ڈینگی کے جان لیوا مرض کی افزائش
ملک بھر میں جگہ جگہ مخصوص مچھروں کے کاٹنے سے ڈینگی کا مرض پھیل رہا ہے
ملک بھر میں جگہ جگہ مخصوص مچھروں کے کاٹنے سے ڈینگی کا مرض پھیل رہا ہے۔ اس کا آغاز تیز بخار سے ہوتا ہے اور ساتھ جسم میں پلیٹ لیٹس کی کمی کا آغاز بھی ہو جاتا ہے جس پر مریض آگے چل کر ملک الموت کی دہلیز پر پہنچ جاتا ہے، اس اعتبار سے ڈنگی کا حملہ جان لیوا ہوتا ہے جس کی وجہ سے خاصی تشویش پھیلی ہوئی ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ ایک عشرے کے دوران 50 ہزار سے زائد افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ آج کل بھی یہ ملک کے مختلف شہروں میں پھیلا ہوا ہے جس کے بارے میں خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ فلاں صوبے میں اس کا زیادہ زور ہے مگر اگلے ہی لمحے کسی دوسرے صوبے میں ڈنگی کے مریضوں کی تعداد اور زیادہ نکل آتی ہے اور دھیان ایک صوبے سے ہٹ کر دوسرے صوبے پر لگ جاتا ہے۔
اس حوالے سے سابقہ حکومت کی کارکردگی کو سراہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ ڈینگی کے شروع ہونے سے قبل کی جانے والی حفاظتی تدابیر کے باعث اس پر قابو پا لیا گیا تھا جب کہ نئی حکومت چونکہ اس حوالے سے تجربہ کار نہیں تھی، اس لیے وہ بروقت اس کے انسداد سے غفلت برتنے کا ارتکاب کر بیٹھی اور حالات قابو سے باہر ہو گئے لیکن آج بھی پنجاب ڈینگی اسکواڈ ٹیمیں گھروں کے اندر جا کر معائنہ کرتی ہیں کہ پودوں کے گملوں میں پانی تو نہیں ڈالا گیا جو ڈینگی مچھر کے لیے پیداواری نرسری کا کام دیتا ہے اور گملے کے پانی میں ڈنگی مچھر کا لاروا پیدا ہو جاتا ہے۔
قبل ازیں 2011میں ڈینگی مچھر کی پیداوار پر ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت درپیش آئی کیونکہ 27 ہزار افراد ڈینگی بخار کی زد میں آ گئے تھے جب کہ محکمہ صحت کے حکام نے اس کو عالمی طور پر اضافے کا پیش خیمہ قرار دیا کیونکہ تھائی لینڈ' سری لنکا اور فلپائن میں ڈنگی مچھر کی افراط ہو گئی تھی اور ان ملکوں میں ڈنگی سے متاثرین کی تعداد پاکستان سے کہیں زیادہ تھی لیکن اس کے باوجود صوبائی محکمہ صحت کے حکام کو ذمے داری سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکام کو اس بیماری کے مضمرات کا خیال رکھتے ہوئے زیادہ بہتر طریقے سے اس کے انسداد کی خدمات انجام دینی چاہئیں تا کہ نتیجہ خیز انجام عمل میں آ سکے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے ڈینگی کو چوٹی کی 20 بیماریوں میں شامل کیا ہے جو کہ دنیا بھر میں پھیل سکتی ہیں لہٰذا قبل از وقت بھرپور انسدادی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں اور ڈینگی مچھر کے لاروے کو مکمل طور پر تلف کر دینا چاہیے۔ واضح رہے تھائی لینڈ میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ڈینگی کے لاروے کو بڑے شوق و رغبت سے کھاتی ہیں جس سے کہ بہ آسانی تلف کیا جا سکتا ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ ایک عشرے کے دوران 50 ہزار سے زائد افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ آج کل بھی یہ ملک کے مختلف شہروں میں پھیلا ہوا ہے جس کے بارے میں خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ فلاں صوبے میں اس کا زیادہ زور ہے مگر اگلے ہی لمحے کسی دوسرے صوبے میں ڈنگی کے مریضوں کی تعداد اور زیادہ نکل آتی ہے اور دھیان ایک صوبے سے ہٹ کر دوسرے صوبے پر لگ جاتا ہے۔
اس حوالے سے سابقہ حکومت کی کارکردگی کو سراہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ ڈینگی کے شروع ہونے سے قبل کی جانے والی حفاظتی تدابیر کے باعث اس پر قابو پا لیا گیا تھا جب کہ نئی حکومت چونکہ اس حوالے سے تجربہ کار نہیں تھی، اس لیے وہ بروقت اس کے انسداد سے غفلت برتنے کا ارتکاب کر بیٹھی اور حالات قابو سے باہر ہو گئے لیکن آج بھی پنجاب ڈینگی اسکواڈ ٹیمیں گھروں کے اندر جا کر معائنہ کرتی ہیں کہ پودوں کے گملوں میں پانی تو نہیں ڈالا گیا جو ڈینگی مچھر کے لیے پیداواری نرسری کا کام دیتا ہے اور گملے کے پانی میں ڈنگی مچھر کا لاروا پیدا ہو جاتا ہے۔
قبل ازیں 2011میں ڈینگی مچھر کی پیداوار پر ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت درپیش آئی کیونکہ 27 ہزار افراد ڈینگی بخار کی زد میں آ گئے تھے جب کہ محکمہ صحت کے حکام نے اس کو عالمی طور پر اضافے کا پیش خیمہ قرار دیا کیونکہ تھائی لینڈ' سری لنکا اور فلپائن میں ڈنگی مچھر کی افراط ہو گئی تھی اور ان ملکوں میں ڈنگی سے متاثرین کی تعداد پاکستان سے کہیں زیادہ تھی لیکن اس کے باوجود صوبائی محکمہ صحت کے حکام کو ذمے داری سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکام کو اس بیماری کے مضمرات کا خیال رکھتے ہوئے زیادہ بہتر طریقے سے اس کے انسداد کی خدمات انجام دینی چاہئیں تا کہ نتیجہ خیز انجام عمل میں آ سکے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے ڈینگی کو چوٹی کی 20 بیماریوں میں شامل کیا ہے جو کہ دنیا بھر میں پھیل سکتی ہیں لہٰذا قبل از وقت بھرپور انسدادی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں اور ڈینگی مچھر کے لاروے کو مکمل طور پر تلف کر دینا چاہیے۔ واضح رہے تھائی لینڈ میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ڈینگی کے لاروے کو بڑے شوق و رغبت سے کھاتی ہیں جس سے کہ بہ آسانی تلف کیا جا سکتا ہے۔