امکانی فنا کا انتباہ
ہمیں آبادی میں ہونیوالے اضافے کو روکنا ہو گا
40 سال پہلے دنیا کے 10 معروف سائنسدانوں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے وڈ ہول میساچوسٹس میں ''کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آب وہوا پرایڈ ہاک گروپ'' کے پہلے اجلاس میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے ہونیوالے عالمی موسمیاتی تغیر پر مبنی پہلی جامع اورہمہ گیر تجزیاتی رپورٹ جو ''چارنی رپورٹ'' کے نام سے جانی جاتی ہے کا جائزہ لیا۔گلوبل وارمنگ کے حوالے سے کی جانیوالی پیش گوئیوں کے ضمن میں اس رپورٹ کی اہمیت و افادیت کو آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ میٹنگ میں شامل سائنسدانوں نے رپورٹ کے حوالے سے دنیا کے دیگر سائنسدانوں سے بھی صلاح مشورہ کیا۔
اس گروپ کی قیادت میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے ولے 20 ویں صدی کے نامور موسمیاتی سائنسدان اور چارنی رپورٹ کے مرکزی مصنف جولے چارنی نے کی۔ اس تجزیاتی رپورٹ کی روشنی میں سائنسدانوں نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا کہ '' ہم نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں دگنا اضافے سے عالمی حدت میں 3.5 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو سکتا ہے اور اس تخمینے میں غلطی کا امکان 1.5 ڈگری تک ہو سکتا ہے۔
سائنسدانوں کے اس گروپ نے 1997ء میں جینوا میں ہونے والی پہلی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں موسموں میں ہونیوالے تغیروتبدل کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کراتے ہوئے اسے خطرے کی گھنٹی قرار دیا تھا۔ 40 سال بعد دنیا کے 11ہزار سائنس دانوں نے اپنے دستخطوں سے جاری کردہ ایک مقالہ جاتی انتباہی خط کے ذریعے دنیا اور عالمی پالیسی سازوں سے ماحولیاتی ایمرجنسی نافذکرنے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو بچانے کے مواقعے آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ مقالہ جاتی خط معروف سائنسی جریدے بائیو سائنس جرنل میں شایع ہوا ہے۔
یہ خط 1979ء میں ہونے والی پہلی عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی 40 ویں سالگرہ کے موقعے پر سامنے آیا ہے۔ اس انتباہی خط پر دستخط کرنیوالے سائنس دان جو زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں کا تعلق 153 ممالک سے ہے۔ یہ دنیا کے سائنسدانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے جنھوں نے موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوتی دنیا کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں عالمی پالسی سازوں کو متنبہ کرتے ہوئے موسمیاتی وماحولیاتی ایمرجنسی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس مقالہ جاتی انتباہی خط کا عنوان موسمیاتی ہنگامی حالات کے لیے دنیا کے سائنسدانوں کا انتباہ (World Scientist Warning of a Climate Emergency) ہے۔ دنیا کے نام اپنے کھلے خط میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ '' موسمیاتی بحران وقوع پذیر ہو چکا ہے اور یہ ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیز ہے۔'' ان کا کہنا ہے کہ ہم واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے سیارے کو ہنگامی موسمیاتی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے کہیں زیادہ شدت بدلتے موسموں میں آ رہی ہے، اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ہم نے پائیدار اقدامات نہ اُٹھائے تو ہمیں جلد ہی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑیگا جو نا قابل بیان ہو سکتی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں آبادی میں ہونیوالے اضافے کو روکنا ہو گا، فوسل فیول کو زمین میں چھوڑنے، جنگلات کی تباہی اور گوشت کھانے جیسے اقدامات کو فوری طور پر روکنا ہو گا۔ مزید کہنا ہے کہ انسانی سر گرمیوں کے نتیجے میں زمینی درجہ حرارت میں اضافے، سمندروں کی بڑھتی ہوئی سطح اور موسموں کے انتہائی واقعات خاص طور پر پریشان کن ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونیوالے بین الاقوامی مذاکرات کے بارے میں تشویش کا اظہارکرتے ہوئے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 40 سال سے ہونیوالے عالمی موسمیاتی مذاکرات کے باوجود ہم صورتحال کو قابوکرنے میں مکمل ناکام رہے ہیں خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اہم نکات پر۔ اس خط کے مرکزی مصنف اور سائنسدانوں کے اتحاد کی قیادت کرنیوالے اوریگن اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ویلم ریپل کہتے ہیں کہ وہ موسموں کی شدت میں ہونیوالے جس اضافے کو دیکھ رہے ہیں اور یہ امر ہی اس انتباہی خط کو لکھنے کا سبب بنا ہے ۔
خط کے شریک مصنف یونیورسٹی آف سڈنی سے تعلق رکھنے والے تھامس نیو سم کہتے ہیں کہ شدید موسمی واقعات کے نتیجے میں ہونے والے سالانہ معاشی نقصانات کی وسیع پیمانے پر نگرانی کی جانی چاہیے، سائنسدانوں کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ دنیا کو درپیش موسمیاتی خطرات سے آگاہ کریں۔ اس مقالہ جاتی انتباہی خط میں عالمی حکومتوں اورکرہ ارض پر رہنے والے انسانوں کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کوکم کرنے کے لیے اہم اور باہم وابستہ اقدامات تجویزکیے گئے ہیں۔ توانائی کے مسئلے کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے فوسل فیول کو کم کاربن قابل تجدید توانائی کے ذرایع سے تبدیل کریں۔ متھین اور دھویں جیسی آلودگی کے ذرایع کوکم کریں۔
زمین کوصاف و ہموار کرنے پر پابندی لگا کر زمین کے ماحولیاتی نظام کو بحال اور اس کی حفاظت کی جائے ۔ گوشت کی کھپت کو کم کیا جائے۔ معاشی اور وسائل کی کھپت میں تیز رفتار اضافے کو روکنے کے لیے غیر پائیدار تصورات ترک کیے جائیں۔ آہستہ آہستہ انسانی آبادی کم کی جائے جب کہ انسانی فلاح و بہبود کو بہتر بنایا جائے۔ ماہرین کے مطابق کاربن کے اخراج کی موجودہ صورتحال جاری رہتی ہے تو صدی کے آخر تک زمین کی حدت میں 3 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس خط میں اُٹھائے گئے نکات کے حوالے سے سائنسدانوں نے پچھلی دہائیوں کے تفصیلی اعدادوشمارکے حوالے سے موزانہ بھی کیا ہے۔ 40 سال پہلے سائنسدانوں کے چھوٹے سے گروپ نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے جو خدشات دنیا کے سامنے رکھے تھے وہ آج حقیقت کا روپ دھارچکے ہیں۔ آج دنیاکے سائنسدانوں اور ماہرین کی 99 فیصد اکژیت اس امر پر متفق ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کی بقا پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ کاربن کے اخراج پر قابو پائے بغیر دنیا موسمیاتی تبدیلیوں سے نہیں نمٹ سکتی۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹ کے مطابق کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مسلسل اخراج کی وجہ سے کئی طرح کے نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آنیوالی صدیوں میں کرہ ارض پر رہائش پذیر انسانوں کو ہر طرح کے تباہ کن حالات و واقعات کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے سمندر، برف پوش خطے اور جزیرہ ریاستیں تباہ کن تبدیلیوں سے گزریں گی گو کہ پاکستان کاربن کے اخراج میں 135ویں نمبر پر آتا ہے لیکن وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ فہرست کی درجہ بندی میں 7ویں نمبر پر ہے۔
اس صورتحال میں افسوسناک بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ہماری اشرفیہ اور عوام دونوں کے ایجنڈے میں نہیں حالانکہ ہم گزشتہ دو دہائیوںسے موسمیاتی تبدیلی سے جڑے تمام عذاب ، سیلاب ، طوفان خشک سالی ، شدید گرمی کے دورانیے میں اضافہ اورگرمی کی شدید لہریں ، شدید بارشیں ، بارشوں کے طریقہ کار میں تبدیلی، لینڈ سلائڈنگ، گلیشیر کا پگھلنا غرض کہ کون سا ایسا مظہر ہے جس کا شکار پاکستان کے عوام نہیں ہوتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ بڑی تعداد میں فنڈ لینے والی این جی اوز اور حکومتی ادارے اس حوالے سے اپنی بہترین کارکردگی پر اصرار کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق ان دعوؤں کی مکمل نفی کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ انتباہ موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ملکوں خصوصاََ پاکستان کے لیے امکانی فنا کا اعلان ہے۔
اس گروپ کی قیادت میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے ولے 20 ویں صدی کے نامور موسمیاتی سائنسدان اور چارنی رپورٹ کے مرکزی مصنف جولے چارنی نے کی۔ اس تجزیاتی رپورٹ کی روشنی میں سائنسدانوں نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا کہ '' ہم نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں دگنا اضافے سے عالمی حدت میں 3.5 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو سکتا ہے اور اس تخمینے میں غلطی کا امکان 1.5 ڈگری تک ہو سکتا ہے۔
سائنسدانوں کے اس گروپ نے 1997ء میں جینوا میں ہونے والی پہلی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں موسموں میں ہونیوالے تغیروتبدل کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کراتے ہوئے اسے خطرے کی گھنٹی قرار دیا تھا۔ 40 سال بعد دنیا کے 11ہزار سائنس دانوں نے اپنے دستخطوں سے جاری کردہ ایک مقالہ جاتی انتباہی خط کے ذریعے دنیا اور عالمی پالیسی سازوں سے ماحولیاتی ایمرجنسی نافذکرنے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو بچانے کے مواقعے آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ مقالہ جاتی خط معروف سائنسی جریدے بائیو سائنس جرنل میں شایع ہوا ہے۔
یہ خط 1979ء میں ہونے والی پہلی عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی 40 ویں سالگرہ کے موقعے پر سامنے آیا ہے۔ اس انتباہی خط پر دستخط کرنیوالے سائنس دان جو زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں کا تعلق 153 ممالک سے ہے۔ یہ دنیا کے سائنسدانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے جنھوں نے موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوتی دنیا کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں عالمی پالسی سازوں کو متنبہ کرتے ہوئے موسمیاتی وماحولیاتی ایمرجنسی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس مقالہ جاتی انتباہی خط کا عنوان موسمیاتی ہنگامی حالات کے لیے دنیا کے سائنسدانوں کا انتباہ (World Scientist Warning of a Climate Emergency) ہے۔ دنیا کے نام اپنے کھلے خط میں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ '' موسمیاتی بحران وقوع پذیر ہو چکا ہے اور یہ ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیز ہے۔'' ان کا کہنا ہے کہ ہم واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے سیارے کو ہنگامی موسمیاتی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے کہیں زیادہ شدت بدلتے موسموں میں آ رہی ہے، اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ہم نے پائیدار اقدامات نہ اُٹھائے تو ہمیں جلد ہی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑیگا جو نا قابل بیان ہو سکتی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں آبادی میں ہونیوالے اضافے کو روکنا ہو گا، فوسل فیول کو زمین میں چھوڑنے، جنگلات کی تباہی اور گوشت کھانے جیسے اقدامات کو فوری طور پر روکنا ہو گا۔ مزید کہنا ہے کہ انسانی سر گرمیوں کے نتیجے میں زمینی درجہ حرارت میں اضافے، سمندروں کی بڑھتی ہوئی سطح اور موسموں کے انتہائی واقعات خاص طور پر پریشان کن ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونیوالے بین الاقوامی مذاکرات کے بارے میں تشویش کا اظہارکرتے ہوئے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 40 سال سے ہونیوالے عالمی موسمیاتی مذاکرات کے باوجود ہم صورتحال کو قابوکرنے میں مکمل ناکام رہے ہیں خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اہم نکات پر۔ اس خط کے مرکزی مصنف اور سائنسدانوں کے اتحاد کی قیادت کرنیوالے اوریگن اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ویلم ریپل کہتے ہیں کہ وہ موسموں کی شدت میں ہونیوالے جس اضافے کو دیکھ رہے ہیں اور یہ امر ہی اس انتباہی خط کو لکھنے کا سبب بنا ہے ۔
خط کے شریک مصنف یونیورسٹی آف سڈنی سے تعلق رکھنے والے تھامس نیو سم کہتے ہیں کہ شدید موسمی واقعات کے نتیجے میں ہونے والے سالانہ معاشی نقصانات کی وسیع پیمانے پر نگرانی کی جانی چاہیے، سائنسدانوں کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ دنیا کو درپیش موسمیاتی خطرات سے آگاہ کریں۔ اس مقالہ جاتی انتباہی خط میں عالمی حکومتوں اورکرہ ارض پر رہنے والے انسانوں کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کوکم کرنے کے لیے اہم اور باہم وابستہ اقدامات تجویزکیے گئے ہیں۔ توانائی کے مسئلے کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے فوسل فیول کو کم کاربن قابل تجدید توانائی کے ذرایع سے تبدیل کریں۔ متھین اور دھویں جیسی آلودگی کے ذرایع کوکم کریں۔
زمین کوصاف و ہموار کرنے پر پابندی لگا کر زمین کے ماحولیاتی نظام کو بحال اور اس کی حفاظت کی جائے ۔ گوشت کی کھپت کو کم کیا جائے۔ معاشی اور وسائل کی کھپت میں تیز رفتار اضافے کو روکنے کے لیے غیر پائیدار تصورات ترک کیے جائیں۔ آہستہ آہستہ انسانی آبادی کم کی جائے جب کہ انسانی فلاح و بہبود کو بہتر بنایا جائے۔ ماہرین کے مطابق کاربن کے اخراج کی موجودہ صورتحال جاری رہتی ہے تو صدی کے آخر تک زمین کی حدت میں 3 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس خط میں اُٹھائے گئے نکات کے حوالے سے سائنسدانوں نے پچھلی دہائیوں کے تفصیلی اعدادوشمارکے حوالے سے موزانہ بھی کیا ہے۔ 40 سال پہلے سائنسدانوں کے چھوٹے سے گروپ نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے جو خدشات دنیا کے سامنے رکھے تھے وہ آج حقیقت کا روپ دھارچکے ہیں۔ آج دنیاکے سائنسدانوں اور ماہرین کی 99 فیصد اکژیت اس امر پر متفق ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کی بقا پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ کاربن کے اخراج پر قابو پائے بغیر دنیا موسمیاتی تبدیلیوں سے نہیں نمٹ سکتی۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹ کے مطابق کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مسلسل اخراج کی وجہ سے کئی طرح کے نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آنیوالی صدیوں میں کرہ ارض پر رہائش پذیر انسانوں کو ہر طرح کے تباہ کن حالات و واقعات کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے سمندر، برف پوش خطے اور جزیرہ ریاستیں تباہ کن تبدیلیوں سے گزریں گی گو کہ پاکستان کاربن کے اخراج میں 135ویں نمبر پر آتا ہے لیکن وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ فہرست کی درجہ بندی میں 7ویں نمبر پر ہے۔
اس صورتحال میں افسوسناک بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ہماری اشرفیہ اور عوام دونوں کے ایجنڈے میں نہیں حالانکہ ہم گزشتہ دو دہائیوںسے موسمیاتی تبدیلی سے جڑے تمام عذاب ، سیلاب ، طوفان خشک سالی ، شدید گرمی کے دورانیے میں اضافہ اورگرمی کی شدید لہریں ، شدید بارشیں ، بارشوں کے طریقہ کار میں تبدیلی، لینڈ سلائڈنگ، گلیشیر کا پگھلنا غرض کہ کون سا ایسا مظہر ہے جس کا شکار پاکستان کے عوام نہیں ہوتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ بڑی تعداد میں فنڈ لینے والی این جی اوز اور حکومتی ادارے اس حوالے سے اپنی بہترین کارکردگی پر اصرار کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق ان دعوؤں کی مکمل نفی کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ انتباہ موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ملکوں خصوصاََ پاکستان کے لیے امکانی فنا کا اعلان ہے۔