آگے بڑھائیں۔ جمہوریت اور سیاسی ومعاشی استحکام کے لیے واحد راستہ اسٹیک ہولڈرزکاساتھ مل کر چلنا ہے۔ اشتراک عمل وقت کا تقاضہ ہے۔ہمیں تصادم سے بچانے کے لیے کوئی رجال الغیب باہر سے نہیں آئے گا۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ معیشت درست سمت میں چل پڑی، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوگیا ، حکومت نے نواز شریف کی لندن روانگی کو سپریم کورٹ میں بوجوہ چیلنج نہیں کیا، سیاسی حلقوں میں اس سے خیر سگالی کی ایک غیر معمولی لہرسے تعبیرکیا گیا، تاہم تلخ تجزیوں اور پس پردہ سیاسی اتھل پتھل کے حوالے سے مستقبل کی ایک دھندلی سی تصویر ابھاری جارہی ہے جس میں باخبر مبصرین، سیاسی بزرجمہر رنگ بھرنے میں دانائی کے سارے ہنر دکھا چکے۔
جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد نہ '' ایسے'' گئے اورنہ ہی '' ویسے '' آئے ، بعض سیاسی پنڈتوں کے مطابق حکومت نے نواز شریف '' ساگا '' میں سیاسی دانشمندی کا ثبوت دیا اور ان کی روانگی میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ڈالی، فرسٹریشن کا رکنا دوطرفہ طور پر ملکی مفاد میں ہی ہے، سیاست میں تندی اور تیزی کا رکنے والا عمل اب جمہوری رواداری کا مرہون منت ہے۔
عوام کی نظر بھی سیاسی عوامل پر ہے لیکن معاشی امورکو بہر صورت سیاسی کشیدگی اور تناؤکی کیفیت پر سبقت لینا پڑے گی، میڈیا کو اس ضمن میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ ادھر لندن سے دستیاب اطلاعات کے مطابق نوازشریف علاج کے لیے لندن پہنچ گئے، اپنے بیٹے حسین نوازکی رہائش گاہ میں منتقل ہوگئے ہیں ، اغلب امکان ہے کہ انھیں ابتدائی طبی امداد کے بعد امریکا میں بوسٹن کے ایک اسپتال میں علاج کے لیے لے جایا جائے گا۔
سیاسی حوالے سے چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کے بیان نے دلچسپ صورت پیدا کی ہے، انھوں نے کہا کہ ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے، بظاہر احتساب یکطرفہ نظر آتا ہے تاہم اس تاثرکا ازالہ کریں گے۔ نیب کے یکطرفہ احتساب کا تاثر غلط ہے، 2017 کے بعد کوئی میگا کرپشن اسکینڈل سامنے نہیں آیا، جوکرے گا وہ بھرے گا،کسی سے ڈیل ہو گی نہ ڈھیل ہوگی اور نہ ہی کسی کو این آر او ملے گا، اب صوبہ کارڈ نہیں چلے گا، نیب کارروائی جاری رکھے گا۔
عمدہ کارکردگی دکھانے والے نیب راولپنڈی کے افسران میں سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب میں چیئرمین نیب نے بہت کچھ واضح کیا ، چیئرمین نیب نے کہا کہ کرکٹ بورڈ میں کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، سری لنکن ٹیم پاکستان آنے والی ہے لہذا نہیں چاہتے ملک کا امیج خراب ہو، اس شکایت یا تنقید کا ازالہ ہوجائے گا کہ بظاہر احتساب یک طرفہ نظر آتا ہے۔
یہ الزام اس لیے درست نہیں۔ میں عمرکے اس حصے میں ہوں کہ دشنام تراشی، کردارکشی، الزام تراشی، لالچ اور مختلف قسم کے حربوں کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ خیال بھی تصور میں لانا کہ میں سمجھوتہ کروں گا ناممکن ہے۔ 100 ارب ڈالر کا قرض کہاں گیا، اگر یہ پوچھ گچھ جرم ہے تو نیب کو عادی مجرم سمجھ لیں کیونکہ یہ سلسلہ تو جاری رہے گا۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو اصولی سیاسی موقف تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کا یہی ہے کہ ملک میں احتساب ضرور ہو مگر وہ بلا امتیازہو تاکہ کسی کو یہ شکایت نہ ہو کہ نیب کے احتسابی عمل میں ہدف کچھ خاص افراد یا سیاسی جماعتیں ہیں، یہ خوش آیند بات ہے کہ چیئرمین نیب نے اس تاثرکے بارے میں دل کی بات کہہ ڈالی، لیکن جن ہواؤں کے رخ بدلنے کی انھوں نے بات کی ہے وہ استعارہ ان ہی کی طرف سے وضاحت طلب ہے ، کیونکہ سیاسی فضا اور اس میں چلنے والی ہوا کا کچھ پتا نہیں کہ اس سرد موسم میں کس طرف رخ کرے ، تاہم کشیدہ سیاست میں ادبی حوالوں، اور لطیف طنز اور منطق سے لیس گفتگوکا امکان بھی رہنا چاہیے۔
لہذا اس سیاق وسباق میں ہواؤں کا رخ بدلنے کا استعارہ سیاسی سطح پر معنی خیزی کا ساماں لیے ہوئے ہے، بعض غیر جانبدارمبصرین کا کہنا ہے کہ سیاست میں جاری اضطراب اور برہمی کا تناسب گھٹنا شرط ہے، سیاسی مکالمہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، حکومت اور اپوزیشن کو اس کی جمہوری اسپیس ملنی چاہیے اور جس روش اور چلن کی بند گلی میں سیاست کو دھکیلنے کی کوشش ہورہی ہے۔
اس راستے پر چلنے میں جمہوریت ہی کا نقصان زیادہ ہے، اگرگزشتہ13ماہ کے حکومتی تسلسل اورکارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو تمام اقدامات، پالیسیوں، کارروائیوں اور پیش رفت میں جس چیز پر نظر آکر رک جاتی ہے وہ کثیر جہتی دباؤ، سیاسی تناؤ ، کشیدگی، محاذ آرائی اور الزام تراشی وکردارکشی کا سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا ، اسی کا سبب ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیز فائرکا امکان پیدا نہیں ہوتا ، سیاسی قائدین جمہوری عمل، حکومت، مفاہمت اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے ایک پیج پر آنے سے دورہیں ، جب کہ فوج اور حکومت کے ایک پیج پر رہنے سے نہ صرف سیاسی پولیرائزیشن کا راستہ بند ہوا ہے۔
بہت سے سیاسی ، معاشی، سفارتی، عسکری اور بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے اپوزیشن اور حکومت عوام کے مسائل کے حل ، ملکی ترقی اور سماجی شیرازہ بندی کے لیے اپنے اختلافات ختم کیوں کرتے، وہ کون سی مجبوری ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا احساس شدت سے ابھرتا جا رہا ہے ۔آخر حکومت حزب اختلاف سے بنیادی ایشوز اور عوامی مصائب ومعاشی مشکلات کے خاتمے کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا چارٹرکب جاری کرے گی ۔اس سمت میں جتنی جلدی اقدامات ہونگے اس کا ملکی ترقی وعوام کی خوشحالی پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
سیاسی تناظر میں جو جمہوری قوتیں ملکی سیاست میں ہوشمندی اور سیاسی بالغ نظرکے موقف کی حمایت کرتی ہیں ، ان کی بات سنی جانی چاہیے، ان جمہوری عناصرکاکہنا ہے کہ نواز شریف کے علاج کے لیے بیرون ملک جانا، اس اعتبار سے ایک فری ہینڈہے، وزیراعظم نواز شریف کی روانگی اور ممکنہ واپسی تک کے دورانیے میں بہت ہی نمایاں پیش قدمی سیاسی اور معاشی طور پرکرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں، حکومتی وزرا، بیوروکریٹس ، تاجر ، دکاندار ، صوبائی حکومتیں ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے اپنے شعبوں میں کارکردگی بڑھا سکتے ہیں، سیاسی مصالحت کی کوششیں بارآور ثابت ہوسکتی ہیں، افواہوں، قیاس آرائیوں اور تند وتیز بیانات سے پیدا شدہ صورتحال کو کنٹرول کرتے ہوئے خیرسگالی کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔
افہام وتفہیم سے معاشی پیش رفت کو مزید دوچند کیا جاسکتا ہے، حکمراں حالات کی بہتری کے لیے معیشت کا راستہ ہی تلاش کرلیں اور اپنی ترجیحات میں معاشی نشاۃ ثانیہ کو ٹاسک بنا لیں تو خلق خدا کو آسودگی مل سکتی ہے، اشیائے ضرورت کی قیمتوںکو معقول سطح پر لایا جاسکتا ہے، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں، پھلوں ، دوائیوں کی قیمتوں اور ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی لاکر عوام کو قلبی سکون مہیا کیا جاسکتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بہترین جگہ بن چکا، وفاقی کابینہ کے مطابق نئی ٹیرف پالیسی کا محور برآمدات اور صنعتی ترقی ہوگی ، کابینہ میں ردوبدل جاری ہے۔
پاکستان کوآئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر سے99 کروڑ مل چکے ہیں، سندھ کابینہ میں بھی توسیع کی گئی ہے، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے ہدایت کی ہے کہ وزرا کارکردگی بڑھائیں، عوام سے رابطے میں رہیں، وہ ان کی کارکردگی سے ناخوش نظرآئے۔
امید کی جانی چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن رہنما ملکی صورتحال کی نزاکت اور خطے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے گریٹر مفاہمت کے لیے قدم آگے بڑھائیں۔ جمہوریت اور سیاسی ومعاشی استحکام کے لیے واحد راستہ اسٹیک ہولڈرزکاساتھ مل کر چلنا ہے۔ اشتراک عمل وقت کا تقاضہ ہے۔ہمیں تصادم سے بچانے کے لیے کوئی رجال الغیب باہر سے نہیں آئے گا۔